تازہ تر ین

کابل کی مسجد میں نماز جمعہ کے دوران دھماکا، 12 نمازی جاں بحق

افغانستان کے دارالحکومت کابل کے نواحی علاقے میں نماز جمعہ کے دوران مسجد کے اندر دھماکے سے کم از کم 12 افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہو گئے۔

خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق عیدالفطر کے دوران تین روزہ جنگ بندی کا اعلان کرنے والے طالبان نے اس دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے لاتعلقی کا اعلان کیا جبکہ ابھی تک حملے کی ذمے داری کسی نے بھی قبول نہیں کی۔

کابل پولیس کے ترجمان فردوس فرامرز نے کہا کہ دارالحکومت کابل کے ضلع شکر دارہ کی مسجد میں دھماکے کے نتیجے میں امام مسجد سمیت 12 افراد جاں بحق اور 15 نمازی زخمی ہو گئے۔

یہ دھماکا ایک ایسے موقع پر ہوا ہے جب گزشتہ ہفتے ہی دارالحکومت میں اسکول کے باہر دھماکے کے نتیجے میں درجنوں طالبات سمیت 80 افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ طالبان نے اس حملے سے بھی لاتعلقی کا اعلان کیا تھا۔

امریکی حکام کا ماننا ہے کہ اسکول پر حملے میں طالبان کا حریف گروپ داعش ملوث ہو سکتا ہے اور آج کے حملے میں بھی انہی کا کردار ہو سکتا ہے کیونکہ انہوں نے عیدالفطر پر جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط نہیں کیے تھے۔

امریکا کی جانب سے افغانستان سے اپنی بقیہ افواج کے انخلا کے اعلان کے باوجود افغانستان میں شہریوں پر حملے سمیت پرتشدد کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔

ابھی تک عیدالفطر کی جنگ بندی کے دوران حکومت فورسز اور طالبان کے درمیان براہ راست لڑائی کی کوئی اطلاعات موصول نہیں ہوئیں البتہ سڑک کنارے نصب بم دھماکوں کا سلسلہ جاری ہے۔

جمعرات کو اس طرح کے چار بم دھماکوں میں کم از کم 11 شہری ہلاک اور 13 زخمی ہو گئے۔

20سال بعد خطے سے امریکی افواج کے انخلا کے یش نظر حکومت اور طالبان کے درمیان سیاسی مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے۔

افغانستان میں یورپی یونین مشن نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کابل کے ضلع شکر دارہ کی مسجد میں نماز جمعہ کے دوران آج حملہ عیدالفطر کی سوچ کے بالکل مخالف ہے کیونکہ یہ چھٹیاں امن کے ساتھ گزاری جاتی ہیں، ہماری دعائیں تمام متاثرین کے ساتھ ہیں لیکن مسجد پر حملے کا مذہب سے کیا لینا دینا ہے۔

یاد رہے کہ پچھلے سال طالبان اور امریکہ نے 20 سالہ جنگ کے خاتمے کے معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب 11 ستمبر 2001 کو نیویارک میں القاعدہ کے حملوں کے بعد امریکا اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان پر فوج کشی کردی تھی۔

اس حملے کا الزام القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن پر عائد کیا گیا تھا اور امریکا کا کہنا تھا کہ طالبان حکومت اسامہ بن لادن کو تحفظ فراہم کررہی ہے۔

اس معاہدے میں طے پایا تھا کہ طالبان کی جانب سے سیکیورٹی کی گارنٹی فراہم کرنے کے بدلے امریکا وہاں سے اپنی تمام فوج واپس بلا لے گا۔

اس معاہدے میں یہ بھی طے پایا تھا کہ طالبان افغانستان کی حکومت سے امن مذاکرات کریں گے، ان مذکرات کا آغاز گزشتہ سال ہوا تھا لیکن اس کے بعد سے یہ تعطل کا شکار ہیں۔

غیر ملکی افواج پر طالبان کے حملوں میں بڑے پیمانے پر کمی واقع ہوئی ہے لیکن وہ افغان حکومت کے دستوں کو نشانہ بناتے رہتے ہیں۔


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain