کامران گورائیہ
پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہبا ز شریف جیل سے رہائی پانے کے بعد پارلیمانی سرگرمیوں میں مصروف ہیں لیکن انہیں تاحال پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے اپنے مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔ یہ الگ بات ہے کہ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے میاں شہباز شریف کے الگ الگ رابطے ہوئے ہیں جو بے حد اہمیت کے حامل ہیں لیکن ابھی اونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھ سکا۔ میاں شہباز شریف کو بہت سے معاملات میں بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ اپنے مفاہمتی معاملات کو آگے بڑھانے میں خاطر خواہ نتائج حاصل ہوئے ہیں کیونکہ اب مسلم لیگ ن کے تاحیات قائد و سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی جانب سے مکمل طور پر خاموشی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ نوازشریف کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کا ٹوئٹر اکاؤنٹ بھی مکمل طور پر خاموش ہے اور کسی قسم کی جارحیت کا مظاہرہ نہیں کیا جا رہا ہے۔
میاں نوازشریف اور مریم نواز کی جانب سے خاموشی اختیار کرنا معنی خیز ہے اور اس کا ایک مطلب بہ بھی لیا جاسکتا ہے کہ نوازشریف اور مریم نواز مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف کی مفاہمتی پالیسی پر لبیک کہہ چکے ہیں جبکہ اب یہ سمجھنا بھی درست ہوگا کہ مسلم لیگ ن کی قیادت عمران خان حکومت کوآئینی مدت مکمل کرنے دے گی اور زیادہ ٹف ٹائم نہیں دیا جائے گا۔ پاکستان میں ان دنوں یہ سوال کئی لوگوں کی زبان پر ہے کہ مسلم لیگ ن کے تاحیات قائد نواز شریف نے اچانک طویل خاموشی کیوں اختیار کر لی ہے اور ان کی بیٹی مریم نواز کے ٹوئٹر ہینڈل سے ٹویٹس کیوں نہیں داغی جا رہیں جنھیں چند عرصے قبل تک حساسیت کی بنیاد پر مقامی ذرائع ابلاغ نشر کرنے سے گریز کرتے تھے۔ ویسے تو جولائی میں الیکشن سے قبل نواز شریف اور مریم نواز لندن سے واپسی پر راولپنڈی کی اڈیالہ جیل چلے گئے تھے اور وہاں سے کسی قسم کے سیاسی بیان دینے کی گنجائش نہ ہونے کے برابر تھی لیکن ایون فیلڈ ہاؤس اپارٹمنٹس مقدمے میں سزا کے بعد دونوں باپ بیٹی نے کھلے عام اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بیان دینا شروع کر دیے تھے جو پہلے صرف ”مجھے کیوں نکالا“کے مقبول نعرے تک محدود تھے۔ ستمبر میں میاں نواز شریف اپنی اہلیہ بیگم کلثوم نواز کی وفات کے بعد ان کی آخری رسومات کے لیے پیرول پر جیل سے رہا ہوئے تو سوگ کی فضا کی وجہ سے سیاست پر کسی نے بات نہیں کی لیکن دوبارہ جیل جاتے ہی دو دن بعد ان کی سزا اسلام آباد ہائی کورٹ نے معطل کر دی تو عام خیال یہ تھا کہ اب نواز شریف سیاسی امور پر کھل کی بات کریں گے لیکن صورتحال اس کے برعکس ہے۔ ان کے علم میں نہیں کہ کوئی غیر اعلانیہ معاہدہ ہوا ہے لیکن فطری طور پر اگر میاں نواز شریف کا خیال ہے کہ سارا کچھ سٹیبلشمنٹ کرا رہی ہے اور کچھ مقتدر قوتیں چاہتی ہیں کہ وہ سامنے نہ آئیں تو اس صورت میں وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ خود ہی خاموش ہیں اور مصلحتاً کوئی ایسی بات نہیں کریں گے۔ اس کے ساتھ وہ یہ بھی نہیں چاہتے ہیں کہ اپنے لیے مزید کوئی نئے محاذ کھولیں۔
میاں نواز شریف کے علاوہ اگر بات کی جائے تو ان کی صاحبزادی مریم نواز اپنے والد سے زیادہ متحرک تھیں اور اپنے تلخ بیانات کی وجہ خبروں میں تھیں جس کی ایک مثال یہ ہے کہ انھوں نے لندن سے پاکستان آنے سے پہلے ایک ویڈیو میں کہا تھا کہ ”ڈرتے ہیں بندوقوں والے ایک نہتی لڑکی سے“۔۔۔ تو کیا مریم بھی کسی خاص مصلحت کے تحت خاموش ہیں؟ اس کے جواب میں ہواؤں کا رخ تبدیل ہو چکا ہے اسی لیے اب مریم نواز کا کوئی بھی بیان سامنے نہیں آیا ہے تو اس سے ثابت یہ ہی ہوتا ہے کہ وہ سب اپنے والد کی آشیر باد سے کر رہی تھیں۔ نواز شریف کو یہ احساس ہو گیا ہے کہ ان کی جی ٹی روڈ والی پالیسی کا کوئی فائدہ نہیں ملا اور نہ ہی الیکشن سے عین پہلے لندن سے پاکستان آنے سے کوئی خاص فائدہ ہوا تو بہتر ہے کہ چوہدری نثار اور شہباز شریف والی لائن اپنائے کہ آرام سے گھر بیٹھیں۔ بظاہر مسلم لیگ ن کی قیادت کا مشترکہ فیصلہ ہے کہ ابھی زیادہ کھل کر سامنے نہ آئیں اور یہ فیصلہ زیادہ نواز شریف کا ہی ہے جس میں اعلی قیادت (نواز شریف، مریم نواز اور شہباز شریف)جارحانہ انداز نہ اپنائیں اور پارٹی میں ان سے نچلے درجے کی قیادت جارحانہ رہے جس میں رانا ثناء اللہ خان، شاہدخاقان عباسی اور خواجہ سعد رفیق اور دیگر رہنماء شامل ہیں۔ میاں نواز شریف اور مریم نواز بھی بیرون ملک جانے کی تیاریوں میں ہیں،اس وقت مسلم لیگ(ن)قیادت سیاسی وقانونی مشکلات کا سامنا کررہی ہے جس کے باعث اس کے مستقبل کے بارے کئی سوالات اٹھ رہے ہیں،چہ میگوئیاں ہیں کہ پارٹی شاید شریف خاندان کی گرفت سے نکل جائے،جبکہ اندرونی کہانی کچھ اور ہی نظر آرہی ہے،پارٹی قیادت مریم نواز کی بجائے شہباز شریف کے ہاتھ جانے کا امکان ہے،کیونکہ میاں شہباز شریف کی مفاہمتی پا لیسی اور تحمل مزاجی پر انہیں کوئی
تو انعام ملنا چاہئے۔لندن پہنچنے کے بعد بیمارمیاں نواز شریف نے باقاعدہ سیاسی سر گرمیوں کا آغاز کر دیا ہے۔میاں شہباز شریف کی صحت بھی کچھ بہتر نہیں،اِسی لئے نواز شریف، شہباز شریف کو اگلا وزیراعظم بنانے کے موضوع پر بالکل خاموش نظر آتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ کچھ ایسا ہو جائے کہ مستقبل میں اقتدار مریم نواز کو ملے، مریم نواز کی
باقی صفحہ5بقیہ نمبر1
موجودہ خاموشی شاید اِسی طرح کی کسی ڈیل کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے۔ مریم نواز نے گزشتہ ماہ کے شروع میں چوہدری شوگر ملز کیس میں ضمانت کے بعد زبان پر تالا لگا رکھا ہے، البتہ اب ان کا نام ای سی ایل سے ہٹانے کے لئے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیاہے، تاکہ وہ اپنے والد نواز شریف کی عیادت اور دیکھ بھال کے لئے لندن جا سکیں۔
عوام نہیں جانتے کہ نواز شریف کی صحت کیسی ہے،تاہم سیاسی مصروفیات سے قدرے بہتری کی توقع کی جاسکتی ہے۔ یہی پالیسی پیپلز کی بھی ہے کہ موجودہ اسمبلیاں اپنی آئینی مدت پوری کریں لیکن اس معاملہ پر مولانا فضل الرحمن کو تحفظات ضرور لاحق ہیں کیونکہ وہ موجودہ حکومت اور اسمبلیاں کو ناجائز تصور کرتے ہیں لیکن شہباز شریف کی مفاہمتی پالیسیوں کے نتائج تاخیر سے ہی کیوں نہ ملیں لیکن ملیں گے ضرور۔ فی الحال اس حقیقت کو نظر انداز کرنا بھی ناممکن ہے کہ میاں نوازشریف اور مریم نواز کی جانب سے شہباز شریف کے لئے یہ آخری موقع ہوگا کہ وہ مقتدر حلقوں کے ساتھ معاملات کو کیسے آگے بڑھاتے ہیں اور آئندہ انتخابات کی شفافیت کے حوالے سے کس نوعیت کی یقین دہانی سامنے آتی ہے۔ دوسری صورت میں نوازشریف اور مریم نواز کا وہی بیانیہ ہوگا جس میں ”ووٹ کو عزت دو“ کا نعرہ لگایا جائے گا اور شہباز شریف کے پاس اپنے بڑے بھائی اور بھتیجی کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے سوا دوسرا کوئی راستہ نہیں ہوگا۔ اس میں کوئی حقیقت نہیں کہ شریف فیملی میں کسی قسم کے اختلافات موجود ہیں یا مریم نواز اور شہباز شریف ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار ہیں۔
(کالم نگارسینئر صحافی ہیں)
٭……٭……٭
نقطہ نظر