لیفٹیننٹ جنرل(ر)نعیم خالد لودھی
اس سے پہلے کہ ہم کشمیر کے مسئلے کے حل کے حوالے سے بات کریں ہمیں تاریخ میں جھانک کر یہ دیکھنا ہوگا کہ اس نوعیت کے مسئلے جہاں عوام اپنی آزادی چاہتے ہوں اور استبداد سے چھٹکارے کے متّمنی ہوں انہوں نے کیا کیا کہ جس سے انہیں آزادی نصیب ہوئی۔ایک بات تو بالکل روز روشن کی طرح واضح ہے کہ آپ انسانوں کوان کی منشا کے خلاف بہت دیرتک مقیّد نہیں رکھ سکتے انہیں ایک نہ ایک دن آزاد کرنا ہی پڑتاہے۔ اس میں وقت زیادہ یا تھوڑا ضرور لگ سکتا ہے اورپے درپے ناکامیوں کے بعد ایک بڑی کامیابی حاصل ہو کر رہتی ہے۔ لہٰذا یہ دلیل کہ ہم نے بہت بار آزمالیا لہٰذا اس کو چھوڑ دیاجائے یا سرے سے ترک کردیاجائے۔ یہ یکسر ایک بھونڈی اور بے سروپا دلیل ہے۔ اگر اس دلیل پر جائیں تو ڈپلومیسی بھی ہم نے کئی مرتبہ آزماکر دیکھ لی لیکن میرا سوال ہے کہ کیا اسے بھی خیرباد کہہ دیاجائے۔ کیا میرے بہن بھائیوں نے یا وہ لوگ جوایسی سوچ کے حامل ہیں انہیں تیمورلنگ کاوہ واقعہ یاد نہیں جب ایک چیونٹی باربار گہرائی سے اوپر آنے کی کوشش اور تگ ودو میں ناکام ہورہی تھی لیکن آخر کار اسے کامیابی نصیب ہوئی اسی سے سبق حاصل کرکے اوربہت سی ناکامیوں کامنہ دیکھنے کے بعدتیمورنے ایک مرتبہ پھر پورے جوش وخروش‘ولولے اور جذبے سے اپنے دشمنوں پر حملہ کیا اور اس بار کامیابی اس کامقصدر بنی۔ تاریخ کاایک دوسرا سبق یہ بھی ہے کہ ظلم اور امن یکجا نہیں ہوسکتے۔ ہندوستان کے مقبوضہ کشمیر میں ظلم واستبداد اور جبر کے بعد امن کی خواہش کے سوا کچھ نہیں کیونکہ امن اور ظلم یکجا نہیں ہوسکتے۔ اگرہم اس مرحلے پر یہ غور کریں کہ ہندوستان کشمیر کے سلسلے میں بات چیت کرنے پر کب اور کہاں آمادہ ہوا تو یہ بات سامنے آئے گی کہ جب اسے تکلیف پہنچی صرف اسی وقت وہ مذاکرات کی میز پرآنے کے لئے تیار ہوا۔ اس کی سب سے بڑی مثال1948ء میں کشمیر کی آزادی کی جنگ کہ جب کشمیری مجاہدین سری نگرکی طرف بڑھ رہے تھے تو ہندوستان کی قیادت بھاگی بھاگی اقوام متحدہ گئی اور وہاں
سے امن کی بھیک مانگی اور اس کے بعد یورپین کی بہت سی قراردادیں اس بات کی دلیل ہیں کہ دنیا بھی کشمیر کو حق خود ارادیت دینے پرآمادہ تھی۔
اسکے علاوہ 1980ء کی دہائی میں جب مقبوضہ کشمیر میں مجاہدین کی کارروائیاں عروج پر تھیں تو پھر ہندوستان پاکستان کے ساتھ بات چیت کرنے پرآمادہ ہوا تھا۔ لہٰذا موجودہ حالات میں جبکہ ہندوستان کو ہماری طرف سے یا کشمیری حریت پسندوں سے کوئی خاص تکلیف نہیں پہنچ رہی لہٰذا وہ کیوں ہم سے بات کرے گا جبکہ اس کی طرف سے ہم پر مسلسل یلغار جاری ہے۔ اس کی مثال ہم یہ بھی دے سکتے ہیں جیساکہ کلبھوشن یادو کی کارروائیاں‘ افغانستان کی طرف سے را کے ایجنٹس کے حملے اور اس قسم کی دوسری کارروائیاں آج تک جاری ہیں۔ لہٰذا جب ایک ملک ہر وقت جارحیت کرتے رہنے پر مُصر ہو اور دوسری طرف کارویہ مدافعانہ اور امن پسندی پر مبنی ہوتو یہ بیل کبھی بھی منڈھے نہیں چڑھ سکتی۔ اگر ہم حالیہ تاریخ کا مطالعہ کریں تو پتا چلے گا کہ شام نے اپنی آزادی کیسے بچائی‘ شمالی کوریا نے امریکہ کو حملہ کرنے سے کس طرح باز رکھا‘ یمن نے اپنی آزادی کا دفاع کس طرح کیااور افغان مجاہدین نے ایک سپرپاور کو گھرواپسی کا دروازہ کس طرح دکھایا تو اندازہ لگا یا جاسکتاہے کہ مقبوضہ کشمیریوں کو آزادی کیسے نصیب ہوگی۔ کمزور معیشت کا بہانہ نہ بنایا جائے۔ لیبیا بہت امیر ملک تھا مگر اپنی آزادی سلب کروا بیٹھا اور عراق بھی کوئی غریب ملک نہ تھا لیکن اس کے ساتھ کیاکچھ نہیں ہوا۔ایک ایٹمی ملک کو یہ زیب بھی نہیں دیتا کہ وہ اپنے اہم مفاد(مقبوضہ کشمیر) جسے ہم اپنی شہ رگ بھی کہا کرتے ہیں اس پر کوئی معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرے۔
ہمارے ذہن میں ایک اور اہم بات یہ بھی رہنی چاہیے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مقبوضہ کشمیر کے عوام ہتھیار اٹھا کر اپنی آزادی حاصل کرنے کاحق بھی رکھتے ہیں بلکہ دنیا کے کسی بھی محکوم اور تسلط زدہ ملک کے حوالے سے اقوام متحدہ کی قراردادیں مقبوضہ عوام کو ہتھیار اٹھانے کا حق فراہم کرتی ہیں۔اس قرارداد کے مطابق دنیا کے باقی ممالک مقبوضہ عوام کی مدد کرسکتے ہیں یہاں تک کہ ان کو جنگ آزادی کیلئے ہتھیار بھی فراہم کرسکتے ہیں۔ تو یہ بات ہماری سمجھ سے بالاتر ہے کہ پاکستان نے اس حوالے سے حق کا ساتھ دینے کے لئے اپنے ہاتھ کیوں روک رکھے ہیں۔ کیا ہندوستان یا کسی دوسرے ملک کے دباؤ پر ہم یہ راستہ اختیار نہیں کررہے۔
ہمیں یہ بھی کہنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر کے عوام کی مدد نہیں کر رہا بلکہ جدوجہد آزادی کی اس تحریک میں بذات خود مقبوضہ کشمیری عوام پاکستان کی مدد کررہے ہیں تاکہ ہمارا نقشہ دنیا بھر پرواضح اور درست تناظر میں دیکھا جاسکے کیونکہ1947ء سے لے کر تادم تحریر ہمارا نقشہ ہی مکمل نہیں ہوتا جب تک مقبوضہ کشمیر پاکستان کاحصہ نہ بن جائے۔ اگر ارباب اختیار یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اس وقت خدانخواستہ کسی کمزور پوزیشن میں ہیں (لیکن میں اس بات کو تسلیم نہیں کرتا) تو کم ازکم موجودہ صورتحال کوجوں کاتوں رکھنا زیادہ بہتر ہے بجائے اس کے کہ ہم اقوام متحدہ کی قراردادوں کے علاوہ کسی دوسرے عجیب وغریب حل کی طرف چل پڑیں (جس کو نہ کشمیری عوام مانیں اور نہ پاکستانیوں کی اکثریت اس کو تسلیم کرے)ہماری نظر میں جب چین اور ہندوستان کی
باقی صفحہ5بقیہ نمبر2
مقبوضہ کشمیر کے سلسلے میں مدبھیڑ ہوئی تو اس کے بعد کشمیر کے مسئلے کے چارفریق بن گئے یعنی بھارت‘ پاکستان‘ کشمیری اور چین۔ اس کے علاوہ بھارتی فوج کا مورال بہت گر چکا تھا۔ان کی ائر فورس ہم سے مار کھا چکی تھی۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام بھارت کے اقدامات کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ فقط پاکستان کی طرف سے ایک جھٹکے کی ضرورت تھی اور کشمیر کا مسئلہ ہمیشہ کے لئے حل ہو جانا تھا‘ لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
میں سمجھتا ہوں کہ جب حالات پاکستان کے اور مقبوضہ کشمیری عوام کے حق میں بہت بہتر تھے لیکن ہم نے کوئی انشیٹیو نہ لے کر ایک بہت بڑا موقع ضائع کردیا اس وقت شاید چین کی مکمل معاونت اور حمایت بھی ہمیں حاصل ہوتی۔کیا یہ موقع نکل چکا ہے یااب بھی موجود ہے یہ ارباب اختیار ہی بہتر طورپر جانتے ہیں۔
(کالم نگار سابق کورکمانڈر اور وفاقی
سیکرٹری دفاع رہے ہیں)
٭……٭……٭
نعیم خالد لودھی