تازہ تر ین

امریکہ کو پہلی ڈوز

ندیم اُپل
امریکہ اور بیوفا محبوبہ میں کوئی خاص فرق نہیں ہے دونوں ہی نت نئی اور انوکھی فرمائشیں کرتے رہتے ہیں اور اگر کوئی فرمائش پوری نہ ہو تو جھٹ سے ناراض ہو جاتے ہیں۔فرمائشیں بھی ایسی ہوتی ہیں کہ جو ناممکنات میں سے ہوں۔مثلا یہ کہ آسمان سے تارے توڑکر لادویا پھر انوکھے لاڈلے کی طرح چاند مانگنے کی ضد کر نے لگتے ہیں۔بات اگر امریکہ کی کریں تو ہر ملک اس کے ہرجائی پن کا شکوہ کرتا نظر آتا ہے۔ اگر پاکستان کے حوالے سے بات کریں تو امریکہ نے پرویز مشرف سے ایمل کانسی مانگ لیا اور جسے 14 نومبر 2002 میں امریکی ریاست ورجینیا میں زہر کا ٹیکہ لگا کرموت کی نیندسلا کر پاکستان واپس بھجوا دیا تھا پھر نائن الیون کے بعد افغانستان پر حملہ کرنے کاموڈبنا تو پاکستان سے زمینی اور فضائی راہداری کا مطالبہ کر دیا اور پرویز مشرف نے بلاتوقف اتنی جلد ی ہا ں کردی کہ پاکستانی قوم پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔یہی امریکہ رات کے اندھیرے میں افغانستان کے راستے ہیلی کاپٹر لے کر آتا ہے اور چپکے سے مختصر آپریشن کے بعد اسامہ بن لادن کو مار کر اس کی لاش ساتھ لے جاتا ہے ۔ذرا اور ماضی میں جائیں تو امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس نے قرطبہ چوک میں نہ صرف دو پاکستانیوں کو قتل کیا بلکہ ان کی نعشوں کی بڑے سکون کے ساتھ ویڈیو بنا کر ساتھ لے گیا تاکہ سند رہے اور بوقت ضروت کام آئے۔ مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کو بھی رات کے اندھیرے میں امریکہ نکال کر لے گیا۔اتنی فرمائشیں تو محبوبہ بھی نہیں کرتی جتنی امریکہ کرتا ہے۔
یہی امریکہ ہے پاکستان کیلئے ڈومور جس کا تکیہ کلام رہا ہے مگر اب تو اس کے حوصلے اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ وہ ڈومور سے بھی آگے نکل گیا ہے جیسا کہ دو روز پہلے امریکی صحافی نے وزیر اعظم عمران خان سے دوران انٹرویو سیدھا ہی پوچھ لیا کہ اگر افغانستان میں موجود القاعدہ اور طالبان پرحملوں کے لیے امریکہ پاکستان سے فوجی اڈے مانگے تو کیا پاکستان ہاں کر دے گا وزیر اعظم نے جب بغیر کسی توقف کے دو ٹوک انداز میں ”NO“میں جواب دیا تو امریکی صحافی کو اپنے کانوں کی سماعت پر یقین نہ آیا اور اس نے زلمے خلیل زادے کی طرح دوبارہ وزیراعظم عمران خان سے وضاحت چاہی واقعی نہیں‘ جس پر وزیر اعظم کو دوبارہ (Absolutely No) کہنا پڑا۔امریکہ بہادر کو اپنے صحافی کے ذریعے وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے کرارا جواب تو مل گیا مگر جب یہ جواب پاکستان کے 22کروڑ عوام کی نمائندہ پارلیمنٹ کی طرف سے جائے گا اور اسے پاکستان کے منتخب ارکان اسمبلی اور سینیٹرز کی طرف سے سخت ردعمل کا سامنا ہوگا تو دوبارہ اس کی جرأت ہی نہیں ہوگی کہ وہ اپنے کسی اینکر کے ذریعے بھی اس طرح کا احمقانہ سوال کرنے کی جرأت کرے۔
وائٹ ہاؤس تو شاید یہ سمجھ رہا تھا کہ جس طرح پرویز مشرف سے افغانستان پرحملہ کرنے کے لئے پاکستان سے فضائی اور زمینی راستہ مانگا تھا اسی طرح شاید وزیر اعظم عمران خان بھی ہاں کر دیں گے مگر محسوس ہوتاہے کہ امریکہ یہ نہیں جانتا کہ کپتان نے کبھی جھکنا سیکھا ہی نہیں ویسے بھی امریکہ نے یہ کیسے سوچ لیا کہ 22کروڑ پاکستانیوں کا نمائندہ وزیر اعظم ایک فوجی ڈکٹیٹر کی طرح اگلے ہی سانس میں ”ہاں“کر دے گا۔سیدھی بات یہ ہے کہ پاکستان نے پرائی جنگ میں الجھ کر اپنے غیر معمولی مالی نقصان کے ساتھ ساتھ جو بے پناہ قربانیاں دی ہیں اس کے بعد بھی کیا امریکی تھنک ٹینک سمجھتے ہیں کہ پاکستان دوبارہ ایسی کوئی غلطی کرے گا۔ وزیراعظم عمران خان کے دورہ امریکہ کے دوران سابق صدر ٹرمپ نے بھی پاکستان کی ان کوششوں کا اعتراف کیا تھا اورتسلیم کیا تھا کہ پاکستان کی کوششوں کے بغیر طالبان سے کامیاب مذاکرات ہو سکتے ہیں اور نہ ہی خطے میں امن قائم ہو سکتا ہے پھر امریکہ نے یہ کیسے سوچ لیا کہ پاکستان اسے طالبان کے خلاف نئی جنگ شروع کرنے کے لیے اپنی زمین پر فوجی اڈے فراہم کردے گا۔اب مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان نے تو امریکہ کو ٹکا سا جواب دے دیا تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ وائٹ ہاؤس کے پاس کھیلنے کو ابھی بہت سے پتے ہیں۔ ایف اے ٹی ایف،آئی ایم ایف اور دیگر انٹرنیشنل مالیاتی ادارے سب امریکہ کے پتے ہیں جنہیں وہ کسی بھی وقت استعمال کر سکتا ہے مگر امریکہ شاید یہ نہیں جانتا کہ جب کوئی اس قوم کے دفاع یا قومی سالمیت کو چیلنج کر تا ہے تویہ قوم اپنے تمام اختلافات پس پشت ڈال کر سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاتا ہے۔امریکہ نے ماضی کی حکومتوں کو جتنا ڈو مور کہنا تھا کہہ دیا بس اب اور نہیں جیسا کہ وزیراعظم نے بھی کہا ہے کہ اگر امریکہ خطے میں امن کی بات کرے گا تو ہم اس کے اتحادی ہوں گے اور مذاکرات کی نوبت بھی آئی توصرف انہی لوگوں سے بات ہوگی جو افغان عوام کے نمائندہ ہوں گے کیونکہ پاکستان نے امریکہ پر بھروسہ کرتے ہوئے اس کاجتنا ساتھ دینا تھا دے لیا۔امریکہ نے افغان جنگ کے دوران پاکستان کو صرف 20ارب ڈالر دیے جبکہ پاکستان کا اس جنگ میں 150ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔اس کے علاوہ سیکیورٹی اداروں اور عام عوام نے جتنی قربانیاں دیں وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے اس پس منظر میں وزیر اعظم عمران خان نے درست کہا ہے کہ ہم کسی صورت امریکہ کو فوجی اڈے نہیں دیں گے جسے پوری قوم نے سراہا ہے۔اگر امریکہ بہادر کو وزیراعظم کی اس ابتدائی ڈوز سے آفاقہ نہ ہوا تو کرونا ویکسین کی طرح دوسری ڈوز کابندوبست بھی کر دیا جائے گا۔
(کالم نگارقومی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain