جنرل (ر) اعجاز اعوان
وزیر اعظم پاکستان کاافغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد امریکہ سے صرف حصول امن میں شراکت داری کا عندیہ اور کسی قسم کے عسکری تعاون بالخصوص ہوائی اڈوں کی عدم فراہمی کا جرأت مندانہ اور دو ٹوک موقف نہ صرف قابل صد ستائش ہے بلکہ ایک تاریخ ساز فیصلہ ہے۔ ایک طرف اصول پر مبنی اور دوسری طرف ایک چھوٹے اور کمزور مسلمان پڑوسی ملک کے اندر بسنے والے سینکڑوں غیور افغانوں کو ایک بار پھر مشق ستم بننے سے بچانا ہے۔ اگرچہ امریکہ پر کیا جانے والا حملہ کس نے کیا اور اس کے محرکات کیا تھے یہ ایک بحث طلب معاملہ اور تاحال ایک معمہ ہے کیونکہ سینکڑوں گرفتار لوگ گوانتا ناموبے میں قیدہیں ان پر تاحال کوئی مقدمہ نہیں چلایاجاسکا۔ اسامہ بن لادن کو زندہ گرفتار کرنے کی بجائے عجلت میں مارکرنعش بھی سمندر بدر کردی گئی ان سب باتوں سے قطع نظر پاکستان کبھی کسی خود مختار ملک کے خلاف ایسی دہشت گردی کی ہر گز حمایت نہیں کرتا مگر اس کی سزا نہتے اور بے گناہ افغانوں کو دینے کی حامی بھی نہیں بھر سکتا۔
وزیر اعظم پاکستان نے امریکی صدر جو بائیڈن کو ایسی ہر فوجی مداخلت کی حوصلہ شکنی کرنے کا مشورہ بھی دے ڈالا اور مطالبہ بھی کیا کہ امریکہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوے مسئلہ فلسطین اورکشمیر کے حل کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں ممکن بنائے۔
وزیر اعظم پاکستان کے اس بے باک اور جرأت مندانہ موقف سے سیاسی اور بین الاقوامی حلقوں میں گرما گرم بحث اور تبصرے زبان زدعام ہیں۔ یہ ا ونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اس کو جاننے کے لئے درج ذیل حالات اور واقعات کاسمجھ لیناناگزیر ہے۔
تاحال پیدا ہونے والی صورت حال ایک میڈیا انٹرویو سے پیدا ہوئی ہے۔ پاکستان کے اڈے مہیا نہ کرنے کی پالیسی اور امریکی مطالبے کو اس وقت حتمی سمجھا جائے گا جب بین الّریاستی مذاکرات یا کئے جانے والے مطالبات کو قانونی حیثیت دینے کی بات ہو گی۔
مگر اتنا سمجھ لینا ضروری ہے کہ ایک امریکی ٹیلی ویژن کے نمائندے کا انٹرویو کے لئے آنا وزیراعظم پاکستان کے خیالات درحقیقت حکومتی رویے کو سمجھنے اور جانچنے کا ہی ایک طریقہ تھا۔ اب امریکہ کو پاکستان میں آنے والے حالات کا ادراک ہو گیا ہے۔
اگر امریکہ پاکستان کی سرزمین استعمال کرنے کا مطالبہ کر ہی دے تو پھر اس تعاون پرتفصیلی مذاکرات کے بغیر آمادہ ہی نہیں ہونا چاہئے۔ سب سے پہلے دو ملکی وفد درج ذیل حالات کا جائزہ لیں۔
-1 امریکہ کے افغانستان میں اہداف کیا ہیں جن کے حصول کو وہ ضروری سمجھتا ہے؟
-2 یہ اہداف 20 سال میں مکمل آزادی کے باوجود کیوں حاصل نہیں کئے جا سکے؟
-3 پاکستان کی سرزمین سے ہوائی جہازوں کے ذریعے کن لوگوں کو نشانہ بنانا مقصود ہے۔
-4انٹیلی جنس شراکت کے اصول کے تحت امریکہ یہ بات پاکستانی حکام کو بتائے کہ امریکہ کی 20 سالہ موجودگی کے باوجود ISIS القاعدہ اور داعش کے جنگجو کہاں کہاں اور کتنی تعداد میں افغانستان کے اندر موجود ہیں اور ان کا خاتمہ کیوں نہیں کیا جا سکا۔
-5 پاکستان کی سرزمین سے عسکری کارروائیو ں کا مقصد تو یہ ہو گا کہ امریکہ اب بھی سیاسی حل کی بجائے عسکری حل پر یقین رکھتا ہے۔
-6 افغانستان میں کون لوگ زمینی رابطہ رکھیں گے اور ہوائی حملوں کو کامیاب بنانے میں معاون ثابت ہوں گے۔
-7 امریکہ کے مطابق اس نئی حکمت عملی کی کامیابی کیوں کر ممکن ہے۔
-8 افغانستان کے تمام تر لوگوں کو اندرونی طور پر یہ معاملہ حل کرنے کا موقع کیوں نہ دیا۔
-9 پاکستان میں موجود مہاجرین جن کی تعداد 27 لاکھ ہے ان کی واپسی کیسے اور کیوں کرممکن بنائی جا سکتی ہے۔
اگر امریکی وفد ان سوالات کے تسلی بخش جواب نہیں دے سکتا تو اس صورت میں پاکستان کسی قسم کا تعاون مہیا نہ کرنے میں حق بجانب ہو گا۔
میرا غالب گمان ہے کہ ان سوالات کا کوئی منطقی جواب یا حل امریکہ کے پاس موجود نہیں ہے۔
اس طرح عدم تعاون کی پالیسی کو ڈیفنس کمیٹی آف کیبنٹ اور پھر پارلیمنٹ میں پیش کر دیا جائے تا کہ یہ ایک قومی پالیسی کے طور پر سکہ بند پالیسی کے طور پر ریکارڈ کا حصہ بن جائے۔
علاقائی حکومتیں جن کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں ان کا تعاون اور افغانستان میں موجود تمام قبائل کا تعاون ہی وہ واحد رابطہ ہے جو اس کو مکمل بنائے گا۔ چین، روس، پاکستان، تاجکستان، ایران اور ازبکستان اگر متحارب فریقین کی عسکری امداد نہ کرنے کا تہیہ کر لیں تو افغانستان میں امن کا قیام چند ماہ میں یقینی بنایا جا سکتا ہے۔
اس امن سے تمام ممالک بالعموم اور افغانستان کے عوام بالخصوص فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اسی طرح خطے کے اندر ایک تاریخ ساز معاہدہ اور امن کا قیام ممکن بنایا جا سکتا ہے۔
(کالم نگارقومی،عسکری امور پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭