تازہ تر ین

جوہر ٹاؤن بم دھماکے کا ماسٹر مائنڈ

بریگیڈئیر(ر) حامد سعیداختر
پیٹر پال اینتھنی ڈیوڈ کا تعلق محمود آباد کراچی سے ہے یہ محمود آباد گلی نمبر 21 کا رہائشی تھا۔یہ پچھلے 20 سال سے روزگار کے سلسلے میں بحرین میں ہوا کرتا تھا اور بحرین میں یہ سکریپ کا کام کیا کرتا تھا۔ کرونا کی وجہ سے بحرین میں اس کا کام ٹھپ ہوگیا تو یہ پاکستان واپس آگیا اور یہاں آکر یہ ہوٹلنگ کے بزنس سے وابستہ ہوگیا۔
ہوٹلنگ کے بزنس کا یہ مطلب نہیں کہ ہوٹلنگ کا کاروبار شروع کیا بلکہ اس کا مطلب ہے کہ اس نے ہوٹلز میں یا مختلف پارٹیز میں ڈلیوری کا کام شروع کردیا۔ یہاں اس کی ملاقات ایک”کرن“ نامی خاتون سے ہوئی۔ اور پیٹر جب بھی لاہور آتا تو کرن کے ساتھ ہوٹل میں سٹے کرتا اور یہاں اسے خصوصی رعائت بھی دی جاتی۔
پیٹر کسی کام کے سلسلے میں دبئی گیا جہاں اس سے پہلی دفعہ ”راء“ کے کچھ آفیشلز نے رابطہ کیا۔ انہوں نے پیٹر کو ان کے لیے کام کرنے کے بدلے اچھی خاصی رقم کی آفر کی جس کو سن کر پیٹر نے ان کے ساتھ کام کرنے کی حامی بھرلی۔ اسے پہلا کام ایک ”مذہبی شخصیت“ کے گھر کے راستے میں بم دھماکہ کرنے کا سونپا گیا۔
چنانچہ ایف اے ٹی ایف کے اجلاس والے دن مذہبی شخصیت کے گھرکو نشانہ بنا کر پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کا پلان بنایا گیا اور اس کے لیے ساری منصوبہ سازی دبئی میں ہوئی۔ اس پلان کو بنانے والا سمیع اللہ نامی شخص تھا جس نے دبئی میں یہ پلان تیار کیا۔ اور یہی سمیع اللہ نامی شخص بم دھماکے والے دن پیٹرپال اینتھنی ڈیوڈ سے رابطے میں تھا۔
اس بم دھماکے کو بڑی باریکی سے پلان کیا گیا۔اس دھماکے میں جو گاڑی استعمال ہوئی اس کو حافظ آباد سے خریدا گیا۔ یہ گاڑی ماضی میں چوری ہوچکی تھی۔ پیٹر پال ڈیوڈ نے یہ گاڑی اپنے دوست سجاد حسین کو دی اور اس کو مردان لے جانے کو کہا۔ منڈی بہاؤالدین کا سجاد حسین پیٹر کا 10 سال پرانا دوست تھا جس کو پیٹر نے اپنے اس پلان میں شامل کیا۔
سجاد اور کرن دونوں اس گاڑی کو گوجرانوالہ سے مردان لے کر گئے، اور مردان میں ایک کار مکینک ضیاء خان سے کار میں بم فٹ کروایا۔ اور اس کار کی ڈگی کو لاک کروادیا تا کہ اگر راستے میں کہیں چیکنگ ہوبھی جائے تو پولیس سے یہ ڈگی نہ کھلے اور شک کا فائدہ مل جائے کہ شاید کار کی ڈگی کسی نقص کے باعث لاک ہوگئی ہے۔
چنانچہ ایسا ہی ہوا…… کرن اور سجاد لاہور میں بابو صابو کے راستے داخل ہوئے ان کی گاڑی سلو ہوئی لیکن آگے کرن یعنی خاتون کے بیٹھے ہونے کی وجہ سے گاڑی کو اشارہ کرکے آگے جانے دیا گیا۔ اس کے بعد یہاں انٹری ہوتی ہے ایک اور شخص کی جس کا نام عید گل تھا۔ یہ وہ شخص تھا جس نے گاڑی کو مطلوبہ جگہ پر پارک کرکے آنا تھا۔
چنانچہ عید گل گاڑی کو کینال روڈ سے ڈاکٹرز ہاسپٹل، اور پھر جناح ہاسپٹل سے ہوتا ہوا جوہر ٹاؤن مطلوبہ مقام تک پہنچا اور گاڑی کو پارک کرکے یہ شخص پشاور والی گاڑی میں بیٹھ کر موٹروے پر روانہ ہوگیا۔ دھماکہ ہوا اور دھماکے کے بعد ہماری ایجنسیاں سر جوڑ کر بیٹھیں۔ یہ پلاننگ اتنی شاندار تھی کہ اس کا کریک ہونا بہت ہی مشکل تھا۔
لیکن کہتے ہیں ٹیکنالوجی بندے کے لیے جتنی فائدہ مند ہے اتنی ہی بندے کو مروانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے چنانچہ جیو فینسنگ اور ڈمب ڈیٹا کی مدد سے سب سے پہلے CTD کے ہاتھ جو بندہ لگا وہ اس بم دھماکے کا پاکستان میں ماسٹر مائنڈ تھا یعنی پیٹر پال ڈیوڈ۔ جس کے بعد کراچی سے اس کے سالے اور بیٹے کو اٹھایا گیا۔ اس کے بعد حافظ آباد سے اس گاڑی بیچنے والے بندے کو اٹھایا گیا۔ اس کے بعد کرن گرفتار ہوئی، پھر سجاد حسین منڈی بہاؤالدین سے گرفتار ہوا۔ سجاد حسین کے بعد ضیاء خان مردان سے گرفتار ہوا۔
اور آخر میں اس گیم کے سب سے اہم کردار عید گل کو راولپنڈی سے گرفتار کیا گیا اور یوں صرف 4 دن کے اندر اندر CTD Punjab نے سارے کا سارا کیس کریک کرکے رکھ دیا۔ اس کیس میں یہ ملزمان دبئی سے سمیع اللہ نامی بندے سے رابطے میں تھے اور سمیع اللہ ان کو مسلسل فون پر ہدایات دے رہا تھا اور ان کو ہینڈل کررہا تھا۔ پیٹر پال کا یہ پہلا کام تھا اور اس کا پولیس کے پاس کسی قسم کا کریمینل ریکارڈ نہیں تھا۔
(کالم نگار دفاعی اور سیاسی امور پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain