تازہ تر ین

”افغانستان سے امریکہ کے انخلاکی کہانی“

نگہت لغاری
احساس برتری اور احساس کمتری باقاعدہ دو بیماریاں ہیں جب یہ کسی بھی انسان کو اپنی زد میں لے لیتی ہیں تو خود بیمار اور اس کے لواحقین بھی اس مہلک اور دوررس بیماری کی زد میں آ کر کئی تقسیم کے نقصانات سے دوچار ہو جاتے ہیں۔ یہ ایک ایسی نفسیاتی بیماری ہے جو جسمانی بیماری سے زیادہ مہلک اور خطرناک ہے۔ جسمانی بیماری چونکہ جسم پر ظاہر ہو جاتی ہے اس لیے اس کا علاج کسی نہ کسی بھی طریقے سے ممکن ہو جاتا ہے لیکن نفسیاتی بیماری چونکہ انسان کے دل ودماغ میں چھپی بیٹھی ہوتی ہے اس لیے س کا اعلاج ڈھونڈنا بھی قدرے مشکل ہو جاتا ہے لیکن آج کل اس بیماری کو باقاعدہ ایک مہلک بیماری کا درجہ دے کر اس کا نصاب مرتب کردیا گیا ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں تو اتنے میڈیکل ڈاکٹرز نہیں ہیں جتنے ماہرین نفسیات ہیں انہیں THERAPIST کہا جاتا ہے اور ان کی فیس بھی میڈیکل ڈاکٹر سے زیادہ ہے کیونکہ اس کا طریقہ علاج بھی کافی محنت طلب ہے۔
میڈیکل ڈاکٹر تو مریض کی بظاہر جسمانی حالت اور میڈیکل رپورٹس سے مدد لے کر دوائی کا نسخہ دے کر فارغ ہو جاتے ہیں مگر ماہر نفسیات کو نفسیاتی مریض کے کئی سیشن لینے پڑتے ہیں۔ مریض کی کئی بے معنی باتیں حوصلے سے سننی پڑتی ہیں اور پھر جواب میں ایک جانکاہ تقریر کے ذریعے علاج تجویز کیا جاتا ہے۔ ماہر نفسیات کے مطابق جب کوئی انسانی ”نفسیاتی مرض“ کا شکار ہو جاتا ہے تو اس میں اس کے والدین‘ ماحول‘ تعلیم وتربیت حتیٰ کہ حسب نسب بھی ایک رول ادا کرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں ہم نفسیاتی مریض کے حسب نسب کو اس لیے شامل کرتے ہیں کہ ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ نفسیاتی مریض زیادہ تر اپنے حسب نسب کے بھی زیر اثر ہوتے ہیں اور یہ اندازہ اس لیے کھل کر سامنے آیا ہے کہ ایک کمتر حسب نسب کا انسان اپنی قابلیت اور اعلیٰ تعلیم کے باوجود کہیں نہ کہیں اپنے اس احساس کمتری کا اظہار ضرور کر جاتا ہے۔ یورپ چونکہ بہت سی جنگوں اور نامساعد حالات سے گزرا تو اس نے انسانی زندگی میں کچھ اعلیٰ ترین اصولوں کو داخل کرلیا اور دنیا نے دیکھا کہ اس کے نتائج انسانی زندگی اور انسانی معاشرے پر بہت اچھے ثابت ہوئے۔ دور کیوں جائیں جب ایسٹ انڈیا کمپنی ہندوستان میں وارد ہوئی تو اس زیادتی سے ہٹ کر انہوں نے بہت اعلیٰ اصول اور ضابطے ملک میں لاگو کیے وہ ایک جانور بھی خریدتے وقت اس کا حسب نسب دیکھتے تھے۔ بہرحال یہ ساری تمہید عنوان کی کہانی شروع کرنے سے پہلے بتانا بہت ضروری تھا کیونکہ جب امریکہ نے جاپان‘ ویت نام‘ عراق اور افغانستان میں بے معنی جنگیں شروع کیں تو ماہر نفسیات نہ ہونے کے باوجود میں نے امریکی لوگوں (خاص طور پر حاکم وقت) کی نفسیات سمجھنے کیلئے بے دریغ تحقیق کی کیونکہ ان جنگوں کے نتائج میں انسانوں نے جو دکھ اٹھائے وہ میرے لیے ناقابل یقین تھے۔ میں نے ان دنوں جو کچھ لکھا میری اپنے قارئین سے گزارش ہوگی کہ وہ تحریریں ضرور پڑھیں۔ یہ تحریریں 2002ء سے شروع ہوئیں۔ میں صرف چند کالمز کے نام لکھ رہی ہوں ان کے عنوان ہی شاید آپ کو پڑھنے پر مجبور کریں۔
(1) US WARS ON HUMAN RIGHTS
(THE NEWS INTERNATIONAL. (20.8.205)
(2) SUPRIM CIVALZED SATAT CAEAS)
HUMMAN BEINGS (NEWS -29.3 202)
(3) US MORE MARSHAL MISSIONS.
PANDIRING POINT (NEWS – 22.7.203)
(4) A WAR BETWEEN GIANT GOERG AND LANKY LADAN (NEWS – 17.6.202)
مجھے یہ بہت کچھ لکھنے پر خود امریکیوں کے احساسات اور بیانات نے کہنے پر مجبور کیا جو انہی کے اخباروں میں چھپ رہے تھے۔ ہیومن رائٹس کیلئے بڑی جنگ کے بارے میں عراق اور افغانستان بھیجے جانے والے اس انچارج افسر جنرل نیومین کا بیان سنیں۔ ”ہم اپنے بیوی بچوں کے حقوق کو چھوڑ کر ایسے لوگوں کے حقوق کی حفاظت کیلئے ایک ایسے دوردراز ناواقف ملک میں بھیجے جارہے ہیں جن کا ہمارے ساتھ کوئی رشتہ یا تعلق نہیں۔ ہمارے ساتھ اسلحے کی ہزاروں گاڑیاں‘ جنگی جہاز‘ کھانے اور دوائیوں کے لاکھوں پیکٹ اور پورٹیل ٹائلیٹ ہیں اور ہمارے مدمقابل اُجد جاہل اور غیرتربیت یافتہ جنگجو ہیں۔ یہ سب باتیں ہمارے بااختیاروں کی ”خرابی“ دماغ نہیں تو اور کیا ہے۔
ایک امریکی ریڈ کریسنٹ ڈاکٹر رولن یگ مین کی ایک رپورٹ امریکی اخبار INDIPANDANT میں شائع ہوئی۔ اس نے ہولناک انکشاف کیے اس نے کہا۔ عراق میں جنگ کے دوران امریکی فوجیوں نے عراق کی کرنسی میں ایک ایسا نامعلوم سوراخ (INVISIBLE HOLE) کر دیا تھا کہ جب عراقی عورتیں اپنی چھپی ہوئی رقم لے کر اپنے بچوں کیلئے دودھ اور خوراک خریدنے گئیں تو دکانداروں نے انہیں اس کرنسی کے عوض سودا دینے سے انکار کردیا کیونکہ وہ کرنسی DEMONITISE کردی گئی تھی۔ کیوبا نیول بیس کے زندان میں جب میں VISIT کرنے گیا تو وہاں انسانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کو دیکھ کر مجھے یقین نہیں آتا تھا سب قیدی صرف ایک انڈدیر میں الگ الگ پنجروں میں بند تھے ان قیدیوں نے بتایا کہ ہمیں ہماری گندگی کھلا ئی جاتی ہے اور ہمارے سامنے ہماری مقدس کتاب کو ناقابل بیان بے حرمتی سے گزارا جاتا ہے۔ وہ آگے لکھتا ہے میں ایک ہسپتال میں موجود تھا۔ امریکی فوجی کچھ مشتبہ لوگوں کو ہسپتال میں ڈھونڈنے آئے اور سسکتے بلکتے مریضوں پر اندھا دھند فائرنگ کردی جس سے درجنوں مریض مر گئے۔ جنگ کے دوران کچھ امریکی طالب علموں نے احتجاجی جلوس نکالا ان کے پلے کارڈز پر لکھا تھا۔
GIVE BACK PEACE TO MANKIND DO NOT CHOP OUR FATHARS.
ان تمام حقیقتوں کے باوجود حقِ جواز کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے صدر بش نے ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا۔
TAKE WARS AS CIVILISING MISSION AND ACT OF PEACE, BUT SAY AT IS BUSSINESS.
امریکیوں نے تو بش کو مارکیٹ مین کا خطاب دے رکھا تھا کہ اس کا ہر لین دین سودا بازی پر مبنی ہوتا ہے۔
میں نے اپنے کالم کے آغاز میں نفسیاتی بیماریوں کا ذکر کیا تھا۔ اگلی ساری کہانی اسی کی وضاحت میں لکھی، دراصل امریکی اس نفسیاتی بیماری کا شکار ہیں جو دراصل احساس کمتری پر مبنی ہے۔ اگر امریکہ کی تاریخ پر روشنی ڈالی جائے تو امریکہ کا وجود ایک مہم جو کرسٹوفر کولمبس کی دریافت ہے۔ جب یہ دریافت ہوا تو وہاں کے اردگرد کی کئی قومیں تلاش روزگار میں امریکہ میں آ کر بس گئیں، اس لیے ان کی قومیت یا حسب نسب کی کوئی اپنی تاریخ ہی نہیں ہے۔ جب یہ 1700ء میں دریافت ہوا تو یہاں بسنے والے مختلف قوموں کے لوگوں کو ”دی نیشن آف ہنٹرز“ کہا جاتا تھا اور یورپی ممالک ان کو حقارت سے دیکھتے تھے۔ 1783ء میں برطانیہ نے اسے بطور ملک تسلیم کیا۔ اس جغرافیائی اور قومی احساس کمتری نے امریکیوں کو نفسیاتی مریض بنا دیا اور وہ پوری دنیا کو اپنا ماتحت بنانے کے لیے ہر قسم کے حربے استعمال کرنے لگے پھر 1914ء میں جب امریکہ ترقی کرتے کرتے ایک زرعی ملک سے صنعتی ملک میں تبدیل ہوا تو امریکیوں کا معیار زندگی بلند ہو گیا اور وہ پرتعیش زندگی گزارنے لگے۔ وہ اِن سہولیات سے پُر زندگی کے اتنے عادی ہو گئے کہ انہوں نے دوسرے ملکوں کے قدرتی وسائل پر ڈاکہ ڈالنے کے لیے انسانیت کو پیروں تلے روندتے ہوئے خودغرضی اور گراوٹ کو چھو لیا، حتیٰ کہ ایسی سازش کی جس پر دنیا حیران رہ گئی۔
ایک فرانسیسی مصنف نے اپنی کتاب “FRIGHTINING FRAUD” میں لکھا ہے کہ 9/11 کا حادثہ امریکہ نے خود انجینئر ڈ کیا تھا تاکہ اس بہانے افغانستان اور عراق پر جنگ مسلط کی جائے۔ وغیرہ وغیرہ۔ امریکیوں کے نفسیاتی مرض کی داستانیں بہت طویل ہیں۔ اس سے جتنے نقصانات انسانیت نے برداشت کئے ہیں، پتہ نہیں آگے کب تک جائے گا۔ امریکہ میں ایک کلب ہے، اس کا نام ہے ڈیٹرکیشن کلب، وہاں کی ممبرشپ بہت ہی مہنگی ہے۔ وہاں کلب میں بہت ہی قیمتی اشیاء رکھ دی گئی ہیں، وہاں لوگ آتے ہیں اور ہنس ہنس کر ان قیمتی اشیاء کو توڑنے کی کارروائی میں مصروف ہو جاتے ہیں اور پھر خوشی خوشی اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ بظاہر یہ سب نارمل اور صاحب حیثیت لوگ ہوتے ہیں مگر وہ اس توڑ پھوڑ سے پرسکون ہو جاتے ہیں۔
مجھے سیاست، سیاستدانوں اور سیاست دانی سے کوئی دلچسپی نہیں، نہ مجھے اس کا کچھ زیادہ علم ہے بلکہ مجھے تو ان الفاظ سے ہی نفرت ہے کیونکہ ہر برائی انہی کی ناجائز اولاد ہے۔ مجھے نہیں معلوم طالبان، القاعدہ، اسامہ یا امریکہ کون کیا چاہتا ہے، بس مجھے تو صرف انسان اور اس سے وابستہ اس کے معاملات اور اس کی پرسکون زندگی کی خواہش ہے۔ ان میں سے جو بھی ان باتوں کی پاسداری کرے گا، میں اسی کو سچا اور حق بجانب کہوں گی۔ 20 سال تک امریکہ نے اپنے لوگوں اور دوسرے لوگوں کو جس عذاب سے گزارا، اب بس شرمندگی سے منہ چھپا کر بھاگ گیا ہے مگر جاتے جاتے بھی اپنی سوچ اور ذہنی مرض کو واضح کرتا گیا ہے۔ سینکڑوں فوجی گاڑیاں چھوڑ گیا ہے مگر چابیاں نکالتا گیا ہے۔ سنا ہے ان فوجی گاڑیوں کا میکنزم ایسا ہے کہ انہیں ڈوپلی کیٹ چابی نہیں لگ سکتی۔ وغیرہ وغیرہ
(کالم نگارانگریزی اوراردواخبارات میں لکھتی ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain