تازہ تر ین

الحاق کے بعد آزادی چہ معنی دارد؟

لیفٹیننٹ جنرل(ر)نعیم خالد لودھی
آج کل یہ بحث زوروں پر ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے آزادکشمیر میں انتخابی مہم کے دوران یہ کہا کہ مقبوضہ جموں کشمیر میں استصواب رائے کے نتیجے میں اگر اس کا الحاق پاکستان کے ساتھ ہو جائے گا تو پھر ہم کشمیریوں کو اس بات کا حق دیں گے کہ آیا وہ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہیں گے یا ایک آزاد ریاست کے طور پر جینا چاہیں گے۔ اس سے پہلے بھی وزیراعظم نے اس بات کا ذکر کیا تھا تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی شق کا حوالہ دیا تھا۔ آیئے آج ہم دیکھتے ہیں کہ کیا اس بات کی گنجائش موجود بھی ہے یا نہیں۔ سب سے پہلے تو قارئین اپنے ذہن میں یہ بات رکھیں کہ کشمیری اپنی جدوجہد آزادی کے دوران تین نعرے لگا رہے ہیں۔ پہلا نعرہ یہ ہے۔
-1 کشمیر بنے گا پاکستان
-2 ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے
-3 پاکستان سے رشتہ کیا لااِلٰہ اللہ
اب اگر ان تینوں نعروں پر غور کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ فی الحال کشمیر کے کسی بھی کونے سے کوئی ایسی توانا آواز نہیں ابھر رہی جو کشمیر کی پاکستان سے علیحدگی کی متقاضی ہو، اگر چند ایک آوازیں ابھری بھی ہیں تو ان کا اس اکثریت کے مقابلے پر کوئی مقام نہیں۔ اس بات کو یہاں چھوڑ دیں آیئے دیکھیں کہ برصغیر کی تقسیم کے وقت سلطنت برطانیہ نے جو حکم نامہ جاری کیا تھا جس کو انڈین انڈی پینڈنس ایکٹ 1947ء کہا جاتا ہے۔ اس میں یہ واضح طور پر درج ہے کہ ہندوستان اور پاکستان دو ملک ہوں گے اور جتنی بھی باقی ماندہ چھوٹی ریاستیں ہیں وہ ان دونوں میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کریں گی، اس وقت لگ بھگ ساڑھے پانچ سو کے قریب چھوٹی اور بڑی ریاستیں تھیں ان میں سے زیادہ تر نے ہندوستان کے ساتھ الحاق کیا۔ اس وقت پنجاب کو تقسیم کیا گیا بنگال بھی تقسیم ہوا اور صوبہ سرحد میں ریفرنڈم کروایا گیا جس میں پاکستان کے حق میں فیصلہ ہوا۔ تین بڑی ریاستیں جہاں مسئلہ کھڑا ہوا وہ تھیں حیدرآباد، جونا گڑھ اور کشمیر۔ برطانوی حکم نامے میں یہ بھی درج تھا کہ چھوٹی ریاستیں جب کسی ملک کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کریں گی تو دیکھا جائے گا اور جغرافیائی طور پر اور لوگوں کی منشا کے مطابق فیصلہ ہو گا۔ جونا گڑھ کے فرمانروا نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا لیکن اس پر ہندوستان نے زبردستی قبضہ کر لیا یہ کہہ کر کہ یہاں پر زیادہ آبادی ہندوؤں کی ہے۔ نظام آف حیدرآباد نے آزاد رہنے کی خواہش کا اظہار کیا لیکن چونکہ اس کی گنجائش (Provision) نہیں تھی لہٰذا اس پر بھی ہندوستان نے قبضہ کر لیا تھا اور منطق وہی جوناگڑھ والی تھی کہ حیدرآباد میں بھی ہندو آبادی اکثریت رکھتی ہے جبکہ کشمیر کے سلسلے میں جہاں بہت بڑی اکثریت مسلمانوں کی تھی وہاں کا مہاراجہ بھی آزاد ریاست رکھنا چاہتا تھا لیکن بھارتی دباؤ میں نام نہاد الحاق کا اعلان کیا جس کے سچ ہونے کے بارے میں بھی شبہ ہے۔ گلگت بلتستان کے جوانوں نے مہاراجہ کے افسران پر قابو پا کر اپنی آزادی خود حاصل کر لی۔ کشمیریوں نے بھی انہیں دیکھ کر جدوجہد کا آغاز کر دیا اور کافی علاقہ جس میں مظفر آباد، کوٹلی، راولا کوٹ اور پونچھ تک کا علاقہ شامل ہے آزاد کروا لیا اور ابھی مجاہدین آگے بڑھ ہی رہے تھے کہ سیز فائر کا اعلان ہو گیا کیونکہ پنڈت جواہر لال نہرو بھاگم بھاگ اقوام متحدہ چلے گئے اور برطانوی اکابرین سے جنگ بندی کی بھیک مانگی۔ اس کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے کشمیر کے بارے میں کئی قراردادیں منظور کیں۔ ان میں سب سے اہم قرارداد نمبر47 جو کہ 1948 میں پاس ہوئی۔ اس کے مطابق کشمیری استصواب رائے کے تحت یہ فیصلہ کریں گے کہ انہوں نے ہندوستان کے ساتھ رہنا ہے یا پاکستان کے ساتھ۔یہاں بھی کسی تیسری آپشن کی بالکل بھی گنجائش نہیں ہے۔
اب آ جایئے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی شق 247 کا جائزہ لیں۔ اس میں یہ کہا گیا ہے کہ جب کشمیری پاکستان کے ساتھ الحاق کریں گے تو ان کی مرضی کے مطابق یہ فیصلہ کر لیا جائے گا کہ وہ پاکستان کے ساتھ کس قسم کے تعلقات چاہیں گے۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب کشمیری پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیں گے تو اس کے بعد وہ مکمل آزادی کیسے مانگ سکتے ہیں کیونکہ الحاق اور آزادی دو متضاد الفاظ ہیں۔ قانونی طور پر ہمارے آئین کی شق 247 کی روح یہ بنتی ہے کہ معاشی، سیاسی اور سماجی میدانوں میں وہ کسی قسم کے تعلقات پاکستان کے ساتھ رکھنا چاہیں گے۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں بنتا کہ وہ پاکستان سے لاتعلقی اختیار کر لیں گے یا مکمل آزادی کا اعلان کر دیں گے لہٰذا جب بھی کوئی حکومتی نمائندہ کشمیر کی آزادی کے سلسلے میں کوئی بات کرے تو اس حساس موضوع کے بارے میں مکمل آگاہی کے بعد ہی بات کرے۔ ہماری نظر میں وزیراعظم نے یقینا اپنے تئیں کشمیریوں کے حق خودارادیت کی بات کی لیکن شاید وہ اس کو بہت دور تک لے گئے۔ ایک بات بہت اہم ہے کہ جس استبداد اور ظلم سے مقبوضہ کشمیر کے عوام گزر رہے ہیں ان کی اس مصیبت کو کم کرنے کے لئے ہمیں فوری طور پر کچھ ایسے اقدامات کی ضرورت ہے جو ان کو اس اذیت سے نکالیں اس سلسلے میں ہم عارضی طور پر کوئی بھی پوزیشن لے سکتے ہیں۔ شاید وزیراعظم کی منشا بھی یہی تھی لہٰذا اسے اسی تناظر میں دیکھا جائے کیونکہ اصل معاملہ تو استصواب رائے اور دونوں میں سے کسی ایک ملک کے ساتھ الحاق کا ہے۔ کشمیریوں نے اپنی رائے کا اظہار تو بارہا کیا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں۔ بھارت کے آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو کالعدم قرار دینے کے بعد وہاں پر جو سیاسی طوفان کھڑا ہوا ہے اور ہر سیاسی جماعت کے کشمیری نے اس کی پرزور مخالفت کی ہے اس کے علاوہ جس طریقے سے آزاد کشمیر میں کئی بار آزادانہ انتخابات کا انعقاد ہو چکا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں ایک بار بھی اس طرخ کے آزادانہ، منصفانہ اور شفافیت پر مبنی انتخابات نہیں ہو سکے۔ لہٰذا اس کو نوشتہئ دیوار سمجھا جائے کہ کشمیریوں کی اکثریت پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتی ہے اور کسی دوسری قسم کی آزادی کی متمنی نہیں ہے۔
(کالم نگار سابق کورکمانڈر اور وفاقی
سیکرٹری دفاع رہے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain