تازہ تر ین

پاک سعودی تعلقات۔دوسرا رخ

2011ء میں واشنگٹن میں کارنیگی انڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس کی مارینا اوٹاوے نے کہا تھا “عرب ملکوں میں عوامی تحریک شروع ہو چکی ہے،لیکن سعودی عرب ان سے بہت مختلف ہے۔وہاں سیاسی اصلاحات لانا بہت مشکل ہوگا۔” لیکن محض 10 سال میں سعودیہ کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔11 مارچ 2011 میں ہی ریاض میں کئی ہزار سعودی نوجوانوں نے “برہمی کے اظہار کا دن ” منایا۔2011ء میں ہی سعودی شاہ عبداللہ نے 30 خواتین کو مشاورتی کونسل کا رکن بنایا اور اعلان کیا کہ 2011ء میں نہیں لیکن 2015ء میں سعودیہ کی خواتین کو نہ صرف ووٹ ڈالنے بلکہ الیکشن لڑنے کی بھی اجازت ہو گی اور دسمبر 2015ء میں مکہ میونسپل کونسل میں 9 خواتین کونسلر منتخب ہوئیں۔ ان میں سلمی بنت حزاب العتیقی وہ خاتون کونسلر تھیں جو عین اس محلے سے منتخب ہوئیں جہاں حضوراکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش ہوئی تھی۔
2011ء سے ہی سعودی خواتین نے ڈرائیونگ لائسنس اور اکیلے گاڑی چلانے کا اختیار مانگنا شروع کر دیا۔نوبل انعام کے لئیے نامزد لجین الھزال کو گاڑی چلانے پر 5 سال 8 ماہ کی سزا دی گئی لیکن دنیا بھر کے پریشر پر انہیں جلد رہا کرنا پڑا۔ اس مہم کی بانی سعودی خاتون فال الشریف تھیں۔ ایک اور خاتون کو گاڑی چلانے پر 10 کوڑوں کی سزا سنائی گئی، دنیا بھر میں چرچا ہوا۔ اس نے کہا مجھے جلدی کوڑے مارو کیونکہ میں نے پھر جا کر گاڑی چلانی ہے لیکن پھر کسی کو یہ کوڑے مارنے کی جرات نہ ہوئی …… آخرکار 28 ستمبر 2017ء کوسعودی حکمرانوں کو خواتین کو گاڑی چلانے کی باقاعدہ اجازت دینا پڑی۔یہاں تک کہ امسال 2021ء کے حج میں خواتین کو بغیر محرم حج ادائیگی کی اجازت مل گئی۔ پاکستان کی بشریٰ شاہ وہ پہلی پاکستانی خاتون ہیں جنہوں نے رواں سال بغیر محرم کے حج ادا کیا۔ چند روز قبل سعودیہ میں دوران اوقات نماز دکانیں بند کرنے کا قانون بھی تبدیل کر دیا گیا اور اب نماز کے وقت بھی کاروبار کی اجازت مل گئی۔
2006ء میں سعودی عرب کی پہلی فیچر فلم “کیف الہام”(تم کیسے ہو؟) منظرعام پر آئی تھی لیکن اب صرف پندرہ سال بعد سعودیہ میں سینکڑوں سینیما گھر،جواء خانے،شراب خانے باقاعدہ حکومتی اجازت سے کھل چکے ہیں۔ان اجازتوں کا مقصد دنیا کو بتانا ہے کہ سعودی حکمران روشن خیال ہیں۔ اور یہاں انسانی حقوق پر کوئی قدغن نہیں۔ یہ سب کچھ کرنے کے باوجود نا روشن خیال دنیا مطمئن ہے نا مقامی قدامت پسند۔بلکہ دنیا کے مسلمانوں کی ایک بڑی اکثریت اس بات کا بھی گلہ شکوہ کرتی نظر آتی ہے کہ امریکہ، برطانیہ سمیت دنیا بھر میں تو مسلمان آزاد حیثیت میں نہ صرف رہ سکتے ہیں بلکہ جائیدادیں خرید سکتے ہیں۔ محمد صادق جیسا پاکستانی جس کا والد ٹیکسی ڈرائیور کی حیثیت سے برطانیہ پہنچا، انگریز اس کے بیٹے کو لندن کا میئر تک بنا لیتے ہیں لیکن سعودیہ جانے والے اور 50،50 سال تک خدمت کرنے والے مسلمان عجمی اور غلام ہی رہتے ہیں۔ زندگی بھر مدینہ مدینہ کرنے کے باوجود انہیں وہاں ایک انچ زمین خریدنے کی اجازت تو درکنار مرنے کے بعد واضح قبر کی اجازت بھی نہیں ملتی۔ گویا سعودی عرب اس وقت قدامت اور جدت پسندوں کی جکڑن میں ہے۔
لیکن اہم بات یہ ہے کہ سخت کشمکش کے بعد یہ معاشرہ روشن خیالی کی طرف رواں دواں ہے۔میری ذاتی سوچ کے مطابق اس سفر کی ممکنہ منزل جمہوریت ہی ہوگی۔البتہ کب، کس حد تک، اور کس شکل کی جمہوریت ہوگی یہ وقت ہی بتائے گا۔ہاں۔۔۔۔۔ہم دیکھیں گے، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے۔
(کالم نگار قومی و سیاسی امور پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain