تازہ تر ین

پروبھارت لیڈروں کو مسترد کردیں

محمدنعیم قریشی
ترکی میں ایک کہاوت ہے کہ صرف یہ کہنا کافی نہیں کہ میں تیرا بھائی ہوں بلکہ یہ بھی بتاؤ کہ کونسا بھائی۔ ہابیل یا قابیل۔ کچھ اسی قسم کے راز سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کی سیاسی زندگی سے جڑے ہیں کہ آج تک معلوم نہ ہوسکا ہے کہ وہ ملک کے خیرخواہ ہیں یا ملک دشمن عناصر کے پیروکار۔ حال ہی میں برطانیہ میں مقیم پاکستان کے سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف سے افغان سیکورٹی ایڈوائزر حمداللہ محب کی زیرقیادت تین رکنی وفد نے ملاقات کی ہے، ملاقات کااہتمام سابق وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے کیا تھا اسحاق ڈار خود بھی ملاقات میں موجود تھے افغان قومی سلامتی مشیر نے نوازشریف کو افغان صدر اشرف غنی کا پیغام بھی پہنچایا۔ملاقات میں نوازشریف اپنی حکومت کے دور میں افغان حکومت سے بہتر تعلقات کی مثالیں دیتے رہے۔یہ ملاقات اس وقت ہوئی جب پاکستان نے افغان قومی سلامتی مشیر کے دفتر سے تمام رابطے ختم کر دیئے ہیں۔کیونکہ افغان مشیر کی جانب سے پاکستان کو ہیرا منڈی سے تشبیہ دی گئی ہے۔ جو سراسر پاکستانی ریاست کو ایک گندی گالی دینے کے مترادف ہے۔اس ماحول میں ہمارے آپس کے سیاسی اختلافات کتنے ہی برے کیوں نہ ہو مگر ہمیں ملکی عزت اور وقار پر کیچڑ اچھالنے والوں کے معاملے پرضروریکجہتی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان نے کئی برسوں تک تیس لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کی میزبانی کی ہے اور کر رہا ہے، اس کے علاوہ بھی افغانستان پر پاکستان کے بے پناہ احسانات ہیں،صدافسوس کہ نوازشریف نے اسی افغان اہلکار سے لندن میں ملاقات کی ہے،سوال تو یہ پیدا ہوتاہے کہ میاں صاحب کے نزدیک وطن کی عزت اورقومی حمیت کوئی اہمیت ہے بھی کہ نہیں۔لیکن جہاں تک ریاست پاکستان کی بات ہے تو پاکستان نے افغان قیادت پرواضح کردیا ہے کہ افغان سلامتی مشیر سے اب کوئی بات نہیں ہوگی،دوسری جانب اگرملک میں موجود اداروں کیخلاف محاذآرائی اور ملک دشمن قوتوں سے ملاقاتیں کر کہ اگر نوازشریف یہ سمجھتے ہیں کہ وہ دوبارہ اقتدا ر میں آسکتے ہیں تویہ ان کی بھول ہوگی ملک کے موجودہ حالات انہیں اب اس چیز کی اجازت نہیں دینگے میں سمجھتاہوں کہ جہاں پاکستانی اداروں، عدالتوں اور سیکورٹی ایجنسیوں کو ان کے خلاف ایکشن لینا چاہیے وہاں عوام کو بھی آئندہ الیکشن میں محمود اچکزئی اور منظور پشتین جیسے لوگوں کے ذریعے بھارت کی زبان بولنے والوں کو مسترد کرنا چاہیے، کشمیر الیکشن میں مسلم لیگ ن کے ایک کی امیدواراسماعیل گجر نے سرعام میڈیا کے سامنے للکارتے ہوئے کہاکہ اگر کسی نے دھاندلی کی کوشش کی تو میں مدد کے لیے بھارت کو پکاروں گا جبکہ اسی قسم کی حرکتیں کچھ ماہ قبل ان کے ایک مرکزی رہنما جاوید لطیف صاحب بھی کرچکے ہیں۔اس کے علاوہ ہماری عدالتوں پر حملے افواج پاکستان پر تنقید اور گھٹیا الزامات اورریاستی و جمہوری اداروں سمیت کوئی ادارہ نوازشریف اور ان کی صاحبزادی کی ہرزہ سرائی سے محفوظ نہیں ہے۔
تین بار نوازشریف نے ملکی رازوں کی حفاظت کا حلف اٹھایا اور اقتدار سے باہر اور اندر رہ کروہ راز اگلتا رہے، اس کے علاوہ پاکستان کے ایک بڑے اخبار کے صحافی سرل المیڈا کو قومی سلامتی کے خلاف متنازع انٹرویو دیا اس انٹرویو میں نوازشریف کے ممبئی حملوں کے حوالے سے متنازع بیان کو انڈین نیوز چینلز نے کافی اچھالاتھا، یعنی ممبئی دھماکوں کے سلسلے میں نوازشریف نے پاکستان کو مورد الزام ٹہرایا تھا۔جس کے بعد نواز شریف کا نام نہ لیتے ہوئے پاکستان کی نیشنل سیکورٹی کونسل نے ایک اجلاس کے بعد انڈین میڈیا کی جانب سے سامنے آنے والے الزامات کی تردید کی تھی مگر سب کچھ آن دی ریکارڈ تھا۔ اس خبر کے سامنے آنے کے بعد فوجی قیادت اور اسوقت کی حکومت کے درمیان تعلقات کشیدہ ہوگئے تھے۔اس وقت کے وفاقی وزیراطلاعات پرویز رشید کو مستعفی ہونا پڑا یا قربانی کا بکر بننا پڑا۔شیر بنگال فضل الحق کے بارے میں قائد اعظم محمد علی جناح کا یہ خیال تھا کہ 1946کے انتخابات میں انہوں نے پاکستان کی مخالفت کر کہ پاکستان کی کاز کو نقصان پہنچایا ہے۔ وہ قائد اعظم سے ملاقات کے لئے سندھ اسمبلی آئے اور راستے میں جھک کر کھڑے ہوگئے لیکن قائداعظم نے آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ عبدالباسط صاحب جو انڈیا میں ہمارے ہائی کمشنر رہ چکے ہیں۔وہ بھارتی اینکر کرن تھاپر کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ میاں نوازشریف کا مودی سے ایک جذباتی تعلق تھا جب وہ مودی کی تقریب حلف برداری میں گئے تو پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ پاکستان کے وزیراعظم نے حریت کانفرنس کے رہنماؤں سے ملاقات نہیں کی حالانکہ ملاقات طے شدہ تھی اوریہ طے تھا کہ یہاں نوازشریف نے کشمیریوں کے حقوق کی بات کرنا تھی مگر وہ حیرت انگیز طورپر خاموش رہے یہ تھا وہ بھارتی وزیراعظم سے ایک جزباتی لگاؤ جس نے اس وقت لاکھوں کشمیریوں اور کروڑوں پاکستانیوں کو حیرت زدہ کردیا تھا۔اسی طرح تھوڑا پیچھے کی تاریخوں میں جائیں تو جب میاں نواز شریف کو 1992میں حکومت سے برخاست کیا گیا تو بھارتی وزیراعظم گجرال نے کہا کہ نوازشریف کشمیری مجاہدین کے خلاف ہماری مدد کرتے رہے ہیں یہ وہ بیان تھا جو کشمیر کی آزادی کی جنگ لڑنے والوں پر بجلی بن کر گرا تھا۔
اسی طرح جب 1999میں پرویز مشرف نے نوازشریف کو ان کی حکومت سے فارغ کیا تو محترم مجید نظامی نے فرمایا کہ ہمیں معلوم نہ تھا کہ یہ شخص یاسر عرفات بن چکاہے۔ جب انڈیا کو چینی ایکسپورٹ کی تو بھی پاکستانی نظریاتی سرحدوں کے محافظ جناب مجید نظامی بہت دل گرفتہ تھے ایٹمی دھماکے کر نے پر بھی وہ ہچکچاہٹ کا شکار تھے ایسے موقع پر بھی جناب مجید نظامی صاحب نے فرمایا کہ میاں صاحب اگر آپ نے ایٹمی دھماکہ نہ کیا تو قوم آپ کا دھماکہ کر دیگی، خیر اگر تحقیق کی جائے تو مئی1998کے اخبارات میں لگنے والے اداریئے یہ ثابت کردینگے کہ نوازشریف صاحب ایٹمی دھماکوں کے حق میں تھے بھی یا نہیں۔
(کالم نگار مختلف امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain