تازہ تر ین

صوبائی تعصب کو ہوا نہ دیں

شفقت حسین
29 اگست ہفتے کے روز کراچی میں منعقد ہونے والے جلسے کے حاضرین کی تعداد پی ڈی ایم کے مطابق ایک لاکھ سے زائد ہو یا آزاد ذرائع کے مطابق یہ تعداد 30 ہزار ہو، پاکستان تحریک انصاف کے نزدیک حاضرین دس ہزار ہوں یا ایجنسیوں کے ظاہر کردہ اعداد و شمار کے اعتبار سے 20 ہزار شرکا ہوں لیکن ایک بات تو بہر حال واضح ہو چکی ہے کہ اس وقت منتشر الخیال اپوزیشن حکومت وقت کے لئے کسی سردردی کا باعث بن سکتی ہے اور نہ ہی پی ڈی ایم لاکھوں عوام کو اسلام آباد کی جانب جلوس لے جانے اور جلسے منعقد کرنے کے قابل ہے کیونکہ پی ڈی ایم کے پاس فی الوقت کوئی پُرکشش ایجنڈا اور نعرہ نہیں ہے کہ عوام جوق در جوق ایک قابل لحاظ تعداد میں اپوزیشن کے کہنے پر سڑکوں پر آئیں اور سختیاں جھیلیں۔ کیونکہ جب ذہنی اُپج اور اپروچ یہ ہو کہ ایک بڑی سیاسی جماعت جو کبھی ماضی میں چاروں صوبوں کی زنجیر تصور کی جاتی رہی ہے اس کے سربراہ یہ فرمائیں کہ اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے شخص کو سندھی عوام کے حقوق پر ڈاکہ نہیں ڈالنے دیں گے (واضح رہے کہ بلاول بھٹو زرداری نے ”سندھ کے عوام“ کے الفاظ استعمال نہیں کئے انہوں نے لفظ ”سندھی عوام“ اپنے بیان میں چنا ہے) اگر وہ ”سندھ میں بسنے والے عوام“ کے الفاظ کا چناؤ کرتے تو ہم جیسے کم فہم بھی یہ سمجھ لیتے کہ چونکہ سندھ بالخصوص کراچی حیدرآباد دو ملٹی کلاس شہر ہیں اور یوں بھی سندھ میں پاکستانی مسلمانوں کے علاوہ ہندو آبادی اور دیگر مذاہب کے لوگ بھی بستے ہیں لہٰذا انہوں نے من جملہ تمام پاکستانیوں کے حقوق کی بات کی ہے۔ لیکن نہیں۔ جناب بلاول نے ”سندھی عوام“ کے لفظ استعمال کر کے نفرت بلکہ قوم پرستی کی سیاست کو جنم دیا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ ایسا کسی قومی دھارے اور بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ کو زیب نہیں دیتا نہ ہی اس کے شایان شان رویہ اور طرز عمل سمجھا جا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ بلاول بھٹو اس سیاسی راہنما کے صاحبزادے ہیں جنہوں نے اپنی شریک حیات کی تدفین کے وقت اٹھنے والے ایک فتنے کو ”پاکستان کھپے“ کہہ کر گویا دبا دیا تھا۔
بلاول بھٹو کا یہ کہنا بھی قرین دانش نہیں ہے کہ سندھ کے ساتھ انصاف نہیں ہو رہا، ایسا تعصب کی عینک لگا کر ہی کہا جا سکتا ہے، بقامی ہوش و حواس کوئی عقلمند شخص اس طرح کی گفتگو نہیں کر سکتا کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر کل کلاں آج کی اپوزیشن اور بطور خاص پاکستان پیپلزپارٹی برسراقتدار آ جاتی ہے تو یہی اسلام آباد میں بیٹھا ہوا شخص (عمران خان) آپ کو مطعون قرار دیئے بغیر نہیں رہے گا اور آپ کی اپوزیشن بھی آپ کو اسی طرح چاروں شانے چت کرنے پر اپنی تمام تر طاقت اور قوت کو بروئے کار لانے میں حق بجانب ہو گی جس طرح آپ آج اپنے آپ کو حق بجانب سمجھتے ہیں۔
ہمیں معلوم ہے کہ اقتدار سے باہر بیٹھا ہوا کوئی بھی شخص وہ بلاول بھٹو ہوں یا میاں صاحبان، مولانا فضل الرحمن ہوں یا کوئی اور ایک خاص مفہوم میں کسی نہ کسی حد تک ہی سہی بوکھلاہٹ کا شکار ہوتے ہیں اور وہ گفتگو کے دوران میں اعتدال اور میانہ روی کے کلچر کے احترا کی پرواہ نہیں کرتے کہ انہیں ہر حال میں مسند اقتدار ہی پیاری ہوتی ہے۔
ماضی اگرچہ کبھی خوشگوار نہیں ہوتا اور اپنے دامن میں اکثروبیشتر تلخ یادیں ہی سمیٹے ہوتا ہے۔ انہی تلخ یادوں میں ایک یاد یہ بھی ہے جب میاں محمد نوازشریف نے جوش فضول میں دوران خطاب ”جاگ پنجابی جاگ تیری پگ نوں لگ گیا داغ“کہہ دیا تھا۔ قارئین کرام! یہ ایسا زہریلا اور صوبائی عصبیت پر مبنی جملہ تھا جس نے بعد کے کئی سالوں تک صوبوں کے درمیان ہم آہنگی کی فضا کو مکدر بنانے میں ایک ناخوشگوار کردار ادا کیا۔ کیونکہ اس سے پہلے پنجاب سے بدقسمتی سے ایک حقیقی لاش (ذوالفقار علی بھٹو) گڑھی خدا بخش اور دوسری زندہ لاش (محمد خان جونیجو) کی صورت میں سندھڑی جا چکی تھی۔ جس سے دونوں بڑے صوبوں کے درمیان نفرت کا لاوا مسلسل پکتا رہا لیکن الحمدللہ یہ لاوا پھٹنے سے محفوظ رہا۔ اب اگر اس ڈگر پر بلاول بھٹو چلتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ اسلام آباد میں بیٹھا ہوا شخص سندھی عوام کے حقوق پرڈاکہ نہیں ڈال سکتا اور اگر وہ یہ کہیں کہ سکھر کا (اشارہ جوہری طور پر خورشید شاہ کی طرف ہے) اپوزیشن لیڈر جیل میں ہے اور لاہور کا اپوزیشن لیڈر (یہاں اشارہ میاں محمد شہباز شریف کی جانب ہی لگتا ہے) آزاد گھوم رہا ہے تو اسے بھی تعصب پر مبنی رویہ قرار نہ دیا جائے تو کیا کہا جائے۔ اگر بلاول بھٹو اور مریم نوازشریف بہن بھائی بن کر بھی اور پوری پی ڈی ایم ملک بھر میں منظم اور بھرپور جلسے کرنے کے باوصف حکومت گرانے میں ناکام رہے ہیں تو اس میں قصور کس کا ہو سکتا ہے؟ کیا اس کا جواب منتشر اپوزیشن کے پاس ہے۔
میں کبھی وزیراعظم کا سپورٹر اور حمائتی نہیں رہا لیکن میری ایماندارانہ رائے ہے کہ عمران خان نے یقینا بعض حوالوں سے غلطیوں کے باوجود کبھی صوبائی عصبیت پر مبنی گفتگو نہیں کی اور نتیجہ یہ ہے کہ اپوزیشن کی طرف سے تمام تر پھبتیاں کسے جانے کے باوجود وزیراعظم نے پوری اپوزیشن کو دیوار کے ساتھ بھی لگا رکھا ہے اور حکومت بھی پُرسکون انداز میں کرتے چلے جا رہے ہیں۔تو دانشمند کون؟ وزیراعظم یا پی ڈی ایم،آپ یا عمران خان فیصلہ آپ خود ہی کر لیں، ہم اگر عرض کریں گے تو شکائت ہو گی۔ فی الوقت ہمارا مشورہ ہے کہ چاروں صوبوں کی زنجیر سمجھی جانے والی جماعت کے سربراہ خود کو منظم کریں۔ عوام میں اپنی جڑیں مضبوط بنائیں اور پاکستان پیپلزپارٹی کو پھر سے صفِ اول کی جماعت بنانے پر اپنی توجہات مرکوز کریں۔
(کالم نگار سیاسی‘سماجی اورمعاشرتی موضوعات پرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain