تازہ تر ین

یہ کہاں کی دوستی ہے

لیفٹیننٹ جنرل(ر)سلیم اشرف
چالیس اکتالیس سال بہت لمبا عرصہ ہوتا ہے۔ اس عرصے میں دو نسلیں جوان ہو جاتیں ہیں اور دنیا بالکل بدل جاتی ہے۔ خواص طور پر آج کی ڈیجیٹل ایج میں تو اتنے عرصے میں ایک مختلف اور نئی دنیا جنم لے لیتی ہے۔ 1979 کا سال گزشتہ صدی کا ایک نہایت ہی اہم سال تھا جس میں تاریخ کا نیا مگر بہت ہی عہد ساز سال شروع ہوا۔ افغانستان میں سوویت یونین کی افواج داخل ہو گئیں اور وہاں جنگ کاایک طویل اوربہت ہی تباہ کن سلسلہ شروع ہو گیا۔ یہ جنگ پاکستان کی سلامتی اور تحفظ کے لئے بھی نہایت اہم تھی۔ سوویت فوج کابل میں رہنے کے لئے نہیں آئی تھی بلکہ وہاں وہ اپنا قبضہ مستحکم کر کے سویت یونین پاکستان میں صوبہ بلوچستان کے راستے بحیرہ عرب کے گرم پانیوں تک جانے کا عزم رکھتی تھی۔ ان کو اس کے لئے کل چار سے پانچ سال درکار تھے۔ مگر تقدیر کا لکھا کچھ اور تھا۔
نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں کے مصداق افغان مجاہدین نے چند ہی سالوں میں حالات کا دھارا بدل دیا اور روسی اپنے زخم چاٹتے ہوئے دریائے آمو کے اس پار بھاگ گئے۔ اس جنگ میں امریکہ، پاکستان، سعودی عرب، خلیجی ریاستوں اور افغانستان کے مجاھدین کے مفادات ایک تھے۔ امریکہ شاید ویٹنام میں اپنی شکست کا بدلہ لینے کے جذبے سے اس جنگ میں آیا، جبکہ پاکستان اپنی سلامتی کے تحفظ اور سوویت یونین کے 1971 کی جنگ میں ہندوستان کا ساتھ دینے کا حساب چکانے کے لئے بے تاب تھا۔ افغان مجاھدین اپنے آپ کو غیر ملکی روسی تسلط سے آزاد کرانا کے لئے جذ بہ اور آرزو لے کر میدان جنگ میں کود پڑے تھے۔ یہ جنگ مکمل طور پر ایک جائز اور حق کی جنگ تھی جس میں افغانوں نے خوب بہادری کے جوہر دکھائے اور پاکستان نے اس جنگ میں کھل کر افغان مجاھدین کی نہ صرف سیاسی اور سفارتی حمائت کی بلکہ فوجی طور پر بھی ان مجاھدین کی ہر طرح سے مکمل مدد کی۔
لیکن مقدر نے روسیوں کے بعد افغانستان کے زندہ دل مجاھدین کے لئے ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں اور آزمائشوں اور جدوجہد کے بہت سارے اور مراحل رکھے تھے۔ نائین الیون کے واقعہ کے بعد افغان مجاہدین جو اب طالبان کے روپ میں آچکے تھے، نے امریکہ کی ڈکٹیشن لینے سے انکار کر دیا اور افغانوں کی آزمائش کا ایک نیامگر قدرے طویل عرصہ شروع ہو گیا۔ 2001 سے لے کر 2021 تک امریکہ اور نیٹو افواج نے تمام جدید اسلحہ سے لیس ہو کر یہ جنگ لڑی مگر آخر انہیں بھی روس کی طرح اپنے زخم گہرے ہوتے نظر آئے۔ 2021 ایک اور تاریخ رقم کر گیا۔
جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
طالبان کا ذوق یقین اور جذبہ جہاد قابل دید ہے۔نہ عددی برتری نہ جنگی سازوسامان کی بہتات مگر قوت ایمانی حب الوطنی اور جذبہ کی بہتات تھی جس نے کم تعداد کو بالا کر دیا۔
اب افغانستان جنگ سے بیزار ہے افغان نہیں چاہتے کی ان کا ملک اور برباد ہو بلکہ برباد ہونے کو بچا کیا ہے؟ اب مرحلہ ہے کہ تمام ممالک خاص طور پر پڑوسی ممالک جن میں پاکستان ایران چین اور وسطی ایشیائی مسلم اکثریتی ریاستیں شامل ہیں سب مل کر افغانستان کے تعمیر نو کے مراحل میں افغانوں کی مدد کریں تاکہ وہ اپنی یکجہتی کو برقرار رکھتے ہوئے اقتصادی ترقی اور تعمیر نو کے مراحل کو آسانی سے طے کر سکیں۔ اگر یہ نہ ہوا تو افغانستان خدانخواستہ دوبارہ مشکل حالات سے دو چار نہ ہو جائے۔ خاص طور پر بہت سارے سپائیلرز کی موجودگی میں جس میں مسلم امہ اور پاکستان کا دشمن نمبر ایک یعنی ہندوستان پیش پیش ہے، بہت ساری ممکنات پیش آ سکتی ہیں۔ ان حالات میں ہمارے لئے بہت ضروری ہے کہ پاکستان بغیر افغانستان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کئے افغانوں کی دامے درمے اور سخنے کھل کر مدد کرے کیونکہ ہمارا مستقبل بھی افغانستان کے مستقبل سے جڑا ہوا ہے۔ ہمیں خواہ مِخواہ کے خدشات سے بالاتر ہو کر اور چین کی مدد سے افغانستان کی تعمیر نو کا آغاز کرنا چاہئے اور دشمنوں کی انکلوسو inclusive کے پراپیگنڈہ کا توڑ کرنا چاہئے۔ افغان کیسی حکومت بناتے ہیں یہ انکا اندرونی معاملہ ہے۔ عورتوں کے حقوق بھی ان کا اپنا مسلہ ہے جو وہ اپنی روایات اور کلچر کے مطابق طے کریں گے کسی بیرونی قوت یا ملک کو اس سے غرض نہیں ہونی چاہئے۔ ہاں جب ملک ترقی کرے گا تو یہ تمام معاملات حل ہو جائیں گے۔ ابھی وقت ہے افغان حکومت کی مدد کی جائے چہ جائے کہ ان کو بن مانگے مشورے دئیے جائیں۔
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غمگسار ہوتا
تو پھر پاکستان ان حالات میں کیا کرے؟
افغانستان میں طالبان کی نئی حکومت کو تسلیم کرنے کامرحلہ سب سے اہم ہے۔ دنیا کے باقی بڑے اور چھوٹے ممالک کی بات اور ہے وہ بغیر کسی وجہ کے تسلیم کے مرحلے کو طول دے سکتے ہیں مگر پاکستان کے لئے لمبی مدت کے لئے اس مرحلے کو پس پشت ڈالے رکھنا مشکل ہو گا اور حالات کا مکمل جائزہ لے کر نئی افغان حکومت کو چند دنوں یا ہفتوں میں یہ فیصلہ کرنا ہو گا اورہمارے وزیر خارجہ سمیت اعلیٰ سطحی وفد کا کابل کا دورہ ضروری ہو گا۔ نئی حکومت کو تسلیم کرنے میں پہل کے اپنے فائدے ہیں اور ہمیں کابل میں سفارتی سطح پر ایک بہت ہی بہتر مقام حاصل ہو سکتا ہے۔ دیر سے تو سب ممالک تسلیم کر ہی لیں گے۔
لیکن جب تک تسلیم کا مرحلہ نہیں آتا ہم بہت سارے دیگر اقدامات سے کابل میں اور افغان عوام کے دلوں میں گھر کر سکتے ہیں۔ ان میں سے کچھ کا ذکرمندرجہ ذیل ہے:
اگرچہ پاکستان نے کچھ جہاز سامان اور ادویات کے افغانستان روانہ کئے ہیں مگر افغان عوام کی توقعات پاکستان سے زیادہ ہیں۔ فوری طور پر پاکستان اپنے افغان بھائیوں کے لئیے کم از کم بیس سے تیس ہزار ٹن گندم چاول اور چینی بھیجنے کا اعلان کرے۔ اس کے علاوہ باقی ضروریات زندگی افغان تاجر پاکستانی مارکیٹ سے بآسانی خرید سکیں اور اس کے لئے نرم ڈیوٹی قواعد کا اعلان کیا جائے۔
افغانستان میں ادویات کی ضرورت ہو گی جس کے لئے ہم جو بھی سہولیات فراہم کر سکیں وہ کرنے چاہئیں۔
ضرورت ہو تو میڈیکل مشن بھی روانہ کئے جائیں۔
تعمیر نو کے لئے جو اشیا افغانستان کو ضرورت ہو مثلا سیمنٹ سریا وغیرہ وہ کم ڈیوٹی پر لے جانے کی اجازت دی جائے۔افغانستان کو اس مرحلے پر بہت مدد درکار ہوگی اور پاکستان اس کے لئے ہر طرح تیار رہے۔
پاکستان خاص طور پر تعلیم اور تکنیکی تعلیم اور صحت کے معاملات میں افغان حکومت کی دل کھول کے مدد کرے۔ یہ سب پاکستان کر سکتا ہے اور یہ وقت ہے کچھ کر گزرنے کا۔
ماضی میں پاکستان اور افغانستان کے تعلقات اچھے نہیں رہے جس کی کئی وجوہات ہیں اس حوالے سے کچھ اور ممالک کا کردار کلیدی تھا اب ہمارے لئے ضروری ہے کہ ان ممالک کو دوبارہ کھل کھیلنے کا موقعہ نہ ملے گیند اب اسلام آباد اور کابل دونوں کے کورٹ میں ہے اور دونوں ممالک کوماضی کی غلطیوں سے اجتناب کرناچاہیے۔
(کالم نگار ہلال ملٹری امتیازاورسابق ہائی کمشنر ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain