آج 11 ستمبر 2021 کو ایک طرف تو امریکہ میں سانحہ نائن الیون کی 20 ویں برسی منائی جا رہی ہے جبکہ دوسری طرف امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے افغانستان سے بھاگنے اور20 سالہ جنگ کے بعد طالبان کی نئی تشکیل کردہ حکومتی کابینہ حلف اٹھا رہی ہے۔ آج سے ٹھیک 20 سال پہلے دہشت گردی کا اپنی نوعیت کا ہوشربا واقعہ پیش آیا۔ اس وقت دنیا کی واحد سپر پاور رہ جانے والے امریکہ میں صبح 8 بجے 4 مسافر بردار طیارے اغوا ہوئے اور انہیں خود کش حملوں کے انداز میں مختلف عمارتوں سے ٹکرانا شروع کیا گیا۔ آدھے گھنٹے کے وقفے کے ساتھ 2 طیارے امریکی سرمایہ دارانہ برتری کی علامت 110 منزلہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی عمارت سے ٹکرائے گئے۔ اس وقت 10 ہزار افراد عمارت کے اندر موجود تھے۔ پوری عمارت چند لمحوں میں راکھ کا ڈھیر بن گئی۔ دنیا کے تمام ٹی وی چینلز کا رخ امریکہ کی طرف ہو گیا۔ پوری دنیا حیرت میں گم جبکہ امریکی سکتے کی کیفیت میں تھے کہ یہ سب کچھ کیسے ہوگیا۔مزید ایک گھنٹے کے اندر تیسرا طیارہ امریکی وزارت دفاع کے ہیڈ کوارٹر پینٹاگان پر گرا دیا گیا۔ اس کے بعد کے چند گھنٹے انسانی تجسس و تشویش کے حوالے سے ہیجان خیز تھے کہ اب کیا ہو گا؟ اگلا طیارہ کہاں ٹکرائے گا؟ دہشت گردوں کا اگلا نشانہ کیا ہوگا۔ امریکہ میں قیامت کا سماں اور نفسانفسی کا عالم تھا۔ امریکہ کے تمام سرکاری دفاتر، وائٹ ہاؤس سمیت اہم عمارتیں خالی کرا لی گئیں۔ جنگی طیارے فضا میں آ گئے۔تمام ائیر پورٹ بند کر دئیے گئے، سکول کالج یونیورسٹیاں غیر معینہ مدت کے لئے بند کر دی گئیں۔ امریکہ میں زندگی تقریباً جام ہوگئی۔
کچھ دیر بعد اطلاع دی گئی کہ دہشت گردوں کی طرف سے اغوا کیا گیا چوتھا جہاز جس نے امریکی صدارتی محل کو ہٹ کرنا تھا اسے پنسلوانیا کی سرحد کے قریب فضا میں ہی تباہ کر دیا گیا ہے۔ اس سانحہ میں 2996 افراد ہلاک ہوئے جن میں 19 ہائی جیکر بھی شامل تھے۔ 6 ہزار افراد زخمی ہوئے۔ امریکہ نے اسامہ بن لادن کو اس دہشت گردی کا ذمہ دار قرار دیا اور افغانستان پر چڑھ دوڑا۔ امریکہ نے بدلے کی آگ میں وہ کام کئے جن کا انسانی جنگی تاریخ میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ڈیزی کٹر اور Mother of the all bombs کے انسانوں پر تجربات تورا بورا کے افغان پہاڑوں اور غاروں میں کئے گئے۔ امریکہ کی بران اور بوسٹن یونیورسٹی کے مشترکہ ” منصوبہ برائے جنگی تخمینہ” (Cost of War Project) کے مطابق 20 سال کی اس جنگ کے دوران مجموعی طور پر 2 لاکھ 41 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں 71344 عام شہری،3 ہزار امریکی فوجی، 78314 افغان سیکیورٹی اہلکار، 84191 دیگر امریکی مخالفین شامل ہیں۔
1930 میں پیش کئے جانے والے اب تک کے معتبر ترین “بگ بینگ” نظریہ (Big bang theory) کے تحت اس کائنات کی عمر 20 ارب سال بنتی ہے۔ اس طویل عرصے میں انسانیت کو بے پناہ تکالیف اور اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن ان میں سے زیادہ تر آفات آسمانی و فطرتی تھیں۔ لیکن 21 ویں صدی کے آغاز کے 2 عشرے وہ ہیں جب انسانوں نے جدید ترین ہتھیاروں کا استعمال انسانوں پر کیا۔ بد ترین بربریت کا شکار افغان عوام بنے۔ افغانوں کی 3 نسلیں گزشتہ 50 سالوں سے حالت جنگ میں ہیں۔ افغانیوں کے بعد کسی نے اس بڑی جنگ کی بھاری قیمت ادا کی ہے تو وہ پاکستان ہے۔ ہم نے اس پرائی جنگ میں 78 ہزار شہریوں کی قربانی دی۔ان میں 5800 فوجی افسر اور جوان بھی شامل ہیں۔ 19 ہزار جوان زخمی ہوئے۔ تقریبا ً130 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان کیا۔
آج نائن الیون کی برسی اس حالت میں منائی جا رہی ہے کہ نہ صرف امریکہ بلکہ افغان جنگجو بھی جنگ سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جدید بموں سے انسانی اعضا کے چیتھڑے اڑانے والا امریکہ ہی نہیں بلکہ طالبان دونوں اس قتل و غارت گری سے تنگ آ چکے ہیں۔ خاص طور پر افغان عوام اب زندگی کی طرف لوٹنا چاہتے ہیں۔ پاکستان پہلے ہی جنگ کیلئے ”Absolutely no’“کہہ چکا ہے۔ طالبان سب کے لئے عام معافی کا اعلان کر چکے ہیں۔ اب تک اپنے افعال اور خیالات سے طالبان نے ایسا کچھ ظاہر نہیں کیا کہ دنیا ایک بار پھر انہیں جنگ کی طرف لے جائے۔اب دنیا کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس جنگ بندی کو خطے کے حقیقی امن میں تبدیل کرنے کے لئے کردار ادا کرے… توقع کی جانی چاہئے کہ اب آنے والا ہر دن امن کی طرف جائے گا اور دنیا کو کسی نئے نائن الیون کا سامنا نہیں ہوگا۔
(کالم نگار قومی و سیاسی امور پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭