سید سجاد حسین بخاری
چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری جنوبی پنجاب کا 2ہفتے کا دورہ مکمل کرکے واپس چلے گئے ہیں مگر اس وقت پورے جنوبی پنجاب کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں مقامی قیادت سے یہ سوال کررہی ہیں کہ بلاول بھٹو کا دورہئ جنوبی پنجاب کیسا رہا اور ہماری جماعت سے کون اور کتنے لوگ گئے اور ان سب کا سیاسی قدکاٹھ کیا تھا؟ یہی سوال پاکستان مسلم لیگ اور تحریک انصاف کی مرکزی قیادت جنوبی پنجاب کی مقامی قیادت سے کررہی ہے۔ 2دن قبل پاکستان تحریک انصاف نے اپنے ایک پرانے رفیق اور میلسی کے بااثر خاندان کے فرد نور خان بھابھہ کو جنوبی پنجاب کی پارٹی صدارت سے اس لئے فارغ کیا تھاکہ ان کے داماد اور بھتیجے عمران ممتاز بھابھہ نے پاکستان پیپلزپارٹی جوائن کی تھی‘ یہ ایک بڑی نہیں تو اچھی وکٹ ضرور ہے کیونکہ ان کے والد ممتاز بھابھہ ایک مرتبہ ایم این اے رہ چکے ہیں۔ نور خان بھابھہ کو جماعت سے ان کے داماد کی پی پی میں شمولیت کے ساتھ ہی فارغ کرکے سینیٹر عون عباس بپی کو جنوبی پنجاب کا صدر بنایا گیا اور انہوں نے آتے ہی اخبار نویسوں سے پوچھنا شروع کردیا کہ جنوبی پنجاب سے کون کون لوگ تحریک انصاف کو چھوڑ کر پی پی میں شامل ہوئے ہیں۔
اسی طرح مسلم لیگ (ن) کی جنوبی پنجاب کی مقامی قیادت نے ایک رپورٹ تیار کرنی شروع کردی ہے کہ (ن) سے پی پی پی میں کون کون شامل ہوا ہے۔ شامل ہونے والوں کی فہرست اخبارات میں چھپ چکی ہے اور میں بھی دوبارہ دُہرا دیتا ہوں مگر بنیادی سوال یہ ہے کہ دونوں جماعتیں کیوں پریشان ہورہی ہیں؟ مسلم لیگ (ن) چونکہ اقتدار میں نہیں لہٰذا جماعت کے ممبران کو بچانا ان کیلئے ضروری ہے مگر تحریک انصاف تو حکمران جماعت ہے‘ وہ کیوں پریشان ہے جبکہ ممبران اسمبلی بھی دونوں جماعتوں کے فی الحال ڈٹے ہوئے ہیں اور کچھ ناراضگیوں کے باوجود اپنی اپنی جماعتوں میں موجود ہیں کیونکہ (ن) لیگ کے ارکان اسمبلی اگلی باری کا انتظار کررہے ہیں جبکہ تحریک انصاف کے ممبران اسمبلی اقتدار کے مزے آخری دم تک لینے کے حق میں ہیں‘ اس لئے فی الحال دونوں جماعتوں کے ممبران اسمبلی آئندہ الیکشن کی صف بندی تک قائم ہیں۔ ہاں البتہ مسلم لیگ (ن) کے ممبران قومی وصوبائی اسمبلی نے بلاول بھٹو کے دورہئ جنوبی پنجاب پر بڑی گہری نظر رکھی ہوئی ہے اور خصوصاً وہ ممبران جن کا بیک گراؤنڈ دیہاتی ہے جہاں پر دھڑے بندی اور گروہی سیاست ہوتی ہے اور کچھ میرے جاننے والوں نے یہ سوال کیا ہے کہ مقتدر قوتیں کیا آئندہ بلاول بھٹو کو لارہی ہیں؟ بقول ان کے بلاول بھٹو کسی کے کہنے پر دورہئ جنوبی پنجاب کررہے ہیں اور شدید گرمی اور حبس میں ضرور کہیں سے بلاول بھٹو کو گرین سگنل ملا ہے۔
زمینی حقائق کو نہیں بھولنا چاہیے اور جنوبی پنجاب کے زمینی حقائق یہ ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کے وڈیرے اقتدار سے باہر ہیں اور پی ٹی آئی کے لوگوں کی دال نہیں گل رہی اور جنوبی پنجاب کے 95فیصد سیاستدان ہر آنے والے الیکشن میں چونکہ سیاسی جماعتیں بدلتے ہیں اور انہیں اقتدار میں آنے والی جماعت کا علم ہوجاتا ہے لہٰذا وہ اسی جماعت میں چلے جاتے ہیں کیونکہ ان کا متاع حیات اقتدار ہے۔ اُصول‘ نظریات‘ سچائی سب گئے بھاڑ میں‘ صرف اور صرف اقتدار چاہیے اور یہ بات طے ہے کہ ہوسِ اقتدار جنوبی پنجاب کے سیاستدانوں میں بدرجہ اتم موجود ہے‘ اسی لئے تینوں سیاسی جماعتوں کی مرکزی لیڈرشپ کی نظر میں جنوبی پنجاب کے سیاستدانوں کی قدرومنزلت وہ نہیں جو وسطی یا شمالی پنجاب کے سیاستدانوں کی ہے‘ بات دوسری طرف چلی گئی۔
اصل بات بلاول بھٹو کے دورہئ جنوبی پنجاب کامیاب یا ناکام کی ہورہی تھی۔ اب آیئے ان افراد کی فہرست پر بحث کرتے ہیں جنہوں نے موجودہ دورے کے موقع پر پی پی پی میں شمولیت اختیار کی۔ فہرست پڑھنے سے پہلے ایک بات ذہن نشیں کرلیں کہ پی پی پی قیادت اور کارکنان وپارٹی عہدیداران کے درمیان اس دورے سے قبل ایک بہت بڑا خلا موجود تھا جو اب جاکر ختم ہوا ہے۔ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ 26سال بعد پہلی مرتبہ ڈیرہ غازیخان جیسے اہم شہر میں پی پی پی قیادت اور بلاول بھٹو گئے ہیں۔ کارکن ہر جماعت کا اثاثہ ہوتا ہے اور جس کارکن کو اپنی مرکزی قیادت 26سال تک تعارف بھی نہ کرائے تو وہ کیسے جماعت میں رہے گا یا اس کیلئے کام کرے گا؟ اسی طرح ضلع لیہ میں بطور وزیراعظم بینظیر بھٹو شہید 1993ء میں سیہڑ ہاؤس آئی تھیں اور اس کے بعد گزشتہ سال بلاول بھٹو ایک مختصر دورے پر گئے یعنی 27سال بعد پی پی پی کی قیادت ضلع لیہ گئی ہے۔ تحصیل میلسی میں شہید بھٹو کے ساتھی ارشاد خان پٹھان کے بیٹے ٹوچی خان 1996ء میں بینظیر بھٹو شہید کو لائے تھے یہاں پر بھی 25سال بعد بلاول بھٹو گئے ہیں۔ تونسہ میں حضرت خواجہ سلیمان تونسوی کے خاندان میں سے خواجہ کمال دین انور مرحوم پاکستان پیپلزپارٹی میں تھے وہاں پر کبھی بھی شہید بی بی یا بلاول بھٹو نہیں گئے تھے‘ تاہم بی بی شہید ڈی جی خان میں بطور وزیراعظم سیمنٹ فیکٹری کا افتتاح کرنے کیلئے آئی تھیں۔ یعنی جس علاقے میں 25 سے 30سال تک پی پی پی قیادت نے ایک چکر بھی نہ لگایا وہاں پر بلاول کے جانے سے مثبت کے بجائے منفی اثرات کیسے ہوں گے؟ شامل ہونے والوں میں ڈیرہ غازیخان سے سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ‘ لیہ سے بہادر خان سیہڑ اور ان کے ساتھ آزاد منتخب ہونے والے ایم پی اے اشفاق اور میلسی سے عمران بھابھہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے گھروں میں متعدد مرتبہ قومی اسمبلی کی نشستیں رہی ہیں۔
اسی طرح رحیم یار خان میں 13سیاستدان ایسے ہیں جنہوں نے پی پی پی میں شمولیت کیلئے ہاں کرلی ہے۔ اس پوری کہانی کا اخذ یہ ہے کہ بلاول بھٹو ان علاقوں میں گئے جہاں پر گزشتہ 25سال سے پی پی پی قیادت نہیں گئی تھی۔ نوجوان بلاول بھٹو کو دیکھ کر متاثر بھی ہوئے ہیں اور جو لوگ اس وقت تک شامل ہوئے ہیں وہ یقینا 90فیصد سیٹیں نکالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں سوائے عمران بھابھہ کے‘ وہاں پر مقابلہ سخت ہوگا۔ بلاول بھٹو کے دورے سے پی پی پی کے سوئے ہوئے کارکن اور مردہ مقامی قیادت میں جان پڑی ہے۔ کارکنان میں اپنائیت کا احساس ہوا ہے۔ نوجوان نسل بلاول سے زیادہ متاثر ہوئی ہے اور وہ بلاول کی قربت چاہتے ہیں۔ اس وقت جنوبی پنجاب میں بہت بڑا سیاسی خلابھی موجود ہے۔ بلاول بھٹو کے دورے سے اس خلا سے کچھ فائدہ ضرور اُٹھایا گیا ہے لہٰذا یہ کہنا کہ بلاول بھٹو کا دورہ ناکام اور وہ خالی ہاتھ واپس گئے ہیں‘ غلط ہے۔ بلاول بھٹو کو اس دورے سے نقصان کے بجائے سیاسی فائدہ ضرور ہوا ہے۔ ناکام دورے کی باتیں پھر بھی مخالفین کرتے چاہے آدھا جنوبی پنجاب پی پی پی میں کیوں نہ شامل ہوجاتا۔
(کالم نگارقومی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭