تازہ تر ین

بلاول بھٹو اور یوسف رضا گیلانی سے ملاقات

نعیم ثاقب
بروز منگل سہ پہر ساڑھے تین بجے کال آئی لالہ!تیار رہیں ملتان جانا ہے۔ بلاول بھٹو سے ملاقات ہے۔ایک رات ٹھہریں گے شاید بہاولپور کا بھی پروگرام بن جائے کل واپس آجائیں گے۔ انہوں نے ہمیشہ کی طرح بغیر کچھ سنے سارا پروگرام بتا دیا۔کیونکہ برادرعزیز ہمدم دیرینہ، رفیق قدیم امتنان شاہد کو معلوم تھا کہ میں کہیں جانے اور سفر کرنے کے معاملے میں انتہائی سست ہوں۔میری کوشش ہوتی ہے کہ کہیں جانا جھوٹ ہی ہو جائے۔ اس لیے مجھے بولنے کا موقع دیے اور کوئی عذر سنے بغیر شیڈول سے آگاہ کر دیا۔ خیر اس مرتبہ کوئی ترکیب کام نہ آئی اور ملتان جانا ہی پڑا۔
دو بجے بلاول بھٹو سے ملاقات طے تھی۔سجاد بخاری کے ہمراہ بلاول ہاؤس پہنچے۔ جہاں یوسف رضا گیلانی خاندان کا امتنان شاہد سے قریبی تعلق دیکھنے میں آیا۔بلاول بھٹو پریس کانفرنس کی وجہ سے تھوڑالیٹ ہو گئے تو یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی حیدر گیلانی اور علی قاسم گیلانی بار بار پوچھنے آتے رہے۔پھر تھوڑی دیر بعد مخدوم یوسف رضا گیلانی پریس کانفرنس چھوڑ کر ہمارے پاس آ کر بیٹھ گئے اور ثابت کیا کہ وہ مہمان نواز اور وضع دار انسان ہیں۔ذاتی اور سیاسی دونوں تعلق نبھانا جانتے ہیں۔ مخدوم یوسف رضا گیلانی پاکستانی سیاست کی جیتی جاگتی تاریخ ہیں۔ ان کے والد مخدوم سید علمدار گیلانی قومی و صوبائی اسمبلی کے وزیر رہے اور دادا سید غلام مصطفے شاہ چئیرمین ملتان میونسپل کارپوریشن رہنے کے بعد۔ کے جنرل الیکشن میں قانون ساز اسمبلی کے ممبر بنے۔ خود یوسف رضا گیلانی پنجاب یونیورسٹی سے 1976 میں ایم اے جرنلزم کرنے کے بعد 1978 میں سیاست کا آغاز کرتے ہوئے،مسلم لیگ کی سینٹرل ورکنگ کمیٹی کے رکن بنے۔ اس کے بعد 1982 میں وہ وفاقی کونسل کے رکن بن گئے۔ 1983 میں ضلع کونسل کے انتخابات میں حصہ لیا اور پیپلز پارٹی کے رہنما سید فخر امام کو شکست دے کر چیئرمین ضلع کونسل ملتان منتخب ہوگئے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں 1985میں ہونیوالے غیر جماعتی انتخابات میں حصہ لینے کے بعد وزیرِ اعظم محمد خان جونیجو کی کابینہ میں وزیر ہاؤسنگ و تعمیرات اور بعد ازاں وزیرِ ریلوے منتخب ہوئے۔1988 میں مسلم لیگ سے علیحدہ ہو کر پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہونے والے چونتیس سالہ مخدوم یوسف رضا گیلانی نے تقریباً اپنی ہم عمر قائد محترمہ بینظیر بھٹو سے وفاداری اور اکھٹے لمبی سیاسی اننگز کھیلنے کا عہد کیا۔ محترمہ کی زندگی نے تو وفا نہ کی مگر یوسف رضا گیلانی دوسری نسل تک وفا نبھا رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے بھی ان کی خدمات کو ہمیشہ سراہا ہے۔انہوں نے پارٹی کے لیے خدمات سر انجام دیں تو پارٹی نے انہیں اسپیکر قومی اسمبلی بنایا۔ یوسف رضا گیلانی نے ساڑھے پانچ سال جیل کاٹی تو پارٹی نے وزیر اعظم کی کرسی پر بٹھا دیا۔ وفاداری نبھاتے ہوئے سوئس حکومت کو خط نہ لکھنے کی پاداش میں نااہل ہوئے تو پارٹی نے پھر قربانی کا اعتراف کرتے ہوئے سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا وائس چئیرمین بنا دیا۔ اب جب گیلانی صاحب کو سینٹ کاالیکشن لڑنے کا کہا گیا تو انہوں نے ہچکچاہٹ کامظاہرہ کیا جس پر چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا گیلانی صاحب آپ ہمارے امیدوار ہی نہیں امید بھی ہیں اور پھر اس بار بھی گیلانی صاحب اپنے چیئرمین کی امیدوں پر پورا اترے اور حکومتی حمایت یافتہ امیدوار عبدالحفیظ شیخ کو شکست دی۔ یوسف رضا گیلانی پیپلز پارٹی اور بھٹو خاندان کی دوسری نسل سے وفاداری نبھا کر اس تاثر کو بھی غلط ثابت کر نے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جنوبی پنجاب کے زیادہ تر سیاستدان مستقل بنیادوں پر اپنی وفاداریاں تبدیل کرتے رہتے ہیں۔سادات گھرانے سے نسبت کی بنا پر وہ یقینا اس حدیث پر عمل کررہے ہونگے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین اشخاص ایسے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بات نہ کرے گا: ایک تو وہ شخص جس کے پاس ضرورت سے زیادہ پانی ہو اور وہ مسافر کو دینے سے انکار کر دے، دوسرا وہ شخص جو اپنا سامان بیچنے کے لیے عصر کے بعد جھوٹی قسم کھائے، تیسرا وہ شخص جو کسی امام و سربراہ سے وفاداری کی بیعت کرے پھر اگر امام ا سے دنیاوی مال و جاہ سے نوازے تو اس کا وفادار رہے، اور اگر اسے کچھ نہ دے تو وہ بھی عہد کی پاسداری نہ کرے۔
سنن ابوداؤد(3474)
اس لحاظ سے پیپلز پارٹی اور گیلانی صاحب دونوں ہی خوش قسمت ہیں کہ اگر ایک نے وفا کی ہے تو دوسرے نے اس کا عملی اعتراف کیا ورنہ بقول شاعر
اب کہاں دوست ملیں ساتھ نبھانے والے
سب نے سیکھے ہیں اب آداب زمانے والے
اور ویسے بھی احسان اور وفا کی قدر نسلی اور اعلیٰ ظرف لوگ ہی کرتے ہیں چھوٹے اور کم ظرف لوگوں سے توقع رکھنا نادانی اور بے وقوفی ہوتی ہے بقول صوفی شاعر میاں محمد بخش۔
نیچاں دی اشنائی کولوں فیض کسے نہ پایا
کِکر تے انگور چڑھایا، ہر گچھا زخمایا
خیر بات چلی تھی بلاول بھٹو زرداری سے امتنان شاہد کے ہمراہ ملاقات کی۔ گیلانی صاحب کے بعد بلاول بھٹو سے ملاقات کرنے ان کی رہائش گاہ پہنچے تو بلاول بھٹو نے بڑے تپاک سے استقبال کیا اور امتنان صاحب کو بتایا کہ مجھے یاد ہے آپ نے ہمارے دوبئی والے گھر میں بی بی شہید کا آخری انٹرویو کیا تھا۔ ملاقات میں پی ڈی ایم سے اختلافات،اس کے مستقبل اور دیگر سیاسی موضوعات پر لمبی گفتگو ہوئی جس کی تفصیل روز نامہ ”خبریں“کے ستمبر 2007ء کے شمارے میں پڑھی جا سکتی ہے۔ بلاول بھٹو بڑے اعتماد سے دعوی کررہے تھے کہ اگلی حکومت وہ بنائیں گے۔ مگر زمینی حقائق اور کنٹونمنٹ الیکشن کے نتائج سے یہ چیز واضح ہے کہ اب کسی پارٹی کا مانگے تانگے سے کام نہیں چلے گا۔ گیلانی صاحب کی طرح کے وفادار کارکن رکھنے والی اور ان کی قربانیوں کا اعتراف کرنیوالی پارٹیاں ہی آئندہ حکومت بنا پائیں گی۔
(کالم نگارقومی وسیاسی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain