تازہ تر ین

سیکھنے کی بات

اسرار ایوب
کوئی کتنا ہی بڑاترقی پسند کیوں نہ ہو لیکن جاپانیوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ شاید آپ کو یقین نہ آئے کہ ایک وقت وہ تھا جب جاپانی فوج میں نہ صرف خود کش بمباروں کو ریکروٹ کیا جاتا تھا بلکہ ان کے لئے بطورِ خصوصی سازوسامان بھی تیار کیا جاتا تھا۔ مثلاً”اوھکا“(OHKA) جاپان کا تیار کردہ خودکش جہاز تھا جس میں تین راکٹ لگے ہوتے تھے اور جو 2646پاؤنڈ وزنی تیز دھماکہ خیز مواد اپنی ناک میں اٹھا کر اڑ سکتا تھا،اس چھوٹے سے جہاز کو(جس میں بمشکل ایک آدمی بیٹھتا تھا) ایک بڑا بمبار جہاز اٹھا کر ہدف کے قریب لے جاتا اور چھوڑ دیتا،اوھکا 220میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اڑتا ہوا جب ہدف کے اور بھی قریب پہنچتا تو اس کا پائلٹ اس کی راکٹ موٹرز کو آن کر دیتا جس کے بعد یہ 600میل فی گھنٹہ کی طوفانی رفتار سے(اپنے پائلٹ سمیت) امریکی بحری جہازوں سے ٹکرا کر انہیں پاش پاش کر دیتا۔ دوسرے خودکش جہاز کو ”کیٹن“ (KAITEN) کہتے تھے جس کی لمبائی 48فٹ تھی اور جو 3400پاؤنڈ دھماکہ خیز مواد اٹھا کر اڑنے کی استطاعت رکھتا تھا،اسے اڑانے والا بھی اس کے ساتھ ہی ”شہید“ ہو جاتا تھا۔یہ تو تھے فضائیہ کے خود کش حملہ آور، اب آیئے نیوی اور آرمی کی طرف، ”شینیو“(SHINYO)اس خود کش موٹر بوٹ کا نام تھا جو اتنی تیزی کے ساتھ اپنے ٹارگٹ کی طرف بڑھتی تھی کہ اسے نشانہ بنانا تقریباً تقریباًناممکن ہوتا تھا،اس پر بھی ایک ہی شخص بیٹھتا تھا جو اسے امریکی بحری جہازوں کے ساتھ ٹکرا کران کے ساتھ خود کو بھی نیست و نابود کر دیتا تھا،”کیریو“(KAIRYU)ایک خودکش آب دوز ہوا کرتی تھی اور اس کا کام بھی اپنے سوار سمیت ہدف سے ٹکرانا تھا،”فکیوریو“ (FUKURYU) اس جاپانی تیراک کو کہا جاتا تھا جو اپنے جسم کے ساتھ بم باندھ کر ٹارگٹ سے ٹکرا جاتا تھا اور”نیکاکو“(NIKAKU)اس خود کش بمبار (سپاہی) کو کہتے تھے جو دھماکہ خیز مواد کے ساتھ رینگتے رینگتے امریکی ٹینکوں یا دوسری فوجی گاڑیوں کے نیچے پھٹتا تھا۔
دوسری جنگِ عظیم میں جاپانیوں نے خود کش حملوں کے لیے کل ملا کر750 اوھکا جہاز،9200 شینیوموٹر بوٹ(جن میں سے 6200نیوی اور3000آرمی کے لیے تھیں)،300کیریو آب دوزیں اور بے شمار’فکیوریو‘اور ’نیکاکو‘ (خود کش بمبار)تیار کیے اور جب انہیں استعمال کرنا شروع کیا تو امریکہ کے اوسان خطا ہوگئے،اسی لیے تو ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم گرے اور جاپان کو وہ چوٹ لگی جس کی ٹیس قیامت تک ختم نہیں ہو گی۔یہی وہ مقام تھاجس سے جاپانیوں کی تاریخ کاوہ نیا باب شروع ہوا جس نے جاپان کوسائنسی،معاشی اور معاشرتی تعمیر و ترقی کی اس سطح پر لاکھڑا کیا کہ اس کے پاس اسلحہ بارود ہے نہ خود کش بمبار لیکن کوئی اس کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہیں کرتا،جس امریکہ کو سینکڑوں بلکہ ہزاروں خود کش جہازوں،موٹر بوٹوں، آبدوزوں اور حملہ آوروں پر مشتمل ایک بڑی ہی مضبوط اور فعال آرمی بھی حساب کتاب میں نہ لاسکی،وہی امریکہ جی ڈی پی،جی این پی، فی کس آمدن اور انسانی ترقی کے اعدادوشمار سے”ہنڈز اپ“ ہو گیا۔اس سنہرے دورتک پہنچنے کے لیے جاپانیوں نے تین کام کیے،پہلا یہ کہ اپنی شکست تسلیم کی،دوسرا یہ کہ اپنے لیے ایک نئی منزل کا تعین کیا اور تیسرا یہ کہ اپنے ملک میں وہ ثقافتی انقلاب برپا کیا جو نئی منزل تک پہنچنے میں فیصلہ کن کردار ادا کر سکتا ہے۔
جاپانیوں نے یہ جان لیا کہ جب تک سائنس و ٹیکنالوجی کی راہ نہیں اپنائی جائے گی،تحقیق و تخلیق کا دامن نہیں تھاما جائے گا، اندھی تقلید و بھیڑ چال سے کنارہ کشی اختیار نہیں کی جائے گی،تب تک ایک خود مختار وباوقارقوم کی شکل میں نہیں ابھرا جا سکتا۔اور یہ مان لیا کہ جس منزل کا خواب وہ دیکھ رہے ہیں وہاں پہنچانے میں کلیدی کردار سائنسدان اور مفکرین ہی ادا کر سکتے ہیں۔چناچہ انہوں نے ان ”اربابِ عقل و فکر“کوکچھ اس طرح اپنا ہیروقرار دے دیا کہ تقاریب میں انہیں مہمانِ خصوصی کے طور پر بلایا جاتا۔
یومِ آزادی پر انہی کے پیغامات نشر کیے جاتے، میڈیا انہی کی خبروں سے بھرا ہوتا،سب سے زیادہ تنخواہیں بھی انہی کو دی جاتیں،ڈراموں اور فلموں میں بھی سائنس و ٹیکنالوجی کی اہمیت کو اجاگر کیا جاتا۔الغرض پورے کاپورا معاشرہ سائنس و ٹیکنالوجی کے گیت گانے لگا۔اس ثقافتی انقلاب سے ہوا یہ کہ جاپانی بچوں میں خودبخود تحقیق و تخلیق کا ایک بڑا ہی زبردست قسم کا رجحان پیدا ہوگیا(اور وہ وقت بھی آیا کہ پرائمری سکولوں کے بچے ڈیجیٹل گھڑیاں بنانے لگے) جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 50سال میں ہی جاپانی دنیا پر چھا گئے اور انہوں نے اپنے خوابوں کاآفتاب اپنے ہاتھوں سے حقیقت کی دنیا میں اچھال دیاجس کی کرنوں سے ان کی تقدیر کے اندھیرے یکدم اجالوں میں تبدیل ہوگئے۔
جاپانیوں کی کہانی اس لئے سنائی کہ ایک زمانے میں جو نفسیات ان کی تھی کم و بیش وہی آج کل ہماری ہے۔کون نہیں جانتا کہ ہمارا ہر راستہ اسلحہ و بارود اور جنگ وجدل کی طرف جاتا ہے جس پر ہم فخر کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہمارا رول ماڈل بھی بالعموم ایک جنگجو ہوتاہے۔ کاش ہم جاپانیوں کی تاریخ سے سبق سیکھ سکیں لیکن اس کے لئے ظاہر ہے کہ سب سے پہلے اپنی غلطی تسلیم کرنی پڑے گی جس کی عادت ہمیں ہے ہی نہیں، اس کے بعدتعلیمی اصلاحات کرنی پڑیں گی جیسے جاپان نے کیں جہاں ابتدائی آٹھ سالوں میں صرف اور صرف بچوں کی اخلاقیات پر دھیان دیا جاتا ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ سائنسدانوں اور مفکرین کو رول ماڈل تسلیم کرنا پڑے گا تاکہ ان جیسا بننے کی خواہش خود بخود بچوں میں پیدا ہو سکے۔ جبکہ ہمارے یہاں جو عزت و توقیر سائنس کودی جاتی ہے اس کا اندازہ اسی ایک بات سے بخوبی کیا جا سکتاہے کہ بیالوجی میں پی ایچ ڈی کر کے یونیورسٹی میں پڑھانے والے لوگ بھی کووڈ19کی ویکسین کو یہود و ہنودکی سازش قرار دیتے ہیں اور پیسے دے کر ویکسینیشن کاجعلی سرٹیفکیٹ بنوا لیتے ہیں۔ ایک طرف یہ عالم ہے اور دوسری جانب کئی ایسے لوگ بھی ہمارے یہاں باقاعدہ طور پر”عالم“ تصور کئے جاتے ہیں جو آج کے زمانے میں بھی یہ کہتے ہیں کہ زمین ساکن ہے جبکہ اسے حرکت کرتے ہوئے کوئی بھی موبائل کے ذریعے اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے؟کاش ہم ایٹم بم کھائے بغیر ویسے بن سکیں جیسا بننے کے لئے جاپانیوں کو ایٹم بم کھانا پڑا۔
(کالم نگار ایشیائی ترقیاتی بینک کے کنسلٹنٹ
اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain