اکرام سہگل
میرے گزشتہ کالم ’افغان جنگ سے سیکھنے کے کچھ سبق‘ نے پاکستان سے پیدائشی بغض رکھنے والے چند لوگوں کو آگ بگولہ کردیا۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کا تعلق بھارت سے ہے اور ایسے لوگ بھی ہیں جو پاکستان کی فوج اور مجھ سے ذاتی عناد رکھتے ہیں۔ میرے ایک امریکی دوست نے میرے اس کالم پر ایک صاحب کا غم و غصہ پہنچایا اور سوال بھی کیا کہ تم نے آخر ایسا کیا کہہ دیا ہے؟
میرے اس کالم پر چراغ پا ہوکر بددیانتی کا الزام لگانے والوں نے شاید یہ تحریر پڑھی ہی نہیں۔ جہاں ضروری ہو استدلال کے ساتھ تنقید کو میں نے خندہ پیشانی سے سنا ہے ایسا کئی مواقع پر ہوا ہے لیکن مجھ پر جھوٹ بولنے کا الزام بہتان تراشی کے سوا کچھ نہیں۔ مذکورہ صاحب نے مجھ پر الزام عائد کیا ہے کہ میں نے اپنی تحریر میں پاکستان کی ماضی کی تباہ کُن افغان پالیسی کے تذکرے سے گریز کیا ہے۔ پاکستان نے بلا شبہ افغانستان کی صورت حال میں ایک افسوس ناک کردار ادا کیا ہے اور اس کا خمیازہ بھی بھگتا ہے۔ موجودہ حکومت اور فوج نے کئی سب سیکھ لیے اور ماضی کی غلطیاں دہرانے سے بچنے کی کوشش کررہے ہیں۔ میں اپنی گزشتہ تحریروں میں ’اسٹریٹجک ڈیبتھ‘ یا تزویراتی گہرائی کے تصور جیسی غلطیوں کی نشان دہی کرچکا ہوں۔ میں برسوں سے یہ لکھتا آیا ہوں کہ افغانستان ’اسٹریٹجک ڈیپتھ‘ کے بجائے ہمارے لیے مسلسل ’ہیڈ ایک‘ یعنی دردِ سر بنا ہوا ہے۔ انسانوں سے غلطیاں ہوتی ہیں لیکن اہم بات یہ ہے کہ غلطیوں کا ادراک کرتے ہوئے ان سے سبق حاصل کیا جائے۔ تاریخی اور سیکیورٹی اسباب سے فوج مستقبل میں بھی ایک اہم کردار ادا کرتی رہے گی۔ لیکن اب ہم شاید کبھی فوجی حکومت نہیں دیکھیں گے۔ اس پر میں ایک دو نہیں دسیوں بار لکھ چکا ہوں۔ اس میں بھلا کیا شبہہ ہے کہ دنیا تیزی سے تبدیل ہورہی ہے۔ کوئی بے بصیرت ہی ان تبدیلیوں سے انکار کرسکتا ہے۔
افغانستان میں پیدا ہونے والی صورت حال کی ذمے داری پاکستان پر ڈالنا غلط ہوگا۔ ہم نے اپنی غلطیوں کا خمیازہ بھگتا ہے۔ افغانستان میں جاری جنگ کی قیمت ہم نے بھی چکائی ہے جس میں ہمارے چھ ہزار فوجی شہید اور 25ہزار زخمی ہوئے۔ جب کہ ایک لاکھ سے زائد شہری ہلاکتیں اور تین لاکھ افراد کے زخمی ہونے کا نقصان الگ ہے۔ نیٹو اور امریکا پر افغانستان کی زیادہ ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ کھربوں ڈالر افغان جنگ میں جھونکنے کے بعد امریکا کہ نقصانات کم کرنے کے لیے ایسے جنگ زدہ ملک سے فوجوں کی واپسی جو امریکی عوام اور معیشت پر بوجھ بن چکی تھا، صدر بائیڈن کا درست اقدام تھا۔ صدر ٹرمپ پہلے ہی اس کے لیے تاریخ کا تعین کرچکے تھے۔ امریکا نے 2018میں جب دوحہ مذاکرات کا آغاز کیا تھا وہ یہ جنگ اسی وقت ہار چکا تھا۔ 2010میں افشا ہونے والے افغان جنگ کی دستاویزات نے امریکا اور نیٹو افواج کا پول کھول دیا تھا۔ برطانوی اخبار کارجین نے ان دستاویزات کو افغانستان کی جنگ میں شکست کی ہولناک تصویر سے تعبیر کیا تھا۔ گزشتہ ماہ نیشنل سیکیورٹی آرکائیو سے جاری ہونے والی مزید دستاویزات بھی یہی کہانی بیان کرتے ہیں۔
بعض لوگ اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان افغان پالیسی پر امریکا کا دباؤ تسلیم کرنے کے لیے اب بھی تیار ہیں۔ یہ بات ماضی کے لیے درست تھی اور ان ادوار میں امریکا نے بھی بارہا ہمارے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی۔ چین ہمارے گرم و سرد کا دوست رہا ہے اور سی پیک نے اس رشتے کو مزید مضبوط کردیا ہے۔ لیکن یہ یک طرفہ راستہ نہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم کی شکل میں مشترکہ احترام اور دوستی کے اس تصور کو بین الاقوامی سطح پر پھیلانے کے امکانات بھی پیداکیے گئے ہیں۔ حال ہی میں دوشنبہ میں ہونے والی تنظیم کی کانفرنس میں ’شنگھائی اسپرٹ‘ کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔ اس سے مراد باہمی اعتباد، مشترکہ مفادات، مساوات، دو طرفہ مشاورت اور ثقافتی تنوع کا احترام بیان کیا گیا ہے۔ اگر آپ توجہ کے ساتھ گزشتہ چند برسوں کے دوران پاکستانی خارجہ پالیسی کا جائزہ لیں تو پاکستان نے مشترکہ مفادات کی بنیاد پر امریکا سمیت دنیا کے دیگر ملکوں سے اپنی تعلقات استوار کیے ہیں۔ اس تبدیلی سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہم ماضی سے سبق سیکھ رہے ہیں۔
مجھ پر یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ میرے ذہن پر بھارت سوار ہے۔ 1947 سے 1971تک کتنے ہی مواقع پر اس نے کھل کر پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے کردار ادا کیا ہے۔ 1971میں بھارت کا غیر اعلانیہ جنگی قیدی بننے کے بعد میں ان کوششوں کا عینی شاہد ہوں۔ اب ذرا غور کیجیے کہ جنگ شروع ہوئی دسمبر 1971کو اور بھارت نے اپریل ہی سے قیدیوں کے لیے کیمپ تیار کرلیے تھے۔
بھارت نے بلوچستان میں انتشار پھیلانے کے لیے افغانستان کی سرزمین کا استعمال کیا۔ سوویت یونین کی جارحیت کے برسوں میں بھی بھارت ان کے جان و مال کی قیمت پر افغانستان سے ہمارے خلاف محاذ پر سرگرم رہا اور اکیسویں صدی کے آغاز میں جب امریکا نے افغانستان کا رُخ کیا تو بھارت نے یہی کچھ اس کے ساتھ بھی کیا۔ بھارت کو اپنے مفادات سے غرض تھی اور ان جنگوں میں افغانستان کی تباہی ہوتی رہی۔ بھارت میں مسلم مخالف پالیسیوں اور کشمیر میں اس کے ظلم و زیادتی کا تذکرہ کیا بے محل ہوگا۔ بھارت کو دشمن سمجھنے یا کم از کم دوست نہ سمجھنے کی ٹھوس وجوہ ہیں۔ ذاتی تعلقات کی نوعیت الگ ہے اور متعدد بین الاقوامی اداروں میں ساتھ کام کرنے والے کئی بھارتی میرے دوست ہیں۔
مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ بعض لوگ پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر اپنے ’قد بڑا دکھانے‘ کا طعنہ بھی دے رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کو پاکستان سے عناد ہی ہے ورنہ انہیں نظر آنا چاہیے تھا کہ پاکستان نے صرف افغانستان سے متعلق اپنی پالیسی تبدیل نہیں کی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اپنے تعلقات کو درست سمت دینا شروع کی ہے۔ پاکستان سے حسد کی آگ میں جلنے والے ابھی تک ماضی میں جی رہے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ سب کچھ اچھا ہوگیا لیکن بین اقوامی سطح پر پاکستان کے قد اور ’وزن‘ میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ پالیسیوں میں درست اور بروقت تبدیلیوں اور خطے میں پیدا ہونے والی صورت حال نے ہمیں ایک بار پھر توجہ کا مرکز بنا دیا ہے۔ اب کوئی عقل کا اندھا نہ دیکھ پائے تو افسوس کے سوا کیا کیاجاسکتا ہے۔ تاریخ کا دھارا اب ایشیا کی طرف رخ کرچکا ہے۔ اس اہم موڑ پر ٹی ٹی پی کے ہمارے قبائلی علاقوں میں سرگرم ہونے کی کوششیں اور مشرقی بارڈر پر مخاصمت رکھنے والے بھارت کی موجودگی میں ہماری افواج کو چاق چوبند رہنے کی ضرورت ہے۔
مجھے اس میں رتی بھر شبہہ نہیں کہ پاکستان اور دیگر مسلم دنیا میں شدت پسندی کو روکنے لیے اقدامات کی ضرورت مزید بڑھ گئی ہے۔ لیکن بھارت میں بڑھتی ہوئی ہندو انتہا پسندی بھی کم خطرناک نہیں۔ یہ ایسے خطرات ایسے ہیں جو کسی ایک ملک تک محدود نہیں رہیں گے۔ اگر یہ آگ بھڑکنے دی گئی تو دنیا میں کوئی ملک اس کی آگ اور دھوئیں سے محفوظ نہیں رہ پائے گا۔
(فاضل کالم نگار سکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)
٭……٭……٭