تازہ تر ین

سٹرکچرز اور سسٹمز

لیفٹیننٹ جنرل(ر)اشرف سلیم
سیاسی پارٹیاں بیرون ملک سے کسی قسم کی امداد یا فنڈ نہ جمع کر سکیں۔ پاکستان سے باہر سیاسی پارٹیوں کی تنظیم سازی پر مکمل پابندی ہو تاکہ بیرون ملک پاکستانی وہاں پاکستان کی نمائندگی کریں نہ کہ گروپوں میں تقسیم ہو کر سیاسی پارٹیوں کے نمائندہ بن کر آپس میں لڑائی مار کٹائی کے مرتکب ہوں۔ ہمیں بیرون ملک پاکستان کا ایک مشترکہ اور متحدہ عکس پیش کرنے کی ضرورت ہے۔اس طرح بیرون ملک سے سیاسی فنڈنگ بھی ختم ہوگی۔ بیرون ملک سے پاکستانیوں کو سرمایہ بھیجنے کی بینکنگ نظام میں بہترین اور سستی ترین سہولیات دی جائیں۔زندگی بھر میرا تھیسز اورتاثر یہی رہا ہے کہ ووٹنگ کے سسٹم میں بہترین اصلاحات کی جائیں جس میں الیکشن کمشن کے اندر انتظامی استعداد کار بڑھانے کی اصلاحات شامل ہوں الیکشن کمیشن کے ارکان انتظامیہ اور فوج سے ریٹائرڈ تجربہ کار افراد کو لگایا جائے جو صاف اور شفاف الیکشن کو یقینی بنا سکیں۔ زیادہ سے زیادہ اچھی شہرت اور کارکردگی کے اہل سرکاری عملہ الیکشن کمیشن کی مدد کے لئے تعینات کیا جائے اور اگر اس میں کوئی کمی ہو تو مسلح افواج کے افسران اور عملہ ڈیوٹی پر لگایا جا سکتا ہے۔ الیکشن کمیشن کو الیکشن کا عمل مکمل کرنے اورامیدواروں کی جانچ پڑتال کے عمل میں زیادہ وقت دیا جائے اور اس عمل میں اس کو بینکنگ کونسل اور تمام انٹیلیجنس اداروں کا مکمل تعاون حاصل ہو۔ Interum یا عارضی حکومت کا قیام ختم کیا جائے اور جو بھی گورنمنٹ حکومت میں ہو وہ حکومت کا انتظام سنبھالے رکھے مگر اس کو الیکشن کے عمل میں کسی قسم مداخلت کی اجازت نہ ہو۔ الیکشن کمیشن اس بارے میں مزید قانون یا رولز بنا سکتا ہے۔ جیسے سرکاری عملہ کی تبدیلی بند کر دی جائے یہ تبدیلی الیکشن کمیشن کی اجازت سے مشروط کی جا سکتی ہے۔
حکومتی نظام میں اصلاحات میں سب سے ضروری کام عدلیہ میں اصلاحات ہیں جن کا مقصد انصاف کی فوری اور سستے سے سستے طریقے سے فراہمی ممکن بنانا ہو۔ عدلیہ کو ایک سروس قرار دیا جائے جس میں اینٹری entry سول جج لیول سے ہو اور ہر جج مختلف مراحل سے گزر کر ہائر لیول عدلیہ کا تجربہ کار اور ٹیسٹڈ ممبر بنے۔ ہر لیول پر ہر جج کی اہلیت عدلیہ ہی کے اوپر والے جج پرکھیں اور اس پر سالانہ کارکردگی رپورٹ لکھیں۔ بے ضابطگیوں اور مالی معاملات سے متعلق ان پر باقی سرکاری اہلکاروں والے قانون لاگو ہوں۔ ہاں تنخواہوں وغیرہ کے معاملات میں عدلیہ کو ترجیح ہونی چاہئے۔ اور عدلیہ کے تحفظ اور سیکیورٹی بارے خاص انتظامات کئے جائیں تا کہ عدلیہ اپنے فیصلے بلا خوف و خطر کر سکے۔ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججوں کے لئے سپیشل سکروٹنی کا سسٹم بنایا جائے جس میں جج صاحبان کی گزشتہ سروس میں کارکردگی اور ان کی اخلاقی برتری پر زیادہ توجہ دی جائے۔
ملک میں تمام چھوٹی بڑی پارٹیوں کو برابر کے مواقع دینے کے لئے اور تمام ووٹرز کے حقوق کا مکمل تحفظ اور نمائندگی یقینی بنانے کے لئے ملک میں متناسب نمائندگی کا اصول نافذ کیا جائے۔ متناسب نمائندگی پورے ملک کی بنیاد پر نافذہو اور جو پارٹی ڈالے گئے ووٹوں کا جتنا پرسنٹیج یا تناسب حاصل کرے اس کو اس تناسب سے سینٹ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں سیٹیں الاٹ کی جائیں۔ تمام سیاسی جماعتیں الیکشن سے اپنے نمائندگان کی بالّترتیب اور ترجیحی لسٹ الیکشن کمیشن اور ملکی میڈیا میں اعلان کر دیں اور اسی تناسب سے ہر صوبے کو نمائندگی یقینی بناتے ہوئے ایوان بالا ایوان زیریں اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستیں صوبائی بنیاد پر دی جائیں۔ اس پر مزید قوانین اور ضابطے متعلقہ ہاؤس اور ادارے بنا سکتے ہیں۔ مجوزہ سسٹم میں تمام سٹیک ہولڈرز مختلف ایوانوں میں اپنے حاصل کردہ ووٹوں کی بنیاد پر موجود ہوں گے اور قومی سیاست میں بھر پور حصہ لیں گے اور ان ایوانوں کو موثر بنائیں گے اور ان ایوان نمائیندگان کی مدت پوری کرنے میں سب برابر کے حصہ دار ہوں گے۔
کسی بھی حکومت کی کارکردگی کو بہتر بنانے میں ملک میں جاری لا اینڈ آرڈر کا رول بہت ہی ضروری اور کار آمد ہے۔ لا اینڈ آرڈر کو بہتر سے بہتر بنانے میں عدلیہ کے کردار کا اوپر ذکر ہو چکا ہے۔ اس سلسلے کی دوسری اہم ذمہ داری پولیس سسٹم کی ہے پولیس سسٹم کا مناسب اور نہایت ہی موثر ہونا انتہائی اہم ہے۔ پولیس کی خرابی یا کمزور ہونا باقی تمام سسٹمز خاص طور پر عدلیہ کے کردار کو بھی کافی حد تک غیر موثر کر دیتا ہے۔پاکستان میں ملکی سطح پر یکساں اور بہترین پولیس کا نظام لانا نہ صرف عوام کے جان و مال کے تحفظ کے لئے ضروری ہے بلکہ موجودہ دور کے ففتھ جنریشن اور ہاء برڈ وار فیر کے ماحول میں ملکی سلامتی کے لئے انتہائی لازم ہے۔ پرانی طرز کی ڈھیلی ڈھالی اور معمولی تربیت یافتہ پولیس خود اندرونی دشمنوں کا آسان شکار بن جائے گی۔
پولیس کی تنظیم نو اور اس کے ٹریننگ سسٹم کو بہتر بنانے کے لئے اس کو ایف سی اور رینجرو اور باقی سول آرمڈ فورسز میں اس کی انٹگریشن ہونی ضروری ہوگی پولیس کی لیڈرشپ کی ٹریننگ کے لئے تمام پولیس آفیسرز کم از کم چھ ماہ پاکستان ملٹری اکیڈمی میں بنیادی فوجی ٹریننگ لیں۔ اس کے بعد انفینٹری سکول کوئٹہ کے بنیادی ٹیکٹکسز اور ویپن ٹریننگ کے کورسز فوجی افسروں اور سول آرمڈ فورسسز کے عملے کے ساتھ کریں۔ پولیس عملہ کی جسمانی فٹنس پہ بہت زور دینا ہوگا۔ پولیس کی تنظیم ایسی ہو کہ پولیس میں مناسب ریسٹ اور چھٹی کا سسٹم رائیج ہو سکے۔ اسی طرح پولیس کا لاجسٹک یا انصرام و انتظام کا نظام بہت سی بہتری چاہتا ہے۔ living off the land ایک بہت کمزور بندوبست ہے۔ خاص طور پر چھوٹی ٹولیوں یا سنگل پولیس مین کی ڈیوٹی کو اچھے انتظام اور کھانے یا لنگر کے سسٹم یا سیلف کوکنگ کے سسٹم سے منسلک کیا جائے۔ اس سلسلے میں پولیس کی self esteem کو بحال اور بلند کرنا ضروری ہے۔ پروٹوکول اور وی آئی پی سیکیورٹی کے لئے ٹریفک پولیس کی طرح علیحدہ سسٹم بنایا جائے۔
ہمارا سب سے بڑا نفسیاتی قومی رویہ ہے کہ ہم جیسے ہیں ویسے ہی چلتے رہیں اور ہم اپنی موجودہ حالت میں مست رہنا چاہتے ہیں ہم ملک سے زیادہ صوبوں کو اہمیت دینے لگ گئے ہیں اسی لئے ہم نے کوئی اور صوبہ بننے ہی نہیں دیا حالانکہ ہمارے موجودہ صوبے غیر موثر اور تقریباً dysfunctional ہو چکے ہیں۔عوام مسائل کے انبار میں پس رہے ہیں حکمران اور سرکاری مشینری اپنے آپ کو عوام کے مسائل سے بالا تر رکھے ہوئے ہے اور کسی ریفارم کو اپنے مفادات کے مخالف گردانتی ہے۔ آئین میں ایسی ترامیم جو مرکز کو انتہائی کمزور اور صوبوں میں کیپیسٹی (capacity)نہ ہونے کے باوجود بھی ان کو اختیارات دئے گئے اور زیادہ وسائل دئے گئے جس سے ترقئی معکوس اور وسائل کے ناجائز استعمال کو فروغ ملا۔ ملکی سطح پر پالیسی کوآرڈینیشن (coordination)کمزور اور غیر موثر ہوئی۔ مرکز گریز رجحانات کو بھی فروغ ملا۔
ڈ۔ پاکستان کا ایک بہت بڑا مسلہ ہے ٹیکس نادہندگی اور ایف بی آر کی کم استعداد۔ در اصل ملک میں ہر شخص ٹیکس دہندہ ہو خواہ اس کی روزانہ آمدنی سو یا پانچ سو روپئے ہو مگر اس کے لئے ٹیکس کی شرح صرف ایک فیصد ہو یعنی سو روپئے آمدنی والا ایک روپیہ ٹیکس دے اور جیسے جیسے آمدنی بڑھے ٹیکس شرح بتدریج بڑھے لیکن کسی بھی صورت ٹیکس دہندہ کی معقول ٹیکس ادا کرنے کی حد سے اوپر نہ ہو۔ اس کے لئے ایک نہایت سادہ اور قابل فہم ایک صفحے کا فارم ہر شخص بھرے اور کسی بھی بنک میں جمع کر اسکے۔ایف بی آر صرف صنعتی اداروں اور کارپوریٹ ٹیکس جمع کرے یا امپورٹ ڈیوٹیز کا حساب رکھے۔ ضلع اور اس سے نچلی سطح پر ٹیکس جمع کرنے کا سسٹم ضلعی حکومتوں کا حصہ اور ذمہ داری ہو۔پاکستان میں پہلے ہی ودہولڈنگ ٹیکس سسٹم بہت وسیع ہے جس کی موجودگی میں ایف بی آر کا کردار بہت کم رہ جاتا ہے اور اسی طرح ان کے اختیارات کو درست کرنا ضروری ہے تاکہ اس پورے نظام سے کرپشن کا خاتمہ کیا جا سکے۔
احساس اور بینظیر اِنکم سپورٹ سسٹم کو 65 سال کی عمر سے منسلک کیا جائے اور اس سے کم عمر کی ہر قسم کی امداد کو ٹیکنیکل ٹریننگ سے منسلک کیا جائے اور یہ ٹائم بانڈ ہو۔ اگر ٹریننگ چھ ماہ یا ایک سال کی ہو تو کفالتی رقم اور ٹریننگ کے اخراجات دئے جائیں اور ٹریننگ مکمل ہونے پر اپنا کام کرنے کے لئے مقررہ رقم دی جا سکتی ہے یا کہیں ملازمت کا موقعہ فراہم کیا جائے۔ اس کے علاوہ حکومتی پیسہ صرف ترقیاتی مد میں خرچ کیا جائے۔
اوپر صرف چند تجاویز دی گئی ہیں جن پر عمل کرکے پاکستان اپنے موجودہ گورنینس اور اقتصادی بحران جو کہ دراصل مجموعہ ہے اور بہت سارے ذیلی بحرانوں پر کسی حد تک قابو پا سکتا ہے۔ ہماری مشکل یہ ہے کہ:
تن ہمہ داغ داغ است پنبہ کجا کجا نہم
لیکن سوائے بڑی تبدیلی بلکہ تبدیلیاں لانے کے اور کوئی چار کار نہیں اور یہ تبدیلیاں ایک مربوط اور منظم طریقے سے لانے کے لئے تمام اداروں کا آپس میں تعاون بہت ضروری ہے جس میں سیاسی پارٹیاں بھی شامل ہیں وہ بھی اپنے آپ کو موجودہ دور کے نئے تقاضوں سے ہم آہنگ کریں: صرف توازن نہیں بلکہ متحرک توازن چاہئے جسے (dynamic homeostasis) بھی کہا جاتا ہے۔ ان تجاویز پر عمل مشکل ہو گا جس کی بڑی وجہ مروجہ نظام سے برتر قوتوں کا مفاد ہے۔ جتنا شدید جس طبقے کا مفاد ہے اتنی ہی شدت سے وہ طبقات تبدیلی کی مخالفت کرتے نظر آئیں گے۔ فیصلہ عوام نے کرنا ہے کہ ان ظالم اور مفاد پرست طبقوں سے نجات حاصل کرنی ہے یا ہم زنجیروں میں جکڑے رہنے کے عادی ہو گئے ہیں۔
بدلنا ہے تو مئے بدلو طریق مئے کشی بدلو
وگرنہ ساغر و مینا بدل دینے سے کیا ہو گا
تبدیل نہیں ہونگے تو ہم جیسے ہیں اس سے بھی بڑی پستی کا شکار ہو جائیں گے۔ خدانخواستہ
(کالم نگار ہلال ملٹری امتیازاورسابق ہائی کمشنر ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain