تازہ تر ین

خبریں۔مزاحمتی صحافت کا معمارِ اعظم

شفقت حسین
26 ستمبر 1992 کے روز سعید جنم لینے والا پاکستان میں مزاحمتی صحافت کے معیار جناب ضیا شاہد کابرین چائلڈ اپنی زندگی کی 29 خوبصورت بہاریں انجوائے کر کے تیسویں برس میں قدم رکھ رہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ صحافتی بلوغت اور اپنے عنفوانِ شباب کے بعد میچورٹی اور پختگی کے عہد اور زمانے میں جارہا ہے۔ اس دلنشیں اور شاندار موقعے پر ایک مخلص‘ اور محنتی اور ایماندار کارکن اپنے ادارے کی مزید دن دگنی رات چوگنی ترقی اور کامیابی کی دعا کے ساتھ اس کے مالکان کو بھی پھلتے پھولتے دیکھنے کا آرزو مند ہے۔ اگرچہ”خبریں“کے آغاز سے زیر نظر سطور قلمبند کئے جانے تک کا 29 برسوں پر پھیلا ہوا عرصہ یوں لگتا ہے جیسے پلک جھپکتے گزر گیا لیکن سچی بات ہے کہ ان گزرے دنوں‘ مہینوں اور سالوں میں ایسے ایسے کارہائے نمایاں ہیں کہ محض انہی پر بحث و گفتگو کر نے کے لئے بھی اسی قدر عرصہ درکار ہے لیکن پھر کہوں تو مبالغہ نہیں ہوگا کہ سچی بات ہے یہ واقعات اس قدر حیرت زدہ کر دینے والے ہیں کہ آج کے کلاشنکوف کلچر اور بااثر اور مقتدر طبقات کے گرداگرد حفاظتی حصار قائم کرنے کے جنون اور ان کے ساتھ جتھوں کے جتھے ہونے کے باوجود جناب ضیاء شاہد نے ایک عامل صحافی کو ان کے سامنے جرأت کے ساتھ کھڑا ہونا اور اپنی بات اور موقف پر ڈٹے رہنا بلکہ ظالم سے ظالم ترین حکمران کے سامنے بھی کلمہئ حق بلند کرنے کا قرینہ سکھا دیاہے۔
اخبارات کے بزرگ اور اس وقت ستّر بہتّر سالہ قارئین کو بخوبی علم ہے کہ ماضی میں صحافت میں خبر کی بنیاد چھ کاف (6 ک) ہوا کرتے تھے۔ یعنی کسی واقعہ یا سانحے کے وقوع پذیر ہونے کے بعد قاری کو یہ بتانا مقصدِ اولیٰ ہوتا تھا کہ 1۔ واقعہ کہاں ہوا، 2۔ واقعہ کب ہوا، 3 ۔ واقعہ کس سے سرزد ہوا 4۔ واقعہ کس کے ساتھ پیش آیا5۔ واقعہ کیونکر رونما ہواور نمبر6۔ واقعے کے محرکات کیا تھے۔ خبر بناتے وقت رپورٹرمذکورہ چھ کاف پر کام کر کے قلم و قرطاس کو ہاتھ لگاتا تھا۔ بعد ازاں صحافت پر ابتلا کا ایسا وقت بھی آیاکہ صحافی کوئی رپورٹ یا خبر بناتے وقت ”انہوں نے کہا“ انہوں نے فرمایا، آپ نے آگے چل کر یہ کہا ”ان کا کہنا تھا“ تک محدود ہو گیا یعنی تحقیقاتی صحافت بیک برنر پر چلی گئی اور پبلک ریلشننگ قسم کی صحافت نے عروج پکڑنا شروع کر دیا۔ اس سے قلم قبیلے سے وابستہ ار باب سخن کے چولہے تو گرم ہونے لگے، ان کے گھروں میں لالٹین اورمٹی کے دئیے کی ٹمٹماتی لَو کی جگہ برقی قمقموں نے حاصل کر لی لیکن درحقیقت وہ صحافت جسے دانا و بینا لوگ پیشہ پیغمبری سے تعبیر کیا کرتے تھے اس سے مذکورہ صحافت کو زبردست زک پہنچی بلکہ بڑا گہرا دھچکا لگا۔ لہذٰا اس کلچر کو توڑنے اور صحافت اور اہل صحافت کو ان کا اصل مقام دلوانے اوراس کی عظمت رفتہ کو بحال کرنے کی غرض سے جناب ضیا شاہد نے ”خبریں“کے اجرا کا جرأت مندانہ فیصلہ کیا اور ان حالات میں کیا جب ایسا قدم اٹھانے سے پہلے ایک دوبار نہیں سو بار بھی نہیں بلکہ بار بار سوچنے کی ضرورت تھی۔ اس وقت جنگ گروپ آف نیوز پیپرز‘ نوائے وقت پبلی کیشنز‘ ڈان گروپ (اور خود ضیا شاہد صاحب کے ہاتھوں لگایا جانے والا پودا ”پاکستان“ بھی اپنے پر پُرزے نکال چکا تھا)۔ یعنی اول الذّکر تین بڑے میڈیا ہاؤسز کی موجودگی میں کسی باقاعدہ چوتھے اخبار کے لئے نہ جگہ تھی نہ گنجائش اور نہ ہی جناب ضیا شاہد کی پشت پر کسی سرمایہ دار کا ہاتھ۔ صرف تھا تو اپنے خدائے بزرگ و برتر پر یقینِ کامل اور اس کی ذات بابرکات سے وابستہ امید واثق۔
آج وقت نے ثابت کیا ہے کہ چیف صاحب کا فیصلہ بڑا دانشمندانہ‘ جرأت مندانہ اور دلیرانہ تھا۔ میں یہ تو نہیں کہتا کہ ”خبریں“ نکال کر سونے کا چمچ لے کر پیدا ہونے والے اہل صحافت کے جناب چیف صاحب نے دانت کھٹے کر دئیے لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ ”خبریں“کے اجراسے ملک میں بڑی بڑی صحافتی ایمپائرز میں زلزلے کے جھٹکے ضرور محسوس کئے گئے۔ کیونکہ چیف صاحب نے ”وہ آیا اس نے دیکھا اور فتح کر لیا“ جیسی کہاوت سچ ثابت کر کے اس پر مُہرِ تصدیق ثبت کر دی تھی۔ اور متھا بھی ایسے ایسے طُرّم خانوں اور پھنّے خانوں سے لگایا جن کے سامنے سانس لینے کے لئے ان کی آشیر باد مطلوب سمجھی جاتی تھی اور بات کرنے سے پہلے ”جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں“ جیسے الفاظ کا سہارا لینا پڑتا تھا۔ لیکن جناب ضیا شاہد کاجرأتمندانہ انداز انہیں اپنے ہمعصر صحافیوں اور”خبریں“کو ملک کے دیگر معاصر کے مقابلے پر ممیز و ممتاز بناگیا۔ ثانیاً جناب ضیا شاہد کی کامیابی کا ایک اہم راز ان کا انتھک ہونااور کام سے جی نہ چرانا بھی تھا۔ انہوں ے تو نوکری بھی کی‘ تو گھڑی کی سوئیوں کو نظر اندازکر کے اور جب اپنا ادارہ قائم کیا تو گھڑیاں ویسے ہی توڑ کر رکھ دیں کہ اس سے وقت کے آگے سے آگے نکلنے کی آوازیں آتی تھیں جبکہ وہ تو”خبریں“ کو آگے سے آگے اور مزید آگے لے جانے کے آرزو مند تھے۔ میں چونکہ سال 2010 سے”خبریں“کے کبھی فورم انچارج اور کبھی ایڈیٹوریل ہیڈ کے طور پر وابستہ چلا آرہا ہوں۔ درمیان میں کبھی چلے گئے کبھی پھر آگئے لیکن جب بھی آنا چاہا”خبریں“ کے دروازے کھلے نظر آئے اور یہ صرف راقم تک ہی خاص نہیں بلکہ جناب ضیا شاہد اور اب محترم امتنان شاہد کسی نے بھی اپنے معمولی سے معمولی ورکر پر بھی خبریں کے دروازے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کبھی بند نہیں کئے۔ مجھے مسلسل آٹھ آٹھ دس دس گھنٹے براہِ راست چیف صاحب کے ساتھ کام کرنے کے مواقع اکثر میّسر آئے اس دوران میں نہ تو مجھے ان کی آنکھوں میں رتجگوں کی تھکن نظر آئی اور نہ ہی میں نے انہیں دن بدن گرتی ہوئی صحت کے حوالے سے آزردہ پایا۔ایک دن کام کرتے کرتے چائے کے دوران میں نے ان سے پوچھا‘ چیف صاحب جو بڑے لائٹ موڈ میں تھے میں نے خبریں کے اجرا اور غرض و غائت سے متعلق استفسار کیا۔ قارئین کرام! یقین جانئے میری خوشگوار حیرت کی انتہا نہ رہی جب انہوں نے کہا کہ میں نے”خبریں“دیگر لوگوں“ کے لئے نکالا تھا۔ فوری طور پر میں سمجھ نہ سکا لیکن پھر خود ہی کہنے لگے کہ جب کسی کی اخبار میں ”خبریں“ چھپتی ہیں تصاویر شائع ہوتی ہیں تو خاص خاص لوگوں کے نام اور ان کے مناصب بڑے تزک و احتشام اور اہتمام کے ساتھ شائع کئے جاتے ہیں لیکن جن دوستوں کا معاشرتی مقام نسبتاَ کم ہوتا ہے نہ تو ان کے نام شائع ہوتے ہیں اور نہ ہی تو ان کے منصب لکھنا گوارہ کیا جاتا ہے ان غیر معروف لوگوں کو ”دیگر“ لکھ کر ان کی توہین کی جاتی ہے۔ اس کلچر کو توڑنے کے لئے میں نے ”خبریں“ نکالا یعنی ان کی نظر میں اعلیٰ و ارفع اور ”دیگر“ سب برابر تھے۔ جناب ضیا شاہد کی صحافت پر اچٹتی سی نظر بھی ڈالیں تو ہمیں جہد مسلسل نظر آتی ہے۔ خبریں کی ترقی کے حوالے سے ان کے سر میں سمایا ہوا سودا اور ارادہ بدرجہئ اتم ملتا ہے۔ شاید علامہ اقبال نے انہی جیسے شوریدہ سروں کے لئے کہا تھا کہ
اتنی مشکل بھی نہیں دشتِ وفا کی تسخیر
دل میں سودا بھی تو ہو دل میں ارادہ بھی تو ہو
یا پھر بقول معروف پنجابی شاعر بابا نجمی
بے ہمتے نیں جیہڑے بہہ کے شکوہ کرن مقدراں دا
اُگن والے اُگ پیندے نیں سینہ پاڑ کے پتھراں دا
جناب ضیا شاہد نہ تو بے ہمتے تھے اور نہ ہی دشتِ وفا کی تسخیر کے حوالے سے کمزور۔ وہ طاقتور تھے جو طاقتوروں سے ٹکراتے وقت گھبراہٹ کا شکار نہیں ہوتے تھے۔ جب وہ ”میرا دوست نواز شریف“ لکھ رہے تھے تو بڑی دلچسپ باتیں بتایا کرتے تھے۔ میں نے کبھی ان کے قلم کی نوک پر تعصب یا ناپسندیدگی نہیں دیکھی۔ جس بے خوفی سے انہوں نے یہ کتاب لکھی واقعی ان کی جرأت پر دلالت کرتی ہے۔ جس قدر کھل کر لکھا کوئی ایسا شخص لکھ ہی نہیں سکتا اگر ذرّہ برابر بھی ان سے فائدہ حاصل کیا ہو۔ انہوں نے مجھے ایک بار بتایا کہ میں نے میاں نواز شریف سے آخری ملاقات میں خداحافظ کہا اور 18 سال گزر جانے کے باوجود ان سے ملنا تو درکنار بات بھی نہیں کی۔ ضیا صاحب کا کہنا تھا کہ میں میاں نوازشریف کو واقعی پسند کرتا تھا لیکن ان کی شہنشاہی اور مغلیائی سوچ سے غیر متفق ان کے مخلص دوست بتدریج ان سے دور ہوتے چلے گئے۔
قارئین کرام! آج ضیا شاہد صاحب ہم میں موجود نہیں لیکن ان کے لگائے ہوئے شجر سایہ دار ”خبریں“، چینل ۵سندھی اخبار خبرون اور پنجابی زبان کا معروف روزنامہ”خبراں“حبس کے موسم میں ہوا بانٹ رہے ہیں ہمیں ضیا شاہد صاحب کے ہاتھوں کا ہُنر یادرہے گا۔ اس ہُنر میں ان کے صاحبزادے جناب امتنان شاہد بھی یکتائے روزگار ہیں جو ”خبریں“کی 29ویں سالگرہ کے موقع پر ملک کے 9 ویں شہر بہاولپور سے بھی یکم اکتوبر 2021 سے خبریں کا آغاز کرچکے ہیں۔ خدا کرے ان کی توفیقات میں اضافہ ہو اور ادارہ دن دگنی رات چوگنی ترقی کرے۔ کہ اسی میں ہم سب کا بھلا ہے۔ جناب امتنان شاہد ذہین بھی ہیں اورباہمت بھی اور پُر عزم بھی۔ اللہ پاک ان کے جذبوں کو سلامت رکھے۔
میں یہ بات بھی واضح کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ گزرے برسوں میں ”خبریں“ گروپ آف نیوز پیپرز کے خلاف کئی محاذ بھی بنے۔ ملا کھڑے بھی ہوئے لیکن الحمد للہ کسی مخالف کی بیل منڈھے نہ چڑھ سکی اور ہر بار مخالفین کو منہ کی کھانی پڑی اور وجہ صرف اور صرف جناب ضیا شاہد اور محترم امتنان شاہد کی صحافتی اقدار اور روایات سے گہری‘ سچی اور والہانہ وابستگی ہے۔
جناب ضیا شاہد کو لفافہ جرنلزم کے موجد کا ”اعزاز“ عطا کرنے والے ذرا اپنے گریبانوں میں بھی جھانک لیں کہ جس جرأت سے ”میرا دوست نواز شریف“ ”پاکستان کے خلاف سازش“اور ”باتیں سیاستدانوں کی“ لکھی گئیں کیا ایسی کتابیں اُس جرأت اور دلیری سے ایسا صحافی لکھ سکتا ہے جس نے حکمرانوں اور لفافے بانٹنے والوں سے کچھ لیا ہو؟
(کالم نگار سیاسی‘سماجی اورمعاشرتی موضوعات پرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain