میجرجنرل(ر) زاہدمبشرشیخ
70ء کی دہائی سے ہم نے ایک نوجوان اور بیباک صحافی کا نام سننا شروع کیا۔ ضیا شاہد کا نام کبھی اردو ڈائجسٹ میں نظر آیا اور کبھی مشہور صحافیوں میں شمار ہونے لگا تھا۔ پھر انہوں نے اپنا پرچہ ہفت روزہ ”کہانی“ کے نام سے شائع کرنا شروع کیا۔ ”کہانی“ کے بعد انہوں نے ہفت روزہ صحافت کا اجراء کیا۔ اس ہفت روزہ کا ایک سادہ سا دفتر ایک کوٹھی کے گیراج میں چوبرجی کے قریب واقع تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہفت روزہ صحافت ایک مقبول ہفت روزہ بن گیا۔ پھر اچانک ہی یہ ہفت روزہ ایک مقبول عام روزنامہ میں تبدیل ہوگیا۔ اس زمانے میں لاہور میں کافی روزنامے موجود تھے لیکن جو چیز روزنامہ صحافت کو دوسروں سے ممتاز کرتی تھی وہ عوامی دلچسپی کے موضوعات تھے۔ روزنامہ صحافت سرکاری محکموں کیلئے بھی ایک محتسب کا کردار ادا کرتا تھا۔ رشوت خور افسر اور وزیر روزنامہ صحافت سے خوف کھاتے تھے اور جن بے کس عوام کی کہیں شنوائی نہیں ہوتی تھی وہ جناب ضیا شاہد کا دروازہ کھٹکھٹاتے تھے انصاف کے طلبگار ہوتے تھے۔
وقت نے ایک اور کروٹ لی اور روزنامہ خبریں کا اجراء 26ستمبر 1992ء کو لاہور سے کیا گیا۔ کچھ عرصے بعد روزنامہ صحافت کی ادارت خوشنود علی خان صاحؓ کے حصے میں آئی اور جناب ضیا شاہد نے اپنی زندگی روزنامہ خبریں کیلئے وقف کردی۔ اس کے بعد ضیا شاہد صاحب نے پیچھے ہٹ کر نہیں دیکھا۔ روزنامہ خبریں ترقی کی منزلیں طے کرتا گیا۔ ترقی کے اس سفر میں ان کے شریک زندگی محترمہ یاسمین شاہد صاحبہ نے بھی ان کا خوب ساتھ دیا۔ وہ خود بھی ایک جیّد صحافی ہیں۔ وہ ضیا شاہد صاحب کیلئے ایک آئیڈیل شریک حیات ثابت ہوئیں۔ انہوں نے نہ صرف ان کی پیشہ ورانہ زندگی میں ان کا ہاتھ بٹایا بلکہ ان کی اولاد کی تعلیم وتربیت بھی نہایت احسن طریقے سے کی۔ جناب ضیا شاہد کی قیادت میں روزنامہ خبریں پاکستان کے مقبول ترین اخبارات میں سے ایک ہے۔
آج روزنامہ خبریں پاکستان کے آٹھ بڑے شہروں سے شائع ہوتا ہورہا ہے۔ روزنامہ خبریں اب ایک مضبوط ادارے کی حیثیت حاصل کر چکا ہے۔ اسی ادارے کے زیر نگرانی دوپہر کا اخبار ”نیا اخبار“ بھی شائع ہوتا ہے۔ پنجابی روزنامہ ”خبراں ِِ بھی اس ادارے کا اخبار ہے۔ سندھی روزنامہ ”خبرون“ سندھ کے صوبے میں اس ادارے کی نمائندگی کرتا ہے۔ اسی ادارے نے ٹی وی ”چینل ۵“ کا اجراء بھی کیاجو آج کل ایک مقبول ٹی وی چینل ہے۔
ریٹائرمنٹ کے بعد میں نے اخبار میں کالم لکھنا شروع کیا تو روزنامہ خبریں سے رابطہ کیا۔ ادھر میں ایک طویل عرصے تک خبریں لکھتا رہا۔ اس دوران جناب ضیا شاہد سے ملاقات کا شرف بھی بارہا حاصل ہوا۔ میں نے ضیا شاہد صاحب کو ایک محب وطن پاکستانی اور ایک صاحب علم شخصیت پایا۔ ان کی سب سے زیادہ وابستگی پاکستان کے کے ساتھ تھی اور اس کے بعد جمہوریت کے ساتھ۔ وہ پاکستان اور جمہوریت ہر قربانی کیلئے تیار رہتے تھے۔ اپنے ہونہار بیٹے عدنان شاہد کی جواں سال موت نے انہیں گہرا صدمہ دیا اور اس کے بعد ان کی صحت گرتی چلی گئی۔
اس بڑے میڈیا گروپ کی عنان اب ان کے دوسرے بیٹے امتنان شاہد کے ہاتھ ہے۔ امتنان شاہد اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ایک بڑے ماں باپ کے تربیت یافتہ ہیں۔ اپنے عظیم والد کی وفات کے بعد امتنان شاہد نے جس طرح اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان کے کام کو آگے بڑھایا ہے وہ قابل تحسین ہے۔ وہ اسلام‘ پاکستان اور جمہوریت کا علم لے کر آگے بڑھ رہے ہیں۔ یکم اکتوبر سے9ویں شہر بہاولپور سے روزنامہ خبریں کی اشاعت کا آغاز ہوچکا ہے۔ اس موقع پر وہ مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے آپ کو جناب ضیا شاہد کا صحیح جانشین ثابت کردیا ہے۔ روزنامہ خبریں کی تمام ٹیم کو دی مبارکباد۔
(کالم نگاریوکرائن میں پاکستان کے سابق سفیر ہیں)
٭……٭……٭