عبدالباسط خان
اتوار کا دن سکون اور آرام کا دن ہوتا ہے گھر میں ہو تو بچوں پوتے اور پوتیوں، نواسے اور نواسیوں سے گفت و شنید ہوتی ہے۔ دل میں راحت محسوس ہوتی ہے اور اپنے بچپن کی یادیں تازہ ہوتی ہیں گھر سے باہر نکلیں تو سڑکوں پر بہت سکون ہوتا ہے لوگ مارکیٹوں میں چنے نان اور نہاریوں کے لئے لائن لگائے ہوتے ہیں۔ غرضیکہ غریب ریڑھی والے یا دوکان والے کے چہرے مسرت اور شادمانی سے سرشار نظر آتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو رزقِ حلال کماتے ہیں رات کو پکوان لوگوں کیلئے تیار کرتے ہیں اور صبح صبح لوگوں کو چنے، حلیم، نہاری جیسے مزیدار کھانے بنا کر دیتے ہیں اور ایک قلیل سی رقم منافع میں حاصل کر کے خوش اور شادمان رہتے ہیں وہ لوگوں کو خوش کرتے ہیں اور خود بھی خوش ہوتے ہیں اور پھر یہ غریب لوگ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں لیکن کیا صرف غریبوں کے لئے اتنا ہی کافی ہے کیا ان کا دل نہیں کرتا کہ وہ اپنے بچوں کو گرمیوں کی چھٹیوں میں مری کی سیر کرائیں کیا ان کا دل نہیں کرتا کہ ان کا اپنا گھر ہو اور ان کے بچے انگلش میڈیم سکولوں میں جا کر تعلیم حاصل کریں کیا وہ نہیں چاہتے کہ کم از کم ہفتے میں ایک دن گوشت پکائیں کیا ان کا دل نہیں چاہتا کہ ان کے بچے اچھے کپڑے پہنیں کیا ان کا دل نہیں چاہتا کہ ان کی بیٹیاں اچھے گھروں میں بیاہی جائیں یقینا ان کا دل چاہتا ہے مگر موجودہ مہنگائی نے ان کے تمام خواب چکنا چور کر دیئے ہیں ابھی یہ ذکر میں صرف غریب ترین طبقے کا کر رہا ہوں اگر متوسط طبقے یا تنخواہ دار طبقے کی بات کریں تو وہ بھی اس ہوشربا مہنگائی سے بہت تنگ نظر آرہے ہیں حالات بہتری کی طرف نہیں جا رہے اور نہ ہی امید ہے کہ مستقبل قریب میں ہماری عوام کے مسائل حل ہوں گے کیونکہ ہمارے ملک کے سیاستدان جو لوگوں سے ووٹ حاصل کر کے پارلیمنٹ میں جاتے ہیں وہ اچھے اچھے مہنگے مہنگے ہوٹلوں میں کھانے اور پارٹیاں کھاتے ہیں بیرون ملک کی سیر کو نکل جاتے ہیں باہر کے ملکوں میں ان کے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں وہاں ان کے شاندار بنگلے اور گھر موجود ہوتے ہیں وہ عوام کی صرف فرضی محبت میں گرفتار ہوتے ہیں واجبی سے انداز میں میڈیا کے سامنے بولتے ہیں کہ غریبوں کا جینا دوبھر ہو گیا ہے۔ غریبوں کو دووقت کی روٹی میسر نہیں ہوتی وغیرہ وغیرہ جب ان محلوں اور شاندار بنگلوں میں رہنے والے لوگوں سے یہ گفتگو میڈیا میں دیکھتے ہیں تو ہم لوگ دانتوں میں انگلیاں دبا لیتے ہیں کیا واقعی ان کو اس عوام کے دکھ درد کا احساس ہے جن سے ووٹ لینے کے لئے یہ منت سماجت اور التجائیں کرتے تھے۔
گرانی کا درد یا پریشانی صرف ایک غریب ہی سمجھ سکتا ہے کیونکہ وہ خود اس چکی میں پس رہا ہوتا ہے وگرنہ یہ خوش شکل خوش پوش پراڈو اور لینڈ کروزر میں پھرنے والے غربت، تنگدستی، بیماری، افلاس جہالت کی اندرونی کہانیوں سے واقفیت یا ادراک ہرگز نہیں رکھ سکتے یہ ان کے ڈی این اے میں بھی نہیں ہوتی ہے وگرنہ پاکستانی بخوبی واقف ہیں کہ کرونا جیسی موذی بیماری جس نے پوری دنیا کے بازار، ہوئی اڈے، ریسٹورنٹ، ہوٹل، دکانیں، مالز بند کروا دیئے تھے ہمارے ان بڑے صنعت کاروں، بزنس ٹائیکون، سرمایہ داروں، اربوں ڈالرز کے گھر بیرون ملک بنانے والوں نے پاکستان کی عوام کو کیا دیا صرف حکومت پر تنقید بازار کیوں بند کر دیئے یا بازار کیوں بند کریں کیا کسی ایک سیاست دان نے اپنے حلقے میں ہی لوگوں کے کرونا ٹیسٹ فری کروائے کیا کسی بڑے بینک کے سربراہ نے اپنے ملازمین کیلئے ویکسین کی دستیابی ممکن بنائی؟
کیا کسی بڑے سے بڑے سرمایہ دار نے لوگوں میں پیسے تقسیم کئے جن کی دیہاڑی نہیں لگی؟ بالکل نہیں۔ اب ذرا سیاستدانوں کی طرف آ جائیں ہر پارٹی میں رئیس ابن رئیس، بڑے بڑے سرمایہ دار جاگیردار صنعتکار موجود ہیں مگر کسی نے بھی حکومت کو پیشکش نہیں کی کہ ہم احساس پروگرام میں اپنا حصہ ڈالنا چاہتے ہیں ہم ایک لاکھ یا دو لاکھ ویکسین لوگوں کے لئے فری دینا چاہتے ہیں قوموں کے مزاج اوران کی عظمت بڑائی کا اندازہ اس وقت ہی لگتا ہے جب کوئی آفت مصیبت سیلاب، زلزلہ یا وبائی امراض وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ ہمارے پڑوسی ملک ہندوستان میں فلمی اداکاروں سے لے کر ٹاٹا، برلا مکیش امبانی نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اپنے اپنے ملازمین کیلئے کرونا ٹیسٹ ویکسین سے لے کر فوت ہو جانے والوں کے بچوں کی تاحیات نوکریوں کا بندوبست کیا لیکن ہمارے ملک میں امیر آدمی یہ سوچتا رہ گیا کہ شائد اگر اس نے غریب آدمی کیلئے چندہ دے دیا تو وہ غریب ہو جائے گا ہم لوگ من حیث القوم بے حس، ذہنی طور پر دیوالیہ اور موت کوبھول چکے ہیں موت کا خوف عارضی طور پر اس وقت آتا ہے جب قبرستان میں تدفین کیلئے جاتے ہیں ہم لوگ برائی کرنے نکتہ چینی کرنے دوسروں کو تہ تیغ کرنے، اجاڑنے بے بس کرنے میں پیش پیش اور نیکی کرنے ہاتھ پھیلانے والے کو اور فلاح عامہ کے کاموں میں ہاتھ بٹانے چندہ دینے خاص طور پر ایسے نادار اور غریب دیہاڑی دار طبقے کی مدد کرنے میں سب سے پیچھے ہوتے ہیں۔ کوئی مجھ سے سوال ضرور کرے گا کہ یہ کام تو حکومت کے ہوتے ہیں تومیں کہتا ہوں کہ حکومت کے پاس ہے کیا جو وہ عوام کو دے سکتی ہے۔ حکومت رات دن یہ راگ الاپتی ہے کہ ہم تو صرف ماضی کی حکومتوں کے قرضوں کا سود ہی ادا کر رہے ہیں ٹیکس وصولی کا حال ہم سب بخوبی جانتے ہیں اس ملک کے تمام بڑے بڑے شہروں میں اگر آپ لوگوں کے طرز بودو باش کا اندازہ لگائیں تو آپ عرب ممالک کے شہزادوں کو بھول جائیں۔ افسروں کے گھروں میں بیرون ملک کی تمام اشیا اس طرح موجود ہیں جس طرح غریب آدمی کو کھانے کے لئے بھنے چنے یا سوکھی روٹیاں۔ بزنس مین طبقہ ہر وقت حکومت سے مراعات کا متلاشی رہتاہے ٹیکس ایمنسٹی اسکیموں سمیت ٹیکس ربیڈ، ریفنڈ، پرچیز ان کی دسترس میں ہے کیونکہ ان کے ہی چہیتے دوست حکومت میں موجود ہیں لیکن ایکسپورٹ میں اضافہ واجبی سا بڑے بڑے بزنس مین کارخانے والے بجلی چوری میں پیش پیش ہوتے ہیں۔گھرتو چھوڑیں گاؤں کے گاؤں، بجلی چوری سینہ تان کر کرتے ہیں مجاز ہے کہ بجلی میٹر چیک کرنے والا وہاں داخل ہو لہٰذا ان کی چوری جس سے گردشی قرضوں میں اضافہ ہوتا ہے کا سارا ملبہ غریب لوگوں پر پڑ جاتا ہے غریب کرے تو کیا کرے۔ غریب آدمی اپنے بجلی کے بل کی قسطیں کروانے کیلئے دربدر پھر رہا ہوتاہے دو تین مرلے کے مکان میں رہنے والے بے چارے پچاس ہزار سے لے کر ایک لاکھ کا بل لئے وفاقی محتسب کی عدالت میں XEN اور SDO کے دروازے پر سارا دن گزار دیتے ہیں۔ یہ حکومت آئی تو کہا گیا کہ گردشی قرضے ختم کر دیئے جائیں گے مگر یہ نہ ہو سکا کیونکہ اس معاشرے میں مافیاز لاتعداد میں موجود ہیں۔ بجلی چوروں کے گارڈین اور محافظ۔ ہمارے ملک میں بیوروکریٹس سے لے کر وزراء اور حکومتی پارلیمنٹرین سب برابر کے شریک ہیں غریب کریں تو کیا کریں۔
لوگ بل ادا کریں یا کھانا کھائیں یا بیماری کا بل ادا کریں، ڈاکٹر کی فیس وہ نہیں دے سکتے اور ڈاکٹر بھی ملے تو وہ بھی گزارا لائق امیروں کے لئے بڑے بڑے پرائیویٹ ہسپتال بڑے بڑے ڈاکٹر ہر قسم کی مشینیں دستیاب مگر غریب بیچارہ کہاں جائے اگر وہ کلرک ہے یا عام سا ملازم تو پھر وہ رشوت نہ لے تو کیا کرے اور اگر رشوت میں پکڑا جائے تو پھر اس کی ضمانت میں گھر کے زیور بیچنے پڑ جاتے ہیں۔ رہ سہ کر ایک آٹا تھا جس کو پکا کر غریب آدمی دو وقت کی روٹی پیاز کے ساتھ کھا لیتا تھا مگر اب آٹا بھی اس کی دسترس سے باہرہے۔ وہ ملک جو زرعی ملک ہے اور اب لاکھوں ٹن گندم باہر سے امپورٹ کر رہا ہے غریب کریں تو کیا کریں۔
(کالم نگارمختلف موضوعات پرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭