سید سجاد حسین بخاری
میاں نوازشریف اور شہبازشریف نے اپنے پورے سیاسی کیریئر میں کبھی بھی جنوبی پنجاب میں ایک دن سے زیادہ قیام نہیں کیا۔ یہ پہلا موقع ہے کہ حمزہ شہبازشریف نے ملتان میں چار روز قیام کیا اور خانیوال‘ملتان‘ لودھراں‘ اوچشریف‘ بہاولپور‘ مظفرگڑھ‘ کوٹ مٹھن اور راجن پور میں ورکرز کنونشن کئے اور قریبی کارکنان کے مرنے والوں کی فاتح خوانی بھی کی اور مسلم لیگ ن میں کچھ بااثر لوگوں کو شامل بھی کیا۔ میڈیا کے لوگوں سے بھی ناشتے کی میز پر ایک طویل ملاقات کی اور سوالوں کے جواب بھی دیئے۔ اسی طرح یہ چار روزہ دورہ مکمل کرکے وہ لاہور واپس چلے گئے۔ لیکن یہاں ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ جو کام بڑے میاں صاحبان نے اپنی پوری سیاسی زندگی میں نہیں کیا وہ حمزہ کو کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس کے دو ہی آسان جواب ہیں کہ اول 2018ء میں مسلم لیگ ن جنوبی پنجاب میں الیکشن بری طرح ہاری ہے اور ن لیگ 2023ء کے الیکشن کیلئے ہوم ورک کررہی ہے اور دوئم یہ کہ بلاول بھٹو زرداری نے گزشتہ ماہ دس روزہ دورہ جنوبی پنجاب کیا اس کے اثرات کو زائل کرنے کی کوشش ہے۔ بہرحال اس دورے کی خوبصورت بات یہ تھی کہ یہ دورہ سوفیصد بلاول بھٹو زرداری کے دورہ کی نقل تھی۔ بلاول بھٹو کارکنوں کے گھر گئے تو حمزہ بھی گئے۔ بلاول بھٹو کے مختلف شہروں میں جانے سے قبل چھوٹے بڑے قصبوں اور سڑکوں پر استقبال کرائے گئے۔ شہروں کے اندر ورکرز کنونشن کرائے گئے۔ نئے لوگوں سے ملاقاتیں اور پارٹی میں ان کی شمولیت کرائی۔ میڈیا کو بھی بلاول بھٹو نے ظہرانے پر بلایا تو حمزہ نے پہلی مرتبہ میڈیا کو ناشتے کی میز پر بلایا ورنہ ماضی میں شریف برادران کا اپنی جیب سے میڈیا کیلئے لنچ ڈنر یا ناشتے کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے اور پھر اس پورے دورے کے دوران میاں شہبازشریف کی نگرانی حمزہ کے شامل حال رہی۔ روزانہ کی بنیاد پر مکمل رپورٹ اور نئے شامل ہونے والے سیاستدانوں سے دو سے تین مرتبہ فون پر وہ گفتگو کرتے رہے ان کے تحفظات پر بات اور مستقبل میں ٹکٹ کی یقین دہانی بھی کراتے رہے۔
شمولیت کی پہلی دعوت اویس لغاری اور عبدالرحمن کانجو دیتے اور اپنے موبائل سے شامل ہونے والے کی بات میاں شہبازشریف سے کراتے رہے اور یہ سلسلہ دو سے تین مرتبہ ہوتارہا۔ کچھ شامل ہونے والوں نے کہا کہ ہم آپ کی آمد پر شمولیت کا اعلان کریں گے مگر میاں شہبازشریف نے کہا کہ آپ شمولیت ابھی کریں اور میرا آپ سے وعدہ ہے کہ میں آپ کے گھر ضرور حاضر ہوں گا تب جاکر شمولیت ہوتی۔ سیاسی شخصیات کی اگر شمولیت کا موازنہ کیاجائے تو پیپلزپارٹی کا پلہ بھاری ہے کیونکہ سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ کے بیٹے دوست محمد کھوسہ سابق وزیراعلیٰ پنجاب‘ سردار بہادرخان سیہڑ‘خواجہ عطاء اللہ کا وزن ملک اسحاق بُچہ‘بریگیڈیئر قیصرعلی‘ قسور لنگڑیال اور جہانزیب وارن سے کہیں زیادہ ہے۔ پیپلزپارٹی نے مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کی بڑی وکٹیں اڑائی تھیں جبکہ مسلم لیگ ن میں آدھے سے زیادہ شخصیات تو واپس آئی ہیں۔ اس کے علاوہ جو ورکرز کنونشن ملتان میں کیا گیا ہے وہ بچوں کے سکول کا ایک گراؤنڈ تھا اس کی کرسیاں بھی دو تہائی تک خالی پڑی تھیں۔ اخبارات میں تصویریں بھی موجود ہیں۔ دورے کی آخری اور خاص بات یہ تھی کہ مفاہمتی اور مزاحمتی گروپ واضح نظر آرہے تھے مریم نواز کے حامیوں میں پرانے لیگی رہنما جاوید ہاشمی‘ طارق رشید‘ وحید ارائیں‘ حاجی احسان الدین‘ عامرسعید انصاری‘ رانا محمودالحسن‘ بلال بٹ وغیرہ اور حمزہ شہبازشریف گروپ کی قیادت موجودہ تنظیمی عہدیدار اویس لغاری‘ عبدالرحمن کانجو اور جاوید علی شاہ تھے۔ جنوبی پنجاب کے عہدیداروں پر بھی پرانے مسلم لیگی عہدیداروں کو شدید اعتراضات ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ دونوں دھڑوں کے لیڈروں کی تعداد تو ہرکنونشن میں پوری نظر آئی مگر عوام کو اکٹھا نہیں کیا ورنہ جو ورکرز کنونشن کئے گئے ہیں وہ تو ایک یوسی چیئرمین کے برابر تھے ہاں البتہ بڑی خوبصورتی سے ذاتی گارڈوں‘ عہدیداروں‘ ٹکٹ ہولڈروں اور مقامی قیادت حمزہ شہباز کے آگے ایسے جمع ہوتی تھی کہ لگتا تھا بڑا رش ہے اور وہ اس خوش خیالی میں رہا کہ وہاں بڑا رش اور مجمع تھا۔
اس چار روزہ دورے نے مقامی قیادت کے دلوں میں مزید دراڑیں ڈال دی ہیں کیونکہ پینا فلیکس اور ہورڈنگز پر متعدد ٹکٹ ہولڈروں اور عہدیداروں کی تصویروں کی بجائے ان لوگوں کی تصویریں تھیں جو مسلم لیگ ن کا حصہ نہیں تھے بعد میں پتہ چلا کہ یہ ہورڈنگز کے اخراجات برداشت کرنے والے نودولتی ہیں۔ ایک کارکن نے بتایا کہ ہرصوبائی ٹکٹ ہولڈر سے 50ہزار اور قومی اسمبلی کے ٹکٹ ہولڈرز سے ایک لاکھ روپے جو اکٹھے کئے گئے تھے وہ کہاں خرچ ہوئے؟بہرحال حمزہ شہبازشریف کا دورہ جنوبی پنجاب پیپلزپارٹی کو جواب دینے کیلئے ضروری تھا مگر جو نقل ماری گئی اس میں عقل کا استعمال نہیں کیاگیا اور یہ بات ایک بزرگ سیاستدان کی سچ ثابت ہوئی کہ شریف برادران سیاست عقل کے راستے کی بجائے معدے کے راستے کرتے ہیں۔ جہاں تک حمزہ کے بلاول کے دورے سے موازنے کی بات ہے تو میں پوری ایمانداری اور غیرجانبداری سے عرض کررہا ہوں کہ بلاول کا مقابلہ حمزہ سے کرنا سراسر زیادتی ہے۔ بلاول شہید بی بی کا بیٹا اور شہید بھٹو کا نواسہ ہے جبکہ حمزہ تو مریم نواز سے بھی چھوٹا لیڈر ہے اور پارٹی میں تیسرے درجے کی قیادت پر ہے وہ بلاول کا مقابلہ کیسے کرسکتا ہے جبکہ بلاول بھٹو کا لیول نوازشریف کے برابر کا ہے۔ بات عمر کی نہیں، بات سیاسی جماعت اور خاندانی پس منظر کی ہورہی ہے۔ زرداری نے اپنی زندگی میں بلاول بھٹو کو اپنے سے بڑا لیڈر بنادیا ہے۔ حمزہ کو تو مریم نواز لیڈرہی نہیں مانتی۔ یہ الگ بات ہے کہ ہر والد کی طرح شہبازشریف کی خواہش اور حسرت ضرور ہے کہ حمزہ پاکستان مسلم لیگ ن کا بڑا لیڈر بنے مگر مریم نواز نے تو اپنے چچا کو الگ کردیا ہے، حمزہ تو دور کی بات ہے۔ بہرحال پی پی کی طرح ن لیگ بھی جنوبی پنجاب میں مزید کام کرنا چاہتی ہے کیونکہ ان سب کو پتہ چل چکا ہے جس کا ملتان مضبوط ہوگا اسی کا لاہور اور اسلام آباد مضبوط بنے گا۔
(کالم نگارقومی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭