پاکستان تحریک انصاف کے کارکن اپنے قائد اور وزیراعظم پاکستان عمران خان سے بجا شکوہ کرتے ہیں کہ خان صاحب!ہم مسلم لیگ ن کے متوالوں اور پیپلز پارٹی کے جیالوں سمیت اپوزیشن جماعتوں کے ہر طعنے اور ہر سیاسی و غیر سیاسی وار کا منہ توڑ جواب دے سکتے ہیں لیکن جب ایک عام پاکستانی ریاست مدینہ کی دہائی دیتے ہوئے ہم سے بیروزگار اور بھوکا ہونے کی بات کرتا ہے تو ہمارے پاس اس کی مایوس آنکھوں میں موجود کسی سوال کا کوئی جواب نہیں ہوتا۔ پاکستان میں غربت اپنے نوکیلے دانت ہر دم تیز کئے رکھتی ہے اور آئے روز کوئی نا کوئی غریب خودکشی کر کے اس عفریت سے پیچھا چھڑانے کی کوشش کرتا ہے۔ خود عمران خان کو بھی اس صورت حال کا بخوبی احساس ہے۔یہی وجہ ہے کہ غربت کا ذکر کرتے ان کی آواز میں پیدا ہونے والا ارتعاش واضح محسوس کیا جاسکتا ہے۔ تاہم وہ حکومت کے سربراہ اور اپنی پارٹی کے قائد ہونے کے ناطے قوم اور خصوصاً اپنے حامیوں کی ڈھارس بھی بندھاتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں وزیراعظم نے ملک میں مہنگائی بڑھنے کا اعتراف کیا ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں مہنگائی عالمی سطح پر بڑھنے والی ہوش ربا شرح سے بہت کم ہے۔ مثال کے طور پر وہ کہتے ہیں کہ پچھلے چند مہینوں میں پٹرول کی قیمت دنیا بھر میں 100 فیصد بڑھی ہے لیکن پاکستان میں پٹرولیم قیمتیں صرف 22 فیصد بڑھائی گئی ہیں۔ اسی طرح گندم دنیا میں 37 فیصد مہنگی ہوئی لیکن پاکستان میں یہ اضافہ 12 فیصد ہے۔چینی بھی دنیا میں 40 فیصد مہنگی ہوئی لیکن پاکستان میں یہ اضافہ 21 فیصد تک محدود رکھا گیا ہے۔ وزیراعظم موت دکھا کر قوم کو بخار پر راضی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے بھوکے بچے کو سلانے کے لئے ماں کوئی اچھوتی کہانی سنانے کی کوشش کرے لیکن قوم اس بہلاوے میں آخر کہاں تک آئے۔ اخلاق ساغری نے کہا تھا
بھوک میں کوئی کیا بتلائے، کیسا لگتا ہے
سوکھی روٹی کا ٹکڑا بھی، تحفہ لگتا ہے
یارو اس کی قبر میں روٹی بھی رکھ دینا
مرنے والا جانے کب کا بھوکا لگتا ہے
2012 میں بان کی مون اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل تھے۔ انہوں نے اس وقت 2030 ZHC یعنی Zero Hunger Challenge 2030کے عنوان سے ایک پروگرام شروع کرتے ہوئے ایک زبردست امید ظاہر کی کہ سائنس اور مینجمنٹ کی مدد سے 2030 تک دنیا سے بھوک ختم کر دی جائے گی۔ یہ میرے لئے حیران کن اور ناقابل فراموش بات تھی کیونکہ اسی بھوک کے خاتمے، برابری و مساوات کے لئے ہی تو دنیا بھر کے مذاہب اور تہذیبیں ہزاروں سال تک کوشاں رہی ہیں۔ کوئی بھوکا نا سوئے کا پیغام لے کر کئی پیغمبر مبعوث ہوتے رہے، اب اگر سائنس اور مینجمنٹ کی مدد سے اس مقصد کو حاصل کیا جا سکتا ہے تو اس سے بڑھ کر کیا بات ہو سکتی ہے۔ آج اس پروگرام کو شروع ہوئے 9 سال ہو چکے اور ٹارگٹ کے حصول کے لئے محض 11 سال باقی ہیں تو میں نے سوچا اس خوش کن امید کی موجودہ صورتحال دیکھی جائے۔ اس حوالے سے اعدادوشمار بڑے دلچسپ ہیں۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 2000 میں دنیا کی 15 فیصد آبادی انتہائی غربت کا شکار تھی اور تقریبا 81 کروڑ افراد ایسے تھے جنہیں روٹی میسر نہیں تھی۔ بھوک مٹاو پروگرام کے بعد 2019 میں یہ تعداد کم ہو کر 69 کروڑ افراد رہ گئی۔ اگر ایسے ہی چلتا رہتا تو 2030 تک بھوک کا خاتمہ ہو بھی سکتا تھا لیکن درمیان میں کووڈ بحران آگیا جس نے 6 کروڑ مزید انسانوں کو اس دلدل میں دھکیل دیا۔ اب اکتوبر 2021 کے دوسرے ہفتے جب آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہیں تو ورلڈو میٹر کے مطابق دنیا کی آبادی 7 ارب 89 کروڑ 81 لاکھ 51 ہزار 192 ہو چکی ہے اور گزشتہ رات وہ رات تھی جب دنیا کے 75 کروڑ افراد بھوکے سوئے ہیں۔
عالمی سطح پر کسی انسان کو اس وقت بھوک کا شکار مانا جاتا ہے جب کئی دن تک اسے روٹی نا ملے اور دیگر ذرائع سے بھی اسے 24 گھنٹوں میں حاصل ہونے والی کیلوریز کی تعداد 1800 سے کم ہو۔ کیلوریز کا اندازہ آپ اس طرح لگا سکتے ہیں کہ 100 گرام کی روٹی میں 297 کیلوریز ہوتی ہیں۔ ایک عام شخص جب دال کے ساتھ دو روٹی کھا لے تو اس کے جسم کو ایک ہزار کیلوریز حاصل ہوتی ہیں۔ اس لحاظ سے تحریک انصاف حکومت کی طرف سے بنائی گئی پناہ گاہوں میں جب ایک شخص کو دو ٹائم دال کے ساتھ ہی کم از کم دو روٹیاں کھانے کو مل جاتی ہیں تو اس کے جسم کو زندہ رہنے کے لئے کم از کم ایک دن کا ایندھن حاصل ہو جاتا ہے۔ لیکن عمران خان صاحب!میں کیا کروں میرے سامنے آپ کی اپوزیشن کی جانب سے پیش کئے گئے اعدادوشمار نہیں بلکہ اقوام متحدہ کا ڈیٹا پڑا ہوا ہے جو بتا رہا ہے کہ پاکستان کی اکتوبر کے پہلے ہفتے تک کل آبادی 22 کروڑ 65 لاکھ 16 ہزار 455 تھی اور آپ کی بنائی گئی پناہ گاہوں کے باوجود گزرنے والی کل کی رات بھی پاکستان کے 4 کروڑ لوگ ایسے تھے جنہیں دو روٹیاں بھی نہیں مل سکیں۔ دنیا میں انتہائی غریب ترین آبادی 9.9 فیصد لیکن پاکستان میں یہ شرح اب بھی کل آبادی کا 26 فیصد ہے۔ پاکستان دنیا میں آبادی کے لحاظ سے 5 واں بڑا ملک ہے لیکن دنیا کے 107 غریب ملکوں میں یہ 88 ویں نمبر پر ہے۔ پاکستان میں خوراک کی کمی نہیں بلکہ پاکستان کے صرف کسان اتنی خوراک پیدا کرتے ہیں کہ 22 کروڑ کے بجائے 34 کروڑ آسانی سے کھا سکتے ہیں اور قدرتی طور پر پیدا ہونے والے پھل اور خوراک اس کے علاوہ ہے لیکن پھر بھی یہاں کے 4 کروڑ لوگ رات کو بھوکے سونے پر مجبور ہیں۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بہت پہلے بتا دی تھی کہ جب ایک بندہ رات کو بھوکا سوتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ نے اس کا رزق پیدا نہیں کیا بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ اس کا حق کوئی اور کھا گیا ہے۔ اور آخر میں اپنے وزیر اعظم کیلئے بطور حکمران حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول دہرانا چاہوں گا کہ دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوک سے مر گیا تو اے عمر!تجھ سے اس کی بازپرس ہوگی۔ خان صاحب آپ اپنی سیاسی لڑائی لڑتے رہیں لیکن ان 4 کروڑ خالی پیٹ لوگوں کے بارے بھی کوئی فوری لائحہ عمل بنائیں۔
(کالم نگار قومی و سیاسی امور پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭