تازہ تر ین

قوم کا ہیرو

عبدالباسط خان
ڈاکٹر عبدالقدیر خان چلے گئے، وہ ایک ہیرو تھے، ہیرو رہیں گے، قوم اُن کو محسنِ پاکستان کے نام سے جانتی ہے۔ انہوں نے پاکستان کو ایٹمی ٹیکنالوجی فراہم کی اور پاکستان کو ناقابل تسخیر بنا دیا۔ آج اگر پاکستان ہندوستان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑا ہے تو وہ صرف اور صرف ڈاکٹر اے کیو خان کی بدولت جب 1974ء میں ہندوستان نے ایٹمی دھماکہ کیا تو اس محب وطن پاکستانی کی نیندیں اُڑ گئیں اور اس نے پکا عہد کر لیا کہ وہ ہندوستان کو ایسا جواب دے گا کہ اس کی آئندہ نسلیں بھی پاکستان پر فوج کشی کرنے سے پہلے کئی مرتبہ سوچیں گی۔ پاکستان میں اس وقت پیپلزپارٹی کی حکومت تھی اور ذوالفقار علی بھٹو جیسا لیڈر اس ملک کا سربراہ تھا جس نے وہ مشہور جملہ کہا کہ ہم گھاس کھا لیں گے مگر ایٹم بم بنائیں گے۔ شاید یہی وہ مقام تھا جہاں دشمنوں نے جن کو بھٹو صاحب سفید ہاتھی کہتے تھے انہوں نے بھٹو صاحب کو ٹارگٹ کیا یوں ایک ایسے لیڈر کو مفلوج اور بے بس کر دیا جن کے سامنے انسانوں کا سمندر موجود ہوتا تھا لیکن ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے جب بھٹو صاحب کو خط لکھا اور پاکستان کے لئے اپنی خدمات پیش کیں تو بھٹو صاحب کی زیرک اور جہاندیدہ شخصیت نے اس عقاب کی بلندی اور عظمت کو پہچان لیا اور یوں بھٹو صاحب نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو مکمل اختیار اور خود مختاری دی جس کی وجہ سے وہ منزل جو کوسوں دور تھی بہت کم عرصے میں قریب آ گئی اور ڈاکٹر اے کیو خان پاکستان کے بانی ایٹمی سائنسدان بن گئے۔ قوم ان کو نجات دہندہ سمجھتی تھی کیونکہ اس سے پہلے 1965ء کی جنگ میں ہندوستان نے بزدلانہ حملہ کیا تھا اور ان کے ارادے پاکستان کی ریاست(خدانخواستہ) کو ختم کرنے کے تھے اور اس جنگ کے پس منظر میں پاکستان ہندوستان کے نشانے پر تھا لہٰذا جو حالات بعد میں ان کے ٹیلی ویژن خطاب کا باعث بنے چاہے وہ کچھ بھی کیوں نہ ہوں، قوم ان کو بے گناہ سمجھتی تھی۔
امریکہ چونکہ پاکستان کو ایٹمی قوت کے طور پر دیکھنا نہیں چاہتا تھا لہٰذا رونالڈ ریگن اور جارج ڈبلیو بش کے زمانے سے امریکی صدر ہر سال پاکستان کو نان ایٹمی طاقت کے طور پر سرٹیفکیٹ دیاکرتے تھے لیکن 1990ء کے بعد امریکی صدور نے یہ سرٹیفکیٹ دینا بند کر دیا۔ یہ بحث ایک طویل بحث ہے کہ پاکستان کو ایٹمی دھماکے کرنے چاہئیں تھے یا نہیں اور کیا دھماکے کرنے کا وقت موزوں تھا یا نہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کے دوسرے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ضیاء الحق جب کرکٹ کا میچ دیکھنے انڈیا گئے تھے اس وقت دونوں ممالک کے درمیان سردجنگ زوروں پر تھی اور ہندوستان پاکستان پر حملہ کرنے کے لئے تُلا ہوا تھا۔ ضیاء الحق کے بارے میں مشہور ہے کہ راجیو گاندھی سے ملاقات کے موقع پر انہوں نے اپنے ہم منصب کو آگاہ کر دیا تھا کہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اور ایٹم بم ہم نے کھیلنے کیلئے نہیں بلکہ استعمال کرنے کیلئے بنایا ہے لہٰذا ایک جنگ کا ماحول اور خطرہ جو پاکستان پر منڈلا رہا تھا وہ ٹل گیا۔
اگر یہ کہا جائے کہ محسن پاکستان ڈاکٹر قدیر خان صاحب نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنا کر ہمیشہ کیلئے ناقابلِ تسخیر بنا دیا اور ہندوستان کا پاکستان کو ختم کرنے کا منصوبہ کھٹائی میں پڑ گیا تو مناسب ہوگا۔ اگر ہم سویڈن کے سٹاک ہوم بین الاقوامی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا دعویٰ تسلیم کریں تو اس وقت ہندوستان 80 اور 100 کے قریب وارہیڈز رکھتا ہے جبکہ پاکستان 90 سے 110 کے قریب وارہیڈز رکھتا ہے۔ اس دوران بین الاقوامی تھنک ٹینک یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ چائنا جو پاکستان کو ایٹمی پروگرام میں مدد کر رہا ہے، آئندہ پانچ سالوں میں پاکستان 200 وار ہیڈز کو کراس کر جائے گا۔ یہ سب کچھ اے کیو خان کی مرہون منت ہے جس کو 2004ء میں اسلام آباد کے قریب حراست میں رکھا گیا۔ اس کی بنیادی وجہ ہندوستان کا وہ بے بنیاد پروپیگنڈہ تھا جس میں وہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار دہشت گردوں کے ہاتھ لگنے کا دعویٰ کر رہا تھا جس سے امریکہ سمیت مغربی ممالک الرٹ ہو گئے اور اس محسنِ پاکستان کو قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑ گئیں تاہم انیاڈالو ایجنسی کے اس منفی دعوے کو ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے 2017ء کے اپنے اس انٹرویو میں مکمل طور پر مسترد کر دیا۔
ڈاکٹر اے کیو خان نے اس دعوے کی نفی بھی کی اور واضح طور پر اپنے انٹرویو میں اس اقدام کو بھارت کا پراپیگنڈہ کہہ دیا اور کہا کہ ایٹم بم کوئی ایسی چیز نہیں کہ جس کو سوٹ کیس میں بند کر دیا جائے اور کوئی دہشت گرد اس کو لے کر چلتا بنے۔ بقول ان کے نیوکلیئر ہتھیاروں کو بنانے میں بے شمار مرحلے ہوتے ہیں اور صرف اور صرف ٹاپ لیول کے سائنس دان ہی اس کی تیاری کر سکتے ہیں۔ ڈاکٹر اے کیو خان نے پاکستان کے ٹاپ سویلین ایوارڈ تین مرتبہ حاصل کئے۔ ان کی کرونا کے نتیجے میں وفات پر پاکستان کے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی، وزیراعظم عمران خان، سپہ سالار پاکستان قمر جاوید باجوہ سے لے کر ہر سیاست دان اور فوج کی اعلیٰ کمان نے جناب اے کیو خان کو عظیم خراج تحسین پیش کیا۔ پاکستان کے میڈیا میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان مسلسل 48 گھنٹے تک چھایا رہا اور قوم نے اس پاکستانی مجاہد کے جنازے میں جس طرح شمولیت کی اور ان کو لحد میں اُتارا وہ قابلِ دید منظر تھا اور پاکستان کے بڑے بڑے جنازوں کے شرکا کے اعتبار سے اعداد و شمار کو پیچھے چھوڑ دیا۔
(کالم نگارمختلف موضوعات پرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain