ڈاکٹرناہید بانو
انسانی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو زیادہ تر اموات کی وجہ بھوک اور قحط ہے۔ مزید تفصیل میں جانے سے دنیا میں خوراک کی کمی یا لاکھوں افراد کی بھوک کا سبب پودوں یا فصلوں کی بیماریاں ہیں۔ سب سے زیادہ تباہی 1845ء کی دہائی میں آئرش آلو کا قحط تھا۔ اس قحط کے اختتام پر انسانی آبادی 8 بلین سے 5 بلین رہ گئی تھی۔ تقریباً 2 بلین کے قریب افراد بیماری یا قحط کی وجہ سے موت کا شکار ہوئے اور باقی ایک بڑی تعداد شمالی امریکہ یا یورپ کی طرف ہجرت کر گئی۔ اسکے علاوہ چیسٹ نٹ بلائیٹ، گندم میں رسٹ، چاول میں براؤن سپاٹ اہم ہیں۔ 1943ء میں بنگال براؤن سپاٹ کی وجہ سے قحط دیکھ چکا ہے۔
پودوں کی بیماریاں ہی صرف خوراک کی کمی کی وجہ نہیں بنتیں بلکہ موسمیاتی تبدیلیاں بھی اس میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ دنیا میں بھوک کافی پیچیدہ مسئلہ ہے مگر ماہرین خاص طور پر پودوں کی بیماریوں پر کام کرنے والے افراد، سائنسدان اور تحقیقی ماہرین مختلف طریقوں سے خوراک کی کمی سے بچنے اور فصلوں کو بیماری سے بچانے کے لیے اہم معلومات فراہم کر سکتے ہیں۔ یہ ماہرین ناصرف گورنمنٹ اور پرائیویٹ اداروں کو اہم معلومات فراہم کرکے دنیا سے بھوک و افلاس ختم کرنے میں مدد فراہم کر سکتے ہیں بلکہ یہ علم تعلیمی اداروں سے نئی نسل تک منتقل کرسکتے ہیں۔ زرعی تحقیق کے ذریعے ماہرین ناصرف پیداوار بڑھانے میں کسانوں کو مدد فراہم کر سکتے ہیں بلکہ فصلوں کی ورائٹی کو بہتر بنانے، اخراجات کم کرنے کے ساتھ ساتھ بیماری کی تشخیص اور علاج میں بھی مدد فراہم کر سکتے ہیں۔
کسانوں کو فصلوں کی پیداوار بڑھانے اور نئی بیماریاں جو خاص طور پر موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ظاہر ہوچکی ہیں یا مستقبل میں سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کے لیے عارضی نہیں بلکہ طویل المیعاد حل کی ضرورت ہے اور یہ طویل المیعاد حل سسٹین ایبل ایگریکلچر اور اینٹی گریٹڈ پیسٹ مینجمنٹ کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ پاکستان میں فصلوں کی مختلف بیماریوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو کپاس کے پتوں کے کرل وائرس کی وجہ سے کپاس کی صنعت کافی نقصان دیکھ چکی ہے اسکے علاوہ شیشم، امرود کی بیماری، ٹماٹر کے پتوں کا سکڑاؤ، چاول میں بیکانائی، فائیٹوفتھورا کراؤن، مرچ کی جڑوں کے گلاؤ، کپاس کے پتوں میں مروڑ، کیلے کے گچھے کے سروں کی بیماری، مکئی کے تنے کے گلاؤ کی بیماری، ٹماٹر، آلو مرچ میں بیکٹیریا ولٹ، آم، چنے کی بیماری اور گندم میں رسٹ کی بیماری پاکستان میں ان فصلوں کے لیے نمایاں خطرہ ہیں۔ اسکے علاوہ آلو میں لیٹ بلائیٹ، ارلی بلائیٹ، کھیرے میں پاؤڈری ملڈیو، انگور میں سرمئی مولڈ، چیری میں کراؤن گال، خوبانی، بادام، آلوبخارے اور آڑو کے پودوں میں گموسس کی بیماری سے خطرہ ہے۔ پودوں کی بیماریوں سے زرعی پیداوار پر بہت زیادہ اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ گندم پاکستان کی فصلوں میں نمایاں ہے اسکے پتوں کے رسٹ سے 1978ء میں 86 ملین ڈالر کا نقصان سامنے آیا جبکہ 1979ء میں چنے میں بلائیٹ کی وجہ سے 48 فیصد پیداوار میں کمی دیکھی گئی جس سے 90 ملین ڈالر کا نقصان ہوا۔ 1992ء میں کیلے کی بیماری کی وجہ سے 915 ملین روپے کا نقصان سامنے آیا تھا۔
اہم اجناس اور فصلوں میں ہر سال خاص طور پر موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بہت سی بیماریاں سامنے آتی ہیں ساتھ ہی درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے حشرات ایک سے پانچ اضافی نسل پیدا کر سکتے ہیں جس سے نقصان دہ کیڑے مکوڑوں کی تعداد میں کثیر اضافہ ممکن ہے۔ ایسی ہی حشرات کی ایک بڑی تعداد ٹڈی دل کے حملے کی صورت میں ابھی پچھلے سالوں میں پاکستان دیکھ چکا ہے۔ اس لئے نئی ٹیکنالوجی کا استعمال خاص طور پر مالیکیولر بائیولوجیکل طریقوں جیسا کہ جین کی پہچان، کلوننگ اور بیماری کے خلاف مؤثر جین کے ساتھ بیماری کے خلاف بہترین مدافعت رکھنے والی فصلوں کا استعمال نہایت ضروری ہے۔ اسکے علاوہ سستی، سادہ اور آسان ٹیکنالوجی جیسا کہ سپیکٹروسکوپک، جی آئی ایس (تصویر/ایمیج کی بنیاد پر پہچان) اور وولیٹائل پروفائل کی بنیاد پر پودوں کی بیماریوں کی پہچان کی تیکنیک کھیتوں میں پودوں کی صحت، طفیلیے اور بیماریوں کو مانیٹر کرنے کے لئے استعمال میں لائی جا سکتی ہیں۔
(کالم نگار ممتازماہر تعلیم ہیں)
٭……٭……٭