سیدہ عائشہ غفار
امتنان شاہد صاحب نے اپنے والد محترم جناب ضیا شاہد صاحب کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پرنٹ میڈیا کے ڈگمگاتے ہوئے قدموں کو سہارا دے کر بہاولپور سے خبریں اخبار کی اشاعت کا ایک خوبصورت کارنامہ سرانجام دیا۔ہمارے بڑے ہمیں اپنے جانے سے پہلے ہمیں بڑا کر جاتے ہیں اور کامیاب لوگ وہی ہوتے ہیں جو اپنے اوپر پڑی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھائیں جس کے لیے امتنان شاہد صاحب مبارکباد کے مستحق ہیں ہم سب کی دعا ہے خبریں اخبار پاکستان کے ہر کونے سے شائع ہو اور خوب ترقی اور منزلت پائے‘ آمین۔
جب میں نے خبریں اخبار جوائن کیا تو اس وقت عدنان شاہد صاحب اپنے والد محترم ضیا شاہد صاحب کے ساتھ صحافتی امور میں ان کے شانہ بشانہ تھے اور جناب امتنان شاہد صاحب اس وقت جی سی یونیورسٹی لاہور میں زیر تعلیم تھے اور ضیا شاہد صاحب امتنان شاہد صاحب سے بہت پیار کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ میرا بیٹا بہت ذہین ہے اور اس کے اندر میں قائدانہ صلاحیتیں دیکھتا ہوں یہ اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھاتا ہے
ضیا شاہد صاحب کے اندر ایک بہت اچھی خوبی یہ تھی کہ وہ مستقبل کے معماروں کی بہت قدر کرتے تھے انہوں نے پرانے سے زیادہ نئے لوگوں کو بہت پرموٹ کیا مجھے کہا کرتے تھے لکھتی رہا کرو اپنا قلم سے رشتہ کبھی بھی نہ توڑنا جب میں چینل فائیو کے لیے پروگرام پرانے گیت پرانی غزلیں کی میزبانی کر رہی تھی تو عموماً میرا بیٹا عبد الرافع بھی میرے ساتھ جاتا اور کہتا کہ آپ نے مجھے ضیا شاہد صاحب سے ضرور ملوانا ہے اور ضیا شاہد صاحب اس سے ہاتھ ملاتے اور کہتے نوجوان محنت اور لگن کو اپنا شعار بنا لو کبھی بھی زندگی میں مات نہیں کھا گے اپنا لوہا منواؤ۔جس شعبے میں بھی جاؤ اس کی بلندیوں تک پہنچو۔دیکھو بیٹا میری صحت اجازت نہیں دیتی لیکن پھر بھی میں دس یا بارہ گھنٹے کام کرتا ہوں کتنی کتابیں لکھ دیں مگر گنتی نہیں کرتا لکھتے جاؤ زندگی کے کام کبھی نہیں رکتے پھر مسکرا کر بولے آپ تو شاعر ہیں آپ نے تو سنا ہوگا ”ہم نہیں ہوں گے تو کوئی ہم سا ہوگا“۔
ہم نے وہ وقت بھی دیکھا کہ جب ہم صبح آفس آتے اور پتہ چلتا کہ ضیا شاہد صاحب رات کے آفس میں ہی بیٹھے کام کر رہے ہیں انہوں نے خبریں اخبار کے مستقبل کے لیے ایک مشفق اور محنتی باپ کا رول ادا کیا۔
ضیا شاہد صاحب کے اندر محنت تھی لگن تھی جذبہ تھا اور مایوسی ان کے قریب سے بھی نہیں گزری تھی بہت حوصلہ مند اور دلیر انسان تھے
اس پر مجھے ایک واقعہ یاد آیا کہ میں ایم اے ملک صاحب کا انٹرویو کرنے گئی جو بہت مشہور پامسٹ اور زائچہ نویس تھے۔
انہوں نے کہا کہ مجھے ضیا شاہد صاحب کے ہاتھ کا پرنٹ بھی چاہیے میں نے آفس آکر ضیا شاہد صاحب سے کہا کہ ایم اے ملک صاحب آپ کی ہاتھ کا پرنٹ مانگ رہے ہیں کہنے لگے رہنے دو میں نے کہا سر اس میں حرج ہی کیا ہے انہوں نے ایک بہت خوبصورت بات کی بی بی انسان ہاتھوں کی لکیریں تو خود بناتا ہے اپنی سوچ اپنے فیصلوں اور اپنے ارادوں کی پختگی سے اور باقی اللہ کا کرم چاہیے۔
لیکن ملک صاحب کے اصرار پر انہوں نے اپنے ہاتھ کا پرنٹ بھیجا ملک صاحب نے اس کا بغور مطالعہ کیا انہوں نے بتایا کہ میں نے اب تک ہزار کے قریب سیاسی سماجی لوگوں کے ہاتھ دیکھے ہیں جن میں محترمہ فاطمہ جناح بھی شامل ہیں لیکن جتنی جرات و بہادری اور نڈر پن ضیا شاہد صاحب کے ہاتھ میں ہے میں نے اب تک کسی ہاتھ میں نہیں دیکھا یہ بہت بہادرہیں محنتی اور قدم قدم پر سیکھنے والے انسان ہیں ادب اور قلم کا عشق ان کے اندر کوٹ کوٹ کے بھرا ہے ان کی محنت ان کی کامیابی کی دلیل ہے یہ مصائب مسائل سے گھبرانے والے نہیں یہ ایک مرد جری کا ہاتھ ہے بس ان کو غصہ بہت جلد آ جاتا ہے جو ان کی صحت کے لیے ٹھیک نہیں اس بات پر عدنان شاہد صاحب نے بھی ان کے کمرے میں No کا بورڈ آویزاں کر رکھا تھا کہ چیف صاحب جب آپ کو غصہ آئے تو سامنے No دیکھ لیا کریں۔
ضیا شاہد صاحب ایک بات کہا کرتے تھے میری ترقی اور کامیابی میں میری ماں کی دعاؤں کا بہت ہاتھ ہے۔ مجھے صبح کی نماز کے بعد میری والدہ پانی دم کر کے دیتی ہیں جو میری روح کو سکون دیتا ہے اور ان کی دعاؤں سے میرا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
اور دوسرا میری بیگم یاسمین شاہد صاحبہ نے بھی صحافتی امور میں میری بہت مدد کی وہ خود بہت اچھا لکھتی ہیں میں آج جو کچھ بھی ہوں اس میں میری ماں اور بیگم کا بہت ہاتھ ہے
آخر میں جناب امتنان شاہد صاحب میں یہ کہوں گی کہ آپ نے ایک ادبی اور صحافتی گھرانے میں آنکھ کھولی ادب اور صحافت آپ کے خون میں رچابساہے اللہ پاک آپ کو صحت عزت دولت اور کامیابی سے ہم کنار کرے اور آپ کی والدہ باجی یاسمین شاہد جو بہت نیک شریف اور اچھی خاتون ہیں ان کا سایہ آپ سب پر سلامت رکھے ان کو صحت تندرستی عطا فرمائے خبریں اخبار دن دگنی رات چگنی ترقی کرے اور خبریں اخبار اپنا سلوگن ”جہاں ظلم وہاں خبریں“ کی پالیسی کو مد نظر رکھتے ہوئے طاقتور حکمرانوں ظالم وڈیروں کے سامنے حق کی آواز بن کر مظلوموں کا ساتھ دیتا رہے آمین ثم آمین
(کالم نگارقومی وسیاسی امورپر لکھتی ہیں)
٭……٭……٭