ڈاکٹر محمدممتاز مونس
شاکر شجاع آبادی کو اس عہد کا اقبال کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کیونکہ اس پائے کا الحامی شاعر اس عہد میں شاید کوئی اور نہ ہو جس نے غریب مفلس مزدور محنت کش مظلوم اور دکھوں کے ماروں کی اس انداز میں بے باکی سے ترجمانی کی ہواس کی مثال نہیں ملتی۔ شاکر شجاع آبادی کا ایک مشہور زمانہ سرائیکی قطع ہے کہ
میکوں میڈا ڈکھ میکوں تیڈا ڈکھ میکوں ھر مظلوم انسان داڈکھ
جتھاں ظلم دی بھاہ پئی بلدی ھے میکوں روھی چولستان دا ڈکھ
جتھاں کوئی انصاف دا ناں کائنی میکوں پورے پاکستان دا ڈکھ
جہڑے مر گئے ہن او مرگئے ہن میکوں جیندے قبرستان دا ڈکھ
جس میں موصوف اس معاشرے کو زندہ قبرستان کا نام دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مجھے اس زندہ قبرستان کا بڑا دکھ ہے ہمیں ان کے ان اشعار کی سمجھ اب سمجھ آئی جب انہیں انتہائی بیماری کسمپرسی لاچاری کے عالم میں ایک طبیب کے پاس جاتے ہوئے موٹر سائیکل پر فریدی رومالوں کے ساتھ باندھا ہوا تھا چونکہ شاکر شجاع آبادی فالج کے مریض ہیں اوروہ خود کو کسی بھی صورت سنبھال نہیں سکتے اس لیے وہ یوں محسوس ہوتا تھا کہ موٹر سائیکل سے اب گرے کہ اب۔ جس شخص کے پاس دوائی کے پیسے نہ ہوں اور وہ ڈسٹونیا جیسی انتہائی خطر ناک بیماری کا مریض ہو ہر آنے والا حکمران ان کے علاج کے لیے بڑے بڑے بلند بانگ دعوے کرے شاکر شجاع آبادی کو قومی سرمایہ اور اثاثہ قرار دے۔ دوسری طرف ان کی حالت یہ ہو کہ انہیں اپنے حکیم کے پاس جانے کے لیے موٹر سائیکل تک کرائے کی لینی پڑے اور دوائی کے پیسے نہ ہوں وہ موٹر سائیکل پر بیٹھ نہ سکتا ہو بلکہ انہیں فریدی رومالوں کے ساتھ باندھ کر بٹھایا گیا ہو تو پھر ان کا یہ نظریہ کہ اسے زندہ قبرستان کا دکھ ہے شاید اسی لیے ہی ہے۔
اس ملک میں آج ایسے حکمران ہیں جو اس ریاست کو مدینے کی ریاست کہتے ہیں میں پوچھتا ہوں مملکت خداداد کے ان حکمرانوں سے کہ کیا اس عہد میں شاکر شجاع آبادی سے بڑا کوئی فکر دینے والا شاعر ہے کسی نے شاکر شجاع آبادی سے بڑھ کر مظلوموں غریبوں مزدوروں بیماروں اور محنت کشوں کی ترجمانی کی۔ کیا ان کے یہ حالات اس بات کی غمازی نہیں کرتے کہ حکمران شاکرشجاع آبادی کے لیے کوئی خصوصی اقدامات کرتے ہوئے ان کا علاج کروائیں۔ مکان دینے کی بجائے صرف اور صرف اس کا باقاعدہ علاج ہی کروا دیا جائے۔ شاکر شجاع آبادی کی یہ نظم اسی درد کو عیاں کرتی ہے کہ
فکر دا سجھ ابھردا ائے سوچیندئیں شام تھی ویندی
خیالیں وچ سکون اجکل گولیندئیں شام تھی ویندی
انہاں دے بال ساری رات روندن بکھ توں سمدے نئیں
جنہاں دی کہیں دے بالاں کوں کھڈیندئیں شام تھی ویندی
غریباں دی دعایا رب خبر نی کن کرینداہیں
سدا ہنجواں دی تسبی کوں پھر یندئیں شام تھی ویندی
کڈاہیں تاں دکھ وی ٹل ویسن کڈاہیں تاں سکھ وی ول آسن
پلا خالی خیالاں دے پکیندئیں شام تھی ویندی
میڈا رازق رعائیت کرنمازاں رات دیاں کرڈے
جو روٹی رات دی پوری کریندیں شام تھی ویندی
میں شاکر بکھ دا ماریا ہاں مگر حاتم کو گھٹ کنئیں
قلم خیرات ہے میڈی چلیندیں شام تھی ویندی
شاکر شجاع آبادی کی زندگی ان کے اس شعر کے مطابق گزر گئی کہ وہ اپنی تقدیر کی لکیریں خود بدلنے کی کاوش کرتے رہے۔
نجومی نہ ڈراوے ڈے اساکوں بدنصیبی دے
جڈاں ہتھاں دے چھالے پئے لکیراں خود بدل ویسن
شاکر شجاع آبادی کی شاعری کا وہ وزن اور وہ فکر ہمیں کہیں اور سے نہ مل سکی جو کہ انہوں نے اپنی اس شدید بیماری کی حالت میں یوں کہہ دی کہ گویا وہ ایک قطعے کے اندر اس پورے عہد کی تاریخ لکھ رہے ہوں۔ جیسے موصوف لکھتے ہیں کہ
مجبور جوانی میڈی اے تو حسن دا شاہ تیکوں کیا پروا
تو خوش وسدیں وچ غیراں دے میڈی جھوک تباہ تیکوں کیا پروا
تیڈے رستے وچ پئے پھل کِردن میڈے اوکھے راہ تیکوں کیا پروا
بھانویں شاکر تیڈی مونجھ کنوں میڈے نکلن ساہ تیکوں کیا پروا
شاکر شجاع آبادی کے بارے میں آج مخیر حضرات کو خصوصی طورپرسوچنے کی ضرورت ہے بڑے بڑے دعوے کرنے والے نمودو نمائش کرنے والے حکمران آج کے اس عظیم شاعر کی اس بدحالی پر خاموش کیوں ہیں ریاست مدینہ کے مخیر حضرات ایسے نہیں ہو سکتے جو اپنے قومی ہیرو کو علاج تک کی سہولتیں میسر نہ کر سکیں اسی لیے تو موصوف لکھتے ہیں کہ
اے درد پرانے تھی گئے ھن کوئی نویں درد عطا کرونج
وت سکھ دا بوٹا پھپھڑیا ہے ایکوں پہلے وانگ سوا کرونج
میڈے روونڑدی سک پوری تھیوے کئی اینجھا ظلم جفا کرونج
میکوں راس نئیں آیا سکھ شاکر میڈا اوہو حال ولا کرونج
شاکر شجاع آبادی کے بارے میں جو بھی القابات جس نے بھی لکھے لیکن میری نظر میں موصوف کسی درویش سے کم نہیں اور ان کی اس درویشی میں ان کے ساتھ جو ہو رہا ہے وہ شاہد ہمارے اس معاشرے اور ہم پر بوجھ ہے اسی لیے تو موصوف کہتے تھے کہ
تیئں نال جو گزری شام ساڈی ہنڑ شام دے شام توں یاد آندیں
اتوں رات پوندی تنہائیاں دی ڈسے گھر ویران توں یاد آندیں
ادھ رات کوں اٹھ اٹھ روواں میں تھیوے فجر اذان توں یاد آندیں
ڈینہہ روندیاں شاکر لنگھ ویندے وت تھیندی اے شام توں یاد آندیں
انہیں یہ بھی پتہ تھا کہ معاشرہ ان کے ساتھ کیا سلوک کرنے جا رہا ہے اسی لیے انہوں نے خود لکھ دیا تھا کہ
تیکوں یاد ہوسی میں آکھیا ہم دلدار مٹھا تو چھوڑ ویسیں
کجھ سوچ سمجھ کے فیصلہ کر نہ جوش دکھا تو چھوڑ ویسیں
کر شاکر کوں برباد سجن بس لوک کھلا تو چھوڑ ویسیں
تیکوں کئیں آکھیے تیکوں بھل گئے ہیں دلدار بھلاونڑ سوکھی ہے
بھاویں یار دا جو کردار ھووے بندا آپ تاں توڑ نبھاوے
بھاویں سرتوں پانی تار ھووے بندا ادب توں سر نہ چاوے
نہ لیک لگے کدی یاری کوں بھاویں اوکھا وقت وی آوے
اویارنی شاکر یارھوندا جیڑھا سجناں کوں ازماوے
شاکر شجاع آبادی کی حالیہ بدحالی کی ویڈیو وائرل ہوتے ہی سب سے پہلے اس خطے کے عظیم فرزند چیف ایڈیٹر خبریں جناب امتنان شاہد صاحب نے سب سے پہلے ایکشن لیتے ہوئے اسے ٹی وی چینل پر بھر پور کوریج دینے اور خبریں ٹیم کو اس کی فوری مدد کرنے کے احکامات جاری کیے جنہیں جتنا بھی خراج تحسین پیش کیا جائے کم ہے۔خبریں کی تحریک پر وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار نے شاکر شجاع آبادی کے علاج کا وعدہ کیا ہے اللہ کرے جیسے حق ہے ویسے ہی شاکر شجاع آبادی کا علاج ہو سکے۔
(کالم نگارسینئر صحافی ہیں)
٭……٭……٭