انجینئر افتخار چودھری
مجھے وہ زمانہ یاد آ گیا جب میں لاہور کے کالج آف ٹیکنالوجی کی طلبہ یونین کا نائب صدر تھا اور اسی کالج میں اسلامی جمعیت طلبہ کا ناظم بھی تھا۔ یہ 1974 کے دن تھے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو ملک کے وزیر اعظم تھے ان دنوں کالجوں میں امریکہ کے خلاف نعرے بازی عام تھی۔ بھٹو صاحب امریکہ جا رہے تھے ادھر ہم نے اعلان کر دیا کہ کالج میں احتجاجی مظاہرہ ہو گا اور یہ بھی اعلان ہوا کہ امریکی پرچم کو آگ لگائی جائے گی۔
ہو سکتا ہے یہ کام ہو جاتا رات کو اللہ جنت بخشے سلمان بٹ کالج ہوسٹل میں آئے کمرہ نمبر سات میں ملاقات ہوئی انہوں نے ہمیں قائل کیا کہ آپ یہ کام نہ کریں اس وقت ذوالفقار علی بھٹو امریکہ ملک کے لئے جا رہے ہیں کوئی مالی مدد کامسئلہ ہے اور کچھ ایسے مسائل کو پاک بھارت امور سے جڑے ہوئے ہیں ایسے میں اگر آپ امریکہ کاپرچم جلائیں گے تو اس سے منفی نتائیج نکلیں گے لہٰذااحتجاج ختم کیا جائے۔ سو ہم نے ان کی یہ بات مان لی اور اگلے روز کا احتجاج ملتوی کر دیا کچھ لڑکوں نے ہمیں طعنے دئیے کہ آپ حکومت سے مل گئے ہیں لیکن ہم نے ان کی باتوں کو در خور اعتنا نہیں سمجھااور مظاہرہ ملتوی کر دیا۔قارئین ہمارے پاس طاقت تھی ہم الیکشن جیت چکے تھے طلبا میری ایک آواز پر لبیک کہتے تھے لیکن ہم نے تنظیم کا فیصلہ مانا اور احتجاج سے باز رہے۔
دوستو ابھی مفتی نعیم نوری کی کال تھی وہ مریدکے میں ہوتے ہیں میرے استاد محترم کے بیٹے ہیں اللہ انہیں خوش رکھے بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق ہے اوپر سے گجر بھی ہیں میں نے انہیں کہا تھا کہ اپنا رول پلے کریں اور تحریک لبیک کے بھائیوں سے درخواست کریں کہ تشدد کا راستہ نہ اپنائیں۔میں حیران ہوں ہمارے علما اور مشائخ ونگ میں بیٹھے لوگ اپنا کردار کیوں نہیں ادا کرتے ہمارے وزیر نورالحق قادری بڑے سمجھدار انسان ہیں انہیں اپنی ٹیم کے ساتھ ایسے لوگوں سے گفتگو کرنی چاہیے جن سے گفتگو کی جا سکتی ہے۔
تاجدار ختم نبوت زندہ باد کے نعرے تو ہم بھی لگاتے ہیں میں تو 1974 کی تحریک کا بنیادی کارکن ہوں کیا آپ کو معلوم ہے کہ یہ تحریک اسلامی جمعیت طلبہ کی یونین جو نشتر کالج ملتان کی تھی اس پر ربوہ کے ریلوے اسٹیشن پر تشدد کیا گیا ارباب عالم اس یونین کے صدر تھے اور ان کا تعلق اسلامی جمعیت طلبہ سے تھا۔اس وقت پورے پاکستان میں طلبہ یونینز میں اسلامی جمعیت طلبہ چھائی ہوئی تھی۔پھر جو کچھ ہوا وہ تحریک کا حصہ ہے جس کے نتیجے میں قادیانی غیر مسلمان قرار دئیے گئے۔ وہ تو ایک با مقصد تحریک تھی۔پھر مولانا خادم رضوی جب پہلے دھرنے کے لئے نکلے تو اس کے پیچھے بھی ایک آئینی ترمیم تھی جس کی وجہ سے وہ دھرنہ کامیاب ہوا۔اس سے پہلے بھی جب لبیک والے نکلے تو میں نے لاہور میں ہونے والے واقعات کی مخالفت کی۔اس وقت تو نبیؐ پاک کے خاکوں کی بات تھی لیکن اب کیا ہو گیا ہے۔آپ کا مطالبہ ہے کہ فرانس کے سفیر کو نکالیں جناب جو سفیر ہے ہی نہیں اسے کیسے نکالیں اورنکالنابھی نہیں چاہیے۔
میں انجمن طلبائے اسلام کے ظفر اقبال نوری نور محمد جرال نواز کھرل ساجد عبدالرزاق اور دوستوں سے اپیل کرتا ہوں کہ اس احتجاج کو روکیں۔تحریک انصاف کے لیڈران بھی اپنا کردار ادا کریں۔وہ لوگ جو علما مشائخ کانفرسوں میں شریک رہے ہیں انہیں کہا جائے کہ اس احتجاج کو ختم کرائیں۔پورے پاکستان کی پارٹی کی تنظیموں سے کہیں کہ بریلوی مکتبہ فکر کے علما سے ملاقاتیں کریں۔افسوس یہ ہے کہ عمران خان رحمتؐ العالمین کانفرنسیں کرے او آئی سی کے حکمرانوں کو جگائے اقوام متحدہ میں ریاست مدینہ کی باتیں کرے دشمنوں کی توپوں کے گولوں کا مقابلہ بھی کرے مزاروں پر حاضری دے اور ننگے پاؤں سرکارؐ دو عالم کے شہر میں جائے اور اس کے باوجود وہ طعنے بھی سنے وہ اکبر الٰہ بادی کا شعر ہے۔
رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں
کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں
(تحریک انصاف شمالی پنجاب کے سیکرٹری اطلاعات ہیں)
٭……٭……٭