وزیر احمد جوگیزئی
ہمیں قائد اعظم کا پاکستان چاہیے اور قائد اعظم کا پاکستان قائد اعظم کی زندگی کے اختتام کے ساتھ ہی بھلا دیا گیا۔اور اس کے بعد ہم نے ہر قسم کے نعرے بلند کیے ہر قسم کی آ وازیں اٹھیں گوکہ ان آوازوں میں دم تھا لیکن آوازیں بلند کرنے والے شاید بے دم ہو گئے،میں یہاں پر ہر نعرے کی تفصیل میں تو نہیں جاؤ ں گا لیکن،بس یہ ہی کہوں گا کہ ہر نعرہ بس نعرہ رہ گیا۔اور پھر ہمیں سمجھ ہی نہیں آئی اور پاکستان ایسی افرا تفری میں دو لخت ہو گیا۔اور جو لوگ ہم سے الگ ہوئے انھیں صدر ایوب خان کے دور میں ہی الگ ہونے کا کہا گیا تھا۔مگر بنگال والوں کی عقل کو سلام کہ انھوں نے کہا کہ ہم یہاں پر اکثریت میں ہیں اور ہم ہی پاکستان ہیں تم جانو اور تمہارا کام جانے اور اس بات پر نہ تو کوئی اصرار ہوا اور نہ ہی کوئی تکرار لیکن اس کے بعد مسلسل جمہوری اقدار کو پا مال کرتے گئے اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ لوگ جنگ و جدل کے بعد ہم سے الگ ہو گئے اور آج اگر دونوں ممالک کا مواذنہ کیا جائے تو وہ ہم سے بہتر حالت میں ہیں۔ان کی آبادی کنٹرو ل میں ہے،ان کا تعلیم کا نظام صحیح طریقے سے چل رہا ہے اور ان کے ملک میں عدل قائم ہے،ان کی معیشت مضبوط ہے اور وہ ایک خوشحال معاشرے کی طرح ترقی کی منازل طے کررہے ہیں اور ایک طرف ہم ہیں جو کہ ابھی تک اسی مخمصے کا شکار ہیں کہ کس طرح سے جمہوریت کو فروغ دینا ہے اور سوچ رہے ہیں کہ جو بھی کام کرنے ہیں ان کو کس طریقے سے کیا جائے۔
ہماری ایک بھی اکائی ایسی نہیں ہے جو کہ درست طریقے سے اپنا کام سر انجام دے رہی ہو ہمارے موجودہ وزیر اعظم نے 22سال تک اقتدار میں آنے کے لیے جد و جہد کی،نوجوانوں اور تعلیم یافتہ طبقے سمیت ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے ان کی حمایت کی ان کا ساتھ دیا اور 22سالہ جدوجہد کے بعد یہ جماعت بر سر اقتدار آئی لیکن اقتدار حاصل کرنا اور اس کے بعد حکمرانی کرنا دو الگ چیزیں ہیں،لیڈر شپ کا اصل امتحان حکومت میں آنے کے بعد ہی شروع ہوتا ہے،ملک کو درپیش مسائل جو کہ بہت ہی زیادہ ہیں،ان سے ملک اور قوم کو نجات کیسے دلانی ہے اس کام کی پلاننگ ہی اصل اہمیت کی حامل ہو ا کرتی ہے۔کن کن طریقوں سے اہداف کے حصول میں مدد مل سکتی ہے یہ بات اہم ہو ا کرتی ہے۔ ہمارے ملک کے سامنے یہ تین اہداف ہیں۔آبادی کا کنٹرول،تعلیم کا نظام درست کرنا اور عدل کے نظام کو ٹھیک کرنا۔ اگر یہ تین اہداف حاصل کر لئے جا ئیں تو پھر قوم تیزی سے ترقی کرتی ہے لیکن ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی ہے۔ہمیں چاہیے کہ کسی بھی کامیاب ملک کا نظام تعلیم میرا مطلب ہے کہ جس ملک میں کامیاب نظام تعلیم ہو،اس کی تقلید کرنی چاہیے،او ر وہ نظام یہاں پر لا کر نافذ کر دینا چاہیے۔ہم اپنی غلط پالیسوں سے تعلیم کو عام کرنے میں اور با مقصد بنانے میں ناکام رہے ہیں اور ہمیں اس حوالے سے اپنی ناکامی قبول کر لینی چاہیے اور یہی عقل مندی کا تقاضا بھی ہے اور اسی طریقے سے ہم اپنی معیشت کو بھی مضبوط کر سکتے ہیں۔
ہماری معیشت جو کہ کبھی کسی زمانے میں ترقی پذیر ممالک کے لیے قابل تقلید ہوا کرتی تھی وہ آج تباہ حا ل ہے۔ بہت سارے ممالک نے پاکستان کی معاشی پلاننگ کی نقل کی اور وہ ترقی کی منازل طے کر گئے اور آج دنیا میں ترقی یافتہ ممالک کی حیثیت سے موجودہ ہیں اور اس حوالے سے بہت سی مثالیں دی جاسکتی ہیں،لیکن ہم اپنی ہی پلاننگ پر عمل درآمد کرنے میں ناکام رہے ہیں۔تعلیم کے میدان میں ناکام ہیں،صحت کے میدان میں ناکام ہیں اور ترقی کرنے میں بھی ناکام ہیں۔اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں غربت کی شرح مسلسل بڑھ رہی ہے اور وسائل مسلسل کم ہو تے جا رہے ہیں اور یہ صروتحال ہمارے ملک کے لیے بہت خطرناک ہے۔
ایک دور تھا جب پاکستان میں سوشلسٹ تھیوری بہت مضبوط ہو رہی تھی اور بہت عمدہ تھی اور اس کے ساتھ ہی پاکستان میں جو انسانی حقوق کے لیے جدو جہد شروع ہو ئی تھی وہ آج بھی جاری ہے،اور یہ جدو جہد آج بھی بہت سارے ملکوں میں سرے سے وجود ہی نہیں رکھتی ہے۔آزادی اظہار رائے اور کھل کر اپنی بات کرنے کے حوالے سے پاکستان کسی بھی دوسرے ملک سے پیچھے نہیں ہے لیکن یہ بڑی بد قسمتی کی بات ہے کہ ہمارے ملک کو آج تک بہتر قیادت نصیب نہیں ہوسکی ہے،پاکستان کی قوم نے لیڈر شپ چننے میں جذباتی فیصلہ کیا ہے،اور اس حوالے سے ہماری قوم نے سیاسی پختگی کا مظاہرہ نہیں کیا اگر جذبات سے ہٹ کر فیصلے کیے جا ئیں تو اتنی بڑی آبادی میں کیا ہمیں لیڈر شپ دستیاب نہیں ہے۔لیڈشپ موجود ہے لیکن ان کو سامنے لانا مشکل کام ہے۔اور مشکل یوں ہے کہ ہماری عوام ابھی تک جذباتی فیصلوں سے نکل نہیں سکے ہیں اور جذباتی نعروں سے نکل نہیں سکے ہیں۔
ہمارے عوام کو تعلیم کی حد سے زیادہ ضرورت ہے۔اگر ہم درست لیڈرشپ کا انتخاب کر لیں تو ہمارے ملک میں کسی بھی چیز کی کمی نہیں ہے۔ہمیں صرف بطور قوم اپنی ترجیحات طے کرنے کی ضرورت ہے۔ہمیں ایک قوم بننے کی ضرورت ہے جو کہ کبھی بھی ہمارے حکمرانوں کی ترجیح نہیں رہی ہے۔ہمیں ایسے افراد سامنے لانے ہوں گے جو کہ نظام عدل میں اصلاحات لا سکیں۔اور ہمیں جذبات سے بالا تر ہو کر ایک نظام تعلیم نافذ کرنا ہو گا۔ہمارے ملک میں جس بے ہنگم طریقے سے مذہب کا استعما ل کرکے جو کچھ کیا جا رہا ہے وہ نہایت ہی افسوس ناک ہے،اس عمل کی مذمت کی جانی چاہیے،اس حوالے سے میں بس اتنا ہی کہنا چاہوں گا کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ کسی صورت بھی ملک اور قوم کے مفاد میں نہیں ہے اور قومی مفادات کے سراسر منافی ہے۔اللہ کرے کہ ہمیں اس تمام صورتحال کا کوئی بڑا خمیازہ نہ بھگتنا پڑے۔
(کالم نگار سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی ہیں)
٭……٭……٭