خضر کلاسرا
نیشنل کمیشن آن دی اسٹیٹس آف وویمن کی سربراہ نیلو فر بختیار نے میڈیا کیلئے ایک پریس بریفینگ کا اہتمام کیا جوکہ صحافی بمقابلہ نیلو فر بختیار تھی۔ میرے اس ابتدائیے کے بعد آپ سمجھ سکتے ہیں کہ نیلوفر بختیار کی پریس بریفنگ میں کیا صورتحال بنی ہوگی اور کیا ماحول ہوگا۔ یاد رہے کہ یہ پریس بریفینگ اس وقت ہورہی تھی جب بصد احترام وزیر صحافیوں کے سوال لینے سے گھبراتے ہیں اور رپورٹر ہیں کہ وہ سوالوں کے گولے لے کر وزیروں کے پیچھے دوڑے پھرتے ہیں کہ کہیں آمنا سامنا ہو اور وہ سوال داغ دیں۔ سوال کے جواب کے جنون بعض رپورٹر وہ صحافتی حدیں بھی کراس کررہے ہیں جوکہ صحافت کے اصولوں کے خلاف ہیں لیکن وہ بضد ہیں کہ سوال کا جواب لے کے رہیں گے۔
اسی طرح کی صورتحال پچھلے دنوں وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کے ساتھ ایک رپورٹر کی میڈیا کے ساتھ بات چیت میں ہوئی۔ صحافی نے نوٹیفکیشن کے حوالے سے سوال داغا لیکن وفاقی وزیر شیخ رشید نے سوال کا جواب نہیں دیا جوکہ ان کا حق تھا کہ چاہیں تو سوال کا جواب نہ دیں لیکن رپورٹر کب صحافت کے بنیادی اصول کے تحت خاموش رہنے والا تھا۔موصوف نے ساتھی رپورٹروں کے سوالوں کا انتظار کرنے کی بھی زحمت گوارہ نہیں کی۔ ایک بار پھر شیخ رشید احمد سے نوٹیفکیشن کا سوال پوچھا کہ نوٹیفکیشن کب ہوگا۔ وزیراعظم انٹرویوز کریں گے وغیرہ وغیرہ۔ رپورٹر کا انداز اتنا جارحانہ تھا کہ رہے نام اللہ کا لیکن اب کی بار صحافی سوال کیساتھ جیسے دوبارہ حملہ آور ہوا تو پنڈی بوائے شیخ رشید احمد کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور شیخ رشید نے وہ کردی جوکہ یہاں لکھنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔میرے خیال میں سوال رپورٹر کا حق ہے لیکن اتنا بھی نہیں ہے کہ بصد احترام۔ سوال کے حق میں وزیر کا گریبان پکڑ لیا جائے کہ میرے سوال کا جواب دو۔صحافتی اداروں کو جہاں اور کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔وہاں اس طرف بھی دھیان دیں کہ وہ جن رپورٹروں کو میدان میں اتار رہے ہیں۔ ان کو اتنی صحافت کا درس دیں کہ آپ نے سوال کرنا۔ اگر کوئی وزیر جواب نہیں دینا چاہتا ہے تو آپ نے بمطابق وفاقی وزیر شیخ رشید احمد اس کی واٹ نہیں لگانی ہے؟ اور جیسے میں نے عرض کیا۔ یہی صحافت کا بنیادی اصول بھی ہے۔ لیکن موجودہ حالات میں صحافت کے اصول پس وپشت ڈال کر اپنی من مانی چل رپی ہے۔۔دونوں اپنے اپنے اینڈ پر اپنے آپ کو حرف آخر سمجھتے ہیں۔ ایک طرف جہاں وزیروں کاخیال ہے کہ جو وہ ملکی صورتحال کی نزاکت سمجھتے ہیں۔ اس کا صحافیوں کو ادراک نہیں جبکہ صحافی اپنے سوالوں کے تکرار سے یہ سمجھتے ہیں کہ جو وہ پوچھ رہے ہیں۔ وہی ملک وقوم کے حق میں ہے۔خیر اب دوبارہ نیلوفر بختیار پریس بریفنگ کی طرف چلتے ہیں۔ نیلو فر بختیار خاصے انتظار کے بعد سیاست کے میدان میں واپسی کرچکی ہیں۔
وزیر اعظم شوکت عزیر کے دور میں بحیثیت وزیر سیاحت۔ وزیر وویمن خدمات سرانجام دے چکی ہیں۔ پھر سینٹر۔سے لے کر سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے اطلاعات ونشریات سمیت دیگر اہم کمیٹیوں کی سربراہی بھی کرچکی ہیں۔ مطلب ایک سنئیر پارلیمٹرین کی حیثیت میں پاکستان کی سیاست میں اپنا لوہا منواچکی ہیں لیکن یہ سلسلہ ابھی رکا نہیں ہے۔ پاکستان کی سیاست میں پیچھے چلیں تو محترمہ نیلو فر بختیار نوے کی دہائی میں نوازلیگی لیڈر نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے سیاست کے میدان میں ایک کارکن کی حیثیت میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔پھر 1992-1993 اور 1997 کے انتخابات میں خواتین کی نمائندگی کرتے ہوئے۔اپنی قیادت کی صلاحیتوں کی بدولت مسلم لیگ کی انتخابی مہم چلائی۔قیادت کو ان کی سیاست کا انداز پسند آیا تو موصوفہ کو مسلم لیگ نواز کی وویمن ونگ کی صدارت جیسی اہم ذمہ داری دی گئی۔بعدازاں وہ مسلم لیگ نواز کی ورکنگ کمیٹی کی رکن بن گئیں مطلب چل سو چل۔ مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے۔ تحریک نجات کے دوران جیل کی ہوابھی کھائی۔ پھر یوں ہوا کہ سیاست کے رنگ میں رنگی رنگتی چلی گئیں۔ سیاست کا آغاز پنڈی جیسے سیاست کے گڑھ اور طاقت کے مرکز سے کونسلر کے الیکشن سے کیا اور پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ پاکستان کی سیاست جہاں بچوں کا کھیل نہیں۔ وہاں خواتین کیلئے تو ایک اور بڑے چیلنج کی حیثت رکھتا ہے۔ ان درپیش چیلنجوں کے باوجود خواتین نے ہر دور میں اپنے اپنے انداز میں سیاست کے میدان میں سامنا کیا۔ فاطمہ جناح۔
محترمہ بے نظیر بھٹو جیسی اعلی پائے کی شخصیات سے لے کر ایک بڑی تعداد خواتین کی ہے جوکہ پاکستان کی سیاست کی اپنا اپنا کردار ادا کرتی چلی آرہی ہیں اور یہاں نیلوفر بختیار کا کردار بھی سیاسی جدوجہد کی بنیاد پر نمایاں نظر آتا ہے۔ نیلو فر بخیتار کی حالیہ پریس بریفینگ سارے صحافیوں منتظر تھے جن رپورٹرز کو دعوت نامہ بھیجا گیا تھا۔ معروف صحافی فوزیہ کلثوم رانا سرفہرست تھیں۔ سارے صحافیوں کے پہنچنے کی بنیادی وجہ نیلوفربختیار تھیں اور اکثریت رپورٹر ایسے تھے جوکہ ان کو بحیثیت وزیر کام کرتا دیکھ چکے تھے اور انکی سیاسی اور حکومتی سرگرمیوں کو کور کرچکے تھے۔ پھر وہ میڈیا کو ہمیشہ ساتھ لے کر چلتی ہیں اور حکومت کے ایجنڈے کو بحیثیت وزیر عوام تک پہنچانے میں میڈیا کے کردار کو بخوبی سمجھتی ہیں۔ یوں پریس بریفنگ میں بہت سارے صحافی دوستوں سے ملاقات بھی ہوئی۔ نیلوفر بخیتار جیسے ہی تقریب میں پہنچی۔ فرداً فرداً سب کے پاس گئیں۔ ان کا حال احوال پوچھا۔ نیشنل کمیشن آن دی اسٹیٹس آف وویمن کی سربراہ بننے پر مبارکباد بھی وصول کی۔
یاد رہے کہ یہ اس حکومت مطلب تبدیلی سرکار میں یہ رواج نہیں ہے کہ صحافیوں کیساتھ یوں بیٹھ کر بات کی جائے۔ حکومت کا مؤقف ایک معتبر انداز میں پیش کیا جائے۔ سب جلدی میں ہیں۔ شیخ رشید جیسے سیاستدان بھی جوکہ سیاست کی کہانیوں کو پنڈی اور آبپارہ تک سمجھتے ہیں۔ وہ بھی پریس کانفرنسوں میں سوال وجواب کے سیشن میں کہتے ہیں۔ میرے پاس دس منٹ ہیں۔ جلدی کریں۔ جو سوال کرنے ہیں کرلیں۔اب اگر شیخ رشید احمد کا یہ انداز اور رویہ صحافیوں کیساتھ ہوگا تو باقی وزیر پلس مشیر صحافیوں کو بات کرنیکا کتنا وقت دیتے ہونگے۔ اس کا اندازہ لگانا۔ آپ کیلئے مشکل نہیں ہے۔ نیشنل کمیشن آن دی وویمن فار ویمن کی سربراہ اب نیلو فر بختیار کی آمد کیساتھ ہی تقریب کا ماحول یکسر حکومتی وزیروں کی تقریبات سے مختلف تھا جوکہ صحافیوں کیلئے حیرت اور خوشی کا سبب تھا۔ بعدازاں نیلو فر بختیار نے اپنے خطاب میں نیشنل کمیشن آن دی اسٹیس آف وویمن کے اعراض و مقاصد کے بارے تفیصل سے میڈیا کو بریفنگ دی۔ اس بات سے بھی آگاہ کہ خواتین کیلئے وہ کن عزائم کیساتھ میدان میں آئی ہیں۔ اپنی بریفنگ کے بعد نیلو فر بختیار نے میڈیا کو دعوت دی کہ آپ بات کریں۔ تجاویز دیں۔جہاں تنقید بنتی ہے۔وہ کریں۔ یوں صحافی دوستوں نے بڑے کھلے ڈلے انداز میں خواتین کو درپیش ایشوز پر بات کی۔نظام کی خرابی سے لے کھوکھلے نعروں پر بھی اظہار کیا۔ نیلو فر بختیار نے سب کی بات توجہ سے سنی۔ ساتھ ساتھ۔جہاں ضرورت تھی سوالوں کے جواب بھی دئیے، یوں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ پہلی پریس بریفینگ تھی۔جہاں صحافی کو سوال کا پورا موقع دیا جاریا تھا اور اس کے اٹھائے گئے نقطے پر جواب بھی مل رہا تھا۔ پھر عرض کی کہ میڈم سارے ایشوز کا احاط کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن ایک اہم ایشو ابھی تک ڈسکس نہیں ہوا تو انہوں نے جوابا کہا کہ وہ آپ سے توقع کررہے ہیں کہ آپ سامنے لائیں گے۔یوں میں عرض کیا کہ جب تک خواتین پر تعلیم کے دروازے نہیں کھولے جائینگے۔ بات آگے نہیں بڑھے گی۔یہ لپا پوتی ہوگی۔خواتین کو بااختیار بنانے کیلئے ان کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا ہوگا۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ میرا تعلق جس علاقہ سے۔ اس کا نام تھل ہے اور یہ پسماندگی کی آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔ جی تھل 19 قومی اسمبلی اور 37 صوبائی اسمبلی کی نشتوں کیساتھ ملتان۔بہاولپور سے بڑی سیاسی اکائی ہے۔لیکن اس تھل کا حال یہ ہے کہ یہاں ایک بھی وویمن یونیورسٹی نہیں ہے۔ایک بھی نرسنگ کالج نہیں ہے۔ایک بھی انجئیرنگ کالج نہیں ہے۔ ایک بھی میڈیکل کالج نہیں ہے۔ایک پنجاب یونیورسٹی جیسا ادارہ نہیں ہے۔ایک بھی ہائی کورٹ کا بنچ نہیں ہے۔ایک بھی موٹروے چھوڑیں۔ایکسپریس ہائی وے نہیں ہے۔ ایک زرعی یونیورسٹی نہیں ہے۔ایک ڈویثرنل ہیڈ کوارٹر نہیں ہے مطلب ککھ بھی نہیں ہے؟ جب گھر کے قریب اعلی تعلیمی ادارے نہیں ہیں تو آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ اس کا سب سے زیادہ اثر خواتین کی تعلیم پر پڑتا ہے۔والدین ان کو لاہور۔پنڈی۔فیصل آباد سمیت دیگر بڑے شہروں میں تعلیمی اخراجات سمیت دیگر وجوہات کی وجہ سے نہیں بھیجتے ہیں۔یوں ان کیلئے تعلیم ایک خواب رہ جاتا ہے۔اور پھر ایسے ایشوز کا ان کو جگہ جگہ سامنا کرنا پڑتا ہے۔جن کا ذکر یہاں ہورہا ہے۔ میڈیم چیرپرسن۔آپ سے گزارش اتنی ہے کہ آپ اس صورتحال کیلئے ایک طرف اپنے ادارے کی طرف سے تھل کی خواتین کیلئے اقدامات کریں تو دوسری طرف وزیراعظم عمران خان سے بات کریں کہ تھل کو تعلیمی ادارے دئیے بغیر خواتین کو درپیش چیلنجز سے مقابلہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔
(کالم نگاراسلام آباد کے صحافی اورتجزیہ کار ہیں)
٭……٭……٭