کنور محمد دلشاد
بین الاقوامی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے خلاف قرارداد یورپی یونین نے منظور کرلی ہے، جس میں پاکستان کو انتہاپسند ملک قراردیتے ہوئے اس پر پابندیوں کی سفارش کی گئی ہے۔ یہ قرارداد کالعدم تحریک لبیک پاکستان کی فرانس کے خلاف حالیہ پُرتشدد مظاہروں کے ردِعمل میں زیرِ بحث آئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سعودی عرب نے تقریباً ساڑھے چار اَرب ڈالر کی مدد کی ہے، جس میں قرضہ سود مؤخر ادائیگیوں پر پاکستان کے لیے تیل کی سہولت بھی شامل ہے۔ فی الحال اس سے پاکستان کے تیزی سے کم ہوتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر کی صورت حال بہتر ہوسکتی ہے۔ سعودی عرب کی پیش کش کا مستقبل غیر یقینی نظر آتا ہے۔ سعودی عرب کے قرضہ کی وجہ سے پاکستانی روپے پر پڑنے والا حالیہ دباؤ کم ہونا شروع ہوگیا ہے جس سے ملکی کرنسی کچھ مدت کے لیے مضبوط ہوجائے گی۔ ادھر سٹیٹ بینک کے گورنرکی معاشی اور زرعی پالیسی سے پاکستان کے عوام کو فائدہ نہیں پہنچ رہا ہے اور ان کے سابق تجربات کو دیکھتے ہوئے پاکستان اُن کی پالیسی کو اپنا نے میں مزید دیوالیہ پن کی طرف جارہا ہے۔ ان کا تجربہ مصر میں ناکام ہوگیا تھا اور وہ مصری تجربہ پاکستان میں اپنانے کی راہ پر گامزن ہیں۔ اس دوران مشیر خزانہ شوکت فیاض احمد ترین دعویٰ کررہے ہیں کہ پاکستان آئی ایم ایف سے معاہدے کے قریب پہنچ چکا ہے، جس کے نتیجہ میں اسے چھ ارب ڈالر کا قرضہ ملے گا۔ لیکن مستقبل واقعی بے یقینی کا شکار نظر آتا ہے۔ واشنگٹن سے آنے والی خبریں نوشتہ دیوار کی طرح سامنے آرہی ہیں اور امکان ہے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف سے ملنے والی ادائیگی درد ناک شرائط کے نتیجہ میں ہوں گی جس سے عوام کو بڑے پیمانے پر نقصان ہوسکتا ہے۔ اس وقت حکمران دعویٰ کررہے ہیں کہ ملک میں مہنگائی عالمی سطح پر اشیا کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ہے۔ تاہم ان کا یہ دعویٰ زمینی حقائق کے مطابق نہیں ہے۔ وزیراعظم اور ان کے بعض وزراء میں پالیسی کا تضاد ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان سے بلاوجہ محاذ آرائی کی فضا پیدا ہوچکی ہے۔ لوکل گورنمنٹ کے تحت جو انتخابات ہونے جارہے ہیں، اس میں رخنہ پیدا کیا جارہا ہے۔ پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019میں مزید ترامیم کرنے کے بعد ابھی قانون سازی کا مرحلہ باقی ہے۔ آئندہ انتخابات کے لیے جامع اور مؤثر انتخابی اصلاحات کا بل ایسے انداز میں پیش کیا گیا کہ وہ تنازع کا شکار ہوچکا ہے۔ حکومت کے دو وزرا الیکشن کمیشن کے نوٹس کے احکامات کو نظر انداز کرکے الیکشن کمیشن کی رِٹ کو چیلنج کررہے ہیں۔ جس کی وجہ سے حکومت پاکستان کی ساکھ بھی مجروح ہورہی ہے۔ اور اسی آڑ میں فارن فنڈنگ کیس کے التوا ہونے سے عوام بھی الیکشن کمیشن پر انگلی اُٹھارہے ہیں۔
کالعدم تحریک لبیک کے معاملہ پر سینیٹر فیصل واوڈا نے برملا انکشاف کیا ہے کہ کالعدم تحریک لبیک پارٹی کے ساتھ معاہدہ کا وزیراعظم کو علم ہی نہیں تھا۔ وزیرداخلہ کا مؤقف ہے کہ معاہدے پر دستخط سے پہلے وزیراعظم کی منظوری انہوں نے حاصل کرلی تھی اور وزیراعظم معاہدے کے متن سے بخوبی علم میں رہے۔ اب اگر فیصل واوڈا نے دعویٰ کیا تھا کہ معاہدے کی شقوں سے وزیراعظم کو اندھیرے میں رکھا گیا تھا تو وزیراعظم آفس سے وضاحت آنی چاہیے تھی۔ موجودہ وزیرداخلہ کے متضاد بیانات سے وزیراعظم آفس کو ریلیف نہیں مل رہا ہے اور اسلام آبا دکو محدود انداز میں لاک ڈاؤن کیا ہوا ہے اور پاکستان میں مقیم سفارتی نمائندے اپنے اپنے ممالک میں پاکستان کی اندرونی خانہ جنگی کے تاثرات بھیج رہے ہیں اور وزرائے خارجہ بھی وزیرداخلہ اور وزیر اطلاعات ونشریات اور وزیراعظم کے ترجمانوں کے مابین سینڈوچ بن چکا ہے۔ اس طرح 2023ء میں آنے والے عام انتخابات کے حوالہ سے جائزہ لیا جائے تو افراتفری میں مزید اضافہ نظر آرہا ہے۔ ملک میں اگر طرزِحکمرانی کا بحران اگر سب سے زیادہ کہیں نظر آرہا ہے تو وہ پنجاب ہے جہاں قومی اسمبلی کی 142نشستیں ہیں۔ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے دورِ حکومت میں جس طرح کی بدانتظامی اور انتظامی آرڈر اور طررِ حکمرانی کا انحطاط دیکھنے کو ملا ہے۔ وزیراعظم کو ادراک ہی نہیں ہورہا ہے کہ ان کے معاشی ماہرین کی وجہ سے پاکستان کی معیشت دیوالیہ پن کی طرف جاری ہے۔ معاشی صورت حال اور امن و امان کی افراتفری مستقبل قریب میں ختم ہوتی نظر نہیں آرہی ہے۔
پاکستان کا موجودہ سیاسی نظام 1985ء سے بحران کا شکار چلا آرہا ہے۔ مختلف ادوار میں حکمران جماعت جن میں پاکستان تحریکِ انصاف، پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پارلیمنٹیرین پارٹی شامل ہے، اپنے منشور پر عمل درآمد کرانے میں مخلص نہیں رہی۔ موجودہ صورت حال یہ ہے کہ ملک میں بلدیاتی نظام جسے آئین کے آرٹیکل 140(A)اور132کے تحت تحفظ حاصل ہے، اس کی خلاف ورزی 2009ء سے کی جاری ہے۔ جہاں تک موجودہ سسٹم کے تحت پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کا تعلق ہے وہاں مفادات کی گروہ بندیاں دیکھنے میں آتی ہیں اور عوام کی حقیقی نمائندگی دیکھنے میں نہیں آرہی ہے۔ پاکستان کا موجودہ سسٹم برطانوی ایکٹ 1935ء کا چربہ ہے جس کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ مقابلتاً زیادہ ووٹ لینے والا بے شک وہ اکثریت کا ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہا پھر بھی منتخب قرارا دیا جاتا ہے۔ اس طرح مختلف حربوں سے ووٹ حاصل کردہ اقلیتی نمائندہ پارلیمنٹ میں پانچ سے دس کروڑ روپے خرچ کرکے پہنچ جاتا ہے۔ موجودہ حکومت نے انتخابی اصلاحات کا جو بل قومی اسمبلی سے عجلت میں منظور کرایا، اس کا مقصد مفاد پرست گروپ کو ہی ریلیف دینا ہے۔ وہ آئندہ انتخابات کو شفا ف بنانے کے لیے نہیں ہے اپنے مخصوص گروہ کو پارلیمنٹ تک پہنچانا ہے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ ملک کو صحیح سمت کی طرف جانے کے لیے سنجیدگی سے حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے۔
(الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سابق سیکرٹری ہیں)
٭……٭……٭