تازہ تر ین

حاصلِ عمرچند کتابیں

میم سین بٹ
کتاب کے ساتھ ہمارا لڑکپن میں ہی تعلق پیدا ہوگیا تھا بچپن میں بچوں کی کہانیاں پڑھنے سے ابتدا کی تھی اور لڑکپن میں پہلے بچوں کے ناول پڑھنا شروع کئے اور پھر بڑوں کے ناول، افسانے اور سوانح عمریاں وغیرہ پڑھنا شروع کردی تھیں بعدازاں خود بھی کتابیں لکھنا شروع کردی تھیں ہماری پہلی کتاب ”سرکا پہلوان“ (طنزومزاح) 2002 ء میں طہٰ پبلی کیشنز کے تحت شائع ہوئی تھی دوسری کتاب ”نواز شریف۔وزارت عظمیٰ سے جلاوطنی تک، تیسری کتاب ”لاہور۔ شہر بے مثال“ 2012ء میں شائع ہوئی تھی۔
حاصل عمر یہی چندکتابیں ہیں غافر
نفع تھا یا خسارہ، مجھے معلوم نہیں
حسب معمول گزشتہ ماہ متفرق موضوعات پر جو چار کتابیں ہمارے زیرمطالعہ رہیں ان میں رہ نوردوان شوق، کلیات امان، ہوشیارپور سے لائل پور تک اور جدید فلم سازی شامل ہیں،”رہ نوردان شوق“ محمد الیاس کھوکھرکی نئی تصنیف ہے اسے مکتبہ فروغ فکر اقبال کے تحت رواں سال شائع کیا گیا ہے۔ ”عظیم لوگ“ کے عنوان سے کتاب کا دیباچہ واصف علی واصف کا تحریرکردہ ہے دیباچے کے بعد پہلا مضمون بھی علامہ اقبال پر تحریرکیا گیا ہے،ہارون الرشید تبسم بھی علامہ اقبال کی طرح صرف مونچھیں رکھتے ہیں البتہ خادم رضوی، طارق جمیل اور اکرم اعوان باریش تھے۔
جواں مرگ ملک اعجاز الحق کی یادمیں محمد الیاس کھوکھرکا مضمون ہمیں سب سے زیادہ پسند آیا ملک اعجاز الحق مرحوم کا تعلق غالباََ نارووال کے سعید الحق ملک کے گھرانے سے تھا وہ گورنمنٹ کالج لاہورمیں ڈاکٹر صفدر محمودکے کلاس فیلو رہے تھے ڈاکٹرصفدر محمود بعدازاں گورنمنٹ کالج (اب یونیورسٹی) میں ہی لیکچرار بن گئے تھے اور نواز شریف کے استاد رہے تھے بلکہ بعدازاں سول سروس میں شامل ہو کر اپنے شاگرد کے ادوار میں ہی صوبائی و وفاقی سیکرٹری تعلیم بھی رہے تھے اب ڈاکٹر صفدر محمود بھی اپنے دوست ملک اعجاز الحق کے پاس روانہ ہو چکے ہیں محمد الیاس کھوکھر ایڈووکیٹ کی تحریریں پڑھتے ہوئے ہمیں علامہ اقبال کا شعر یاد آجاتا ہے۔
رنگ تصویرکہن میں بھرکے دکھلادے مجھے
قصہ ایام سلف کا کہہ کے تڑپا دے مجھے
ڈاکٹر امان اللہ خان امان کی پنجابی شاعری پر مشتمل ”کلیات امان“ قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل نے تین زبانوں شاہ مکھی،گورمکھی اور انگریزی (رومن) سکرپٹ میں شائع کی ہے جس کا انتساب شاعر نے اپنے والدین ڈاکٹر احمد علی اور قمرالنساء کے نام کیا ہے،دیباچہ کرامت گردیزی نے تحریرکیا ہے جبکہ ڈاکٹر امان پیش لفظ میں بتاتے ہیں کہ بلھے شاہ کی دھرتی سے تعلق ہونے کی وجہ سے وہ ماں بولی میں شاعری کرتے ہیں انہوں نے تالاب میں تنہا بیٹھی کونج کو دیکھ کر پہلی نظم کہی تھی،منیرنیازی کتاب کے فلیپ میں لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر امان اللہ کی شاعری اپنے وطن میں بیتے ہوئے دنوں، بچپن اور لڑکپن کی یادوں کی شاعری ہے، ڈاکٹر امان اپنی نظم ”قصور دیاں یاداں“ میں کہتے ہیں۔
اندرسے تے فلودے نیں قصوری مٹھڑے
نالے بھلے نئیں امبیاں دے بور سانہوں
گیت لکھاں سنے، دنیا تے نئیں لبھیا
نورجہاں دیاں راگاں داسرورسانہوں
ہوشیار پور سے لائل پور تک کرنل (ر) نواب علی کی خود نوشت ہے اسے بھی قلم فاؤنڈیشن نے شائع کیا جس کا انتساب فوجی شہداء کے نام کیا گیا ہے، تقسیم ہند کے موقع پر کرنل (ر)نواب علی کا گھرانہ ہوشیار پورکے گاؤں پنڈوری کد سے ہجرت کرکے کرتار پور، امرتسر، لاہور،شاہدرہ،شرقپور اور جڑانوالہ کے راستے لائل پور چلا آیا تھا اورچک نمبر 72 ر، ب کریانوالہ میں مقیم ہوگیا تھا تاہم ان کے والد لاہور میں ملازمت کرتے رہے یہاں شیرانوالہ دروازہ کے اسلامیہ ہائی سکول سے میٹرک اور اسلامیہ کالج ریلوے روڈ سے بی ایس سی کرنے کے بعد فوج میں چلے گئے تھے لاہور میں انہیں جو پلاٹ الاٹ ہوا ریٹائرمنت کے بعد اس پر مکان تعمیرکرکے یہیں رہائش پذیر ہوگئے تھے۔ کرنل (ر)نواب علی کی کتاب میں ان کے خاندان کی لاتعداد رنگین تصاویر بھی شامل کی گئی ہیں۔
اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر ارشد علی بھی لائلپوری ہیں ان کی فیملی اب لاہور میں مقیم ہے جبکہ یہ خودگجرات یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں تاہم ہفتہ وار چھٹیاں لاہور میں گزارتے ہیں ان کی انعام یافتہ کتاب ”جدید فلم سازی“ اردوسائنس بورڈ نے شائع کی جس کا انتساب انہوں نے والد مرحوم لالہ غلام حسین کے نام کیا،دیباچہ خود ڈاکٹر ارشد علی نے تحریر کیا ہے جس میں وہ بتاتے ہیں کہ لاہور میں فلمسازی کا آغاز تقسیم ہند سے قبل ہوا تھا پہلے خاموش فلمیں بنتی رہی تھیں چند سال بعد بولتی کا آغاز ہوگیا تھا آزادی کے بعد لاہور میں بہت یادگار اور سدا بہارنغماتی فلمیں بنتی رہی تھیں اب تو لاہور کی فلمی صنعت ہی زوال کا شکار ہوکر ختم ہوچکی ہے، ڈاکٹر ارشد علی کے ساتھ گزشتہ دنوں لاہور پریس کلب کی ظہیرکاشمیری لائبریری میں مختصرنشست رہی توکمرے کی دیوار پر آویزاں رہنے والا بابا ظہیرکاشمیری کاپورٹریٹ یاد کرکے ہمیں یاد آگیا کہ ارشد علی کی کتاب ”جدید فلم سازی“ میں انہوں نے یہ بھی تحقیق کرکے بتایا تھا کہ ظہیرکاشمیری نے لاہور میں بسنت، فرض، پردیسی بالم،کہاں گئے اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کے ناموں سے بننے والی فلموں کیلئے گیت لکھے تھے کتاب کے آخر میں ڈاکٹر ارشد علی نے طلبہ و طالبات کیلئے فلم پروڈکشن کی اصطلاحات بھی تحریرکی ہیں۔
(کالم نگارسیاسی اورادبی ایشوزپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain