تازہ تر ین

سانحہ سیالکوٹ جیسے واقعات کا تدارک کیسے ممکن ہے؟

ملک منظور احمد
پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی مملکت بننا تھا یہ اس ملک کے قیام کا اولین مقصد تھا ایک ایسا ملک جو کہ اسلام کے بنیادی اصولوں پر قائم ہو اور یہاں پر تمام مذاہب کے ماننے والوں کو اپنے اپنے مذہب اور عقائد کے مطابق عبادات کرنے کی آزادی حاصل ہو۔یہی قائد اعظم محمد علی جناح کا فرمان تھا اور اس مملکت کے لیے ان کا وژن تھا۔اور اگر دیکھا جائے تو پاکستان اپنے قیام کے بعد ابتدائی سالوں میں ایک متعدل معاشرہ تھا،رنگ و نسل اور مذہبی عقائد کی تفریق کے بغیر سب لوگ آزاد انہ طور پر عبادات کرتے تھے اور مل جل کر زندگی گزارتے تھے لیکن پھر اس ملک میں انتہا پسندی کی ایک لہر چلی اور ملک کے رہنے والے افراد خاص طور پر چند طبقات کے خیالات اور نظریات سخت گیر ہو تے چلے گئے۔اور معاشرے میں پیدا ہو نے والی اس سخت گیری کا مورد الزام سابق صدر ضیالحق کے دور کو ٹھہرایا جاتا ہے۔
بہر حال میں اس حوالے سے زیادہ بات نہیں کروں گا لیکن یہ ضرور کہو ں گا کہ 80ء کی دہائی میں اپنائی جانی والی افغان پالیسی نے اس ملک کے معاشرے میں مذہبی مسالکی اور دیگر تفا ریق پیدا کیں اور ان تفریقوں کے اثرات سے ہم آج تک نکل نہیں پا ئیں ہیں۔بین الا ا قوامی حالات نے بھی ملک کو بہت متاثر کیا ہے اور ہمارے حکمران بد قسمتی سے ملک کو بین الا ا اقوامی حالات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات کے نتیجے میں اپنے ملک کو محفوظ رکھنے میں ناکام رہے۔نائن الیون کے بعد اس ملک نے جس دہشت گردی اور انتہا پسندی کا سامنا کیا اس کی شاید ہی کو ئی مثال ملتی ہو،پاکستان نے اس جنگ میں اپنے 70ہزار سے زائد شہریوں کو کھو دیا،فرقے اور مسلک کے نام پر مساجد اور امام با رگاہوں پر حملے ہو ئے۔گرجا گھروں اور خانقاہوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔معاشرے کا کو ئی بھی حصہ اس عفریت سے محفوظ نہیں رہا۔ریاست پاکستان اور مختلف حکومتوں نے مل کر اس عفریت کا مقابلہ کیا اور اس جنگ میں پاکستان کو خاطر خواہ کامیابی بھی حاصل ہو ئی ہے۔جس کے نتائج ہم ملک میں بہتر امن و امان کی صورتحال کی صورت میں دیکھ رہے ہیں لیکن اگر یہ کہا جائے کہ ہم نے اس مسئلہ پر مکمل طور پر قابو پا لیا ہے تو یہ کسی صورت درست بات نہیں ہو گی۔عدم برداشت اور مذہبی انتہا پسندی اس ملک میں سرایت کر چکی ہے جس کو ختم کرنا اتنا آسان کا م نہیں ہے۔اور جب لوگوں کو محسوس ہو کہ اگر مذہب کے نام پر قتل بھی کر دیا جائے تو بچا جاسکتا ہے تو انتہا پسندی کا یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہو گا۔انتہا پسندی تو شاید مغربی ممالک میں بھی ہے لیکن انتہا پسند نظریات کے تحت کوئی بھی فرد کوئی پرتششد رویہ اپنانے سے پہلے سو بات ضرور سوچتا ہے کیونکہ ان کو معلوم ہو تا ہے کہ اگر کوئی خلا ف قانون کام کیا تو قانون کی گرفت سے نہیں بچا جاسکتا ہے۔پاکستان میں بھی ہمیں قانون کی عمل دراری قائم کرنے کی سخت ضرورت ہے۔
گزشتہ دنوں میں سیالکوٹ میں سر لنکن فیکٹری مینجر کے ساتھ پیش آئے واقعے نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔کئی لوگوں کو تو یقین ہی نہیں آرہا ہے کہ ہمارے ملک کے عوام اس قدربے حس بھی ہو سکتے ہیں کہ بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے بغیر کسی تحقیقات کے کسی پر سنگین ترین الزام لگا کر اتنی بے دردی سے کسی کو ما ر دیا جائے۔تو ہین مذہب کا الزام لگا کر کسی غیر مسلم کو نشانہ بنانا کسی صورت بھی قابل قبول نہیں ہونا چاہیے۔پاکستان میں خدا نخواستہ اس حوالے سے کسی پر کوئی الزام لگے تو قوانین موجود ہیں قانون کو ہاتھ میں لینا کسی صورت قابل قبول نہیں ہو نا چاہیے۔لیکن سوال یہ بنتا ہے کہ آخر معاشرے میں موجود ان انتہا پسند رویوں کو کنٹرول کس طرح کیا جاسکتا ہے؟اس حوالے سے یقینا علما ئے کرام،میڈیا اور سیاسی قیادت کے علاوہ ریاست اور اس کے اداروں کا بھی کلیدی ذمہ داری ہے کہ معاشرے میں کسی بھی ایسے رویے کو نہ پنپنے دیا جائے جو کہ کسی بھی صورت میں آگے چل کر ملک کے اندر تشدد اور تخریب کا ری کا باعث بن جائے۔کوئی ایسی پالیسی نہ اپنائی جائے جو کہ ملک کے اندر سخت گیر نظریات کو فروغ دینے کا باعث بنے اور ملک کے اندر تقسیم پیدا کرے جو کہ بعد میں جا کر قومی سلامتی کے لیے بھی خطر ہ ثابت ہو۔پاکستان کا دنیا بھر میں ایک متوازن اور سافٹ امیج اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔اسی سے پاکستان میں سرمایہ کاری کو بھی فروغ دیا جاسکتا ہے اور اسی طرح پاکستان کی معیشت میں بھی استحکام لا یا جاسکتا ہے۔پاکستان کو بین الااقوامی سطح پر فیٹف اور یورپین کمیشن کی جانب سے جی ایس پی پلس اسٹیٹس کے حوالے سے چیلنجز کا سامنا ہے اور نہ صرف یہ بلکہ دشمن ملک بھی عالمی سطح پر پاکستان کو بد نام کرنے کا کو ئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا اور اس بات میں کو ئی شک نہیں کہ سیالکوٹ واقعے سے عالمی سطح پر پاکستان کے امیج کو شدید دھچکا پہنچا ہے۔
سیالکوٹ واقعے کے حوالے سے پولیس اور انتظامیہ کا کیا کردار تھا پولیس بروقت موقع پر کیوں نہیں پہنچی؟ سمیت کئی سوالات موجودہ ہیں جن پر ایک لمبی بحث کی جاسکتی ہے اور حکومت اور انتظامیہ پر تنقید کی جاسکتی ہے لیکن میں آج اس موضوع پر زیادہ بات کرنا نہیں چاہتا۔مسئلہ پولیس اور انتظامیہ سے کہیں بڑا ہے اور بطور ملک اور بطور قوم جب تک ہم سب مل کر ملک کو بہتر اعتدال پسند اور امن اور امان کا گہوارہ ملک نہیں بنانے کی کوشش کریں گے تب تک یہ سب کچھ اس ملک میں ہوتا رہے گا۔ہم سب کو ایک اجتماعی اپروچ کی ضرورت ہے۔ ریاست کو اس حوالے سے بہتر پالیسز اپنانے کی ضرورت ہے۔تب جاکر ہی معاشرے کی بہتر انداز میں تشکیل دی جاسکتی ہے۔ہم سب کو مل کر آنے والی نسلوں کے لیے ایک ایسا پاکستان دے کر جانا ہے جو کہ حقیقی معنوں میں ایک جدید اسلامی فلاحی ریاست ہو۔
(کالم نگارسینئرصحافی اورتجزیہ کارہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain