تازہ تر ین

افغانستان کی پکار

محمد صغیر قمر
امریکی اور نیٹو کی افواج ا افغانیوں کی دھرتی پرناک رگڑ کر رخصت ہوئیں۔ خس کم جہاں پاک!! میں کم ازکم اٹھارہ برس بعد ایک بار پھر کابل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر اترا۔ میں نے دیکھا دنیا کے چودہ ممالک کے فوجی جو جدید ترین اسلحہ لے کر آئے تھے،افغانیوں کے قدموں میں پڑا ہے۔بیس برس کی جنگ سے قبل اگر چہ افغانی برسوں باہم دست وگریباں بھی رہے لیکن انہوں نے اپنی آزادی پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔سوویت یونین نے جہاں اس خطے میں اپنے آپ کو خوار کیاوہاں وسط ایشیا کی ریاستیں بھی برس ہا برس تک نام نہاد سوشل ازم میں پسنے کے بعد اس چنگل سے ہمیشہ کے لیے آزاد ہوئیں۔ گزشتہ چار دہائیوں میں افغانیوں نے دو سُپر طاقتوں اور نیٹو کے لشکریوں کو شکست دی۔ گھر بیٹھ کر تجزیے، تبصرے ہوتے رہیں گے۔ اس سب کچھ کے باوجود حقائق اس وقت وہی ہیں جو اپنی آنکھوں سے جا کر دیکھے جاسکتے ہیں۔من گھڑت کہانیاں اور تجزیے وہ حیثیت نہیں رکھتے جو بر سر زمین اپنی آنکھوں سے دیکھے جاتے ہیں۔کابل کی سر زمین پر اترنے سے قبل ہم بھی بین الاقوامی متعصب میڈیا کے زیر اثر تھے۔خیال یہی تھا کہ یہاں امن وامان نام کی کوئی چیز نہیں ہوگی لیکن ہمارے میزبانوں نے جس طرح اپنے پلکیں بچھا کر استقبال کیا وہ ہمیں اپنی حیثیت اور سوچ سے بہت زیادہ لگا۔ ہم نے اپنی رہائش پر سامان رکھا اور تازہ دم ہو کر پیدل بازاروں میں نکل پڑے۔ سوچا تھا کہ یہاں ہر طرف حفاظتی چوکیاں ہوں گی لیکن موجودہ حکمرانوں کے حوالے سے ”انتہا پسند اور دہشت گرد“ جیسے الفاظ استعمال کرنے والوں کی عقل پر ماتم کرنے کو جی کیا۔ ہم کابل کی گلیوں کوچوں میں پیدل گھومے، ہمیں کسی نے روکا نہ کوئی مورچہ نظر آیا، سوائے اس کے کہ سرکاری اداروں اور سفارت خانوں کی حفاظت کے لیے ہمیں موجودہ حکومت کے نوجوان نہ صرف چاق وچوبند نظر آئے بلکہ مجھے اخلاق اور برتاؤ میں ہر ترقی یافتہ ملک سے بہتر نظر آئے۔اس دوران ہمیں حکومتی اہلکاروں سے ملنے کا بھی موقع ملا، ماضی کے بالکل برخلاف واضح تبدیلی نظر آئی۔ان کی عاجزی اور انکساری کے ساتھ رواداری بھی نظر آتی ہے۔ماضی میں ان کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ انہوں نے خواتین کے حقوق پامال کیے،انہیں تعلیم سے محروم کیا،ترقی نہیں ہونے دی،دہشت گردی کو پروان چڑھایا۔ کابل سمیت ملک کی تمام یونیورسٹیوں میں تعلیم کا سلسلہ گزشتہ تین ماہ سے بند ہے۔کابل یونیورسٹی کے ایک اہل کار نے بتایا کہ ہمیں کسی بھی دور میں خواتین یا بچیوں کی تعلیم میں رکاوٹ نہیں رہی۔اس وقت بھی کابل یونیورسٹی میں خواتین کا تناسب ساٹھ فی صد ہے۔
اسی طرح ننگرہار یونیورسٹی جلال آباد میں بچیوں کا تناسب کابل سے بھی زیادہ ہے۔ننگر ہار یونیورسٹی کے ایک ڈین سے جب ہم نے سابق اور موجودہ دور کے حالات کا ذکر کیا تو ان کاکہنا تھا”موجودہ طالبان حکومت پچھلے دور سے بالکل مختلف ہے ان کے آنے سے امن سو فیصد بحال ہے۔ ہمیں ان کے پچھلے دور میں بھی خواتین کی تعلیم سے نہیں روکا گیانہ اس دور میں پابندی ہے۔ کابل کی فوڈ سٹریٹ میں آپ ایک لمبی قطار میں چادریں اوڑھے افراد کو دیکھ کر حیرت ہوئی۔ یہاں نوجوان سر عام چرس اور ہیروئین میں دھت نظر آتے ہیں۔چھوٹے چھوٹے بچے اور بچیاں رات کے پچھلے پہر تک، ہم نے دیکھا کہ بھیک مانگ رہے ہیں بلکہ ان میں سے بیشتر پاؤں سے بھی ننگے نظرآتے ہیں۔یہ سمجھنا بالکل مشکل نہیں کہ امریکی اپنی تہذیب کا سارا گند یہاں چھوڑکر گئے ہیں۔بچیاں تو کیا یہاں بچوں کو بھیک اور چرس پر لگا دیا گیا۔یہ مناظرکابل شہر کے ہیں جہاں بیس برس میں نسلیں بدل جاتی ہیں انقلاب آجاتے ہیں،لیکن یہاں ہم نے کابل سے باہر وردگ صوبے،قندھار روڈ،تے تیمور کے دیہاتوں کے علاوہ سروبی،لغمان،جلال آباد شہر اور گرد ونواح کے دیہات بھی دیکھے۔ہمیں نہ تہذیب بدلی نظر آئی،نہ تعلیم،نہ خوشحالی نہ روز گار۔ستر فی صد دیہات آج بھی کچی آبادیوں پر مشتمل ہیں،جہاں تک جانے والے کچے راستوں پر چلتے ہوئے کہیں کہیں آثار بتاتے ہیں کہ یہاں کبھی سڑک ہوئی ہو گی۔اس سفر میں ہمیں امریکیوں کا ایک”سچ“ واضح نظر آیا وہ یہ کہ انہوں نے افغانیوں کو پتھر کے دور میں واپس بھیج دیا۔اس کے برعکس موجودہ حکومت میں شامل اہلکار نہ صرف اس عرصے میں اعلیٰ تعلیم سے بہرہ مند ہوئے بلکہ ان بیس برسوں میں انہوں نے ماضی کی غلطیوں سے نہ صرف سبق سیکھا بلکہ جدیددورکے تقاضوں کے مطابق اپنے آپ کو ہم آہنگ بھی کیا۔شدت پسندی میں واضح کمی آئی ہے۔
ستم یہ ہے کہ اس وقت افغان حکومت کے اکاؤنٹ سیز ہیں اور بیرونی دنیا یہ تماشہ دیکھ رہی ہے کہ امریکی اپنے حواریوں کو کب اشارہ کریں گے۔اگرچہ ایک باقاعدہ معاہدے کے تحت اس کی ”رخصتی“ عمل میں آئی ہے اور افغان حکومت اس کی پاسداری کے لیے دن رات مصروف ہے جب کہ دوسری طرف سے ابھی ”دیکھو اور انتظار کرو“کی پالیسی ہے۔یہاں مسئلہ انسانیت کا ہے اور انسانیت چیخ چیخ کر بتارہی ہے کہ ان شدید ترین سردیوں میں وہ لوگ جو جنگ کی تباہ کاریوں کے باوجود زندہ ہیں وہ اس دور میں بھوک اور بیماری کے ہاتھوں موت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
(متعدد کتابوں کے مصنف‘شعبہ تعلیم
سے وابستہ اورسماجی کارکن ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain