کیاآئی ایم ایف کے بغیر معیشت کی بحالی ممکن؟

رانا زاہد اقبال
پاکستان کی معیشت خطرات میں گھرتی چلی جا رہی ہے، روپے کی قدر میں کمی، معیشت کی شرح نمو، ٹیکسوں کی وصولی، بچتوں وسرمایہ کاری کی شرحیں، برآمدات، غذائی قلت، بیروزگاری اور غربت کی صورتحال گزشتہ برسوں اور خطے کے دوسرے ممالک کے مقابلے میں خراب ہوتی چلی جا رہی ہے۔ افراطِ زر، مہنگائی اور ملک پر قرضوں کا بوجھ ناقابلِ برداشت حد تک بڑھ چکا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ عنقریب بہتری کے آثار بھی نظر نہیں آرہے ہیں کیونکہ گزشتہ روز وزیرخزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ پٹرولیم کی مد میں ٹیکس ریونیو میں 450ارب روپے کے گیپ کو پورا کرنے کیلئے ٹیکسوں کی شرح میں نظرثانی کرنے جارہے ہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ٹیکس بڑھانے اور سبسڈیز کم کرنے کی آئی ایم ایف کی شرائط کو من وعن تسلیم کرلیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف دباؤ ڈال کر روپے کی قدر کو کم ترین سطح پر لانا چاہتا ہے۔ معیشت کی اس تباہی کے بدلے میں پاکستان کو قرض کی رُکی ہوئی رقم سے ایک ارب ڈالر ملنے کی امید ہے۔ آئی ایم ایف سے ملنے والی ایک ارب ڈالر کی رکی ہوئی قسط میں عوام کیلئے کیا ہے۔ سوائے اس نئے قرض کے نتیجے میں آنے والی مہنگائی کی نئی لہر اور مزید معاشی بحران کے؟
کچھ عرصہ قبل تک حکومت کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف پر انحصار کرنے کے بجائے اپنے ذرائع سے معیشت بحال کرنے کی کوشش کریں گے جس کیلئے وسائل کی ضرورت ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ٹیکس بڑھائے بغیر اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی مدد کے بغیر وسائل کیسے پیدا کئے جائیں کہ حکومت اقتصادی بحران پر قابو پا سکے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہم عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھائے اور عالمی مالیاتی اداروں سے قرض لئے بغیر اپنی معیشت کو ترقی نہیں دے سکتے؟ یقینا ہم ملکی وسائل سے معیشت کو ترقی دے سکتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ وسائل کی فراہمی کیسے ممکن ہو، اس کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ملک و قوم کی اپنی دولت واپس لائی جائے۔ پاکستانیوں کے بیرونِ ملک کاروبار، جائیدادیں اور بینک اکاؤنٹس ہیں۔ جن لوگوں نے قومی وسائل لوٹ کر یا ٹیکس بچانے کیلئے دولت بیرونِ ملک منتقل کردی ایسی دولت وطنِ عزیز میں لانے کے لئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح کھربوں روپے ملک کے نامور شرفاء نے قرضوں کی شکل میں بینکوں سے لئے اور بعد میں قرض معاف کروا لئے۔ بینکوں سے بھاری قرضے لینے اور پھر انہیں سیاسی وابستگی کی بنیاد پر معاف کرانے کی داستان بڑی طویل ہے۔
ماضی میں سب سے زیادہ زرعی قرضے ترقی کے نام پر بڑے بڑے جاگیر داروں نے حاصل کئے۔ تاجر، صنعت کار اور کاروباری طبقے کے افراد بھی صنعتی ترقی کے نام پر اس دوڑ میں شامل تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جو اپنے قرضوں کی معافی کیلئے سیاسی وفاداریوں بھی تبدیل کرتے رہے۔ اس طرح انہوں نے جمہوری عمل کو نقصان پہنچایا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ قومی معیشت کو متزلزل کرنے اور مالیاتی اداروں کو دیوالیہ کرنے میں کون سے عناصر سرِفہرست تھے لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ ماضی کی کسی بھی حکومت نے اس بدعنوانی اور لوٹ مار کا نوٹس لینے اور قومی سرمائے کی واپسی کیلئے کوئی قدم اُٹھانے کی زحمت ہی نہیں کی۔ پاکستان میں براہِ راست غیرملکی سرمایہ کاری بہت کم ہوگئی ہے۔ غیرملکی سرمایہ کاری کم ہونے کا سیدھا مطلب یہی ہے کہ سرمایہ کاروں کو یہاں کے حالات کی وجہ سے اپنے سرمائے کے محفوظ رہنے کا یقین نہیں ہے۔ اس ساری صورتحال کا تقاضا ہے کہ داخلی سطح پر حالات بہتر بنانے کی کوشش کی جائے۔ حکومت کو ٹیکس وصولیوں میں بھی ناکامی کا سامنا ہے۔ ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کے اقدامات کر کے زیادہ ٹیکس اکٹھا کیا جاسکتا ہے۔ حکومت ان تمام شعبوں پر جو اب تک ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں ٹیکس لگا کر آمدنی بڑھاسکتی ہے۔ دوست ممالک سے بھی مدد لی جاسکتی ہے۔ زراعت میں بہتری لا کر زرعی آمدنی میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
عالمی معیشت کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت آشکار ہوگی کہ ترقی یافتہ صنعتی ممالک نے بھی یہ معراج زراعت کو ترقی دیکر حاصل کی ہے۔ یہ ممالک آج بھی اپنے زرعی شعبے کو بے تحاشا سبسڈیز فراہم کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی زرعی پیداوار سستی ہوتی ہے اور ملکی معیشت کے استحکام میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔
(کالم نگارمختلف امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

شمع رسالتؐ کے پروانوں کی محفل

حنا سبزواری
ہیرا کسی گندی نالی میں گر جائے اور اسے صاف کرنے کے لیے نالی میں پڑے ہوئے اس پر پانی ڈالے تو منوں کے حساب سے پانی ڈالنے پر بھی وہ صاف نہ ہوگا۔ اس کے برعکس اس نالی سے نکال کر صرف ایک گھونٹ پانی سے دھویا جائے تو اس میں اصل نکھار آجائے گا یہی مثال انسان کی ہے۔ انسان دنیا کی گندگی میں اس قدر گھل مل چکا ہے کہ اب اس پر کوئی اثر نہیں لیکن اگر اسے یہاں سے نکال کر چند روز کیلئے خالص دینی ماحول سے ایمان اور بہترین انسان کی چمک دمک اور ہیرے سے بھی زیادہ نکھار آجائے گا۔ یہی تبلیغی جماعت کا مشن اور منشور ہے۔ تبلیغی جماعت کے اس مشن کی ابتدا بستی نظام الدین اولیاء دہلی سے ہوئی جہاں ایک چھوٹی سی مسجد میں ایک بزرگ مولانا محمد اسماعیل رہا کرتے تھے۔ ان کا معمول تھا کہ وہ وہاں بچوں کو قرآن پاک پڑھاتے اور آنے جانے والے مسافروں کا سامان وہاں اترواکر انہیں ٹھنڈا پانی پلاتے۔
علاوہ ازیں وہ گردونواح میں کام کرنے والے مزدوروں کو بھی اکثر وہاں لے آتے ان کو قرآن پڑھا تے نماز سکھاتے ان کے مناسب خاطر خدمت کرتے اور پھر نوافل پڑھتے کہ اللہ نے مجھے اپنے بندوں کی خدمت کی توفیق بخشی ساری عمر مولانا ا سی چھو ٹی سی مسجد میں ہی قرب و جوار کے لوگوں کو د درس و تدریس دیتے رہے ان کی وفات کے بعد ان کے فرزند جمند مولانا محمد الیاس نے دہلی کے مدرسہ مظا ہر علوم میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا آپ مولانا رشید احمد گنگوہی سے بیعت تھے آپ وہاں لوگوں کی بیعت کر کے تزکیہ نفس کرنے لگے ان کے اخلاق و یقین کی برکت سے میو ات کا تقریبا سارا علاقہ جو گمراہی جہالت اور اکھڑ پن میں مشہور تھا اس کے ہزاروں افراد مبلغ بن گئے مولانا کے مسلسل جدوجہد کے بعد وہاں تبلیغ گشت شروع ہو گئے ا ٓہستہ آہستہ یہ سلسلہ انڈیا سے باہر پہنچ گیا اپنے آخری دنوں میں مولانا نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ میرے زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں اگر میری وفات کے بعد یہ سلسلہ تبلیغ جاری نہ رہا تو میری روح کو سکون نہ ہوگا لہذا میری زندگی میں یہ مشن کسی ذمہ دار کو سونپ دیا جائے چنانچہ بزرگوں کی باہمی مشورے کے بعد آپ کے بیٹے مولانا محمد یوسف کو جماعت کا امیر اور آپ کا جانشین بنا دیا گیا مولانا محمد الیاس 1922ء کو انتقال فرما گئے اور ان کے بعد ان کے بیٹے مولانا محمد یوسف نے اس کام کو نہ صرف آگے بڑھایا بلکہ اپنے نظر کیمیا ا ثر سے پوری دنیا کے قلوب کو گرما کررکھ دیا اور اس پاک مشن کو دنیا کے طویل وعرض میں پہنچا دیا ان کی سچی لگن اور مسلسل سخت جدوجہد کا نتیجہ ہے کہ آج دنیا میں شاید کوئی ایسا ملک نہیں جہاں تبلیغی جماعت کا مشن جاری نہ ہو۔
قیام پاکستان کے بعد مولانا محمد یوسف نے سسلہ تبلیغ رائیونڈ سے شروع کرنے کا ارادہ ٖ فرمایا پاکستان کے ا س چھوٹے سے قصبے میں اس وقت موجودہ تبلیغی مرکز کی جگہ ایک چھوٹی سی کچی مسجد ہے اور اس کے ساتھ ایک مقامی میواتی باباعبداللہ کی کچھ آراضی پڑھی تھی جس نے اس نیک مشن سے مرعوب ہو کر اپنی اراضی مسجد کے نام وقف کر دی اور پھر 1949ء کو یہاں پہلا تبلیغی اجتماع منعقد ہوا جو چند ہزار افراد کا تھا پھر وقت کی دھاروں کے ساتھ ساتھ یہ سلسلہ ترقی کرتا گیا کچی مسجد کی جگہ بہت بڑی مسجد تعمیر ہو گئی لیکن وہ ناکافی ہو گئی بعدازاں تبلیغی مندوبین نے رائیونڈ کے قریب سالانہ اجتماع کے انعقاد کے لیے 112 ایکڑ اراضی خرید لی جہاں اب حج بیت اللہ کے بعد دوسرا بڑا اجتماع منعقد ہوتا ہے اور اب مزید وسیع تر اراضی بھی مذکورہ اراضی میں شامل کر لی گئی۔
مولانا محمد یوسف نے اپنے والد ماجد کی زندگی کے بعد تقریباً 21سال جماعت کی قیادت و امارت میں گزاری۔ ان کی زندگی مسلسل جہاد تھی اور اس کا مقصد صرف ایک ہی تھا کہ مسلمان حقیقی مسلمان بن جائیں کیونکہ اس کی تخلیق امربالمعروف و نہی عن المنکر کے لیے ہوئی ہے اور اللہ کی رضا کے لئے جیتا اور اس کی رضا کی خاطر اپنی جان جان آفرین کے سپرد کردیتا ہے اور مادی ا غراض اس کا مطمع نظر نہیں ہوتیں۔ مولانا نے دورانے تبلیغ کبھی ناخوشگوار حالات کی پروا نہیں کی، وہ حادثات میں مسکراتے، طوفانوں سے ٹکراتے رہے تاریخ میں شمع جلاتے مردہ دلوں میں حیات تازہ دوڑاتے، دنیاوی میں غرق مسلمانوں کی فکر آخرت اور روحانی واخلاقی اقدار کو زندہ کرتے ہوئے اس تبلیغی سفر میں اس جہاں سے اور اپنی جان سے گزر کر زندہ جاوید ہوگئے۔ آج تبلیغی جماعت کا سب سے بڑا مرکز رائیونڈ میں ہے اور بزرگوں کے لگائے ہوئے زخم سے بہنے والے نور کی دعائیں پوری دنیا کو منور کررہی ہیں۔
(کالم نگارسینئر صحافی ہیں)
٭……٭……٭

ماحولیاتی تبدیلی اورشجرکاری

اشتیاق ارمڑ
موسمیاتی تبدیلی پوری دنیا میں ہو رہی ہے جس کیلئے جہاں دنیا میں ہنگامی بنیادوں پر کام کیا جارہا ہے وہاں پاکستان میں خاص طور پر حکمران جماعت تحریک انصاف نے پہلے خیبرپختونخوا میں ایک ارب درخت لگانے کا اعلان کیا اور 20 کروڑ سے زائد پودے بھی لگائے گئے خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع سمیت ضم شدہ اضلاع میں بھی لگائے گئے۔ یہ سلسلہ جاری ہے جس سے ہماری آنے والی نسلوں کو بھی فائدہ ہوگا۔ خیبرپختونخوا میں ایک ارب درخت لگانے کے منصوبہ کے تحت محکمہ جنگلات خیبر پختونخوا نے 2019-20ء اور 2020-21ء 2سالوں میں بے حد تنقید اور مخالفت کے باوجود صوبہ بھر میں 3کروڑ سے زائد پودے لگادیئے ہیں۔ محکمہ جنگلات نے شجرکاری کیلئے صوبے کے مختلف اضلاع کو 3حصوں میں تقسیم کیا ہے جن میں سنٹر ساؤتھ 1کو پشاور، ناردرن فاریسٹ ریجن 2ایبٹ آباد اور مالاکنڈ فارسٹ ریجن 3سوات شامل ہیں۔ خیبرپختونخوا میں ایک ارب درخت لگانے کے منصوبے پر تیزی سے کام جاری ہے۔
محکمہ جنگلات خیبرپختونخوا نے کہا کہ 2سالوں میں صوبے میں 3کروڑ 92لاکھ سے زائد پودے لگائے گئے ہیں جس میں 94.31ملین پودے بذریعہ پلانٹیشن، 18.79ملین سوئنگ ڈبلنگ، 187.82ملین پودے قدرتی اور 91.15ملین پودے بذریعہ فارم فارسٹری یعنی عوام الناس میں فری تقسیم کئے گئے۔ محکمہ ماحولیات نے ایک ارب درخت لگانے کیلئے مختلف اضلاع میں خاص منصوبہ بندی کے تحت اقدامات اٹھائے ہیں اور صوبہ بھر کو 3حصوں میں تقسیم کرکے کام کیا گیا ہے۔ اسی طرح اپردیر میں سب سے زیادہ 3کروڑ پودے لگائے گئے جن پر 19کروڑ خرچ آئے۔ اورکزئی میں 2کروڑ 23لاکھ سے زائد پودوں کی شجرکاری پر 16کروڑ 25لاکھ روپے سے زائد خرچ ہوئے۔ چترال میں 2کروڑ 22لاکھ سے زائد پودوں کی شجرکاری پر 18کروڑ 87لاکھ روپے سے زائد رقم خرچ ہوئی۔ صوبائی دارالحکومت پشاور میں 95لاکھ سے زائد پودے لگائے گئے جن پر23کروڑ 57لاکھ روپے سے زائد خرچ ہوئے ہیں۔ اسی طرح ضم شدہ اضلاع شمالی و جنوبی وزیرستان، کرم، مہمند، باجوڑ، خیبر ودیگر میں بھی لاکھوں کی تعداد میں پودے لگائے گئے ہیں۔ سیاحتی مقامات کاغان، ہری پور، گلیات، کالام، سوات، شانگلہ سمیت ڈیرہ اور کوہستان میں بھی صوبہ بھر میں جاری شجرکاری مہم میں عوام نے اپنا بھرپور حصہ ڈالا ہے۔ عوام میں پودوں کی مفت تقسیم کو خوب پذیرائی ملی ہے اور اس کے تحت ایک ارب درخت لگانے کی مہم کو تقویت ملی ہے تینوں ریجنز میں 2019-20ء اور 2020-21ء کے دوران شجرکاری پر مجموعی طور پر 5ارب 74کروڑ روپے سے زائد رقم خرچ ہوئی۔ پودوں کی دیکھ بھال کیلئے چوکیداروں کے علاوہ نگہبان فورس تشکیل دی گئی ہے جوکہ ان جنگلات میں اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہی ہے۔ نگہبان فورس اور چوکیدار متعلقہ علاقوں میں دیہی ترقیاتی کمیٹیVDC کی نگرانی میں کام کررہے ہیں۔
وزیراعلیٰ کے احکامات پر ملازمین کو جنگلات کی دیکھ بھال اور ان کو بڑھانے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر احکامات دیئے گئے ہیں جس پر محکمہ ماحولیات عملدرآمد کروانے میں اپنا کردارادا کررہا ہے۔ محکمہ ماحولیات کی ٹیمیں دیگر اضلاع میں بھی ہدف کو پورا کرنے کیلئے اقدامات اٹھا رہی ہیں تاکہ وزیراعظم کی جانب سے ایک ارب درخت لگانے کے منصوبے کو جلدازجلد مکمل کرکے ٹارگٹ پورا کیا جاسکے۔ اسی طرح سائنسدانوں نے بھی شجرکاری کے دس سنہری اصول وضع کیے ہیں جن کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ اگلی دہائی میں اقوام عالم کی یہ اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ شجرکاری ماحولیاتی تبدیلی سے بچنے اور بائیو ڈائیورسٹی (نباتاتی تنوع) کے تحفظ کا بہترین طریقہ ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ غلط درخت غلط جگہوں پر لگانے سے فائدے کی جگہ نقصان ہوسکتا ہے۔ اُن اصولوں میں سب سے پہلے جنگلات کا تحفظ اور اس کوشش میں مقامی لوگوں کو شامل کیا جانا ہے۔ ورلڈ بینک نے اپنی ایک رپورٹ میں پاکستان میں ایسے 6اضلاع کی نشاندہی بھی کی ہے۔ جہاں اگر شجرکاری نہ کی گئی تو وہ 2050ء تک یہ ریگستان بن جائیں گے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا کے کئی حصوں میں بڑے پیمانے پر درخت لگانے کے منصوبے جاری ہیں تاکہ جو درخت اور جنگلات صاف ہوگئے ہیں، ان کا ازالہ کیا جا سکے۔
جنگلات زمین کے لیے اہم ہیں جنگلات دنیا کے تین چوتھائی حیوانات اور نباتات کو محفوظ بناتے ہیں اور فضا سے کاربن ڈائی آکسائڈ جذب کرتے ہیں اور خوراک، ایندھن اور ادویات بھی فراہم کرتے ہیں۔ درخت لگانا یا شجرکاری ایک خاصہ پیچیدہ عمل ہے اور جس کا کوئی ایک آسان حل موجود نہیں ہے۔ جنگلات کو اپنی قدرتی حالت میں رکھنا ہمیشہ ہی بہتر ہوتا ہے۔ پرانے جنگلات زیادہ کاربن کو جذب کرتے ہیں اور وہ جنگل کی آگ، طوفانوں اور خشک سالی سے زیادہ بہتر تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ جہاں بھی ممکن ہو ہمیں اس بات پر زور دینا چاہیے کہ جنگلات کی کٹائی کو روکا جائے اور بچے کھچے جنگلات کو محفوظ بنانا ہی ترجیح ہونی چاہیے۔ اس کیلئے مقامی لوگوں کو درخت لگانے یا شجرکاری کی مہم میں آگے رکھنا چاہیے۔ اس بات کا مشاہدہ کئی مرتبہ کیا جاچکا ہے کہ جہاں کہیں بھی مقامی لوگوں کو شجرکاری یا جنگلات لگانے کی مہمات میں شامل کیا گیا ہے، وہ کامیابی سے ہمکنار ہوئی ہیں کیونکہ جنگلات کو محفوظ رکھنے میں سب سے زیادہ فائدہ مقامی آبادی ہی کو ہوتا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت خیبر پختونخوا میں تقریباً 8سال سے ہے اور تحریک انصاف کی حکومت نے ہی جنگلات کی غیرضروری کٹائی پر پابندی لگائی ہے جس سے کافی فائدہ پہنچا ہے۔
(خیبرپختونخواکے وزیرجنگلات ہیں)
٭……٭……٭

معاہدہ ہوگیا‘ اب کیا ہوگا؟

ملک منظور احمد
حکومت اور تحریک لبیک پاکستان کے درمیان بالآخر معاہدہ طے پا گیا ہے اور مظاہرین کی جانب سے سٹرکیں خالی کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے اور اسلام آباد اور راولپنڈی سمیت پنجاب کے کئی شہروں میں معمولات زندگی کا سلسلہ بحال ہونا شروع ہوگیا ہے لیکن اس معاہدے کے بعد سوالات کا جواب ملنے کے کے بجائے مزید سوالات کھڑے ہوگئے ہیں۔ حکومت کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ معاہدے کی تفصیلات وقت آنے پر عوام کے سامنے رکھی جا ئیں گی جبکہ اپوزیشن کا مؤقف ہے کہ کسی بھی معاہدے کی تفصیلات جاننا عوام کا حق حکومت فوری طور پر تفصیلات عوام کے سامنے رکھے، حکومت کی جانب سے مذہبی جماعت کے ساتھ مذاکرات کے لیے قائم کی جانے والی 12رکنی کمیٹی غیر فعال ہوگئی اور آخر میں آکر مفتی منیب الرحمان اور مولانا بشیر فاروقی نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے ساتھ مذاکرات کیے اور معاملہ کو کسی انجام تک پہنچایا۔
اس سارے دھرنے کے دوران حکومتی وزراء کا رویہ اور طرز عمل پر بھی مذہبی جماعت بلکہ علمائے کرام کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے اور یہ بات واقعی سوچنے کی ہے کہ حساس ترین معاملات میں چند وزراء کی غیرذمہ دارانہ بیان بازی معاملے کو سلجھانے کے بجائے مزید الجھانے کا باعث بنی۔ حکومت روز اول سے ہی اس معاملے پر مخمصے کا شکار دکھائی دی، کبھی حکومت نے مذہبی جماعت سے مذاکرات کی بات کی اور اگلے ہی دن ان کو عسکری تنظیم قرار دے کر ان کے خلاف سخت کارروائی کا مؤقف اپنایا اور شاید اسی کنفیوژن کے باعث عوام سمیت کسی کو بھی یہ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ حکومت آخر اس حوالے سے کیا پالیسی اپنانا چاہتی ہے لیکن بہرحال اطمینان بخش بات یہ ہے کہ معاہدے کے بعد ملک میں موجود بے یقینی اور انتشار کی فضا کا خاتمہ ہوا ہے اور عوام نے بھی سکھ کا سانس لیا ہے لیکن یہاں پر یہ امر اہمیت کا حامل ہے کہ اس معاہدے کو تکمیل تک پہنچانے کے لیے کئی شخصیات نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان شخصیات میں سیاستدان اور علمائے کرام تو شامل ہیں ہی لیکن اس کے علاوہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجودہ نے بھی اس حوالے سے اہم ترین کردار ادا کیا ہے۔ اس حوالے سے ان کی جتنی تحسین کی جائے کم ہے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ آرمی چیف پاکستان کو ایک امن پسند ترقی یافتہ اور خوشحال ملک دیکھنا چاہتے ہیں اور اس معاملہ میں ان کا نہایت ہی مثبت اور اہم کرداد اس بات کی گواہی دیتا ہے اور یہ بات بھی یہاں پر قابل زکر ہے کہ پاکستان کی دشمن قوتیں بھی اس احتجاج کی آڑ میں پاکستان کے خلاف اپنے مذموم مقاصد پورے کرنے کے لیے پر تولے ہوئے بیٹھی ہوئی تھیں اور یہ معاہدہ ہونے کے باعث پاکستان ایک بڑے طوفان سے بچ گیا ہے۔
پاکستان اس وقت عالمی صورتحال کے تناظر میں دنیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے اور پاکستان پر اس حوالے سے بہت دباؤ بھی ہے اور پاکستان کو اس حوالے سے بہت محتاط انداز میں چلنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان پر پہلے ہی فیٹف کی تلوار لٹک رہی ہے اور یورپی یونین کی جانب سے بھی پاکستان کا جی ایس پی پلس کا تجارتی سٹیٹس جس کے تحت پاکستان کو یورپی منڈیوں میں ترجیحی رسائی حاصل ہے اور پاکستان کو گزشتہ چند سالوں میں پاکستان کو اس مد میں اربوں ڈالر کا فائدہ ہو چکا ہے، خطرے میں پڑ سکتا تھا، فرانس مذہبی جماعت کے احتجاج میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے اور فرانس ہی یورپی یونین کا مرکزی ملک بھی ہے۔ اگر فرانس کے سفیر کو ملک بدر کیا جاتا تو اس کا مطلب یہی ہوتا کہ پاکستان یورپی یونین کے ساتھ اپنے تعلقات کو ختم کرنے کے مترادف ہے۔
بہرحال یہ پاکستان کے لیے بہت ہی مثبت پیشرفت ہے جوکہ اس معاہدے کی صورت میں سامنے آئی ہے، یہ بات بھی قابل غور ہے اور اس پر بات ہونی چاہیے کہ آخر کیوں حکومتی کمیٹی میں تبدیلی کی ضرورت پڑی، اگر مذہبی جماعت کے ساتھ معاہدہ کرنا ہی تھا جوکہ اس معاملے کا آخری حل تھا تو پھر معاہدے سے چند روز قبل ہی دھمکیاں کیوں دی گئیں؟ وزراء کے چند بیانات کی شکایت تو علمائے کرام نے بھی وزیراعظم سے ملاقات کے دوران کی۔ اس غیرسنجیدہ رویے پر وزیراعظم کو نوٹس لینا چاہیے اور یقینی بنایا جانا چاہیے کہ آئندہ ایسی صورتحال درپیش ہو تو کم ازکم اس کو ہینڈل کرنے کے لیے سنجیدہ رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ یہاں پر اس حوالے سے بھی سوالات اٹھ رہے ہیں کہ ملک میں دھرنا کلچر تو بہرحال موجودہ حکومت نے ہی شروع کیا تھا اور عوام کو اس انداز میں سٹرکیں بند کرکے احتجاج کرنے کاراستہ دکھایا تھا اور اب یہ طریقہ احتجاج نہ صرف موجودہ حکومت کے گلے میں خود پڑ گیا ہے بلکہ ملک کو نقصان پہنچانے کا بھی باعث بن رہا ہے۔ سوال کیے جا رہے ہیں کہ یہ ریت شروع تو کر دی گئی ہے لیکن اب اس کا اختتام کیوں کر ہوگا؟
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ پُرامن احتجاج تو ہر سیاسی اور مذہبی جماعت بلکہ ہر شہری کا بنیادی حق ہے لیکن راستے بند کرنا، عوام کی املاک کو نقصان پہنچانا، ریاستی اہلکاروں پر حملے کرنا کسی صورت بھی مناسب تصور نہیں کیاجاسکتا ہے اور نہ ہی کسی بھی مہذب ریاست میں اس کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ اس کلچر کا خاتمہ اب تمام سیاسی سٹیک ہولڈرز اور لیڈران کو ملکر ہی کرنا ہوگا ورنہ مستقبل میں اس طرح کے احتجاج کا سلسلہ ختم نہیں ہوسکے گا۔ جہاں تک بات ہے کہ کیا تحریک لبیک کی جانب سے اس معاہدے کی پاسداری کی جائے گی یا نہیں حکومت اس معاہدے پر عملدرآمد کرے گی یا نہیں؟ یہ سوال اہم ہیں لیکن ان کے جواب واضح اور اتنے سادہ نہیں ہیں۔ ان سوالات کا جواب تو قوم کو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مل ہی جائے گا لیکن امید کی جاسکتی ہے جن اہم قومی شخصیات نے اس معاہدے کو پا یہ تکمیل تک پہنچانے میں کلیدی کردارادا کیا ہے ان شخصیات کے اثر کے باعث یہ معاہدہ پائیدار ثابت ہوگا اور چلتا رہے گا لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا، یہ حقیقت ہے کہ پاکستان جیسے ملک پُرتشدد سیاست اور پُرتشدد احتجاج کے متحمل نہیں۔ اگر مستقبل میں ہم بہتری چاہتے ہیں تو اس حوالے سے سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔
(کالم نگارسینئرصحافی اورتجزیہ کارہیں)
٭……٭……٭

ہرجانہ کیس: میشا شفیع کی والدہ اور علی ظفر کے وکیل کے درمیان تلخ کلامی

لاہور کی سیشن عدالت نے علی ظفر کی جانب میشا شفیع کے خلاف ہتک عزت کیس میں اداکارہ صبا حمید کے بیان پر جرح کے لیے وکلا کو پانچ نومبرکو طلب کر لیا

ایڈیشنل سیشن جج خان محمود نے کیس کی سماعت ۔ میشا شفیع کی والدہ صبا حمید عدالت میں پیش ہوٸیں ۔ علی ظفر کے وکیل نے جرح کرتے ہوٸے کہا کہ میشا شفیع نے جو الزامات عاٸد کیے کیا اس کے ثبوت آپ کے پاس ہیں جس پر صبا حمید نے کہا کہ انھیں اپنی بیٹی پر یقین ہے کہ وہ سچ کہہ رہی ہے تایم ثبوت میشا کے پاس ہیں ۔ عدالت میں میشا شفیع کے بھاٸی کا گانا عدالت میں چلا کر سنایا گیا جس میں انتہاٸی نامناسب الفاظ استعمال کیے گٸے صبا حمید نے کہا کہ گانے یا ایکٹنگ سے کسی کے کردار کا تعین نہیں کیا جا سکتا ۔ میں بھی منفی کردار کرتی ہو تو کیا حقیقی زندگی میں بھی ایسی ہوں ۔ سماعت کے دوران صبا حمید اور علی ظفر کے وکلا کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوٸی ۔ صبا حمید کے بیان پر جرح جاری تھی کہ عدالت نے سماعت پانچ نومبر تک ملتوی کر دی

امریکا نے آئل ٹینکر قبضے میں لینے سے متعلق ایران کا دعویٰ مسترد کردیا

پینٹاگون: امریکی حکام نے ایران کی جانب سے آئل ٹینکر قبضے میں لینے سے متعلق دعوے کومسترد کردیا ہے۔

امریکی محکمہ دفاع کے ادارے پینٹاگون کی جانب سے جاری بیان میں آئل ٹینکر قبضے میں لینے سے متعلق ایرانی دعوے کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ایران کی جانب سے آئل ٹینکر کو روکنے کے لیے ہیلی کاپٹر سے پیچھا کرنے سمیت تصادم کے الزامات غلط ہیں، امریکی افواج نے کسی بھی ایرانی تیل بردار جہاز کو قبضے میں نہیں لیا۔

 

واضح رہے کہ ایران کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ امریکا نے بحر عمان میں ایرانی آئل ٹینکر کو قبضے میں لینے کی کوشش کی جس کو ایرانی فوج نے ناکام بنادیا۔

امریکا نے آئل ٹینکر قبضے میں لینے سے متعلق ایران کا دعویٰ مسترد کردیا

پینٹاگون: امریکی حکام نے ایران کی جانب سے آئل ٹینکر قبضے میں لینے سے متعلق دعوے کومسترد کردیا ہے۔

امریکی محکمہ دفاع کے ادارے پینٹاگون کی جانب سے جاری بیان میں آئل ٹینکر قبضے میں لینے سے متعلق ایرانی دعوے کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ایران کی جانب سے آئل ٹینکر کو روکنے کے لیے ہیلی کاپٹر سے پیچھا کرنے سمیت تصادم کے الزامات غلط ہیں، امریکی افواج نے کسی بھی ایرانی تیل بردار جہاز کو قبضے میں نہیں لیا۔

 

واضح رہے کہ ایران کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ امریکا نے بحر عمان میں ایرانی آئل ٹینکر کو قبضے میں لینے کی کوشش کی جس کو ایرانی فوج نے ناکام بنادیا۔

چین توقع سے کئی زیادہ تیزی سے جوہری ہتھیار تیار کررہا ہے، پینٹاگون

واشنگٹن: پینٹاگون نے شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ چین اپنے جوہری ہتھیاروں کو توقع سے کئی زیادہ تیزی سے بڑھا رہا ہے۔

 رپورٹ کے مطابق چین کے پاس 2027 تک 700 ڈیلیوری ایبل نیوکلیئر وار ہیڈز ہو سکتے ہیں اور 2030 تک یہ تعداد ایک ہزار تک پہنچ سکتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق جوہری ہتھیاروں کا حجم اس سے ڈھائی گنا زیادہ ہے جو پینٹاگون نے صرف ایک سال پہلے کیا تھا۔

امریکی رپورٹ میں کہا گیا کہ چین ’اپنے زمینی، سمندری اور ہوا پر مبنی جوہری ترسیل کے پلیٹ فارمز کی تعداد میں سرمایہ کاری اور توسیع کر رہا ہے اور اپنی جوہری قوتوں کی اس بڑی توسیع میں مدد کے لیے ضروری بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کر رہا ہے‘۔

یہ اندازہ امریکی محکمہ دفاع کی چینی فوجی پیشرفت پر کانگریس کو دی گئی سالانہ رپورٹ میں سامنے آیا ہے۔

آزاد محققین نے حالیہ مہینوں میں مغربی چین میں نئے جوہری میزائل ’سائلوس‘ کی سیٹیلائٹ تصاویر شائع کی ہیں۔

ایک امریکی دفاعی اہلکار نے بتایا کہ جوہری ہتھیاروں کے ذخائر میں توسیع ’ہمارے لیے بہت تشویشناک ہے‘۔ انہوں نے کہا کہ یہ ’ان کے ارادوں کے بارے میں سوالات اٹھاتا ہے‘۔

ایک اور عہدیدار نے بیجنگ سے اس کی جوہری طاقت کی ترقی پر ’زیادہ شفافیت‘ کا مطالبہ کیا ہے۔

پینٹاگون نے چین کو مستقبل کے حوالے سے تشویشناک ملک قرار دیا ہے۔

اس کی ایک وجہ بیجنگ نے اپنے سرکاری منصوبے کے مطابق 2049 تک پیپلز لبریشن آرمی کو ’عالمی معیار کی افواج‘ میں تبدیل کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

چین اپنی فضائی، خلائی اور سمندری افواج کو عالمی سطح پر پیش کرنے کے مقصد کے ساتھ بڑھا رہا ہے۔

حکومت کا موسم سرما کیلئے بجلی سستی کرنے کا اعلان

اسلام آباد: وزیر توانائی حماد اظہر نے موسم سرما کے لیے بجلی کے نرخوں میں کمی کا اعلان کیا ہے۔

وزیر توانائی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہےکہ حکومت نومبر سے فروری کی مدت کے لیے بجلی کی شرح میں کمی کرے گی اور یہ سردیوں کے موسم میں گیس کے استعمال میں کمی کے لیے اٹھایا گیا قدم ہے۔

حماد اظہر نے کہا کہ رہائشی صارفین کے لیے بجلی کی شرح میں 11.37 فی یونٹ کمی کی جائے گی اور کمرشل صارفین کے لیے اس شرح میں 11.98 فیصد کمی کی جائے گی۔

وزیر توانائی کا کہنا تھا کہ عام خدمات کے لیے بجلی کا ٹیرف 7.94 فی یونٹ استعمال کیا جائے گا جب کہ کراچی میں آف پیک ریٹ 16.33 اور 22.95 ہے۔

میشا شفیع کی بذریعہ ویڈیو لنک جرح کی درخواست خارج کی جائے، علی ظفر

اداکار و گلوکار علی ظفر نے سیشن کورٹ کو جمع کرائے گئے جواب میں ویڈیو لنک کے ذریعے ہتک عزت کے مقدمے میں جرح مکمل کرنے سے متعلق گلوکارہ میشا شفیع کی درخواست مسترد کرنے کی استدعا کردی۔

میشا شفیع نے عدالت سے ویڈیو لنک پر جرح کی درخواست کی تھی کہ وہ اور ان کے شوہر کینیڈا میں مقیم ہیں اور ان کے لیے پاکستان کا سفر کرنا بہت مشکل ہے۔

رپورٹ کے مطابق ان کی درخواست کے جواب میں عدالت کی جانب سے نوٹس پر جواب جمع کراتے ہوئے ویڈیو لنک کے ذریعے جرح کی اجازت لینے کے لیے ان کے دعووں کو مسترد کر دیا۔

علی ظفر کا کہنا ہے کہ مدعا علیہ کی جانب سے ‘غیر ضروری اخراجات’ کی درخواست جھوٹی اور بے بنیاد تھی۔

انہوں نے کہا کہ وہ مدعا علیہ کے تمام سفری اخراجات برداشت کرنے کے لیے پہلے ہی رضامندی دے چکے ہیں اور اگر عدالت اپنے اطمینان کے لیے رقم جمع کرانے کا حکم دیتی ہے تو انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔