قومی اسمبلی پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کا اجلاس، بیرون ملک سے پاکستان بھجوائے گئے کروڑوں پاﺅنڈز کا کھوج لگانے کا حکم

اسلام آباد( سپیشل رپورٹر) پارلیمنٹ کی پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی نے آڈیٹر جنرل آف پاکستان کو برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کی جانب سے پاکستان بھجوائے گئے ریکوری کے کروڑوں پاﺅنڈز کا ایک ہفتے میں کھوج لگانے کا حکم دے دیا جبکہ قومی

احتساب بیورو(نیب) کی جانب سے ایک سال میں کی گئی ریکوریوں کا آڈٹ کرنے کی بھی ہدایت کر دی،رکن کمیٹی خواجہ آصف نے کہا کہ جو برطانیہ سے180ملین پاﺅنڈ بھجوائے گئے وہ کدھر ہیں، اتنی بڑی رقم ہے اور پتہ ہی نہیں کدھر ہے؟ جبکہ رکن کمیٹی نور عالم خان نے کہا کہ ہم ان(نیب) کا آڈٹ کرناچاہتے ہیں توہم سیاستدان ہی ان کی پشت پناہی کرنے لگتے ہیں، ہر ایک ڈرتا ہے ، میں نے کمیٹی کی میٹنگزبلائیں تو میٹنگز ہی منسوخ ہو جاتی ہیں، ان کا آڈٹ کب ہوا ہے؟۔بدھ کو پارلیمنٹ کی پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی رانا تنویر حسین کی صدارت میں ہوا، اجلاس کے دوران رکن کمیٹی سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ آج خزانہ کمیٹی میں تشویشناک بات ہوئی ہے، کمیٹی میں نیب کی ریکوریز سے متعلق پوچھا گیا تو وزارت خزانہ حکام نے جواب دیا کہ 821ارب کی ان کی ریکوری ہے، فنانس منسٹری نے کہا یہ ہمارے سسٹم میں ہی نہیں ہیں، شیری رحمان نے کہا کہ یہ کدھر پیسے جارہے ہیں جو ریکور ہوئے ہیں،

خبریں کی خبر پر ایکشن:منشیات فروشوں کیخلاف کارروائی، 3 ملزم گرفتار، 90 کلو چرس، 20 کلو افیون برآمد

لاہور (خصوصی ر پورٹر)روز نامہ خبریں آن لائن منشیا ت فرو شی کی خبر پر ایکشن ،ڈی آئی جی آپریشنز لاہور کیپٹن (ر)سہیل چوہدری کی ہدایت پر لاہور پولیس کی منشیات فروشوں کے خلاف روزانہ کی بنیاد پر کاروائیاں جاری ہیں۔ ایس پی سٹی رضوان

طارق کی قیادت میں شاہدرہ پولیس نے خفیہ اطلاع پر کاروائی کرتے ہوئے لاہور میں ان لائن منشیات کی سپلائی ناکام بنا دی۔ شاہدرہ پولیس نے خاتون سمیت 03منشیات فروش گرفتارکر کے لاکھوں روپے مالیت کی 90 کلوگرام چرس اور 20 کلو سے زائد افیون برآمدکر لی۔ملزمان میں شرافت علی، کفیل شاہ اور رفین فاطمہ شامل ہیں۔ ملزمان خاتون کے ہمراہ لاہورکے مختلف مقامات پر ان لائن منشیات کی سپلائی کرتے ہوئے۔ پولیس نے ملزمان کے زیر استعمال گاڑی بھی قبضہ میں لے لی۔

مزید 215 افراد کے نام فورتھ شیڈول میں شامل، 4800 اکاﺅنٹس منجمد،

اسلام آباد (نئیر وحید راوت سے) ذمہ دار ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ نیشنل کاو¿نٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا) کی رپورٹ کے مطابق سیکیورٹی اداروں کی اطلاع پر ملک بھر میں کارروائی کرتے ہوئے مزید دو سو پندرا افراد کے نام فورتھ شیڈول میں شامل کیے گئے ہیں جس میں حال ہی میں کالعدم قرار دی جانے والی تنظیم ٹی ایل پی کے راہنماو¿ں کے نام بھی شمال ہیں ذرائع کا کہنا ہے کہ دہشتگردی ایکٹ (اے ٹی اے) کے تحت اس وقت 8 ہزار 3 سو 7 افراد کے نام فورتھ شیڈول میں شامل کیے گئے ہیں۔اس میں 69 تنظیموں کو کالعدم قرار دیا جا چکا ہے جبکہ 2 تنظیموں کی نگرانی کی جارہی ہے۔نیکٹا کے ذرائع کے مطابق نام بدل کر کام کرنے والی 20 سے زائد تنظیموں کے خلاف بھی کارروائی کی گئی ہے جبکہ 4 ہزار 8 سو 63 افراد کے بینک اکاو¿نٹس منجمد کرکے اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ان اکاو¿نٹس سے 13 کروڑ 60 لاکھ روپے بھی ضبط کیے ہیں۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ اس سے قبل 25 فروری کو سرکاری دستاویز کے مطابق اسٹیٹ بینک کو 6 ہزار ایک سو 22 بینک اکاو¿نٹس کے اعداد وشمار فراہم کیے گئے تھے، جن میں سے اس وقت تک 4 ہزار 8 سو 63 اکاو¿نٹس کو منجمد کیے گئے جبکہ منجمد کئے گئے بینک اکاو¿نٹس سے 13 کروڑ 15 لاکھ روپے ضبط کیے گئے تھے۔اس کے علاوہ نیکٹا کی سفارش پر ان افراد کے اسلحہ لائسنس بھی منسوخ کر دیئے گئے

کیا بھارت نے افغانستان سے میچ خریدا: سوشل میڈیا پر چرچا

لاہور (نیٹ نیوز) بھارت اور افغانستان کے درمیان ٹاس سے پہلے بھارتی کپتان ویرات کوہلی نے افغان ٹیم کے کپتان محمد نبی کو کہا کہ آپ پہلے باﺅلنگ کریں گے۔ ٹاس جیت کر افغان ٹیم کے کپتان نے کوہلی کے کہنے پر فیلڈنگ کا فیصلہ کیا۔ یہ ساری بات سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی ہے۔ سوشل میڈیا صارفین نے بھارت اور افغانستان کے ٹی 20 ورلڈ کپ کے میچ کو”فکسڈ“ قرار دے دیا۔کرکٹ شائقین نے افغانستان اور بھارت کے درمیان کھیلے گئے میچ کو ” فکسڈ“ قرار دیدیا ۔اس حوالے سے ٹویٹر پر Fixed اور Fixing ٹاپ ٹرینڈز میں شامل ہیں۔ صارفین کا کہنا تھا کہ کسی بھی مرحلے پر نہیں لگا کہ افغانستان ٹیم اسی طرح جوش و جذبے سے کھیل رہی جیسے وہ پاکستان اور دیگر ٹیموں کےخلاف کھیلی۔افغانستان کی ٹیم نے متعدد کیچ ڈراپ کیے اور بھارت کو اتنے ہی رنز سے فتح ملی جس کی بھارت کو ضرورت تھی تاکہ اسکا رن ریٹ منفی سے مثبت میں آسکے۔سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے فکسڈ میچ کے حوالے سے ٹوئٹ کئے جارہے ہیں جن میں افغان فیلڈرز کی جانب سے مس فیلڈ کی ویڈیو شیئر کی جارہی ہے جبکہ ٹاس کے حوالے سے بھی ٹوئٹ کئے جا رہے ہیں۔ مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ پر صارفین کی جانب سے روہت شرما کے شاٹ پر باو¿نڈری پر کھڑے افغان فیلڈر کے ہاتھوں سے گیند نکل کر باو¿نڈری ہوجانا مشکور قرار دیا جارہا ہے۔ ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ جیسے ہی افغان فیلڈر نے گیند کو روکنے کی کوشش کی تو اسی دوران اس کے ہاتھوں نے اس طرح حرکت کی جسے دیکھ کر ایسا لگ رہا ہے کہ وہ جان بوجھ کر گیند کو باو¿نڈری کے باہر پھنک رہا ہے۔اس کے علاوہ صارفین کی جانب سے مزاحیہ میمز بھی شیئر کی جارہی ہیں۔

تیرا کروڑ افراد کو آٹا، دال ، گھی پر 30 فیصد سبسڈی

اسلام آباد (نامہ نگار خصوصی) وزیراعظم عمران خان نے ملک کے 13 کروڑ افراد کے لئے آٹا، دال اور گھی پر 30 فیصد سبسڈی کا حامل 120 ارب روپے مالیت کا تاریخی ریلیف پیکج پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت مہنگائی پر قابو پانے کے لئے پوری کوشش کر رہی ہے، عالمی سطح پر مہنگائی میں 50 فیصد کے مقابلے میں پاکستان میں یہ شرح صرف 9 فیصد ہے، اقتصادی اشاریئے درست سمت گامزن ہیں، مافیاز چوری کیا گیا پیسہ واپس لائیں وعدہ کرتا ہوں کہ مہنگائی میں 50 فیصد کمی کروں گا، کامیاب پاکستان پروگرام کےلئے 1400ارب روپے مختص کئے

جا رہے ہیں، ہر خاندان سے ایک فرد کو ہنر مند بنایا جائے گا، 60 لاکھ تعلیمی وظائف کے لئے 47 ارب روپے مختص کئے جا رہے ہیں، برآمدات، زراعت اور تعمیرات کے شعبے کو کورونا کے دوران بچایا گیا۔میڈیا انصاف اور غیر جانبداری پر مبنی تعمیری تنقید کرے۔ بدھ کو قوم سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ فلاحی ریاست کی جانب قدم بڑھاتے ہوئے پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا فلاحی پروگرام عوام کے سامنے رکھ رہا ہوں، احساس کی ٹیم نے تین سال کی محنت سے اعداد و شمار جمع کر کے ملک کے ہر خاندان کے حالات سے آگاہی حاصل کی، یہ مشکل کام تھا، اب اس بنیاد پر اس فلاحی پروگرام کا اعلان کیا جا رہا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں ورثہ میں جو پاکستان ملا اس میں ملک کے معاشی حالات انتہائی خراب تھے، پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا خسارہ اور قرضہ ملا، زرمبادلہ کے ذخائر نہ ہونے کے برابر تھے اور قرض ادا کرنے کےلئے رقم نہ تھی، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے تعاون کیا، مشکل حالات میں پاکستان کی مدد کی جس کی وجہ سے پاکستان ڈیفالٹ ہونے سے بچا، ڈالرز کی کمی کے باعث آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا۔ وزیراعظم نے کہا کہ اپنی حکومت کے پہلے سال ہم اپنی معیشت کو مستحکم کرتے رہے پھر کورونا وبا آ گئی، اس سے جتنا نقصان ہوا، اتنا سو سال میں بھی نہیں ہوا، اس سے ساری دنیا متاثر ہوئی، غریب امیر تمام ممالک متاثر ہوئے تاہم غریب ممالک پر اس کا زیادہ اثر پڑا۔ انہوں نے کہا کہ اس مشکل مرحلہ میں این سی او سی کی ٹیم نے جس طرح اعدادو شمار پر مبنی فیصلے کئے، پاکستان کی معیشت کو بچانے میں اس کا بڑا کردار تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس دوران ہمیں ایک خوف یہ تھا کہ اگر حالات بد تر ہوتے گئے تو بھارت کی طرح ہسپتالوں میں ہمیں جگہ میسر نہیں ہو گی جبکہ لاک ڈان سے معیشت کی تباہی کا خوف تھا، پاکستان نے اس صورتحال میں درمیانہ راستہ نکالا جس میں این سی او سی کا بڑا کردار تھا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں فخر ہے کہ پاکستان کی جانب سے بہترین طریقے سے اس مرحلے پر نکلنے پر عالمی سطح پر ہمارا اعتراف کیا گیا، عالمی بینک، عالمی ادارہ صحت اور ورلڈ اکنامک فورم نے پاکستان کی مثال دی، اکنامک میگزین نے بہترین طریقے سے حالات معمول پر لانے والا تیسرا ملک پاکستان کو قرار دیا۔

ہم کِدھر جارہے ہیں

عبدالباسط خان
پاکستانی سیاستدان کسی بھی ملکی مسئلے پر بے صبری سے بیان داغنے میں شہرت رکھتے ہیں۔ ویسے تو بے صبری ہماری قوم میں بدرجہ اُتم موجود ہے اور ہم لوگ شارٹ کٹ طریقے سے کامیابی حاصل کرنے میں ہاٹ فیروٹ ہیں لیکن عوامی سطح پر بے صبری جو ہر آدمی آج سڑکوں پر دیکھ سکتا ہے اور ہم لوگ بلا تمیز چھوٹے بڑے، امیر وغریب جس ڈھٹائی سے موٹرسائیکل، کاریں، بسیں چلاتے ہیں اور کسی کارٹون فلم کی مانند نظر آتے ہیں مگر سیاسی قیادت دانشوروں اور تجربہ کار لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے اور انہیں عام آدمی کی نسبت اپنے ردعمل اور بیانیے کو سوچ سمجھ کر اور صبر کے ساتھ پیش کرنا چاہئے کیونکہ سیاسی معاملات پر فوری بیان بازی یا تجزیہ کاری ملک میں افراتفری اور انتشار پیدا کر سکتی ہے۔ اگر ہندوستان جیسے ملک میں کوئی سیاسی بحران، معاشی عدم استحکام آتا ہے تو ان کے ادارے مضبوط ہیں۔ ہماری بدقسمتی یہ رہی ہے کہ ہم لوگ 1947ء سے بعد اشرافیہ اور جاگیرداروں پر مشتمل سیاسی لیڈر شپ جو سیاسی فہم و فراست سے عاری اور ذاتی اغراض اور مفادات پر مشتمل تھی ملکی معاملات کو خوش اسلوبی سے چلانے میں نااہل ثابت ہوئی اور ابتدائی ادوار سے پاکستان سیاسی عدم استحکام اور ابتری کا شکار ہو گیا اگر ہماری سیاسی لیڈر شپ ایک دوسرے کے خلاف سازشوں میں شریک نہ ہوتی تو ہمیں نہ تو فوجی مداخلت کا سامنا کرنا پڑتا اور نہ ہی فوجی مداخلت کے بعد جمہوریت کو اتنا نقصان پہنچ سکتا۔
یہ ایک طویل فضول بحث ہے کہ ہمارے ہاں فوجی جرنیل سیاست میں ملوث ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے ملک اس حال کو پہنچا۔ تالی ہمیشہ دو ہاتھ سے بجتی ہے اور اگر ملک میں معاشی بدحالی، مہنگائی اور سیاسی لیڈر شپ کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ حالات ان حالات سے بہت مماثلت رکھتے ہیں لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے سیاستدانوں نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ ہاں ویسے تو قائد اعظم کو بھی لوگ نہیں بخشتے اور اردو زبان کو کو بنگال میں نافذ کرنے سے بنگالیوں کو اپنے سے متنفر کرنے میں موردِ الزام ٹھہراتے ہیں لیکن اب ہمیں آگے بڑھنا ہے اور پارلیمنٹ سے باہر کی سیاست کی بجائے فیصلے پارلیمنٹ کے اندر اتفاق رائے سے کرنے چاہئیں۔ پارلیمنٹ سے باہر سیاست کرنے سے ہم نے مارشل لاء کو دعوت دی اور آزادی کے بعد واحد عوامی لیڈر جو نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں مشہور تھا کھو دیا۔
ذوالفقار علی بھٹو نے بحیثیت سیاستدان مذاکرات کے ذریعے اپوزیشن کو دعوت دی جس کو قبول کرنے میں اپوزیشن نے بہت وقت گنوا دیا اور پھر جو کچھ ہوا آج ہمارے سامنے ہے نہ کوئی لیڈر نہ کوئی سیاستدان اور نہ ہی محب وطن نظر آتا ہے ہم ایک گروہ کی مانند قوم ہیں جن میں صرف اور صرف نفانفسی اور ذاتی مقاصد کے حصول کی تمنا اور خواہش ہے۔ سیاستدان اپنی اپنی باریوں کے انتظار میں بیٹھے ہیں اگر فوجی مداخلت یا ملٹری اسٹیبلشمنٹ ہی اس ملک کی بربادی کی ذمہ دار ہے تو آج سیاستدان جو کچھ کر رہے ہیں وہ کیا کہیں گے ایک ملک کے وزیراعظم نے تبادلوں کے بارے میں نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا تو وہ سیاستدان جوفوج پر الزام دھرنے میں دیر نہیں لگاتے تھے یا سلیکٹڈ وزیراعظم کہہ کر تمسخر اڑاتے تھے فوج کے ساتھ ہمدردی دکھا رہے ہیں وہ سویلین لیڈر شپ کو طعنہ دے رہے ہیں کہ وہ فوج کے معاملات میں مداخلت کر رہے ہیں حالانکہ ان کو وقتی طور پر عمران کمزور نظر آ رہا ہے کیونکہ مہنگائی زوروں پر ہے اور افغانستان کے حالات پاکستان کی موجودہ حکومت کیلئے معاشی اور سیاسی طور پر سازگار نہیں۔
میں تو اس کو موقعہ پرستی سے ہی تعبیر کروں گا یہی طرز عمل PNA کی تحریک جو 1977ء کے الیکشن کے بعد چلائی گئی اور فوج کو دعوت دی گئی کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ دیں وہ PDM جو الیکشن کے بعد مسلسل عمران خان کی حکومت کو گہری تنقید کا نشانہ بنائے ہوئے تھی آج اپنے مطلب کیلئے مفاد کیلئے اور حکومت کے جلد خاتمے کے لئے سویلین لیڈر شپ کے خلاف علم اٹھاتی نظر آتی ہے یہ موقع پرستی جلد بازی، ذاتی مفاد پرستی نہیں ہے تو پھر کیا ہے؟ فوج بیچاری کو خواہ مخواہ موردِ الزام ٹھہرا دیا جاتا ہے آزادی کے فوراً بعد تو ہم نے ہوش میں وہ حالات نہیں دیکھے صرف تاریخ میں پڑے جبکہ ایوب خان، بھٹو صاحب کے دور سے آج تک سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے وہ سیاسی لیڈر شپ جو ملکولیت، جاگیرداری اور سرمایہ داروں پر مشتمل تھی آج کاروباری اور بزنس پر مشتمل افراد کے ہاتھوں میں آ چکی ہے۔ ہم ڈوبتی ہوئی کشتی کو کنارے پر لے جانے کی بجائے اس کشتی میں سوراخ کرنے کے لئے آمادہ نظر آتے ہیں ملکی معیشت کا بیڑہ غرق کرنے میں عمران خان تنہا ذمہ دار نہیں یہ سب سیاسی لیڈر شپ سے جنہوں نے اپنے ادوار میں بھاری قرضے لے کر عوام کو سب سڈیاں فراہم کیں ان کو تن آسانی اور عیاش قوم بنا دیا۔
وہ قومیں آج دنیا میں مشہور ہیں جنہوں نے آخر میں پی ڈی ایم کے جلسے میں جس میں نواز لیگ اور فضل الرحمن نمایاں ہیں ایک فوجی کور کمانڈر کے خلاف استعفیٰ دینے کیلئے نعرہ بازی کروانے والے کون سے محبت وطن سیاستدان ہیں۔ ہمارے نام نہاد لیڈروں نے اپنی غلطیوں اور غلط فیصلوں سے اس ملک کو بدحالی، معاشی عدم استحکام کی طرف دھکیلا اپنے دور حکومت کا زیادہ وقت ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی، جلسوں، ریلیوں اور روڈ مارچ میں گزارا اور اس غریب عوام کو ہسپتال بنانے اور تعلیمی اداروں میں بھیجنے کی بجائے اورنج ٹرین، میٹرو، بی آر ٹی، موٹر ویز ایکسپریس بنانے میں گزارا۔ ہماری قوم جو تیسرے امپائر کی شوقین ہے۔ کوئی یہ بتائے کہ جلد الیکشن کرنے یا حکومت گرانے سے مہنگائی ختم ہو سکتی ہے وہ کون سا جن ہے جو فوراً الہ دین کے لیمپ کی مانند حالات ٹھیک کر دے گا اس گھر کو اس چمن کو اجاڑنے میں سب لیڈرز براہ راست شریک ہیں اور سب مل کر ہی پارلیمنٹ میں اس حکومت سے ڈائیلاگ کریں اور ایک مشترکہ طرز عمل بنائیں اس ملک میں اعتدال پسندی رواداری ایک دورسے کی عزت کرنے اور احترام کو اپنا شعار بنائیں۔
ملکی معیشت کو فی الحال فوری ٹھیک نہیں ہو سکتی لیکن ملکی سیاست کو گالم گلوچ، وشنا طرازی روڈ مارچ جلسے جلوسوں ریلیوں کی بجائے فہم و فراست سیاسی سوجھ بوجھ متفقہ پالیسی بنا کر اس پاکستان کی اس ڈوبتی کشتی کو پار لگائیں ملکی مفاد قومی سلامتی کیلئے پاکستان جیسی ایٹمی قوت کو سب مل کر پارلیمنٹ میں جائیں اور اگلے الیکشن کیلئے ضابطہ اخلاق اور ووٹ چوری سے بچاؤ کیلئے اقدامات کئے جائیں۔
(کالم نگارمختلف موضوعات پرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

انتظامی علوم ایک تجزیاتی ہتھیار

لیفٹیننٹ جنرل(ر)اشرف سلیم
پاکستان کا سواٹ(SWOT) تجزیہ (Analysis)
سواٹ یا SWOT مخفف ہے,Strengths یا قو تیں، weaknesses یا کمزوریاں، Opportunities یا مواقع اور Threats یا خطرات۔ یہ انتظامی علوم میں ایک تجزیاتی ہتھیار(tool) کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔
سواٹ کیوں کہا جانا ضروری ہے؟ کسی بھی شخص‘ ادارے یا ملک کا اگر تجزیہ کرنا ہو تاکہ اس کی مکمل طور پر طاقت، کمزوری، اور اس کو کیا مواقع درکار ہیں یا اس وقت حاصل ہیں اور اس کی ترقی کی راہ میں کیا کیا رکاوٹیں یا خطرات حائل ہیں تو ضروری ہے کہ اس ملک,ادارے یا شخص کا جلدی سے مگر مکمل تجزیہ کیا جائے اور اس تجزیہ کی بنا پر اس ملک, ادارے یا شخص کیلئے مستقبل کا صحیح لائحہ عمل بنایا جائے۔ یعنی سواٹ تجزیہ ایک جلدی سے کیا جانے والا مگرْ کسی حد تک مکمل تجزیہ ہے جو کسی بھی مینیجر یا لیڈر کو ہتھیار کے طور پر دستیاب ہے – مندرجہ ذیل مختصرتجزیہ ایک مثال کے طور پر پاکستان کا کیا جارہاْہے جس میں جگہ کی کمی کے پیش نظر تفصیل کو محدود کیا گیا ہے:
پاکستان کی قوتیں یا طاقتیں (Strengths)
پاکستان جغرافیائی لحاظ سے ایک اہم اور با صلاحیت ملک ہے۔
پاکستان کی بائیس کروڑ آبادی کا ساٹھ فیصد سے زیادہ حصہ تیس سال سے کم عمر یعنی جوان ہے اور کام کرنے کی صلاحیت رکھتاہے۔ دوسرے الفاظ میں پاکستان ایک جوان ملک ہے۔
پاکستان کی بنیاد ایک مضبوط نظریے یعنی دو قومی نظریے پر ہے جو اسلام کی روح سے ماخوذ ہے۔ یہ نظریہ ایک مضبوط بنیاد ہے جس پر ایک بہت زندہ اور ترقی پسند قوم کی تعمیر کی جا سکتی ہے۔
پاکستان کا اندرونی جغرافیہ بہت ہی متنوع ہے یعنی پہاڑ ہیں سطح مرتفع ہے زرخیز میدانی علاقے ہیں صحرا ہیں اور ایک ہزار کلومیٹر تک ساحل سمندر ہے جس سے بہت ہی متنوع قسم کی پیداوار حاصل کی جا سکتی ہے۔
پاکستان میں زراعت کے بہت اچھے مواقع ہیں جس سے خوراک میں خود کفالت اور زرعی بنیاد پر صنعتیں لگانے کی بہت بڑی گنجائش موجود ہے۔
درمیانے درجے کی صنعتیں اور زراعت ہے۔
تعلیم اور صحت کا درمیانے درجے کا ڈھانچہ موجود ہے۔
پاکستان کی مسلح افواج ملک کو درپیش اندرونی اور بیرونی خطرات سے نپٹنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور ان کی اس استعداد کے پیچھے نیوکلیر ڈیٹرنس بہی موجود ہے جو کہ پاکستان کی اقتصادی اور معاشرتی ترقی کو کسی قسم کے بیرونی خطرے سے محفوظ بناتا ہے۔
پاکستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ بیرون ملک مکین ہے اور وہ وہاں کام کرنے والے پاکستانی ایک معقول زر مبادلہ پاکستان اپنے خاندانوں کو بھیجتے ہیں اس طرح برآمدات سے زیادہ زر مبادلہ پاکستان کی بیرونی ممالک سے ترسیلات کی مد میں حاصل ہوتا ہے۔
پاکستان کی کمزوریاں (weaknesses)
پاکستان کی آبادی بائیس کروڑ اور اس کا ساٹھ فیصد تیس سال سے عمر میں نیچے ہونے کے باوجود یہ آبادی جدید ہنر وں سے نابلد اور تقریباً بے ہنر ہے جس سے نہ صرف ملک سے باہر ان کو کم معاوضہ ملتا ہے بلکہ ملک کے اندر بھی یہ لوگ ملکی ترقی میں کوئی خاص کردار ادا نہیں کر رہے۔
ملک کی جغرافیائی اہمیت اپنی جگہ بہت سی کمزوریوں کو بھی جنم دیتی ہے جس کی وجہ سے پاکستان دفاعی لحاظ سے ایک بڑی رقم اپنے دفاع پر خرچ کرنے پر مجبور ہے۔
پاکستان اپنے قیام کے چند سال بعد سے ہی سیاسی اور معاشی عدم استحکام کا شکار ہے۔ اور مستقبل قریب میں استحکام کی کوئی صورت کم ہی نظر آتی ہے۔
کمزور حکومتی نظام نے امن و امان اور معاشرتی مسائل کو بدرجہ اْتم بڑھایا ہے۔ جو ابھی بھی حل طلب ہیں اور بہت سارے ملکی عدم استحکام کے ذمہ دار ہیں۔
کمزور معاشی اور مالی حالات کی وجہ سے ملک اور حکومتوں کو بین الاقوامی مالی اداروں پر انحصار کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے ملک کی مالی اقتصادی اور سیاسی آزادی محدود ہو جاتی ہے۔
کمزور حکومتی نظام اور بار بار ابھرتے ہوئے امن و امان کے مسائل ملک میں عوامی بے چینی اور خراب اقتصادی اور معاشی حالات کے ذمہ دار ہیں جو متعدد حکومتوں کے ادوار میں اور بھی بڑھ گئے ہیں۔
غیر ریاستی عناصر اور ابھرتے ہوئے منفی سیاسی حالات ملکی ترقی اور معاشرتی بے اطمنانی کے ذمہ دار ہیں۔
پاکستان کے لئے مواقع (opportunities)
پاکستان میں زرعی اور اس سے متصل صنعتی ترقی کے مواقع بے شمار ہیں جن کو اگر ماڈرن یا جدید ٹیکنالوجی پر استوار کیا جائے تو پاکستان بہت جلدی اور قدرے آسانی سے ایک تیز رفتار ترقی کرنے والا ملک بن سکتا ہے۔
پاکستان کی ساٹھ فیصد نوجوان آبادی کو اگر کیپیٹل ہیومن (human capital) میں تبدیل کیا جائے تو یہ ایک بہت قیمتی اثاثہ ثابت ہو سکتی ہے جس سے نہ صرف اندرونی صنعت اور سروس سیکٹر کو تیز رفتار ترقی دی جا سکتی ہے بلکہ اس تربیت یافتہ افرادی قوت سے کثیر زر مبادلہ بھی نسبتاً کم مدت میں حاصل کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان کے عسکری ادارے اپنے خطے کے ممالک کی افواج کے لئے بہترین تربیتی درسگاہیں بن سکتے ہیں جس سے نہ صرف ملٹری ڈپلومیسی مضبوط ہو گی بلکہ ہمارے زر مبادلہ کے مسائل بھی کسی حد تک کم ہو سکتے ہیں۔
سیپیک (CPEC) پاکستان کی اقتصادی اور صنعتی ترقی میں بہترین کردار ادا کر سکتا ہے اگر پاکستان اپنے حصے اور ذمہ کا کام قدرے تیزی اور اور زیادہ ذمہ داری سے کرے اور جہاں جہاں اس منصوبے میں ابہام ہوں اس کو جلد سے جلد چین سے بات چیت سے دور کیا جائے۔
پاکستان کے پاس لمبا سمندری ساحل اور میری ٹائم زون ہے اور بڑی مقدار میں معدنیات کے ذخائر ہیں جن کو بروئے کار لایا جانا ملکی ترقی اور جاب (job) کریایشن (creation) کا بہترین ذریعہ بن سکتا ہے۔
پاکستان میں سیاحت کے بہترین مواقع ابھی تک تعبیر پانے کے منتظر ہیں مگر مالی وسائیل کی کمی نے اس سیکٹر میں ترقی کو روک رکھا ہے۔
پاکستان کے لئے خطرات (Threats)
پاکستان کے ارد گرد کا ماحول یا جنوبی اور وسطی ایشیائی خطہ بہت عرصے سے بے اطمینانی اور جنگی ماحول کا شکار ہے۔ کشمیر کے مسئلے کا حل نہ ہونا پاکستان کی بقا کو سب سے بڑا خطرہ ہے اور ساتھ ہی افغانستان میں مسلسل چالیس سال سے جنگ پاکستان کے معاشرتی اور اقتصادی مسائل کو دُگنا کرتی رہی بلکہ پاکستان کے اندر بھی دہشت گردی کی فضا کا باعث بنی۔
پاکستان کا مسلسل اور حد سے زیادہ انحصار آئی ایم ایف (IMF) اور دوسرے عالمی مالی اداروں پر ہے جو کہ غیر ملکی قرضوں کے غیر معمولی بوجھ کا باعث اور برداشت سے باہر ہو رہا ہے۔ اندرونی وسائل کو بڑھانا اور غیر ترقیاتی اخراجات اور غیر ضروری درآمدات کو کم کرنا انتہائی ضروری ہے۔
بڑھتی ہوئی غیر تربیت یافتہ آبادی ملکی ترقی اور بقا کے لئے خطرہ ہے۔ جس پر قابو پانا ضروری ہے۔
ملک کے کمزور حکومتی نظام اور امن و امان کے بڑھتے ہوئے خطرات کا مناسب انتظامی اور سیاسی طریقوں سے انسداد ہماری سلامتی کا ضامن ہو سکتا ہے۔
ملک کے لئے سب سے بڑا خطرہ اس ملک کا ایلی ٹسٹ (elitist) سیاسی نظام ہے جس میں عام لوگ اپنے آپ کو اجنبی اور غیر حصہ دار تصور کرتے ہیں ایسے حالات کسی بھی آبادی کو اپنے نظام حتیٰ کہ ملک سے بھی متنفر یا بیگانہ کر سکتے ہیں۔ اس لئے موجودہ سیاسی اور انتظامی ڈھانچے کو بہتر سسٹم سے بدلنا ضروری ہو گا۔
مندرجہ بالا عناصر جن کی بنا پر پاکستان کا تجزیہ کیا گیا ہے مکمل نہیں اس تجزیہ میں اور فیکٹرز بھی شامل کئے جا سکتے ہیں۔ مقصد ہے کہ اپنے ملک کے حالات کا ممکن حد تک صحیح تجزیہ کیا جائے اور جن مسائل کی نشاندہی ہو ان کو بہتر سے بہتر طریقے سے جلد حل کیا جائے۔ مسائل کے ساتھ لمبی مدت تک رہنا ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیتا ہے۔
کسی بھی ملک ادارے یا شخص کے لئے ضروری ہے کہ اس کی قوت یا strengthsکو بڑھایا جائے، کمزوریوں یا weaknesses کو کم کیا جائے، اپنے کارآمد مواقع opportunities کو پھیلایا جائے اور در پیش خطرات یا threats کو بر وقت رفع کیا جائے اور ان پر مسلسل نظر رکھی جائے جس کے لئے مضبوط ادارے تشکیل دئے جائیں۔
سواٹ یا SWOT ایک متحرک یا dynamic تجزیاتی آلہ یا tool ہے جس کو مسلسل استعمال میں لا کر ہم اپنے ملک اپنے ادارے یا اپنے آپ کو وقت کی رفتار سے ہم آہنگ رکھ سکتے ہیں۔ شرط ایمانداری، خلوص اور آپ کی یعنی سواٹ کرنے والے کی قابلیت ہے۔
خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
(کالم نگار ہلال ملٹری امتیازاورسابق ہائی کمشنر ہیں)
٭……٭……٭

سیاسی جماعتیں اورووٹ بنک

عبدالستار خان
کچھ ہی سال پہلے وجود میں آنے والی ایک مذہبی تنظیم جسے بعد میں کالعدم قرار دے دیا گیا تھا۔ وہی کالعدم تنظیم اب تک دو حکومتوں کو اچھے خاصے مشکل ترین مراحل سے گزار چکی ہے۔ دوسری طرف ملک کی وہ سیاسی جماعتیں ہیں جو کافی عرصے سے شور مچا رہی ہیں کہ ہم دھرنا دے دیں گے، ہم لانگ مارچ کریں گے۔ ہم پہیہ جام کر دیں گے۔ ہم اس حکومت کو ختم کر دیں گے۔ ہم احتجاجی سیاست کی مہم شروع کریں گے جو موجودہ حکمرانوں کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کر دے گی۔ اِس بات کا تو سب کو علم ہے کہ ایک کالعدم تنظیم اور بے شمار پرانی اور تاریخی سیاسی جماعتوں میں بہرحال فرق ہوتا ہے۔ اپوزیشن کی یہ سیاسی جماعتیں حکومتیں بھی بناتی رہی ہیں۔ اور حکومتوں کا حصہ بھی رہی ہیں۔ ان کو تو معلوم ہی ہو گا کہ حکومتی سیاست اور اپوزیشن کی سیاست کیا ہوتی ہے۔ جب حکومت میں ہوتے ہیں تو کس طرح کی سیاست کی جاتی ہے۔ لیکن جب وہی لوگ اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو کس طرح کی سیاست کی جاتی ہے۔
ان سب باتوں کا بخوبی اندازہ ہونے کے باوجود اپوزیشن کی ان تمام سیاسی جماعتوں کو بلند بالا دعوے، سیاسی بیانات کی شکل میں کرنے پڑ جاتے ہیں۔ یا عادت ہو چکی ہے۔ یا پھر خوف ہے کہ لوگ، سپورٹرز، ووٹرز ہی ساتھ دینا چھوڑ دیں کہ یہ تو کوئی بڑا سیاسی بیان ہی نہیں دے پا رہے۔ بہرحال یہ بات بھی طے ہے کہ اپوزیشن کی تمام جماعتیں مل کر بھی وہ نہیں کر سکتیں جو ایک کالعدم تنظیم نے کر دیا۔ حکمرانوں کے بیانات اور حرکات واضح طور پر اِس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ حکمران جماعت اور ان کے ساتھی ملک کی اپوزیشن میں شامل تمام جماعتوں سے اس طرح سے خوف زدہ نہیں ہیں۔ جتنی وہ ایک کالعدم تنظیم سے ہیں۔جہاں ایک طرف حکمران گھبرائے ہوئے تھے۔ وہاں دوسری طرف ایک عام آدمی بھی بہت گھبرایا ہوا تھا۔
اگر حکمران جماعت تحریک انصاف کی بات کی جائے تو اپوزیشن میں رہتے ہوئے وہ سیاسی طور پرایک غیر پختہ سیاسی جماعت کی طرح ابھری تھی۔ حکومت میں آنے کے باوجود کبھی کبھار ایسا لگتا ہے کہ تحریک انصاف ابھی تک اپوزیشن میں ہے۔ اور حکمران جماعت بننے کی کوششوں میں مگن ہے۔تحریک انصاف کی حکومت کے بارے میں محسوس ہوتا ہے کہ شاید کسی ایک جماعت کی حکومت نہیں۔ بلکہ ایک مجموعہ ہے۔ کوئی کہیں سے تو کوئی کہیں سے حکومت میں آنے سے پہلے اور اپوزیشن کے دور میں تحریک انصاف نے بڑے بڑے دعوے کر دیئے تھے۔ بلکہ آبادی کے اس حصے کو سیاسی طور پر متحرک کر دیا تھاجو سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں سے بالکل ہی مایوس تھا۔ اسی لئے وہ کسی بھی سیاسی جماعت کا حصہ بننے کے لئے بالکل ہی تیار نہیں تھا۔ لیکن حکومت میں آنے کے بعد شُنید ہے کہ شاید وہ دِن دور نہ ہو جب یہ لوگ بھی تحریک انصاف کو باقی سیاسی جماعتوں کی صف میں کھڑا کر دیں۔ کالعدم تنظیم کی تحریک ایک سیاسی تحریک نہیں ہے۔ بلکہ جوش اور بے خوفی کی کیفیت ہے۔ جبکہ دوسری طرف حکمران جماعت اور اپوزیشن میں شامل سیاسی جماعتیں بہرحال ہمیشہ ہی ایک سیاسی تحریک کی بات کرتی رہی ہیں۔
سیاسی تحریک ایک ایسی تحریک ہوتی ہے جس میں بہرحال ہدف حاصل ہو یا نہ ہو۔ لوگ آپ کے ساتھ جڑے رہتے ہیں۔ اب یہ حکمران اور اپوزیشن کی تمام جماعتیں جانتی ہیں کہ وہ اپنے اپنے سپورٹرزاور ووٹرز کو اپنے ساتھ جوڑے رکھیں گی تو ان کا وجود برقرار رہے گا۔ کچھ سمجھ دار لوگوں کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کی بڑی جماعتیں خاص طور پر مسلم لیگ ن اس وقت سیاسی جماعت کے حوالے سے سب سے بہتر پوزیشن میں ہے اور مسلم لیگ ن کو ہی سب سے زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ کیونکہ جس کا ”ووٹ بینک“ محفوظ ہو اسے سب سے زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ جبکہ دوسری طرف تحریک انصاف کو حقیقی طور پر اپنا ووٹ بینک بنانا پڑے گا۔ ”ووٹ بینک“ کتنا محفوظ ہے۔ یہ سیاسی طور پر سب سے کڑے وقت میں ثابت ہوتا ہے۔ تحریک انصاف کا ”ووٹ بینک“ کتنا محفوظ ہے۔ یہ 2023ء کے انتخابات ہی سے پتہ چلے گا۔
(کالم نگارمعروف صحافی‘اینکرپرسن ہیں)
٭……٭……٭

سبسڈی ختم، بجلی صارفین پر 1355 ملین روپے کا بوجھ پڑے گا

سبسڈی ختم، بجلی صارفین پر 1355 ملین روپے کا بوجھ پڑے گا، بیس ٹیرف میں 1.68 روپے فی یونٹ کا اضافہ نومبر کے بلوں میں لگ کر آئے گا۔ چیئرمین نیپرا توصیف ایچ فاروقی نے گزشتہ روز 200 یونٹس سے زائد بجلی استعمال کرنے والے صارفین کے لیے بیس ٹیرف میں 1.68 روپے فی یونٹ کے مجوزہ اضافے پر غوروخوض کیلیے سماعت کے موقع پر کہا ہے کہ حکومت نے بیس پاور ٹیرف میں 1.39 روپے اضافے کی درخواست کی ہے جس کے بعد فی یونٹ بجلی کے نرخ 16.8 ہوجائیں گے۔ تاہم حکومت سے استدعا کی گئی ہے کہ ماہانہ 200 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کے لیے بجلی کے نرخ نہ بڑھائے جائیں، جب کہ باقی کیٹگریز کے لیے فی یونٹ 1.68 روپے اضافے کی سفارش کی گئی ہے۔ نیپرا نے مارچ 2021ء میں بیس ٹیرف میں 3.35 روپے فی یونٹ بڑھانے کی منظوری دی تھی تاہم اس وقت حکومت نے فی یونٹ 1.95 روپے اضافے کی اجازت دی تھی، بااقی رہ جانے والی 1.39 روپے فی یونٹ اضافہ اب کیا جارہا ہے۔ اس کا اطلاق کے الیکٹرک سمیت تمام ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے لیے یکم نومبر سے ہو گا۔ پاور ڈویژن کے ایک افسر کا کہنا تھا کہ اگر بجلی کے تمام صارفین کے لیے اضافہ یکساں ہوتا ہے تو پھر یہ اضافہ 1.39 روپے فی یونٹ ہوگا۔ اگر 200 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کے لیے بجلی مہنگی نہیں کی جاتی تو پھر پاور ٹیرف میں فی یونٹ 1.68 روپے اضافہ کرنا ہوگا۔ دوران سماعت جماعت اسلامی کراچی کے حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ 300 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو سبسڈی سے محروم کیا جارہا ہے۔ چیئرمین نیپرا نے کہا کہ سبسڈی کے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار وفاقی حکومت کو ہے اورنیپرا اس پر فیصلہ نہیں لے سکتا۔

بختاور بھٹو زرداری نے بیٹے کی پہلی تصویر شیئر کردی

سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو اور سابق صدر آصف علی زرداری کی بڑی صاحبزادی بختاور بھٹو زرداری نے بیٹے کی پہلی تصویر سوشل میڈیا پر شیئر کردی۔

بختاور بھٹو زرداری کےہاں گزشتہ ماہ 10 اکتوبر کو بیٹے کی پیدائش ہوئی تھی۔

بختاور بھٹو زرداری نے 3 نومبر کو انسٹاگرام پر بیٹے کی پہلی تصویر شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ مذکورہ تصویر گزشتہ ماہ کھینچی گئی تھی۔

 

بختار بھٹو زرداری نے بتایا تھا کہ انہوں نے بیٹے میر حاکم محمود چوہدری کی مذکورہ تصویر ان کی پیدائش کے ایک ہفتے بعد کھینچی تھی۔

ان کے مطابق میر حاکم محمود چوہدری کی تصویر ان کی پیدائش کے ٹھیک ایک ہفتے بعد 17 اکتوبر کو کھینچی گئی تھی۔