ملک میں انتظامی وحکمرانی کا بحران

کنور محمد دلشاد
بین الاقوامی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے خلاف قرارداد یورپی یونین نے منظور کرلی ہے، جس میں پاکستان کو انتہاپسند ملک قراردیتے ہوئے اس پر پابندیوں کی سفارش کی گئی ہے۔ یہ قرارداد کالعدم تحریک لبیک پاکستان کی فرانس کے خلاف حالیہ پُرتشدد مظاہروں کے ردِعمل میں زیرِ بحث آئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سعودی عرب نے تقریباً ساڑھے چار اَرب ڈالر کی مدد کی ہے، جس میں قرضہ سود مؤخر ادائیگیوں پر پاکستان کے لیے تیل کی سہولت بھی شامل ہے۔ فی الحال اس سے پاکستان کے تیزی سے کم ہوتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر کی صورت حال بہتر ہوسکتی ہے۔ سعودی عرب کی پیش کش کا مستقبل غیر یقینی نظر آتا ہے۔ سعودی عرب کے قرضہ کی وجہ سے پاکستانی روپے پر پڑنے والا حالیہ دباؤ کم ہونا شروع ہوگیا ہے جس سے ملکی کرنسی کچھ مدت کے لیے مضبوط ہوجائے گی۔ ادھر سٹیٹ بینک کے گورنرکی معاشی اور زرعی پالیسی سے پاکستان کے عوام کو فائدہ نہیں پہنچ رہا ہے اور ان کے سابق تجربات کو دیکھتے ہوئے پاکستان اُن کی پالیسی کو اپنا نے میں مزید دیوالیہ پن کی طرف جارہا ہے۔ ان کا تجربہ مصر میں ناکام ہوگیا تھا اور وہ مصری تجربہ پاکستان میں اپنانے کی راہ پر گامزن ہیں۔ اس دوران مشیر خزانہ شوکت فیاض احمد ترین دعویٰ کررہے ہیں کہ پاکستان آئی ایم ایف سے معاہدے کے قریب پہنچ چکا ہے، جس کے نتیجہ میں اسے چھ ارب ڈالر کا قرضہ ملے گا۔ لیکن مستقبل واقعی بے یقینی کا شکار نظر آتا ہے۔ واشنگٹن سے آنے والی خبریں نوشتہ دیوار کی طرح سامنے آرہی ہیں اور امکان ہے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف سے ملنے والی ادائیگی درد ناک شرائط کے نتیجہ میں ہوں گی جس سے عوام کو بڑے پیمانے پر نقصان ہوسکتا ہے۔ اس وقت حکمران دعویٰ کررہے ہیں کہ ملک میں مہنگائی عالمی سطح پر اشیا کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ہے۔ تاہم ان کا یہ دعویٰ زمینی حقائق کے مطابق نہیں ہے۔ وزیراعظم اور ان کے بعض وزراء میں پالیسی کا تضاد ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان سے بلاوجہ محاذ آرائی کی فضا پیدا ہوچکی ہے۔ لوکل گورنمنٹ کے تحت جو انتخابات ہونے جارہے ہیں، اس میں رخنہ پیدا کیا جارہا ہے۔ پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019میں مزید ترامیم کرنے کے بعد ابھی قانون سازی کا مرحلہ باقی ہے۔ آئندہ انتخابات کے لیے جامع اور مؤثر انتخابی اصلاحات کا بل ایسے انداز میں پیش کیا گیا کہ وہ تنازع کا شکار ہوچکا ہے۔ حکومت کے دو وزرا الیکشن کمیشن کے نوٹس کے احکامات کو نظر انداز کرکے الیکشن کمیشن کی رِٹ کو چیلنج کررہے ہیں۔ جس کی وجہ سے حکومت پاکستان کی ساکھ بھی مجروح ہورہی ہے۔ اور اسی آڑ میں فارن فنڈنگ کیس کے التوا ہونے سے عوام بھی الیکشن کمیشن پر انگلی اُٹھارہے ہیں۔
کالعدم تحریک لبیک کے معاملہ پر سینیٹر فیصل واوڈا نے برملا انکشاف کیا ہے کہ کالعدم تحریک لبیک پارٹی کے ساتھ معاہدہ کا وزیراعظم کو علم ہی نہیں تھا۔ وزیرداخلہ کا مؤقف ہے کہ معاہدے پر دستخط سے پہلے وزیراعظم کی منظوری انہوں نے حاصل کرلی تھی اور وزیراعظم معاہدے کے متن سے بخوبی علم میں رہے۔ اب اگر فیصل واوڈا نے دعویٰ کیا تھا کہ معاہدے کی شقوں سے وزیراعظم کو اندھیرے میں رکھا گیا تھا تو وزیراعظم آفس سے وضاحت آنی چاہیے تھی۔ موجودہ وزیرداخلہ کے متضاد بیانات سے وزیراعظم آفس کو ریلیف نہیں مل رہا ہے اور اسلام آبا دکو محدود انداز میں لاک ڈاؤن کیا ہوا ہے اور پاکستان میں مقیم سفارتی نمائندے اپنے اپنے ممالک میں پاکستان کی اندرونی خانہ جنگی کے تاثرات بھیج رہے ہیں اور وزرائے خارجہ بھی وزیرداخلہ اور وزیر اطلاعات ونشریات اور وزیراعظم کے ترجمانوں کے مابین سینڈوچ بن چکا ہے۔ اس طرح 2023ء میں آنے والے عام انتخابات کے حوالہ سے جائزہ لیا جائے تو افراتفری میں مزید اضافہ نظر آرہا ہے۔ ملک میں اگر طرزِحکمرانی کا بحران اگر سب سے زیادہ کہیں نظر آرہا ہے تو وہ پنجاب ہے جہاں قومی اسمبلی کی 142نشستیں ہیں۔ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے دورِ حکومت میں جس طرح کی بدانتظامی اور انتظامی آرڈر اور طررِ حکمرانی کا انحطاط دیکھنے کو ملا ہے۔ وزیراعظم کو ادراک ہی نہیں ہورہا ہے کہ ان کے معاشی ماہرین کی وجہ سے پاکستان کی معیشت دیوالیہ پن کی طرف جاری ہے۔ معاشی صورت حال اور امن و امان کی افراتفری مستقبل قریب میں ختم ہوتی نظر نہیں آرہی ہے۔
پاکستان کا موجودہ سیاسی نظام 1985ء سے بحران کا شکار چلا آرہا ہے۔ مختلف ادوار میں حکمران جماعت جن میں پاکستان تحریکِ انصاف، پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پارلیمنٹیرین پارٹی شامل ہے، اپنے منشور پر عمل درآمد کرانے میں مخلص نہیں رہی۔ موجودہ صورت حال یہ ہے کہ ملک میں بلدیاتی نظام جسے آئین کے آرٹیکل 140(A)اور132کے تحت تحفظ حاصل ہے، اس کی خلاف ورزی 2009ء سے کی جاری ہے۔ جہاں تک موجودہ سسٹم کے تحت پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کا تعلق ہے وہاں مفادات کی گروہ بندیاں دیکھنے میں آتی ہیں اور عوام کی حقیقی نمائندگی دیکھنے میں نہیں آرہی ہے۔ پاکستان کا موجودہ سسٹم برطانوی ایکٹ 1935ء کا چربہ ہے جس کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ مقابلتاً زیادہ ووٹ لینے والا بے شک وہ اکثریت کا ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہا پھر بھی منتخب قرارا دیا جاتا ہے۔ اس طرح مختلف حربوں سے ووٹ حاصل کردہ اقلیتی نمائندہ پارلیمنٹ میں پانچ سے دس کروڑ روپے خرچ کرکے پہنچ جاتا ہے۔ موجودہ حکومت نے انتخابی اصلاحات کا جو بل قومی اسمبلی سے عجلت میں منظور کرایا، اس کا مقصد مفاد پرست گروپ کو ہی ریلیف دینا ہے۔ وہ آئندہ انتخابات کو شفا ف بنانے کے لیے نہیں ہے اپنے مخصوص گروہ کو پارلیمنٹ تک پہنچانا ہے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ ملک کو صحیح سمت کی طرف جانے کے لیے سنجیدگی سے حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے۔
(الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سابق سیکرٹری ہیں)
٭……٭……٭

حالیہ معاہدہ ماضی کے معاہدوں سے مختلف نہیں

کامران گورائیہ
آسمان کو چُھو لینے والی مہنگائی اور بے روز گاری کے بعد عوام کو اب امن و امان کی غیر مستحکم ہوتی ہوئی صورتحال کا بھی سامنا ہے۔ یوں تو برسر اقتدار جماعت کے رہنماؤں کے متضاد بیانات نے ملک بھرکو سنسنی خیز صورت حال سے دو چار کر دیا ہے۔ کالعدم تنظیم کے ساتھ کیے جانے والے مذاکرات اور مذاکرات کی ناکامی نے وزیر داخلہ شیخ رشید، وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور خود وزیراعظم عمران خان کو بھی بوکھلا کر رکھ دیا ہے۔ یہی وجہ رہی کہ کالعدم تنظیم کے رہنماؤں سے مذاکرات کے بعد طے شدہ شقوں پر عملدرآمد نہیں کیا جاسکا اور ایسا ایک سے زائد مرتبہ ہوا۔
بالآخر روائت ہلاک کمیٹی کے سابق چیئرمین مفتی منیب الرحمن کی خدمات حاصل کی گئیں اور اس میں بھی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے کردار کو بہت زیادہ اہمیت حاصل رہی جنہوں نے مفتی منیب الرحمن کی مصالحت سے کالعدم تنظیم کے نمائندوں سے ملاقات کی لیکن یہاں پر سب سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ پی ٹی آئی نے برسر اقتدار آتے ہی اپنے سیاسی مخالفین کو ملک دشمنوں کے ایجنٹوں سے ساز باز کرنے کی روش اپنائی، کبھی بھی حکمران جماعت کا اپنے سیاسی مخالفین کو غدار قرار دینا انتہائی نامناسب رویہ ہے جو موجودہ حکمرانوں کے ساتھ ساتھ آج کی اپوزیشن جماعتوں کی ذمہ داری بھی ہے کہ وہ ذمہ دارانہ طرز عمل اختیار کرتے ہوئے اپنے سیاسی حریفوں کو ملک دشمن کہنے سے گریز کریں۔
ماضی کی طرح آج کے حکمران بھی اسی ڈگر پر عمل پیرا ہیں اسی لئے کالعدم تنظیم پر بھی یہ الزام عائد کیا گیا کہ اس کے ہمسایہ ملک بھارت سے تعلقات ہیں اور درحقیقت کالعدم تنظیم کے احتجاجی لانگ مارچ کی فنڈنگ بھی بھارت سے کی جا رہی ہے ایسے الزامات سے ملک میں انار کی پھیلتی ہے جس کے نتائج دہائیوں تک بھگتنا پڑتے ہیں۔ اسی لئے احتجاج کرنے والوں اور اپنے حقوق کے لئے لانگ مارچ کرنا بھی پاکستان میں بسنے والوں کا بنیادی حق ہے اور کوئی بھی حکمران عوام کو اپنے حقوق کے لئے سڑکوں پر آنے سے نہیں روک سکتا۔ موجودہ مہنگائی اور بے روز گاری کے دگر گروں حالات ہیں اب تمام اپوزیشن جماعتیں یک نکاتی ایجنڈے پر سڑکوں پر نکل رہی ہیں۔ حکومت اپنے سیاسی مخالفین کو روکنے کے لئے ہر قسم کے حربے استعمال کر سکتی ہے لیکن کسی بھی سیاسی رہنماء کو ملک دشمن ایجنڈے کی تعمیل کرنے کا الزام لگانا اتنہائی نا مناسب عمل ہے جس سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ سب سے پہلے ہم سب پر اس ملک کی سالمیت برقرار رکھنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
تحریکِ لبیک اور حکومت کے درمیان معاہدہ تو طے پا گیا ہے لیکن بے اعتمادی اور بے یقینی کی فضا کسی حد تک برقرار دکھائی دیتی ہے۔ معاہدہ طے پا جانے کے اعلان کے باوجود نہ تو تحریک لبیک نے ابھی تک لانگ مارچ ختم کرنے کا اعلان کیا ہے اور نہ ہی حکومت نے جی ٹی روڈ سے مکمل طور پر رکاوٹوں کو ہٹایا ہے۔ معاہدے کے اعلان کے بعد گذشتہ روز حکومت نے اسلام آباد اور راولپنڈی سمیت بعض مقامات سے کنٹینرز کو تو ضرور ہٹایا ہے لیکن انھیں برلب سڑک کھڑا کر دیا گیا ہے۔ جی ٹی روڈ پر واقع کچھ پلوں کو جزوی طور پر کھولا گیا ہے تاہم گجرات میں دریائے چناب کے تینوں پلوں پر کنٹینرز بدستور موجود ہیں اور گجرات پولیس نے دریائے چناب کے داخلی پُل پر ناکہ بندی مزید سخت کر دی ہے۔ اس جانب سے کوئی بھی شہری بغیر شناختی کارڈ دکھائے وزیر آباد میں داخل نہیں ہو سکتا حتی کہ عورتوں اور بزرگوں سے بھی شناختی کارڈ طلب کیے جا رہے ہیں۔ اس صورتحال میں تحریکِ لبیک کے کارکن اور قیادت معاہدے پر عملدرآمد سے قبل وزیرآباد سے واپس جانے کو تیار دکھائی نہیں دیتے۔
ادھر کالعدم تحریکِ لبیک اور حکومت کے درمیان معاہدے کا اعلان کرنے والے مفتی منیب نے کہاتھا کہ ٹی ایل پی کے مطالبات میں فرانسیسی سفیر کی واپسی، سفارت خانہ بند کرنے اور یورپی یونین سے تعلقات منقطع کرنے جیسے مطالبات شامل نہیں ہیں لیکن انھوں نے بھی یہ نہیں بتایا کہ پھر مطالبات کیا تھے اور معاہدے میں کیا طے ہوا ہے۔ اس بارے میں تحریکِ لبیک کے ترجمان کا کہنا تھا کہ مفتی منیب اپنے بیان کی خود وضاحت کر سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ تحریکِ لبیک حکومت کے ساتھ اپنے اس وعدے کی پاسداری کر رہی ہے کہ معاہدے کی شرائط خفیہ رکھی جائیں گی، چنانچہ وہ معاہدے کے بارے میں تفصیلات نہیں بتا سکتے اور یہ معاہدہ حکومت کی جانب سے عملی اقدامات کی صورت میں سامنے آئے گا۔ تحریک لبیک کی جانب سے یہ دعوی پہلے ہی سامنے آ چکا ہے کہ حکومت نے سفیر کی ملک بدری سمیت ان کے تمام مطالبات پر لچک دکھائی ہے۔
حکومت اور ٹی ایل پی کے درمیان ہونے والا حالیہ معاہدہ اس جماعت کے ساتھ ماضی میں کیے گئے معاہدوں سے مختلف نہیں ہے اور اس بات کی بھی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ حکومت ان سے کیے گئے معاہدے کی پاسداری یقینی بنائے گی۔ نہ ہی اس بات کی کوئی ضمانت دی جا سکتی ہے کہ اس معاہدے کے بعد اپنے پرانے مطالبات کے ساتھ تحریک لبیک دوبارہ سڑکوں پر نہیں آئے گی۔ نہ تو حکومت فرانس کے سفیر کو ملک بدر کر سکتی ہے اور نہ ہی سعد رضوی اور ٹی ایل پی کی قیادت کے خلاف درج مقدمات کو محض معاہدوں کی روشنی میں ختم کیا جا سکتا ہے۔ حکومت کا کسی کالعدم تنظیم کے ساتھ کوئی پہلی مرتبہ معاہدہ نہیں ہوا بلکہ ماضی میں کالعدم شریعت نفاذ محمدی کے ساتھ بھی معاہدہ ہو چکا ہے۔
تحریک لبیک سے ہونے والے حالیہ معاہدے پر کس حد تک عملدرآمد ہو گا اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا لیکن ماضی میں اس جماعت کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کو اگر سامنے رکھا جائے تو مسلم لیگ اور تحریک انصاف کی حکومتوں نے وقت گزاری کے تحت اس جماعت کے ساتھ معاہدے کیے جن پر مکمل عمل درآمد نہیں ہوا۔ پنجاب کے محکمہ داخلہ کے ایک اہلکار کے مطابق منگل کو 800 کے قریب افراد کو رہا کر دیا گیا ہے لیکن کشیدگی تاحال برقرار ہے، ان کے مطابق کالعدم تحریک لبیک کے ان کارکنوں کو رہا کیا جا رہا ہے جن کے خلاف اس سے پہلے کوئی مقدمہ درج نہیں تھا۔ اہلکار کے مطابق جن افراد کے خلاف لانگ مارچ کے دوران پولیس اہلکاروں کے قتل کرنے کا الزام ہے انھیں کسی صورت رہا نہیں کیا جائے گا۔ اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ نے بھی تحریک لبیک پاکستان کے تین ایم پی او کے تحت گرفتار شدہ کارکنوں کو رہا کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں اور اس سلسلے میں باقاعدہ نوٹیفیکیشن جاری ہونے کے بعد تنظیم کے تمام گرفتار شدہ کارکن رہا ہو جائیں گے۔
ملکی سیاست میں غداری اور حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ دینے کا سلسلہ روکنا ہوگا، پی ٹی آئی، ن لیگ اور پیپلز پارٹی تینوں بڑی جماعتیں ایک دوسرے کو ملک دشمن کہہ رہی ہیں، تینوں جماعتوں پر ملک دشمن اور بھارت نواز سیاست کے الزامات لگ چکے ہیں مگر کسی سیاسی جماعت نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا، ملک دشمنی اور غداری کے الزامات کی سیاست پاکستان بننے کے بعد ہی شروع ہوگئی تھی۔ بانی پاکستان کی بہن مادر ملت فاطمہ جناح سے لے کر قائداعظمؒ کے ساتھی سابق وزیراعظم حسین شہید سہروردی تک پر بھی غداری کا لیبل لگایا گیا، جی ایم سید، باچا خان اور مولانا مودودی سے یہ سلسلہ آج نواز شریف تک پہنچ چکا ہے، سیاستدانوں کے علاوہ فیض احمد فیض اور حبیب جالب جیسے لوگوں پر یہ الزامات لگائے گئے۔
(کالم نگارسینئر صحافی ہیں)
٭……٭……٭

رواں مالی سال کے 4 مہینوں میں تجارتی خسارے میں 103 فیصد اضافہ

اسلام آباد: وزارت تجارت کا کہنا ہے کہ رواں مالی سال کے پہلے 4 ماہ کے دوران ملک میں تجارتی خسارے میں 103 فیصد سے زائد کا اضافہ ہوا جس کی وجہ برآمدات کے مقابلے میں درآمدات میں تقریباً دوگنا اضافہ ہے۔

 رپورٹ کے مطابق تجارتی خسارہ جولائی تا اکتوبر 2021 میں 15 ارب 52 کروڑ 50 لاکھ ڈالر تک پہنچ گیا تھا جو گزشتہ سال کے اسی مہینوں میں 7 ارب 61 کروڑ 70 لاکھ ڈالر تھا۔

رواں سال کا آغاز بڑھتے ہوئے درآمدی بل کے ساتھ ہوا جس سے بیرونی جانب سے دباؤ بڑھنے کا شدید خطرہ ہے۔

وزارت خزانہ کا خیال ہے کہ ترسیلات زر میں اضافہ، برآمدی آمدنی میں اضافہ اور روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس سے بڑی حد تک دباؤ کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔

تجارتی خسارے میں بڑھتے ہوئے رجحان کو لگاتار چوتھے مہینے بھی نوٹ کیا گیا کیونکہ تجارتی خسارہ اکتوبر میں 3 ارب 77 کروڑ 50 لاکھ ڈالر تک پہنچ گیا جو گزشتہ سال کے اسی مہینے میں ایک ارب 80 کروڑ 30 لاکھ ڈالر تھا۔

ابتدائی تخمینوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ بڑھتا ہوا درآمدی بل مالی سال 2022 میں کرنٹ اکاؤنٹ کو 10 ارب ڈالر تک دھکیل سکتا ہے۔

9 بینکوں پر سائبر حملے اور ڈیٹا چوری کی بات درست نہیں، اسٹیٹ بینک

اسٹیٹ بینک نے صارفین اور عوام کو پیغام دیا ہے کہ پاکستان کا بینکنگ سسٹم محفوظ ہے اور کسی دوسرے بینک پر سائبر حملے کی کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔
نیشنل بینک کے نظام پر سائبر حملے کے بعد ملک میں افواہوں کا بازار گرم ہوگیا، سوشل میڈیا پر پاکستان کے مالیاتی شعبہ پر بڑے سائبر حملے کی غلط اطلاعات گردش کرنے لگیں جن میں کسٹمر کا ڈیٹا چوری ہونے اور رقوم کے نقصانات کے دعوے کیے جانے لگے تاہم اسٹیٹ بینک نے اس کی تردید کی ہے۔اسٹیٹ بینک نے صارفین اور عوام کو پیغام دیا ہے کہ پاکستان کا بینکنگ سسٹم محفوظ ہے اور کسی دوسرے بینک پر سائبر حملے کی کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔ اسٹیٹ بینک نے اپنے آفیشل ٹویٹر کے ذریعے کہا ہے کہ 9 بینکوں پر سائبر حملے اور ڈیٹا سمیت رقوم کے نقصان کی اطلاعات غلط ہیں اور اس حوالے سے اسٹیٹ بینک کے ترجمان سے منسوب کرکے پھیلایا جانے والا پیغام جعلی ہے۔
اسٹیٹ بینک نے کہا ہے کہ ملک میں نیشنل بینک آف پاکستان کے سوا کسی بینک پر سائبر حملے کی اطلاع نہیں ملی، اسٹیٹ بینک ان اطلاعات کی تردید کرتا ہے جن میں 9 بینکوں پر سائبر حملے، مالیاتی اور ڈیٹا کی چوری کا دعویٰ کیا جارہا ہے، اسٹیٹ بینک صورتحال کو مانیٹر کررہا ہے اور کوئی بھی اطلاع اسٹیٹ بینک کے آفیشل ابلاغی ذرائع سے ہی نشر کی جائے گی۔

ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ:پاکستان آسان شکار نمیبیا سے آج ٹکرائے گا

ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں پاکستان آسان شکار نمیبیا کو ترنوالہ بنانے کیلیے تیار ہے۔
ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں ناقابل شکست پاکستان ٹیم نے ابھی تک گروپ ٹو میں شامل تینوں بڑے برج الٹائے ہیں،روایتی حریف بھارت کو چاروں شانے چت کرتے ہوئے اعتماد بلندیوںپر پہنچایا، اس کے بعد نیوزی لینڈ اور افغانستان کو بھی زیر کرکے دھاک بٹھائی۔
اب ٹیم کے پاس منگل کو ابوظبی کے شیخ زید اسٹیڈیم میں نمیبیا جیسے آسان شکار کو ترنوالہ بناکر سیمی فائنل تک رسائی پر مہر تصدیق ثبت کرنے کا موقع ہوگا،گرین شرٹس کو ٹاپ آرڈر میں کپتان بابر اعظم اور محمد رضوان کی خدمات حاصل ہیں۔
دونوں ایک عرصے سے تسلسل کے ساتھ عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کررہے ہیں،افغانستان کیخلاف بڑی اننگز نہ کھیل پانے والے محمد رضوان اس بار بھرپور کم بیک کیلیے بے تاب ہوں گے،فخرزمان جارحانہ بیٹنگ کی صلاحیت رکھتے ہیں مگر ابھی تک کھل کر صلاحیتوں کے جوہر نہیں دکھاپائے،ان کیلیے بھی چھکے چھڑانے کا اچھا موقع ہوگا۔
ابھی تک جدوجہد کرنے والے محمد حفیظ کی جگہ حیدر علی کو آزمانے کا آپشن موجود ہے، تجربہ کار شعیب ملک مڈل آرڈر میں استحکام کی علامت ہوں گے،آصف علی نے گذشتہ دونوں میچز میں مختصر اننگز میں خود کو میچ ونر ثابت کیا ہے۔
شاداب خان اور عماد وسم اسپن کا جادو جگانے کے ساتھ جارحانہ بیٹنگ کا بھی مظاہرہ کرسکتے ہیں،پیسرز شاہین شاہ آفریدی اور حارث رؤف زبردست فارم میں ہیں،کمزور حریف کیخلاف حسن علی کو بھی ردھم میں آنے کا موقع ملے گا،اگر انھیں آرام دینے کا فیصلہ کیا گیا تو وسیم جونیئر کو آزمایا جا سکتا ہے،حتمی فیصلہ میچ سے قبل کیا جائے گا۔
دوسری جانب نمیبیا نے کوالیفائنگ مرحلے میں سری لنکا سے شکست کے بعد نیدر لینڈز اورآئرلینڈ کو زیر کیا، سپر 12مرحلے میں اسکاٹ لینڈ کیخلاف فتح سمیٹی،اتوار کواسے افغانستان نے آؤٹ کلاس کیا، پاکستان کی بولنگ پاور کو دیکھتے ہوئے نمیبیا کی کمزور ٹاپ آرڈر سے بڑی توقعات وابستہ نہیں کی جا سکتیں،مڈل آرڈر میں گیرہارڈ ایراسمس،زان گرین اور جے جے سمٹ جارحانہ بیٹنگ کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
آل راؤنڈز ڈیوڈ ویزا بیٹ اور بال سے ٹرمپ کارڈ ثابت ہوسکتے ہیں، روبن ٹرمپلمین پیس بولنگ سے مشکلات پیدا کرنے کے اہل ہیں، جان فریلنک اور جے جے سمٹ بھی ساتھ دینے کیلیے تیار ہوں گے،جان نکول لیگ اسپن سے کنڈیشنز کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے۔
ابوظبی میں ابھی تک رنز بنانا آسان نہیں رہا، حالیہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں یہاں پہلی اننگز کا اوسط ٹوٹل128رہا ہے،ہدف کا تعاقب کرنے والی 6 ٹیمیں فاتح رہیں، 2بار پہلے بیٹنگ کرنے والی ٹیمیں سرخرو ہوئی ہیں، اسپنرز پچز کا زیادہ فائدہ اٹھاسکتے ہیں،اوس کے پیش نظر ٹاس جیتنی والی ٹیم پہلے بولنگ کو ترجیح دے گی۔
پاکستان ٹیم اپنی تاریخ میں پہلی بار ’’کرکٹ بے بیز‘‘ نمیبیا سے ٹی ٹوئنٹی میچ کھیل رہی ہے۔یاد رہے کہ دونوں ٹیمیں اس سے قبل صرف ایک بار 18سال قبل کسی انٹرنیشنل میچ میں مقابل ہوئی تھیں،گرین شرٹس نے ون ڈے فارمیٹ کے ورلڈکپ 2003میں نمیبیا کو 171رنز سے شکست دی تھی۔
آل راؤنڈر شعیب ملک کا کہنا ہے کہ مسلسل 3میچز جیتنے کے بعد ٹیم کا مورال بلند ہوگیا، مگر نمیبیا سمیت کسی بھی حریف کو آسان نہیں لے سکتے، ہم پوری تیاری کے ساتھ میدان میں اتریں گے۔
انھوں نے کہا کہ تمام کھلاڑی کپتان کو بھرپور سپورٹ کررہے ہیں، ٹیم کا ماحول زبردست بن چکا،کوشش ہوگی کہ فتوحات کا تسلسل برقرار رکھیں، نمبییا سے میچ کیلیے ہم کچھ مختلف نہیں سوچ رہے، ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ میں کوئی ٹیم آسان نہیں ہوتی، اس لیے کوئی خطرہ مول نہیں لیاجاسکتا، تینوں شعبوں میں عمدہ کارکردگی سے ہی میچز جیتتے جاتے ہیں اورہماری کوشش ہوگی کہ غلطیوں کو نہ دہرائیں اور عمدہ کھیل پیش کریں۔

ہیلووین کے موقع پر امریکا میں فائرنگ سے 12 افراد ہلاک، 52 زخمی

امریکا میں ہیلووین کے موقع پر فائرنگ کے مختلف واقعات میں 12 افراد ہلاک اور 52 زخمی ہوگئے۔
امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق ہیلووین تہوار کے موقع پر گزشتہ ہفتے امریکا کی مختلف ریاستوں میں فائرنگ کے مختلف واقعات پیش آئے جس کے نتیجے میں 12 افراد ہلاک اور 52 زخمی ہوگئے۔ زیادہ تر واقعات گھروں میں یا ان جگہوں پر پیش آئے جہاں ہیلووین پارٹی کے لیے لوگوں کی بڑی تعداد جمع تھی۔
امریکی حکام کے مطابق ملک میں کورونا وائرس کی لہر کے دوران فائرنگ کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، رواں سال ابھی تک فائرنگ کے نتیجے میں 599 افراد ہلاک ہوئے جب کہ گزشتہ سال 611 اور 2019 میں 417 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔

سی ٹی ڈی کوہاٹ پر حملہ؛ فائرنگ کے تبادلے میں 4 دہشت گرد ہلاک

دیر بالا میں دہشت گردوں کے حملے کے دوران فائرنگ کے تبادلے میں 4 دہشت گرد ہلاک ہوگئے۔
کاؤنٹر ٹیررزم ڈیپارٹمنٹ پشاور کی جانب سے جاری بیان کے مطابق سی ٹی ڈی کوہاٹ ریجن کے اہلکار ہنگو کی تحصیل ٹل اور مضافات میں سرچ اینڈ اسٹرائیک آپریشن کے بعد واپس جارہے تھے کہ جہازو میدان کے قریب دہشت گردوں نے ان پر فائرنگ کردی۔ جوابی کارروائی کے نتیجے میں دہشت گرد فرار ہوگئے، جس کے بعد سی ٹی ڈی نے علاقے میں سرچ آپریشن کیا، اس دوران علاقے سے 4 دہشت گردوں کی لاشیں ملیں۔ دہشت گردوں سے 4 عدد ایس ایم جی، 16 عدد چارجر، 04عدد بنڈولیر اور سیکڑوں گولیاں برآمد ہوئی ہیں۔سی ٹی ڈی کے مطابق ہلاک دہشتگردوں کی شناخت صادق اللہ عرف القائدہ ، احمد رحیم عرف سعود، صمیم سعید عرف استاد اور مصطفی خان عرف ملا سے نام سے ہوئی ہے۔ ان کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے امیر حاتم گروپ سے ہے، جو دہشت گردی، بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ کے متعدد مقدمات میں سی ٹی ڈی کو مطلوب تھے۔

گزشتہ 15 سال کے دوران دنیا بھر میں 1200 صحافی قتل کیے جاچکے ہیں: رپورٹ

ااقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کے مطابق 2006 سے 2020 کے درمیان دنیا بھر میں 1200 صحافی قتل کیے جا چکے ہیں جب کہ قتل ہونے والے ہر 10 صحافیوں میں سے 9 کے قتل کے کیس حل نہیں ہو سکے۔
2 نومبر کو دنیا بھر میں مختلف تنظیمیں اپنے اپنے ملکوں میں صحافیوں کے قتل کے حل نہ ہونے والے مقدمات پر بات کرتی ہیں اور ان کے لیے انصاف کا مطالبہ کرتی ہیں، 2 نومبر کو صحافیوں کی سلامتی سے متعلق یونیسکو کی شش ماہی رپورٹ پر بھی بات کی جاتی ہے۔
یونیسکو کے ڈائریکٹر جنرل ہر 6 ماہ بعد ایک رپورٹ جاری کرتے ہیں جس میں مختلف ملکوں میں صحافیوں کے خلاف جرائم کی تفصیلات درج ہوتی ہیں۔
پاکستان ان ممالک میں شامل ہوچکا ہے جہاں صحافی ناصرف غیرریاستی عناصر کے ہاتھوں غیرمحفوظ ہیں بلکہ انہیں حکومتی اداروں کی جانب سے بھی دباؤ کا سامنا ہے۔
اقوام متحدہ نے رکن ممالک پر زور دیا تھا کہ وہ صحافت سے وابستہ افراد کے تحفظ کے لیے ٹھوس اقدمات کریں، صحافیوں کے خلاف ہونے والے تشدد کے واقعات پر افسوسناک بات یہ ہے کہ جرائم کرنے والوں کو سزا کا خوف ہی نہیں۔
صحافیوں کے خلاف جرائم سے تحفظ کا عالمی دن
2013 میں مالی میں دو فرانسیسی رپورٹرز کے قتل کے بعد اقوام متحدہ نے ہر سال 2 نومبر کو صحافیوں پر تشدد کے خلاف عالمی دن منانے کا اعلان کیا۔
اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں صحافیوں پر ہونے والے پرتشدد واقعات میں ہر 10 میں سے 9 کیسز میں مجرمان قانون کے شکنجے سے بچ نکلنے میں کامیاب رہے۔
ہر سال 2 نومبر کو اس دن کو منانے کا مقصد صحافیوں پر ہونے والے پر تشدد واقعات کو اجاگر کرنا ہے تاکہ نہ صرف صحافیوں کے خلاف تشدد بند ہوسکے بلکہ مجرموں کوکیفر کردار تک پہنچایا جاسکے۔

لالیگا: رائیو ویلیکانو اور سیلٹا ویگو کے درمیان میچ بغیرکسی گول کے برابر

اسپینش فٹبال لیگ لالیگا میں رائیو ویلیکانو اور سیلٹا ویگو کے درمیان میچ بغیر کسی گول کے برابر ہوگیا۔
رائیو ویلیکانو اور سیلٹا ویگو کے درمیان کھیلا جانے والا میچ دلچسپ رہا ، دونوں ٹیموں نے ایک دوسرے کے گول پر کئی حملے کیے ۔
اس کےعلاوہ سیلٹا ویگو نے 7 اور رائیو ویلیکانو نے 4 کارنر بھی حاصل کیے لیکن ا س کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا۔
ڈرا میچ کے بعد پوائنٹس ٹیبل پر رائیو ویلیکانو 20 پوائنٹس کے ساتھ چھٹے نمبر پر موجود ہے جبکہ سیلٹا ویگو کا 14واں نمبر ہے۔

کوہلی اور انوشکا شرما کی 10 ماہ کی معصوم بچی کو ریپ کی دھمکی

بھارتی کرکٹ ٹیم کے کپتان ویرات کوہلی کی جانب سے مسلمان کھلاڑی محمد شامی کی حمایت کرنے پر انہیں ان کی 10 ماہ کی بیٹی کی ’ریپ‘ کی دھمکی دے دی گئی۔

متعدد بھارتی ٹوئٹر صارفین نے بتایا کہ پاکستان سے شکست کے بعد انتہاپسند ہندوؤں کی جانب سے بھارتی ٹیم اور خاص طور پر مسلمان کھلاڑی محمد شامی کو تنقید کا نشانہ بنائے جانے پر ان کی حمایت کرنے کے بعد ویرات کوہلی کو دھمکی دی گئی۔

محمد شامی کو اس وقت سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں غدار وطن کہا گیا تھا جب کہ بھارتی ٹیم کو پاکستانی کرکٹ ٹیم نے 24 اکتوبر کو 10 وکٹوں سے شکست دی تھی۔

شکست کے بعد بھارت میں انتہاپسندوں نے واحد مسلمان کھلاڑی محمد شامی کو غدار کہتے ہوئے انہیں پاکستان چلے جانے کے طعنے بھی دیے تھے۔

محمد شامی پر تنقید پر کئی سیاسی، سماجی و شوبز شخصیات سامنے آئی تھیں اور ویرات کوہلی نے بھی ان کا دفاع کرتے ہوئے ان کا ساتھ دیا تھا۔

ویرات کوہلی کی جانب سے بھی محمد شامی کا ساتھ دیے جانے پر ایک انتہاپسند نے انہیں ان کی بیٹی کے ’ریپ’ کی دھمکی دی۔

کانٹینٹ کریئٹر اور صحافی اینڈرے بورگس نے اپنی ٹوئٹ میں بتایا کہ محمد شامی کی حمایت کرنے کے بعد ویرات کوہلی اور انوشکا شرما کی 10 ماہ کی بیٹی ’ومیکا‘ کو ’ریپ‘ کی دھمکی دی گئی۔

انہوں نے بچی کو دی جانے والی دھمکی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ’یہ سب کچھ اس ہندوستان میں ہو رہا ہے، جسے ہم نے خود ایسی نفرت کی جانب بڑھایا‘۔