تیسرا نیب آرڈینیس: شہباز شریف، زرداری ،مریم، عباسی کو NO ریلیف

اسلام آباد: قومی احتساب بیورو (نیب) کا تیسرا ترمیمی آرڈیننس 2021 جاری کردیا گیا۔

نیب ترمیمی آرڈیننس کے تحت دھوکا دہی اور فراڈ کے کیسز واپس نیب کے سپرد کردیے گئے ہیں جب کہ  مضاربہ کیسز بھی واپس نیب کو سونپ دیے گئے ہیں۔

نیب آرڈیننس سے آصف زرداری، شاہد خاقان عباسی، مریم نواز اور شہبازشریف کو کوئی ریلیف نہیں ملے گا، پہلے سے قائم تمام منی لانڈرنگ کے کیسز ویسے ہی چلیں گے۔

آرڈیننس کے مطابق اس کا اطلاق 6 اکتوبر سے ہوگا اور 6 اکتوبر سے پہلے کے فراڈ کے تمام مقدمات نیب سن سکے گا،جعلی اکاؤنٹس کے پرانے مقدمات آرڈیننس کے تحت جاری رہ سکیں گے۔

آرڈیننس کے تحت چیئرمین نیب کو عہدے سے ہٹانے کا اختیار سپریم جوڈیشل کونسل سے واپس لے لیا گیا، چیئرمین نیب کی مدت ملازمت 4 سال ہوگی اور نیب چیئرمین کو عہدے سے ہٹانے کا اختیار صدرمملکت کو ہوگا۔

آرڈیننس کے مطابق چیئرمین نیب کو ہٹانے کیلئے وہی بنیاد ہوگی جو سپریم کورٹ کے جج کیلئے ہوتی ہے۔

تیسرے نیب ترمیمی آرڈیننس کے تحت زر ضمانت کے تعین کا اختیاربھی نیب عدالت کو دے دیا گیا ہے۔

6 اکتوبر کو نیب آرڈیننس جاری ہونے سے نیب قوانین میں ابہام سامنے آئے تھے اور آرڈیننس میں جرم کی مالیت کے برابر مچلکے جمع کرانے کی شرط رکھی گئی تھی جب کہ نیب آرڈیننس کے تحت چیئرمین نیب کو ہٹانے کا اختیار سپریم جوڈیشل کونسل کو دیا گیا تھا جس کے بعد وزارت قانون نے نیب آرڈیننس کی وضاحت کے لیے کمیٹی تشکیل دی تھی۔

”خبریں“ ایک کردار‘ ایک تحریک

لقمان اسد
جناب ضیا شاہد جنہیں مرحوم لکھتے ہوئے ہاتھ قلم کا ساتھ دینے سے قاصر محسوس ہوتے ہیں انہوں نے جس ننھے منھے پودے کو اپنے ہاتھ سے بویا تھا وہ آج 29برس بعد اتنا گھنا اور تن آور درخت بن چکا ہے کہ جس کے سائے اور چھاؤں تلے لاکھوں لوگ پر سکون زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ”جہاں ظلم وہاں خبریں“ کے سلوگن کو اپنی عملی جدوجہد سے جناب ضیاشاہد نے ایسی بینظیر کامیابیوں سے ہمکنار کیا کہ ایک دن وہ آیا جب وطن عزیز کے تمام محروم طبقات، پسے ہوئے غریب اور مفلوک الحال افراد ”خبریں“ ہی کو اپنا سہارا تصور کرنے لگے اور بلاشبہ اس حوالے سے ”خبریں“ نے بھی بطور ادارہ اپنی ذمہ داریوں کو خوب نبھایا۔ کوئی ایسا واقعہ جو جناب ضیاشاہد کی معلومات اور نوٹس میں آیا وہ تب تک چین سے نہ بیٹھے جب تک کہ اس مظلوم کی فریاد کو حاکم ِوقت تک نہ پہنچایا۔ صرف یہاں تک ہی نہیں بلکہ اس مسئلے کو حل کراکے دم لیا۔
مظفرگڑھ کی ”مختاراں مائی“ سے لیکر ملتان کی ”مرجان بی بی“ اور قصور کی بے قصور ننھی منھی گڑیا ”زینب“ تک ایسی درجنوں مظلوم بیٹیوں کے سر پر ”خبریں“ اور جناب ضیاشاہد نے دست ِشفقت رکھا اور انہیں ریاستی اداروں سے انصاف میسر آیا۔ دریاؤں کے وسط اور کناروں پر محفوظ پناہ گاہیں بناکر اردگرد کے لوگوں کی زندگیاں اجیرن کرنے والے بدنام زمانہ اشتہاری اور ڈکیت گینگ جو اس قدر زورآور اور سرپھرے بن چکے تھے کہ شہروں میں آکر پولیس چوکیوں تک کو راکٹ لانچرز سے نشانہ بنانے لگے۔ حیرت ہوتی ہے اور سلام ہے جناب ضیا شاہد کی بے باکی اور جرأت مندی کو کہ وہ ڈکیت اور اشتہاری جو اپنے خوف کی دہشت بٹھا چکے تھے، انہوں نے ایسی بے مثال منصوبہ بندی کی اور اپنے ادارہ ”خبریں“ اور اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لاکر ان کو نہ صرف بے نقاب کیا بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی معاونت کرکے انہیں اپنے انجام تک پہنچایا۔ جس طرح کسی بھی انسان کی زندگی میں اُتار چڑھاؤ، نشیب وفراز اور مشکلات آتی رہتی ہیں اسی طرح جناب ضیاشاہد نے بھی کئی مشکلات اور مسائل کا سامنا کیا، خاص طور پر جواں سال اور ہونہار فرزند عدنان شاہد کی وفات کا صدمہ ان کیلئے ایک بہت بڑا صدمہ تھا لیکن کمال حوصلے سے انہوں نے ایک جوان بیٹے کی جدائی کے غم اور دُکھ کو برداشت کیا اور ”خبریں“ سے اپنے عشق میں کوئی کمی نہ آنے دی۔ وہ ان چیزوں کو بخوبی سمجھتے تھے کہ قدرت بڑے مقاصد کے حصول کیلئے کام کرنے والوں کو آزمائش اور امتحان میں ڈالتی ہے لیکن پھر صبر کا دامن نہ چھوڑنے والوں کو قدرت ہی کامیابی وکامرانی کے ساتھ ہر آزمائش اور امتحان سے سرفراز اور سربلند کردیتی ہے۔
آج سے 29برس قبل جب جناب ضیاشاہد نے روزنامہ ”خبریں“ کا اجراء کیا تو یہ چہ مگوئیاں ہونے لگیں کہ پہلے سے موجود بڑے اخباروں کی موجودگی میں ”خبریں“ زیادہ کامیاب نہ ہوسکے گا لیکن جناب ضیاشاہد ایک ایسی پُرعزم اور نابغہئ روزگار شخصیت تھے کہ انہوں نے ایسی باتیں کرنے والوں کو غلط ثابت کردکھایا۔ جناب ضیا شاہد کی وفات ”خبریں“ کیلئے بہت بڑا سانحہ تھی اور ہے۔ ان کی وفات کے بعد پھر وہی چہ میگوئیاں سر اٹھانے لگیں لیکن جناب ضیاشاہد کے باصلاحیت فرزند چیف ایڈیٹر ”خبریں“ جناب امتنان شاہد نے اپنے وژن سے یہ ثابت کیا ہے کہ ”خبریں“ کو جہاں ان کے والد گرامی چھوڑ کر گئے تھے انشاء اللہ ”خبریں“ وہاں سے پیچھے نہیں بلکہ آگے اور آگے کی طرف بڑھے گا۔
یکم اکتوبر 2021ء کو بہاولپور سے روزنامہ ”خبریں“ کا اجراء ایسی پروپیگنڈہ مہم بپا کرنے والوں کیلئے کافی ہے اور جو لوگ یہ خیال کررہے تھے ان کیلئے اس میں بہت بڑا پیغام ہے کہ اللہ تعالیٰ پر یقین اور بھروسہ کر کے نیک نیتی کے ساتھ چلنے والوں کو اللہ کریم کی ذات کبھی ناکامی کا سامنا نہیں کرنے دیتی۔ بہاولپور سے روزنامہ ”خبریں“ کا اجراء چیف ایڈیٹر ”خبریں“ جناب امتنان شاہد کا لائق صد تحسین اقدام ہے اور یقینی طور پر وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ دُعا ہے کہ جناب امتنان شاہد کی ادارت میں روزنامہ ”خبریں“ اسی طرح کامیابیوں کے زینے طے کرتا رہے اور اللہ تعالیٰ ”خبریں“ کو دن دُگنی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے۔ آمین!
(کالم نگارسیاسی و قومی مسائل پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭

پاکستانی خواتین با اختیار کب ہوں گی؟

ڈاکٹرناہید بانو
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے پیچیدہ سماج آبادیاتی معاشرے اور ثقافتی ماحول میں خواتین کو با اختیار بنانا ہمیشہ ایک متنازعہ مسئلہ رہا ہے۔ انسانی ترقی کے تمام اہم شعبہ ہائے زندگی میں خواتین کو مردوں سے کم درجہ دیا گیا ہے۔ اس لئے پاکستانی تناظر میں خواتین کو با اختیار بنانے کے مختلف عوامل کا مطالعہ فوری طور پر ضروری ہے، مرد و عورت کی برابری کی بنیاد پر 149 ممالک کی لسٹ میں 148 نمبر پر ہے۔ معیشت میں کردار کی بنیاد پر 146 نمبر پر جبکہ سیاست میں خواتین کے کردار کی بنیاد پر 97 نمبر پر ہے۔ خواتین کو با اختیار بنانے کے لئے ایک ایسے ماحول کی تخلیق شامل ہے جس کے اندر خواتین سٹریٹجک زندگی کے انتخاب اور فیصلے کسی مخصوص تناظر میں کرسکیں۔ یہ تصور اتنا وسیع ہے کہ اس کی پیمائش کرنا ہمیشہ پریشانی کا باعث رہا ہے۔ اس پیچیدگی کے بعد مختلف ریسرچرز نے ان پیچیدہ خیالات کی پیمائش کے لئے مختلف تصوراتی سکیم اور اشارے تیار کرلئے، مثال کے طور پر خواتین کو با اختیار بنانے کے انحصار ثقافتی اقدار، سماجی پوزیشن اور عورت کی زندگی کے مواقع پر ہے۔ خواتین کو بااختیار بنانا تین لیول پر ممکن ہے۔ پہلا انفرادی بااختیاری، دوسرا عقائد اور اقدامات میں خود مختاری اور تیسرا درجہ وسیع تر تناظر میں اختیارات ہیں۔ اس کے علاوہ بھی با اختیار بنانے کی چار اقسام ہوسکتی ہیں۔ جیسا کہ سماجی، ثقافتی، معاشی، تعلیم اور صحت سے متعلق اختیارات کے علاوہ اکثر استعمال ہونے والے موضوع میں گھریلو فیصلہ سازی، معاشی فیصلہ سازی، وسائل پر کنٹرول اور سفری نقل و حرکت شامل ہیں۔
پاکستان میں خواتین کو با اختیار بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ مردوں کے غلبے اور صنفی فرق کی وجہ سے پاکستانی معاشرے میں خواتین میں فعال حصہ لینے میں رکاوٹ ہیں۔ مزید برآں با اختیاری نہ صرف خود اعتمادی پیدا کرتی ہے بلکہ جسمانی اور ذہنی صحت کے لئے بھی ایک مضبوط عامل ہے۔ پاکستان میں اس وقت ہر سطح پر خواتین کے حقوق کی بات کی جا رہی ہے اور بہت سی این جی اوز او ریونائیٹڈ نیشن وومن کام کر رہی ہیں جن کا مقصد سیاست اور معیشت میں خواتین کے کردار کو بڑھاتا ہے۔ اگر حقیقت میں خواتین کے کردار کا جائزہ لیا جائے تو خواتین نہ صرف گھر کے کام کاج کرتی آرہی ہیں بلکہ کھیتوں میں ہل چلانے سے لے کر فصلوں کی کٹائی اور سبزیوں کو کھیتوں سے منڈی تک لانے کے کام میں بھی مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی رہی ہیں مگر ان کو کبھی پذیرائی نہیں ملی نہ ہی صحت اور تعلیم کی سہولیات تک رسائی آسان بنائی گئی۔
اسلامی تصور حیات کو اگر دیکھا جائے تو خواتین کو با اختیار بنانے میں اسلامی تعلیمات نے کافی اہم کردار ادا کیا ہے۔ خواتین کی تعلیم اس کے گھر کے افراد کی تعلیم و تربیت، میڈیا تک رسائی، صحت کی سہولیات، گھر کے افراد کا خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ خاتون کو بے خوف زندگی اسلامی تصور فراہم کرتا ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کی ترقی و خوشحالی کے لئے مضبوط خواتین اس کی معیشت کی ترقی اور غربت کے خاتمے کے لئے نہایت ضروری ہیں۔ ویسے بھی پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا اور قرآن پاک و حدیث بھی خواتین کے حقوق بشمول تعلیم، عبادت، آزادی رائے، شریک حیات کے انتخاب، معاشی آزادی، سماجی کردار کے تحفظ کی تاکید کرتے ہیں۔ ایک با اختیار صحت مند عورت با اعتماد بھی ہوگی جو اپنے ماحول کا تنقیدی جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ اپنے لئے بہترین فیصلے کی صلاحیت بھی رکھتی ہوگی جو اس کی زندگی پر مثبت اثرات مرتب کرتے ہیں۔ مجموعی طور پر معاشرے کو خواتین کی صلاحیت اور ان کی شراکت کو سمجھنا ہوگا، آخر کب تک خواتین استحصال کاشکار اور جہیز نہ ملنے پر طعنوں کی حق دار رہیں گی۔ عورت ہونا کوئی جرم نہیں بلکہ خواتین ہر شعبے میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کر کے قومی و ملکی، معاشی و معاشرتی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں ضرورت صرف ان کو سراہنے کی ہے۔
(کالم نگار ممتازماہر تعلیم ہیں)
٭……٭……٭

صوفی اور سورما موت سے نہیں ڈرتے

رانامحبوب ا ختر
پاکستان کا سندھ حسین ہے۔ کارونجھر سندھ کو حسین تر بناتا ہے۔ جمادات، نباتات، حیوانات، چرند پرند اور انسان ایک تسبیح میں پروئے دانوں کی طرح ہیں۔ قدرتی ماحول کے ربط سے زندگی قائم ہے۔ انسان کے بارے میں فرشتوں نے خالق سے کہا کہ یہ زمین میں فساد پھیلائے گا۔ آج فسادی آدمی کے پاس اپنے گولے کو تباہ کرنے کی صلاحیت ہے۔ کولونیل ازم کی چار صدیاں امریکہ کے ریڈ انڈینز، آسٹریلیا کے زمیں زادوں، نیوزی لینڈ کے مااوریوں، افریقہ کے غلاموں اور ایشیائی مظلوم قوموں کی داستانوں سے بھری ہیں تو دوسری طرف ترقی کے ناقابل ِیقین سفر سے دنیا حیرت کدہ ہے۔ ڈاکٹر علی شریعتی انسان کو مارکسی لنگو میں dialectical being کہتے تھے۔ کارپوریٹ کیپٹل ازم کے شکار پوسٹ ماڈرن انسان کو، ماحول اور ترقی میں توازن برقرار رکھنے کا چیلنج درپیش ہے۔ نوح ہراری، مستقبل میں ماحولیاتی تباہ کاریوں کو کرہ ارض کے لئے بڑا خطرہ بتاتے ہیں۔ یہ طے ہے کہ قدرتی ماحول کی رنگا رنگی انسانیت کے بقاء کی ضامن ہے جبکہ سرمایہ دارانہ سامراج منافع کی یک رنگی کا اسیر ہے۔ سامراجی گماشتے ریاستی قوانین کا چولا پہن کر ماحول کو تباہ کرتے ہیں۔آزادی کے نام پر corporate slavery قائم کرتے ہی ہیں۔ ضلع تھرپارکر کی تحصیل ننگر پارکر کا گلابی کارونجھر جبل سندھ کا حسن اور پاکستان کا وہ دفاعی مورچہ ہے جسے 1988 ء سے توڑا جا رہا ہے!
ایک یکتائے روزگار شخص کارونجھر جبل کے دامن میں اپنے گھر کے بیرونی صحن میں گوندی، بیری، جال کے درختوں کے بیچ چارپائی پر تنہا بیٹھا تھا کہ جو یکتا ہے، وہ تنہا ہے۔ رانا رتن سنگھ اور روپلو کولہی کے دیس کا آدمی میٹھی اردو اور سندر سندھی میں بات کرتا تھا۔ کارونجھر جبل کا عاشق اور شاعر خلیل کمبھار سنتا تھا۔ شاعر رفعت عباس حیرتی تھا اور ایک یاتری ڈائری کے پنے پر اس کی باتیں لکھتا تھا۔ اس کے موتیوں سے لفظ میرے قلم کی سیاہی سے میلے ہوئے جاتے تھے۔ 26اکتوبر 2021ء کے سورج کی کرنیں کارونجھر کے گرینائیٹ کا گلابی چہرہ چوم کر آتی تھیں۔ سورج کے سامنے ایک ”نگارِآتشیں“ کا سر کھلا تھا۔گلے میں رومال روشنی کا ہالے کی طرح تھا۔ غیرمعمولی آدمی نے معمولی شلوار قمیض پہنی تھی۔ لگ بھگ 5فٹ 9انچ کے قد اور 60سال کی عمر کے آدم کی قامت میں کارونجھر کی قدامت تھی۔ اسے کوئی خوف نہ تھا۔ یہ صوفی منش آدمی کارونجھر کا سورما ہے۔ صوفیوں اور سورماؤں میں ایک بات مشترک ہوتی ہے، وہ موت سے نہیں ڈرتے! صوفی کی موت، وصل ہے۔ سورما، موت سے امر ہے۔ خوف اور حزن خدا کے دوستوں سے دور رہتے ہیں۔ کل ایک صوفی سورما، شاہ عنایت نے فقراء کی فوج کے ساتھ مغلوں اور کلہوڑوں کو شکست دی تھی۔ پھر اسے دھوکے سے شہید کیا گیا تھا۔ آج ننگر پارکر میں ایک بے خوف فقیر، اللہ رکھیو کھوسو پہاڑ کاٹنے والوں کے خلاف جبل کی زبان بولتا تھا۔
اس نے کہا کہ ننگر پارکر کا کارونجھر، پاکستان کے صوبہ سندھ اور انڈیا کی دو ریاستوں، راجستھان اور گجرات کے سنگم پر واقع ہے۔ یہ 19 کلومیٹر طویل اور کہیں 305 میٹر تک اونچا ہے۔ چوڑیو سے کارونجھر تک تمام مذاہب کے 108 تیرتھ اور مقدس مقامات ہیں۔ ساردھرو میں شِو راتڑی کے تہوار پر سالانہ دو لاکھ انسان جمع ہوتے ہیں۔ وہاں پانی کا تالاب ہے جہاں غریب ہندو اپنے پیاروں کی راکھ بہاتے ہیں۔ امیر، گنگا جاتے ہیں۔جن کے پاس گنگا میں راکھ بہانے کے وسائل نہیں ہوتے وہ ساردھرو آتے ہیں۔ لفظ چوڑیو، چوڑی سے ہے۔ ممتا سے ممتاز تریمتائیت کے ہاتھ سفید چوڑے اور رنگین چوڑیوں کی قوسِ قزح سے یہاں روشن ہیں۔ چوڑیو میں ایک چٹان کے نیچے درگا دیوی ایک عورت کی صورت بیٹھی ہے۔ نو رتڑی کے روزے اور پوجا ہوتی ہے۔ چشمے زندگی کو سیراب کرتے اور موت کو غسل دیتے ہیں۔ نایاب جنگلی حیات کی نمو کرتے ہیں۔ کارونجھر میں چراغ یا جھرک نام کا ایک نایاب جانور ہے جو گدھے کا شکار کرتا ہے! حیرت ہے کہ سندھ کی حکومت بھی گدھے کا شکار کرنے والے چراغ کا گھر گراتی ہے۔ ہرن، نیل گائے، بڑے چمگادڑ اورگِدھ ہیں۔ وہاں بے شمار مور ہیں جن کو موہنے مقامی نہیں مارتے۔ ایسے درخت ہیں جو پاکستان میں اور کہیں نہیں پائے جاتے۔ کڑایو، تیندور اور کئی قسم کی جڑی بوٹیاں ہیں جو مقامی لوگوں کے میڈیکل سٹورز ہیں۔ کڑایو کا gum جوڑوں کے درد کے لئے اکسیر ہے۔ پہاڑ میں ایسی گھپائیں ہیں جن میں ہزاروں لوگ بیٹھ سکتے ہیں۔ رانا سر اور چندن گڑھ ہیں۔ اللہ رکھیو بولے جا رہا تھا جیسے اس کے نطق میں غیبی طاقت آگئی ہے پھر اس نے مستی میں سر سارنگ سے پارکر کے بارے میں شاہ بھٹائی کا بیت سنایا کہ ”ڈھٹ سے بارش سر اونچا کرکے پارکر کے میدان میں برسی، سارے تالاب بھر گئے اور پانی تالابوں سے باہر نکلتا تھا“۔ یاتری نے ایک بار پارکر میں اس بیت کی تفسیر دیکھی تھی۔
گلابی رنگ کا یہ پہاڑ مقامی لوگوں کی زندگی ہے۔ کارونجھر میں چھبیس ارب ٹن گلابی، سفید اور سرمئی پتھر کا ذخیرہ ہے۔ ان پتھروں کی قیمت اربوں ڈالرز میں ہے۔ جبل کی دولت مقامی آدمی کا عذاب بن گئی ہے کہ سرمایہ دار مقامی آدمی کی تاریخ، ثقافت، تہذیب اور معیشت سے بے خبر پہاڑ کو توڑ کر بیچنا چاہتے ہیں۔ سرمائے دار کا ایمان منافع ہے۔ پہلی بار اس پہاڑ کو کاٹنے کی لیز 1988 ء میں پیار علی الانا کی کمپنی پاک راک کو دی گئی۔ الانا کا نام سن کر یاتری چونکا تھا۔ 1990 ء میں کوہِ نور کمپنی پہاڑ توڑتی تھی۔ مقامی لوگ سرگوشیوں میں بتاتے ہیں کہ اب یہ کام کسی اور کمپنی کے پاس ہے۔ اللہ رکھیو کھوسو کی پٹیشن سندھ ہائی کورٹ کے حیدرآباد بنچ میں زیرسماعت ہے۔ کچھ روز پہلے سندھ حکومت کی ایک کمیٹی ننگر کے لوگوں کے تحفظات سننے آئی تھی۔ ایم پی اے، قاسم سراج سومرو سمیت یہ سب لوگ سندھ کے بیٹے تھے۔ سندھی میں میٹھی بات کرتے تھے۔ بے بسی مگر ان کی باتوں سے عیاں تھی۔ افسر کا آزار یہ کہ وہ طاقتور کا غلام اور غلام کا بادشاہ ہے۔ ظلی طاقت کا نشہ کرتا ہے۔ کارپوریٹ غلامی کی عالمی جکڑ بندی میں شعوری یا غیرشعوری طور پر طاقت کا ساتھ دیتا ہے اور قرنوں میں کہیں کلیم اللہ لاشاری کے روپ میں چمکتا ہے۔ افسروں کے لئے پتھر اللہ رکھیو کھوسو اور ہم وطنوں سے زیادہ قیمتی ہوتے ہیں۔ کھوسو کا کمیٹی کے ممبران سے خطاب شیکسپیئر کے مارک انتھنی کے خطاب سے مؤثر تھا۔ اس نے کمیٹی کے ممبران کو سائیں یعنی آنر ایبل کہا تھا۔ اس کی باتیں ہیملٹ کے خطاب سے بھی زیادہ دلگیرتھیں کہ وہ ہونے یا نہ ہونے کی الجھن سے ماورا ”ہونے“، ”ہستی“ اور ”being“ کی بات کرتا تھا۔ اس نے کہا ”میرے سائیں، کارونجھر اور اس سے منسلک پہاڑیاں نہ ہوں تو کوئی جاندار تو کیا نباتات بھی زندہ نہیں رہ سکتی۔ کارونجھر رن آف کچھ کے گھیرے میں ہے۔ یہ ساڑھے پانچ یونین کونسلوں کا علاقہ ہے۔ نیچے کا پانی نمکین ہے۔ ہمیں پینے کا پانی پہاڑیوں سے ملتا ہے۔ بیراج سے آنے والے پائپ کے پانی کا ایک قطرہ ہمیں نہیں ملتا۔ لوگ سڑکوں پر جنازے رکھ کر احتجاج کرتے ہیں۔ لوگوں کا ذریعہ معاش زراعت اور مویشی ہیں۔ پچھلے سال یہاں پیاز کی فصل ایک ارب روپے کی ہوئی تھی (پھلکارو بیج والا سفید پیاز نایاب ہے)۔ آپ چند ارب ڈالرز کے لئے صدیوں تک لاکھوں لوگوں کا روزگار ختم کر رہے ہیں“۔ اس نے پوری تقریر ایک مسافر اور دو شاعروں کو سنا دی تھی:
دو حرف تسلّی کے جس نے بھی کہے، اُس کو
افسانہ سُنا ڈالا، تصویر دکھا ڈالی
آدمی نے صدیوں دھرم میں لپٹے پتھروں کی پوجا کی ہے۔ اب پتھروں کو بموں سے اڑاتا ہے، آرے سے چیرتا ہے۔ دیوتاؤں سے بے زار آدمی کا کرودھ قابل ِدیدہے۔ اللہ رکھیو بتاتا ہے کہ پہاڑ خدا کی زمین کے ستون ہیں۔ وہ زمین کو قائم اور ماحول کو متوازن رکھتے ہیں۔ہند اور سندھ کی سرحد پر کارونجھر جبل ایک قلعہ ہے۔ دفاعی ماہر اور ذہین جرنیل اپنے قلعے توڑ کر کیوں ہارا کیری کرنا چاہتے ہیں! یہ کام حکومتِ سندھ کرے، سندھی الانا کرے یا کوئی اور، ہمیں منظور نہیں ہے۔ اللہ رکھیو کھوسو، تکثیریت میں وحدت، کلچرل فیڈرل ازم، انسانیت اور کارونجھر کے ایکو سسٹم کو بچانے والا فقیر ہے۔ جیت اس کی یقینی ہے کہ کارپوریٹ غلامی کی موت کے خلاف وہ زندگی کی علامت ہے۔ وہ مقامیت کا روشن چہرہ ہے۔ سندھ حسین ہے اور اللہ رکھیو کھوسو کو اللہ رکھے، جو سندھ، پاکستان اور کائنات کے فطری حسن کی مقدس تثلیث کا استعارہ ہے!کارونجھر کا قصہ تشنہ اور ناتمام تھا کہ زمیں زادوں کی شاعر نسیم سید نے مایا اینجلو کی نظم بھیجی جو شاید روپلو، رانا رتن سنگھ اور کھوسو جیسے عامی اور مقامی ہیروز کے لئے لکھی گئی تھی:
You may write me down in history with your bitter, twisted lies, You may tread me in the very dirt But still, like dust, I’ll rise.
(کالم نگارقومی وبین الاقوامی امور پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭

تھل کی نمائندگی نیلو فر بختیار کریں گی

خضر کلاسرا
نیشنل کمیشن آن دی اسٹیٹس آف وویمن کی سربراہ نیلو فر بختیار نے میڈیا کیلئے ایک پریس بریفینگ کا اہتمام کیا جوکہ صحافی بمقابلہ نیلو فر بختیار تھی۔ میرے اس ابتدائیے کے بعد آپ سمجھ سکتے ہیں کہ نیلوفر بختیار کی پریس بریفنگ میں کیا صورتحال بنی ہوگی اور کیا ماحول ہوگا۔ یاد رہے کہ یہ پریس بریفینگ اس وقت ہورہی تھی جب بصد احترام وزیر صحافیوں کے سوال لینے سے گھبراتے ہیں اور رپورٹر ہیں کہ وہ سوالوں کے گولے لے کر وزیروں کے پیچھے دوڑے پھرتے ہیں کہ کہیں آمنا سامنا ہو اور وہ سوال داغ دیں۔ سوال کے جواب کے جنون بعض رپورٹر وہ صحافتی حدیں بھی کراس کررہے ہیں جوکہ صحافت کے اصولوں کے خلاف ہیں لیکن وہ بضد ہیں کہ سوال کا جواب لے کے رہیں گے۔
اسی طرح کی صورتحال پچھلے دنوں وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کے ساتھ ایک رپورٹر کی میڈیا کے ساتھ بات چیت میں ہوئی۔ صحافی نے نوٹیفکیشن کے حوالے سے سوال داغا لیکن وفاقی وزیر شیخ رشید نے سوال کا جواب نہیں دیا جوکہ ان کا حق تھا کہ چاہیں تو سوال کا جواب نہ دیں لیکن رپورٹر کب صحافت کے بنیادی اصول کے تحت خاموش رہنے والا تھا۔موصوف نے ساتھی رپورٹروں کے سوالوں کا انتظار کرنے کی بھی زحمت گوارہ نہیں کی۔ ایک بار پھر شیخ رشید احمد سے نوٹیفکیشن کا سوال پوچھا کہ نوٹیفکیشن کب ہوگا۔ وزیراعظم انٹرویوز کریں گے وغیرہ وغیرہ۔ رپورٹر کا انداز اتنا جارحانہ تھا کہ رہے نام اللہ کا لیکن اب کی بار صحافی سوال کیساتھ جیسے دوبارہ حملہ آور ہوا تو پنڈی بوائے شیخ رشید احمد کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور شیخ رشید نے وہ کردی جوکہ یہاں لکھنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔میرے خیال میں سوال رپورٹر کا حق ہے لیکن اتنا بھی نہیں ہے کہ بصد احترام۔ سوال کے حق میں وزیر کا گریبان پکڑ لیا جائے کہ میرے سوال کا جواب دو۔صحافتی اداروں کو جہاں اور کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔وہاں اس طرف بھی دھیان دیں کہ وہ جن رپورٹروں کو میدان میں اتار رہے ہیں۔ ان کو اتنی صحافت کا درس دیں کہ آپ نے سوال کرنا۔ اگر کوئی وزیر جواب نہیں دینا چاہتا ہے تو آپ نے بمطابق وفاقی وزیر شیخ رشید احمد اس کی واٹ نہیں لگانی ہے؟ اور جیسے میں نے عرض کیا۔ یہی صحافت کا بنیادی اصول بھی ہے۔ لیکن موجودہ حالات میں صحافت کے اصول پس وپشت ڈال کر اپنی من مانی چل رپی ہے۔۔دونوں اپنے اپنے اینڈ پر اپنے آپ کو حرف آخر سمجھتے ہیں۔ ایک طرف جہاں وزیروں کاخیال ہے کہ جو وہ ملکی صورتحال کی نزاکت سمجھتے ہیں۔ اس کا صحافیوں کو ادراک نہیں جبکہ صحافی اپنے سوالوں کے تکرار سے یہ سمجھتے ہیں کہ جو وہ پوچھ رہے ہیں۔ وہی ملک وقوم کے حق میں ہے۔خیر اب دوبارہ نیلوفر بختیار پریس بریفنگ کی طرف چلتے ہیں۔ نیلو فر بختیار خاصے انتظار کے بعد سیاست کے میدان میں واپسی کرچکی ہیں۔
وزیر اعظم شوکت عزیر کے دور میں بحیثیت وزیر سیاحت۔ وزیر وویمن خدمات سرانجام دے چکی ہیں۔ پھر سینٹر۔سے لے کر سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے اطلاعات ونشریات سمیت دیگر اہم کمیٹیوں کی سربراہی بھی کرچکی ہیں۔ مطلب ایک سنئیر پارلیمٹرین کی حیثیت میں پاکستان کی سیاست میں اپنا لوہا منواچکی ہیں لیکن یہ سلسلہ ابھی رکا نہیں ہے۔ پاکستان کی سیاست میں پیچھے چلیں تو محترمہ نیلو فر بختیار نوے کی دہائی میں نوازلیگی لیڈر نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے سیاست کے میدان میں ایک کارکن کی حیثیت میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔پھر 1992-1993 اور 1997 کے انتخابات میں خواتین کی نمائندگی کرتے ہوئے۔اپنی قیادت کی صلاحیتوں کی بدولت مسلم لیگ کی انتخابی مہم چلائی۔قیادت کو ان کی سیاست کا انداز پسند آیا تو موصوفہ کو مسلم لیگ نواز کی وویمن ونگ کی صدارت جیسی اہم ذمہ داری دی گئی۔بعدازاں وہ مسلم لیگ نواز کی ورکنگ کمیٹی کی رکن بن گئیں مطلب چل سو چل۔ مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے۔ تحریک نجات کے دوران جیل کی ہوابھی کھائی۔ پھر یوں ہوا کہ سیاست کے رنگ میں رنگی رنگتی چلی گئیں۔ سیاست کا آغاز پنڈی جیسے سیاست کے گڑھ اور طاقت کے مرکز سے کونسلر کے الیکشن سے کیا اور پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ پاکستان کی سیاست جہاں بچوں کا کھیل نہیں۔ وہاں خواتین کیلئے تو ایک اور بڑے چیلنج کی حیثت رکھتا ہے۔ ان درپیش چیلنجوں کے باوجود خواتین نے ہر دور میں اپنے اپنے انداز میں سیاست کے میدان میں سامنا کیا۔ فاطمہ جناح۔
محترمہ بے نظیر بھٹو جیسی اعلی پائے کی شخصیات سے لے کر ایک بڑی تعداد خواتین کی ہے جوکہ پاکستان کی سیاست کی اپنا اپنا کردار ادا کرتی چلی آرہی ہیں اور یہاں نیلوفر بختیار کا کردار بھی سیاسی جدوجہد کی بنیاد پر نمایاں نظر آتا ہے۔ نیلو فر بخیتار کی حالیہ پریس بریفینگ سارے صحافیوں منتظر تھے جن رپورٹرز کو دعوت نامہ بھیجا گیا تھا۔ معروف صحافی فوزیہ کلثوم رانا سرفہرست تھیں۔ سارے صحافیوں کے پہنچنے کی بنیادی وجہ نیلوفربختیار تھیں اور اکثریت رپورٹر ایسے تھے جوکہ ان کو بحیثیت وزیر کام کرتا دیکھ چکے تھے اور انکی سیاسی اور حکومتی سرگرمیوں کو کور کرچکے تھے۔ پھر وہ میڈیا کو ہمیشہ ساتھ لے کر چلتی ہیں اور حکومت کے ایجنڈے کو بحیثیت وزیر عوام تک پہنچانے میں میڈیا کے کردار کو بخوبی سمجھتی ہیں۔ یوں پریس بریفنگ میں بہت سارے صحافی دوستوں سے ملاقات بھی ہوئی۔ نیلوفر بخیتار جیسے ہی تقریب میں پہنچی۔ فرداً فرداً سب کے پاس گئیں۔ ان کا حال احوال پوچھا۔ نیشنل کمیشن آن دی اسٹیٹس آف وویمن کی سربراہ بننے پر مبارکباد بھی وصول کی۔
یاد رہے کہ یہ اس حکومت مطلب تبدیلی سرکار میں یہ رواج نہیں ہے کہ صحافیوں کیساتھ یوں بیٹھ کر بات کی جائے۔ حکومت کا مؤقف ایک معتبر انداز میں پیش کیا جائے۔ سب جلدی میں ہیں۔ شیخ رشید جیسے سیاستدان بھی جوکہ سیاست کی کہانیوں کو پنڈی اور آبپارہ تک سمجھتے ہیں۔ وہ بھی پریس کانفرنسوں میں سوال وجواب کے سیشن میں کہتے ہیں۔ میرے پاس دس منٹ ہیں۔ جلدی کریں۔ جو سوال کرنے ہیں کرلیں۔اب اگر شیخ رشید احمد کا یہ انداز اور رویہ صحافیوں کیساتھ ہوگا تو باقی وزیر پلس مشیر صحافیوں کو بات کرنیکا کتنا وقت دیتے ہونگے۔ اس کا اندازہ لگانا۔ آپ کیلئے مشکل نہیں ہے۔ نیشنل کمیشن آن دی وویمن فار ویمن کی سربراہ اب نیلو فر بختیار کی آمد کیساتھ ہی تقریب کا ماحول یکسر حکومتی وزیروں کی تقریبات سے مختلف تھا جوکہ صحافیوں کیلئے حیرت اور خوشی کا سبب تھا۔ بعدازاں نیلو فر بختیار نے اپنے خطاب میں نیشنل کمیشن آن دی اسٹیس آف وویمن کے اعراض و مقاصد کے بارے تفیصل سے میڈیا کو بریفنگ دی۔ اس بات سے بھی آگاہ کہ خواتین کیلئے وہ کن عزائم کیساتھ میدان میں آئی ہیں۔ اپنی بریفنگ کے بعد نیلو فر بختیار نے میڈیا کو دعوت دی کہ آپ بات کریں۔ تجاویز دیں۔جہاں تنقید بنتی ہے۔وہ کریں۔ یوں صحافی دوستوں نے بڑے کھلے ڈلے انداز میں خواتین کو درپیش ایشوز پر بات کی۔نظام کی خرابی سے لے کھوکھلے نعروں پر بھی اظہار کیا۔ نیلو فر بختیار نے سب کی بات توجہ سے سنی۔ ساتھ ساتھ۔جہاں ضرورت تھی سوالوں کے جواب بھی دئیے، یوں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ پہلی پریس بریفینگ تھی۔جہاں صحافی کو سوال کا پورا موقع دیا جاریا تھا اور اس کے اٹھائے گئے نقطے پر جواب بھی مل رہا تھا۔ پھر عرض کی کہ میڈم سارے ایشوز کا احاط کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن ایک اہم ایشو ابھی تک ڈسکس نہیں ہوا تو انہوں نے جوابا کہا کہ وہ آپ سے توقع کررہے ہیں کہ آپ سامنے لائیں گے۔یوں میں عرض کیا کہ جب تک خواتین پر تعلیم کے دروازے نہیں کھولے جائینگے۔ بات آگے نہیں بڑھے گی۔یہ لپا پوتی ہوگی۔خواتین کو بااختیار بنانے کیلئے ان کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا ہوگا۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ میرا تعلق جس علاقہ سے۔ اس کا نام تھل ہے اور یہ پسماندگی کی آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔ جی تھل 19 قومی اسمبلی اور 37 صوبائی اسمبلی کی نشتوں کیساتھ ملتان۔بہاولپور سے بڑی سیاسی اکائی ہے۔لیکن اس تھل کا حال یہ ہے کہ یہاں ایک بھی وویمن یونیورسٹی نہیں ہے۔ایک بھی نرسنگ کالج نہیں ہے۔ایک بھی انجئیرنگ کالج نہیں ہے۔ ایک بھی میڈیکل کالج نہیں ہے۔ایک پنجاب یونیورسٹی جیسا ادارہ نہیں ہے۔ایک بھی ہائی کورٹ کا بنچ نہیں ہے۔ایک بھی موٹروے چھوڑیں۔ایکسپریس ہائی وے نہیں ہے۔ ایک زرعی یونیورسٹی نہیں ہے۔ایک ڈویثرنل ہیڈ کوارٹر نہیں ہے مطلب ککھ بھی نہیں ہے؟ جب گھر کے قریب اعلی تعلیمی ادارے نہیں ہیں تو آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ اس کا سب سے زیادہ اثر خواتین کی تعلیم پر پڑتا ہے۔والدین ان کو لاہور۔پنڈی۔فیصل آباد سمیت دیگر بڑے شہروں میں تعلیمی اخراجات سمیت دیگر وجوہات کی وجہ سے نہیں بھیجتے ہیں۔یوں ان کیلئے تعلیم ایک خواب رہ جاتا ہے۔اور پھر ایسے ایشوز کا ان کو جگہ جگہ سامنا کرنا پڑتا ہے۔جن کا ذکر یہاں ہورہا ہے۔ میڈیم چیرپرسن۔آپ سے گزارش اتنی ہے کہ آپ اس صورتحال کیلئے ایک طرف اپنے ادارے کی طرف سے تھل کی خواتین کیلئے اقدامات کریں تو دوسری طرف وزیراعظم عمران خان سے بات کریں کہ تھل کو تعلیمی ادارے دئیے بغیر خواتین کو درپیش چیلنجز سے مقابلہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔
(کالم نگاراسلام آباد کے صحافی اورتجزیہ کار ہیں)
٭……٭……٭

موسمیاتی تبدیلی : عالمی شخصیات سرجوڑ کر بیٹھ گئیں

عالمی درجہ حرارت میں اضافے اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے دنیا شدید موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہے ، ان ہی تبدیلیوں کے شدید خطرات کے پیش نظر عالمی شخصیات سرجوڑ کر بیٹھ گئیں۔ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے عالمی سطح کی سربراہی کانفرنس گلاسکو میں آج سے شروع ہوگی، کانفرنس کوپ 26میں 120 ممالک کے وزرائےاعظم اور سربراہان مملکت شریک ہونگے۔ موسمیاتی تبدیلی میں پاکستان کا قائدانہ کردار ہے، ملک ترقی یافتہ ممالک کی اگلی صف میں آگیا۔ کانفرنس میں شرکت کیلئے وزیراعظم کے معاون خصوصی ملک امین اسلم کی سربراہی میں پاکستانی وفد گلاسکو پہنچ گیا۔وفاقی وزیر موسمیاتی تبدیلی ملک امین اسلم دنیا بھر کو حکومتی اقدامات سے آگاہ کرینگے، پاکستانی وفد10بلین ٹری،متبادل توانائی، الیکٹریک وہیکل پالیسی منصوبوں پربات کرے گا۔ وزیرموسمیاتی تبدیلی کوئلہ جلانے پر پابندی کے مثبت اثرات سےبھی آگاہ کریں گے، وزیراعظم کو سربراہی کانفرنس میں کلیدی خطاب کیلئےخصوصی مدعو کیا گیا تھا۔ وزیراعظم عمران خان نے ملکی حالات کے پیش کانفرنس میں شرکت سےمعذرت کی تھی۔ اس حوالے سے سائنسدانوں نے بریفنگ میں بتایا ہے کہ راستہ نہ بدلا گیا تو کرہ ارض کو بدترین نتائج بھگتنے پڑسکتے ہیں، گلاسگو میں موسمیاتی تبدیلی پرعالمی سربراہی کانفرنس یکم سے12نومبرتک جاری رہے گی۔

آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے ہوگئے ہیں، معاہدہ اسی ہفتے ہوجائے گا، مشیر خزانہ

وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ شوکت ترین کا کہنا ہے کہ حکومت کے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ 6 ارب ڈالر کے توسیعی فنڈ کی بحالی کے معاملات طے ہوگئے ہیں اور معاہدہ اسی ہفتے ہوجائے گا۔

پاکستان سنگل ونڈو لانچنگ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ اسٹیٹ بینک سے متعلق قانون کے لیے آئینی ترامیم کی ضرورت ہے جس کے لیے ہمارے پاس حکومت میں دو تہائی اکثریت نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’مذاکرات میں آئی ایم ایف کو ہم نے یہی بات سمجھانے کی کوشش کی ہے‘۔

واضح رہے کہ پاکستانی حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان ڈیڈ لاک اس وقت ٹوٹ گیا جب دونوں فریقین نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کو خود مختاری دینے کے معاملے پر اپنے اپنے موقف میں کچھ لچک دکھانے کا فیصلہ کیا۔

ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ آئی ایم ایف اسلام آباد کی جانب سے اسٹیٹ بینک کو خود مختاری دینے کے اپنے وعدے سے پیچھے ہٹنے سے خوش نہیں تھا جس کی وجہ سے واشنگٹن میں قائم قرض دینے والی ایجنسی آئی ایم ایف نے 6 ارب ڈالر کے قرض کی سہولت کی بحالی کو روک دیا تھا۔

مارچ 2021 میں پاکستان نے اسٹیٹ بینک کو خود مختاری دینے کے حوالے سے فنڈ کے ساتھ معاہدہ کیا تھا جس کی آئی ایم ایف بورڈ نے بھی منظوری دی تھی۔

شوکت ترین کی سربراہی میں پاکستان کی اقتصادی ٹیم نے فنڈ حکام کے ساتھ بات چیت کے کئی دور کیے ہیں تاکہ انہیں پارلیمنٹ کے ایوان زیریں اور ایوان بالا میں حکمران پاکستان تحریک انصاف کی عددی طاقت سے آگاہ کیا جا سکے جہاں اسٹیٹ بینک کو خود مختاری دینے کے لیے آئین میں ترمیم ہونی ہے۔

9 مارچ کو وفاقی کابینہ نے ایک بل کی منظوری دی جس کا مقصد مرکزی بینک کو قیمتوں پر قابو پانے اور مہنگائی سے لڑنے کے لیے خود مختاری فراہم کرنا تھا۔

اس فیصلے کے فوراً بعد دو اہم اپوزیشن جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی نے اعلان کیا کہ وہ پارلیمنٹ میں بل کی منظوری کو روک دیں گے۔

نیشنل بینک پر سائبر حملے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ایف بی آر اور نیشنل بینک کے بعد مزید سائبر حملوں کا خدشہ ہے، دشمن ملک ہمارے پڑوس میں بیٹھا ہے‘۔

انہوں نے بتایا کہ ’سرکاری ملازمین کی تنخواہیں لیٹ نہیں ہوں گی، صورت حال پر قابو پا لیا گیا ہے‘۔

ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت مہنگائی پر قابو پانے کے لیے ٹارگٹڈ سبسڈی دے رہے ہیں‘۔

مہنگائی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’مہنگائی ایک عالمی مسئلہ ہے اور عالمی قیمتیں میرے کنٹرول میں نہیں ہیں‘۔

پنجاب میں ڈینگی کی تشویشناک صورتحال ، 3 بڑے اسپتالوں میں مریضوں کے لیے جگہ ختم

لاہور : پنجاب میں ڈینگی کے مریضوں میں اضافے کے بعد لاہور کے 3 بڑے اسپتالوں میں بیڈز ملنا بند ہوگئے ، سرکاری اسپتالوں میں ایک بیڈ پر 3،3مریضوں کا علاج جاری ہے۔

تفصیلات کے مطابق پنجاب میں ڈینگی تشویشناک صورتحال اختیار کرگیا ، لاہور کے تین بڑے اسپتالوں جناح ، سروسز اور جنرل اسپتال میں تمام بیڈ بھر گئے

سرکاری اسپتالوں میں ایک بیڈ پر 3،3مریضوں کا علاج جاری ہے جکہ سروسز اسپتال کی ایمرجنسی اور وارڈز میں مریضوں کے لیے جگہ ختم ہوگئی ہے۔

چوبیس گھنٹے کے دوران پنجاب میں ڈینگی کے مزید تین مریض انتقال کرگئے اور 445نئے کیسز رپورٹ ہوئے، لاہور سے 345، راولپنڈی سے 33 ، گوجرانوالہ سے 16 ، شیخوپورہ اور فیصل آباد سے8، 8 کیسز سامنے آئے۔

سیکریٹری صحت عمران سکندربلوچ کا کہنا ہے کہ پنجاب کے اسپتالوں میں ڈینگی کے 2444مریض زیرعلاج ہیں ، جن میں سے لاہور کے اسپتالوں میں ڈینگی کے 1590مریض داخل ہیں۔

محکمہ صحت پنجاب کے مطابق ت رواں سال پنجاب میں ڈینگی کے باعث 48 افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔

دوسری جانب اسپتالوں میں ڈینگی کے مریضوں کےلیےسہولتوں کی کمی پرتحریک التوا جمع کرادی گئی ہے ، پنجاب اسمبلی میں تحریک التوان لیگ کی ربعیہ نصرت نے جمع کرائی۔

جس میں کہا گیا ہے کہ سروسز اسپتال میں ڈینگی کے مریضوں کےلیےمختص بیڈز ختم ہوگئےہیں ، ڈینگی بخار میں مبتلا مریضوں کی قطاریں لگ گئی ہیں۔

معاہدے میں خیانت ہوئی تو بڑی طاقت سے میدان میں آئیں گے، مفتی منیب الرحمٰن

مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے سابق چیئرمین مفتی منیب الرحمٰن کا کہنا ہے کہ ہم نے مذاکرات کسی خوف میں نہیں بلکہ جرت مندی سے کیے اور اگر معاہدے میں کوئی خیانت ہوئی تو بڑی طاقت سے میدان میں آئیں گے۔

وزیر آباد میں کالعدم جماعت ٹی ایل پی کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے مفتی منیب الرحمٰن نے کہا کہ لبرل بہت پریشان ہیں کہ جو خواب انہوں نے دیکھا تھا اس کی تعبیر نہیں ملی، جنہوں نے کہا کہ رِٹ قائم کرنی چاہیے تو میں نے کہا یہ معاملہ حکمت سے طے کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے جو مذاکرات کیے کسی خوف میں نہیں بلکہ جرأت مندی سے کیے، معاہدہ خود لکھا ہے اور مجھے یقین ہے یہ معاہدہ پایہ تکمیل تک پہنچے گا، ہم یہ معاہدہ کرکے چین کی نیند نہیں سوئیں گے اور اس کی چوکیداری کریں گے، یہ وہ معاہدہ نہیں ہوگا جس پر دن میں دستخط کیے اور رات کو ٹی وی پر جاکر کہا کہ اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔

سابق چیئرمین رویت ہلال کمیٹی نے کہا کہ یہ سفر کا آغاز ہے اختتام نہیں ہے، چند دن میں کالعدم کا نام تحریک لبیک سے ختم کر دیا جائے گا اور یہ ایک مضبوط سیاسی جماعت کے طور پر سامنے آئے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ کوئی ہمیں حب الوطنی نہ سکھائے، ہم سے بڑا محب وطن کوئی نہیں اور جو کہتے تھے کہ علما نے پاکستان کی مخالفت کی اصل میں ان کے آباؤ اجداد نے جائیدادیں لی تھیں اور جو کہتے ہیں اکاؤنٹ، بھارت سے چل رہے تھے ان کو اپنے بیان پر پشیمان ہونا چاہیے۔

مفتی منیب الرحمٰن نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن اور سراج الحق سمیت اپوزیشن کا ساتھ دینے پر شکریہ ادا کرتا ہوں اور ان سب کو سلام کرتا ہوں جنہوں نے حکومت کو طاقت سے استعمال سے روکے رکھا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاک فوج سے بڑا محب وطن ادارہ کوئی نہیں، ہمیں ہر حال میں اللہ کے دین اور پاکستان کا دفاع کرنا ہے، ہم پولیس اور افواج پاکستان کے شہدا کو سلام پیش کرتے ہیں۔

پی ٹی آئی کی طرح ٹی ایل پی کے دھرنوں سے سیاسی فائدہ نہیں اٹھایا: شہباز شریف

مسلم لیگ ن کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کا کہنا ہے کہ ٹی ایل پی کے دھرنوں میں پی ٹی آئی کی قیادت شرکت کرتی تھی لیکن ہم نے اس صورت حال سے سیاسی فائدہ نہیں اٹھایا۔

ڈی جی خان میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے شہباز شریف کا کہنا تھا کہ 2013 سے 2018 تک نواز شریف کی قیادت میں جنوبی پنجاب کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی، جنوبی پنجاب کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ن لیگ کے دور میں بہت کام کیے گئے، ہمارے دور میں جنوبی پنجاب کے لیے ملازمتوں میں 33 فیصد کوٹا تھا۔

شہباز شریف کا کہنا تھا اپنے دور میں عوام کی فلاح و بہبود کے لیے انقلابی اقدامات کیے، اسپتال اور دانش اسکول بنائے اور پینے کے صاف پانی کا انتظام کیا، اطمینان ہے کہ ہم نے جنوبی پنجاب میں لوگوں کی خدمت کی۔

ایک سوال کے جواب میں شہباز شریف کا کہنا تھا کہ مفاہمت کا بادشاہ ہوتا تو بار بار جیل نہ جاتا۔

پیپلز پارٹی کی پی ڈی ایم میں شمولیت سے متعلق سوال پر صدر ن لیگ کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کو اتحاد میں دوبارہ شامل کرنے کا فیصلہ پی ڈی ایم ہی کر سکتی ہے، لیکن سیاست میں ایک دائرے میں رہ کرہر چیز ممکن ہے۔

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ حکومت نے اپوزیشن کو دیوار سے لگانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن آنے والے دنوں میں حکومت کو کوئی اسپیس نہیں دیں گے۔

ان کا کہنا تھا حکومت سمجھ رہی ہے کہ آنے والا وقت اس کے لیے خطرناک ہے، پی ٹی آئی اپنے آپ کو این آر او دینے کے لیے نیب آرڈیننس لائی ہے، عمران خان کہتے تھے کہ مر جاؤں گا کہ مگر این آر او نہیں دوں گا لیکن عمران خان نے خود کو اور کابینہ کو این آر او دے دیا ہے۔