پاک بھارت میچ کے دوران بابر کی والدہ وینٹی لیٹر پر تھیں: والد اعظم صدیق کا حیران کن انکشاف

تینوں میچز بابر نے بڑی پریشانی کے عالم میں کھیلے، میرا دبئی آنا بنتا تو نہیں تھا لیکن اس لئے آیا کہ بابر کہیں کمزور نہ پڑ جائے،
تفصیلات کے مطابق قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان ہیرو بابر اعظم کے والد نے انسٹا گرام پر ایک پوسٹ میں قوم کو اس تلخ حقیقت کے بارے آگاہ کیا جس سے کوئی بھی ان کر حیران رہ جائے ان کا کہنا تھا کہ کچھ سچ اب میری قوم کو پتہ ھونا چاھیے آپ سب کو مبارک تینوں جیت پر ھمارے گھر پے   بڑا امتحان تھا جس دن انڈیا سے میچ تھااُس دن بابر کی والدہ ونٹیلیڑرپے تھی اُن کا آپریشن ھواتھا بابر شدید پریشانی میں یہ تینوں میچ کھیلا میرا یہاں آنا نہیں بنتا تھا پر میں آیا کہ بابر کہیں کمزور نہ پڑ ھ جاے کرم ھےپروردگا ر کا اب وہ ٹھیک ھیں بات شعر کرنے کا مقصد خدارا اپنے قومی ھیروز کو بلا وجہ تنقید کا نشانہ نا بنایا کریں اور ھاں مجھے پتہ ھے مرے    بھی دینے پڑ تے ھیں پاکساتن زندہ بادبخیر جنت نہیں

وزیراعظم نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی تجویز مسترد کردی

اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی تجویز مسترد کردی۔

وزیراعظم آفس کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہےکہ وزیراعظم نے عوامی ریلیف کے لیے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی تجویز مسترد کی ہے۔

اعلامیے کے مطابق اوگرا نے پیٹرولیم کی بڑھتی عالمی قیمتوں کے باعث قیمتیں بڑھانےکی تجویزدی تھی لیکن  وزیراعظم نے تجویزکردہ اضافہ مسترد کرکے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں برقرار رکھنے کا حکم دیا۔

اعلامیے میں مزید کہا گیا ہےکہ حکومت عالمی سطح پربڑھتی مہنگائی کا بوجھ منتقل کرنےکی بجائے عوامی ریلیف کو ترجیح دےرہی ہے لہٰذا اوگراکے تجویز کردہ حالیہ اضافےکی مد میں عوام پربوجھ کو حکومت خودبرداشت کررہی ہے۔

اطاعت رسولؐ ہماری ذمہ داری

حیات عبداللہ
عقیدتوں کے حقیقی تقاضوں سے گریز پائی، مَحبّتوں کے اصل حُسن سے رُوگردانی اور چاہتوں کے سندر جذبوں سے کروٹیں بدل کر اپنے خود ساختہ تقاضوں پر مُصر ہو جانا اور اسے ہی دنیا و آخرت میں کامیابی سمجھ لینے کی رُتیں معلوم نہیں کہاں سے آ نکلی ہیں؟ جب ہم نے اپنی ساری مَحبّتیں محمد عربیؐ کے قدموں میں ڈھیر کر دی ہیں تو پھر ان بے کراں چاہتوں کے اظہار کے اسلوب، ان بے پایاں عقیدتوں کے اقرار کے تمام اطوار بھی اسی ذات ذی قدر سے سیکھنے چاہییں کہ آخر کس طرح حضرت محمدؐ نے صحابہ کرامؓ کو مَحبّت کرنے اور نبھانے کی راہیں بتلائیں، لاریب ہم تو ان عقیدتوں کا عُشرِ عشیر بھی اپنے دلوں میں نہیں رکھتے کہ جس قدر صحابہ ء کرامؓ کے دلوں میں مَحبّتِ رسولؐ کے شگوفے مہکتے تھے، مگر ہم ٹھہرے خواہشوں کے اسیر، سو ہماری مَحبّتوں کی منطقیں بھی عجیب سانچوں میں ڈھلی ہیں کہ ہر شخص ہی نبیؐ کے ساتھ مَحبّتوں کے خود ساختہ طریقوں اور تقاضوں کو پروان چڑھائے جا رہا ہے، اس حقیقت میں کوئی دو رائے ہرگز نہیں ہیں کہ اگر دل، نبیؐ کی مَحبّت سے تہی ہوں گے تو پھر ایسے خانہ ء خراب میں ایمان داخل ہو ہی نہیں سکتا۔
اہلِ دل کے دلوں کی ہیں تسکین آپؐ
اہلِ ایماں کا سارا جہاں آپؐ ہیں
نبیؐ کے ساتھ مَحبّت کا اصل قرینہ یہ ہے کہ اس مقدّس و مطہّر شخصیت سے اپنی جانوں سے بھی بڑھ کر مَحبّت کی جائے اور دیگر تمام مَحبّتوں کو بھی نبیؐ کی مَحبّت کے تابع کر دیا جائے کہ یہی تو مومن کی شان اور پہچان ہے۔واللہ! اگر نبیؐ کی مَحبّت کو ہم اپنے جسم و جاں سے جدا کرنے کا تصوّر بھی کر لیں تو ہمارے پاس باقی کچھ بھی تو نہیں بچتا۔
اللہ رب العزت نے سورۃ الاحزاب میں ارشاد فرمایا ہے کہ ”مومنوں کے لیے نبی کریمؐ ان کی جانوں سے بھی زیادہ مقدّم ہیں۔“ بخاری و مسلم میں حدیث ہے کہ ”تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنی اولاد، اپنے والدین اور باقی تمام لوگوں سے زیادہ مجھ سے مَحبّت نہ کرتا ہو۔“
مَیں اکثر کہا کرتا ہوں کہ عقیدتیں اندھی نہیں ہُوا کرتیں، مَحبّتیں تیرگیاں نہیں پھیلایا کرتیں، یہ تو روشنی اور نور کے ہالے فروزاں کر دیتی ہیں، ایسے اجالے چہارسُو بکھیر دیتی ہیں کہ جس سے دل کی مراد پانے اور کوچہ ء جاناں تک پہنچنے کے تمام راستے واضح دِکھائی دینے لگتے ہیں اور اگر راست راہیں اور مستقیم منزلیں دِکھائی نہ دیں تو ایک لمحے کے لیے توقف کر کے اپنی مَحبّتوں کے انداز اور اسلوب پر نظرِ ثانی ضرور کر لیجیے کہ کہیں ان میں کمی، کجی اور سقم تو نہیں رہ گیا ہے۔اللہ اور اس کے رسولؐ نے اطاعت ہی کو مَحبّت کی علامت اور دلیل کہا ہے۔سورہ آل عمران آیت نمبر 31 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ”کہہ دیجیے! اگر تم اللہ سے مَحبّت رکھتے ہو تو میری اطاعت کرو، خود اللہ تم سے مَحبّت کرے گا اور تمھارے گناہ معاف فرما دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے، کہہ دیجیے کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرو اور اگر یہ منہ پھیر لیں تو بے شک اللہ کافروں کو دوست نہیں رکھتا۔“ آیئے! چند ثانیوں کے لیے ہی غور کر لیں کہ اطاعتِ رسولؐ سے روگردانی کرنے والوں کو اللہ نے کافروں کی فہرست میں شامل کیا ہے، اس لیے کہ تمام انبیائے کرام کی بعثت کا مقصد ہی ان کی اطاعت تھا اور اس لیے بھی کہ اطاعت ہی مَحبّت کی دلیل ہُوا کرتی ہے۔سورۃ النساء آیت 64 میں اللہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ”ہم نے ہر رسول کو صرف اس لیے بھیجا کہ اللہ کے حکم سے ان کی پیروی کی جائے۔“ اطاعتِ رسولؐ ہی مَحبّتِ رسولؐ کا واضح اور پُرنور ثبوت ہوتی ہے اور یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔سورۃ الاحزاب آیت نمبر 71 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ ”جو اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرے گا اس نے بڑی مراد پا لی۔“ نبیِ مکرمؐ نے اپنی اطاعت کی اس قدر تلقین فرمائی ہے کہ امّتِ مسلمہ کو اپنی خواہشات تک شریعت کے تابع کرنے کا حکم دیا ہے۔نبیؐ نے ارشاد فرمایا کہ ”تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک اپنی تمام خواہشات کو میری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ کر دے۔“ دنیا میں ہر شخص کی بات کو رد کیا جا سکتا ہے مگر محمد عربیؐ کی بات کو چھوڑنے کا تصوّر بھی نہیں کیا جا سکتا۔
اور باتیں فضول باتیں ہیں
آپؐ کی بات ہی خزینہ ہے
جو شخص جس قدر اطاعت رسولؐ کی گہرائی میں جائے گا اسی قدر اس کی مَحبّت مسلّمہ اور مصدّقہ ہوتی چلی جائے گی۔لوگوں کی اکثریت اطاعت کے بغیر ہی محض رسوم و رواج کے ذریعے سے مَحبّتِ رسولؐ ثابت کرنے پر تلی ہوئی ہے۔حیرت اس وقت ہوتی ہے جب اطاعتِ رسولؐ کی بات کی جائے تو تمام جذبوں پر سکتہ کیوں طاری ہو جاتا ہے؟ پھر”اگر، مگر“کی قبیل سے تعلق رکھنے والے تمام الفاظ کیوں عود آتے ہیں؟ پھر”چوں کہ، چناں چہ“ سے ملحقہ اور ہم معانی تمام الفاظ زبانوں سے کیوں برآمد ہونے لگتے ہیں؟ ہم اپنے مَن چاہے قواعد اور رسوم پر عمل کرتے ہوئے بھی اعتدال کی تمام حدود و قیود سے گزر جاتے ہیں مگر اطاعتِ رسولؐ کو محض سرسری اور جزوی سی اَہمّیت دے کر کہیں اور نکل جاتے ہیں، کہِیں بہت دُور، بہت ہی پرے، چلو اسی کسوٹی پر آپ اپنے اردگرد پھیلے مَحبّت مآب رشتوں ہی کو پرکھ لیں یقیناً آپ کے ساتھ بھی مَحبّت کے درجنوں لوگ دعوے دار ہوں گے، کئی لوگ تو ایسے بھی ہوں گے جو آپ پر اپنی جان قربان کر دینے کی قسمیں بھی اٹھاتے ہوں گے اگر عین وہی جان وار دینے کے دعوے دار آپ کا کہنا نہ مانیں تو کیا آپ ان کی مَحبّت پر یقین کرنے کے لیے تیار ہو جائیں گے؟ یقینا آپ ایسا کبھی نہیں کریں گے۔ بالکل اسی پیمانے اور اسی ترازو کو ہم مَحبّتِ رسولؐ کے وقت کیوں فراموش کر بیٹھتے ہیں؟ سوچیے اور خوب سوچیے کہ کہیں ہماری نڈھال بصیرت نے ہماری مَحبّتوں کو لاغر تو نہیں کر ڈالا؟ کہیں ہمارے نحیف و ناتواں فہم اور تدبّر نے ہمیں مستقیم راہوں سے ہٹا تو نہیں دیا؟ وہی راست راہیں جن پر چلنے کا اللہ پاک اور اس کے رسولؐ نے ہمیں حکم دیا تھا۔
گر اطاعت نہ ہو حیاتؔ اُنؐ کی
ایسا جینا فضول جینا ہے
(کالم نگارقومی وسماجی امور پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭

اکبر نام لیتا ہے…………

انجینئر افتخار چودھری
مجھے وہ زمانہ یاد آ گیا جب میں لاہور کے کالج آف ٹیکنالوجی کی طلبہ یونین کا نائب صدر تھا اور اسی کالج میں اسلامی جمعیت طلبہ کا ناظم بھی تھا۔ یہ 1974 کے دن تھے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو ملک کے وزیر اعظم تھے ان دنوں کالجوں میں امریکہ کے خلاف نعرے بازی عام تھی۔ بھٹو صاحب امریکہ جا رہے تھے ادھر ہم نے اعلان کر دیا کہ کالج میں احتجاجی مظاہرہ ہو گا اور یہ بھی اعلان ہوا کہ امریکی پرچم کو آگ لگائی جائے گی۔
ہو سکتا ہے یہ کام ہو جاتا رات کو اللہ جنت بخشے سلمان بٹ کالج ہوسٹل میں آئے کمرہ نمبر سات میں ملاقات ہوئی انہوں نے ہمیں قائل کیا کہ آپ یہ کام نہ کریں اس وقت ذوالفقار علی بھٹو امریکہ ملک کے لئے جا رہے ہیں کوئی مالی مدد کامسئلہ ہے اور کچھ ایسے مسائل کو پاک بھارت امور سے جڑے ہوئے ہیں ایسے میں اگر آپ امریکہ کاپرچم جلائیں گے تو اس سے منفی نتائیج نکلیں گے لہٰذااحتجاج ختم کیا جائے۔ سو ہم نے ان کی یہ بات مان لی اور اگلے روز کا احتجاج ملتوی کر دیا کچھ لڑکوں نے ہمیں طعنے دئیے کہ آپ حکومت سے مل گئے ہیں لیکن ہم نے ان کی باتوں کو در خور اعتنا نہیں سمجھااور مظاہرہ ملتوی کر دیا۔قارئین ہمارے پاس طاقت تھی ہم الیکشن جیت چکے تھے طلبا میری ایک آواز پر لبیک کہتے تھے لیکن ہم نے تنظیم کا فیصلہ مانا اور احتجاج سے باز رہے۔
دوستو ابھی مفتی نعیم نوری کی کال تھی وہ مریدکے میں ہوتے ہیں میرے استاد محترم کے بیٹے ہیں اللہ انہیں خوش رکھے بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق ہے اوپر سے گجر بھی ہیں میں نے انہیں کہا تھا کہ اپنا رول پلے کریں اور تحریک لبیک کے بھائیوں سے درخواست کریں کہ تشدد کا راستہ نہ اپنائیں۔میں حیران ہوں ہمارے علما اور مشائخ ونگ میں بیٹھے لوگ اپنا کردار کیوں نہیں ادا کرتے ہمارے وزیر نورالحق قادری بڑے سمجھدار انسان ہیں انہیں اپنی ٹیم کے ساتھ ایسے لوگوں سے گفتگو کرنی چاہیے جن سے گفتگو کی جا سکتی ہے۔
تاجدار ختم نبوت زندہ باد کے نعرے تو ہم بھی لگاتے ہیں میں تو 1974 کی تحریک کا بنیادی کارکن ہوں کیا آپ کو معلوم ہے کہ یہ تحریک اسلامی جمعیت طلبہ کی یونین جو نشتر کالج ملتان کی تھی اس پر ربوہ کے ریلوے اسٹیشن پر تشدد کیا گیا ارباب عالم اس یونین کے صدر تھے اور ان کا تعلق اسلامی جمعیت طلبہ سے تھا۔اس وقت پورے پاکستان میں طلبہ یونینز میں اسلامی جمعیت طلبہ چھائی ہوئی تھی۔پھر جو کچھ ہوا وہ تحریک کا حصہ ہے جس کے نتیجے میں قادیانی غیر مسلمان قرار دئیے گئے۔ وہ تو ایک با مقصد تحریک تھی۔پھر مولانا خادم رضوی جب پہلے دھرنے کے لئے نکلے تو اس کے پیچھے بھی ایک آئینی ترمیم تھی جس کی وجہ سے وہ دھرنہ کامیاب ہوا۔اس سے پہلے بھی جب لبیک والے نکلے تو میں نے لاہور میں ہونے والے واقعات کی مخالفت کی۔اس وقت تو نبیؐ پاک کے خاکوں کی بات تھی لیکن اب کیا ہو گیا ہے۔آپ کا مطالبہ ہے کہ فرانس کے سفیر کو نکالیں جناب جو سفیر ہے ہی نہیں اسے کیسے نکالیں اورنکالنابھی نہیں چاہیے۔
میں انجمن طلبائے اسلام کے ظفر اقبال نوری نور محمد جرال نواز کھرل ساجد عبدالرزاق اور دوستوں سے اپیل کرتا ہوں کہ اس احتجاج کو روکیں۔تحریک انصاف کے لیڈران بھی اپنا کردار ادا کریں۔وہ لوگ جو علما مشائخ کانفرسوں میں شریک رہے ہیں انہیں کہا جائے کہ اس احتجاج کو ختم کرائیں۔پورے پاکستان کی پارٹی کی تنظیموں سے کہیں کہ بریلوی مکتبہ فکر کے علما سے ملاقاتیں کریں۔افسوس یہ ہے کہ عمران خان رحمتؐ العالمین کانفرنسیں کرے او آئی سی کے حکمرانوں کو جگائے اقوام متحدہ میں ریاست مدینہ کی باتیں کرے دشمنوں کی توپوں کے گولوں کا مقابلہ بھی کرے مزاروں پر حاضری دے اور ننگے پاؤں سرکارؐ دو عالم کے شہر میں جائے اور اس کے باوجود وہ طعنے بھی سنے وہ اکبر الٰہ بادی کا شعر ہے۔
رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں
کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں
(تحریک انصاف شمالی پنجاب کے سیکرٹری اطلاعات ہیں)
٭……٭……٭

مجھے انصاف نہیں ملا

خیر محمد بدھ
محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپنی وفات سے قبل ایک خط میں یہ شکایت کی تھی کہ انہیں اپنی قوم سے انصاف نہیں ملا۔ اس طرح گزشتہ روز الجزیرہ ٹی وی چینل پر صبح کی نشریات میں شیخوپورہ سے مظہر فاروق نامی شخص کا انٹرویو نشر ہواجس میں اس نے بتایا کہ وہ 21 سال موت کی کال کوٹھڑی میں بند رہا ہے۔ ہر روز آپ کچہری میں جائیں تو بچے، بوڑھے، جوان سب ہی یہ کہتے ہوئے ملیں گے کہ وہ سالہاسال سے مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں لیکن ابھی تک حصول انصاف میں انہیں کامیابی نہ ملی ہے۔ لیبرکوٹ این آئی آر سی میں جا کر دیکھیں مزدور شکایت کریں گے کہ وہ عرصہ دراز سے انصاف کے حصول کیلئے چکر لگا رہے ہیں۔ میرے اپنے ضلع میں ایک سرمایہ دار نے فیکٹری کو غیر قانونی طور پر بند کر دیاحالانکہ لیبر قانون کے مطابق فیکٹری کو مکمل بند کرنے کیلئے لیبر کورٹ کی اجازت درکار ہوتی ہے لیکن اس طاقتور شخص نے بلااجازت کارخانہ بند کرکے سینکڑوں مزدوروں کو بیروزگار کر دیا اور آج تین سال ہو گئے ہیں ابھی تک کوئی فیصلہ نہ ہوا ہے۔ آپ ریونیو کی عدالتوں میں جائیں زمین کے تنازع پر قبضہ اور تقسیم کے معاملے پر وراثت اور حد برداری کے مسئلے پر لاکھوں لوگ مارے مارے پھرتے ہیں۔گزشتہ دنوں مظفرگڑھ میں ریونیو عدالت میں ایک بزرگ نے رو کر کہا کہ وہ ریٹائرڈ سکول ٹیچر ہے کافی عرصے سے ناجائز قبضہ چھڑوانے کیلئے مقدمہ بازی کا سامنا کر رہا ہے لیکن اسے انصاف نہیں مل رہا، یہ کہہ کروہ عدالت میں گرگیا اور انتقال کر گیا۔ حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ جب ڈاکٹر عبدالقدیر جیسی بین الاقوامی شخصیات بھی انصاف نہ ملنے کا شکوہ کریں تو پھر نیچے کیا صورتحال ہوگی۔
انصاف نہ ملنے کا یہ مسئلہ صرف عدالتوں تک محدود نہیں ہے بلکہ ہمارے سماج میں سبھی شراکت دار کسی نہ کسی طرح سے انصاف کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ مریض یہ شکایت کرتے ہیں کہ ڈاکٹر سرکاری ہسپتال میں علاج کرنے کے بجائے اپنے ذاتی کلینک پر ریفرکرتے ہیں اور ادویات بھی بازار سے منگواتے ہیں۔ والدین شکوہ کرتے ہیں کہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں بہت زیادہ فیس لی جاتی ہے سہولیات کم ہیں جبکہ محکمہ تعلیم سے شکایت کی جائے تو پروا نہیں کرتے بلکہ ان لوگوں سے ملے ہوئے ہیں۔ہر جگہ شہری شکایت کرتے ہیں کہ پینے کا صاف پانی نہیں ملتا جو واٹر فلٹریشن پلانٹ لگے ہوئے ہیں وہاں فلٹر تبدیل نہیں ہوتے۔ پانی میں آسینک زیادہ ہوتا ہے۔ جب میونسپل اداروں سے بات کی جائے تو پرواہ نہیں کرتے۔ اس طرح نالی گلیوں کی صفائی اور سیوریج کیلئے جب شکایت کی جائے تو وہ کوئی داد رسی نہیں ہوتی۔
وہ ادارے جن کے پاس کروڑوں روپے کے فنڈز ہیں، وسائل ہیں، گاڑیاں ہیں، ایئرکنڈیشن دفاتر ہیں،ٹھاٹ بھاٹ سے رہتے ہیں انکے کام اور خدمات Service Delivery کی یہ حالت ہے کہ لوگوں کو انصاف نہیں ملتا۔ اگر ڈسٹرکٹ جوڈیشری میں، سول عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کو دیکھا جائے تو ہر ضلع میں ہزاروں کی تعداد میں سرکاری محکمہ جات ریو نیو، بلڈنگ، آبپاشی، لوکل کونسل وغیرہ کے خلاف مقدمات چل رہے ہیں۔ کیا یہ ان اداروں کی نااہلی نہیں ہے کہ جو کام انکا ہے وہ نہیں کرتے اور لوگوں کو عدالتوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اس طرح عدالتوں میں موجود درخواستوں میں اکثریت درخواستیں سرکاری محکمہ جات سے متعلق ہوتیں ہیں جن میں پولیس کا محکمہ سرفہرست ہے۔ جب لوگوں کو مقامی سطح پر انصاف نہیں ملتا تو پھر اعلیٰ عدالتوں میں اپنے حق کے حصول کیلئے آرٹیکل 199 کے تحت درخواست دیتے ہیں۔ جس سے عدالتوں پر بہت زیادہ بوجھ پڑتا ہے اور اخراجات بھی آتے ہیں۔
چند روز پہلے عدالت عالیہ میں ایک کام کے سلسلے میں جانا ہوا تو دوران سماعت ایک کیس میں یہ پتہ چلا کہ پولیس نے چالان پراسیکیوشن برانچ میں جمع کرادیا ہے اور ایک سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود یہ چالان متعلقہ عدالت میں نہ بھیجا گیا ہے۔ ہماری عادت بن چکی ہے کہ ہم اپنی غلطی کا الزام دوسروں پر لگاتے ہیں اور خود احتسابی کا نام ہی نہیں لیتے۔ یہاں سے اخلاقیات کا مسئلہ بن جاتا ہے۔ اخلاقی طور پر دیوالیہ شخص اپنی غلطی کا الزام دوسروں پر لگاتا ہے۔ ہمارے معاشرے سے انصاف ناپید ہوتا جا رہا ہے۔ گھر وں اور فیملی میں انصاف نہیں ہے۔ اولاد اپنے والدین کی نافرمانی پر تل گئی ہے۔یہاں تک کہ اطاعت والدین کا قانون بنانا نافذ ہوا ہے۔خاوند اپنی بیوی اور بچوں سے انصاف نہیں کرتے اس لیے فیملی کورٹس میں مقدمات کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔
زمیندار اپنے مزارع اور مستاجر سے انصاف نہیں کرتا، سرمایہ دار اپنے مزدور کو اس کا حق نہیں دیتا۔ ملاوٹ، کم تولنا، دو نمبری عام ہے۔ مصنوعی مہنگائی کر کے صارفین کا استحصال ہورہا ہے۔ سرکاری محکمہ جات،پولیس، ریونیو، لوکل گورنمنٹ میں سیاسی مداخلت کی وجہ سے نا انصافی ہے واپڈا، بجلی،سوئی گیس اپنے لائن لاسز صارفین پر ڈال کر ناانصافی کر رہے ہیں۔ سیاست دان عوام کے مسائل اور شکایت پر توجہ دینے کے بجائے ایک دوسرے پر گالم گلوچ کرنے میں مصروف ہیں۔ وہ اپنے ووٹرز سے ناانصافی کر رہے ہیں۔ووٹ لینے کے بعد انہیں بھول جاتے ہیں اور میرٹ،قانون اور سماجی انصاف کے بجائے اپنے ذاتی مفاد کو ترجیح دیتے ہیں۔ آج تک ممبران پارلیمنٹ نے رشوت، بدعنوانی اور ناانصافی پر سخت قانون نہ بنایا ہے حالانکہ ان کا کام ہی قانون سازی ہے۔ کہتے ہیں کہ جب گھر کا کوئی ایک آدمی غلط ہو تو گھر والے ا سے سمجھاتے ہیں لیکن جب سارے گھر والے ہی غلط ہوں تو پھر انہیں کون سمجھائے گا۔ اس وقت صورتحال بہت تشویشناک ہے، اخلاقی اقدار ختم ہوتی جارہی ہیں۔ جب کسی معاشرے سے اخلاقیات ختم ہو جائیں تو پھر انصاف کا حصول بہت مشکل ہو جاتا ہے اور ناانصافی سے زیادہ کوئی اور ظلم نہیں ہے۔ ہمیں اپنے اخلاقی نظام کو تبدیل کرنے کی سخت ضرورت ہے ور نہ نانصافی کا یہ سلسلہ بڑھتا جائے گا۔
(کالم نگار سیاسی وسماجی موضوعات پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭

مسٹر ایمبیسیڈر

سجادوریا
راجہ علی اعجاز پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے بہترین،تجربہ کار اور مستعد و متحرک افسر ہیں۔ انتہائی تعلیم یافتہ اور وسیع المطالعہ شخصیت ہیں، ان کا مدلل اور دھیمہ انداز گفتگو ان کی شخصیت کو اور بھی دلکش بناتا ہے۔وہ ایک خالص کییریئر ڈپلومیٹ ہیں۔راجہ علی اعجاز سعودی عرب کے دارالحکومت ’ریاض‘ میں پاکستان کے سفیر بھی رہے ہیں،انہوں نے جنوری ۲۰۱۹ء میں سفارتخانہ پاکستان کا بحیثیت سفیر چارج سنبھالا۔ سفارت کے میدان میں وسیع تجربہ رہا ہے،ریاض میں سفیر ِ پاکستان بننے سے پہلے وہ نیویارک میں پاکستان کے قونصل جنرل کے طور پر کام کر رہے تھے۔انہوں نے کئی سال مشکل محاذ یعنی کابل میں پاکستانی سفارتخانے میں بھی کام کیا،وزارت خارجہ میں ڈی جی یواین کے طور پر بھی کام کیا، لندن میں پاکستان ہائی کمیشن میں بھی خدمات سرانجام دیں،میکسیکو میں پاکستان ایمبیسی میں بھی کام کیا۔ اس وقت سعودی عرب میں سفارتی میدان میں کھیلنے والے کپتان اور ٹیم دونوں نئے ہیں،ظاہر ہے ان کو مسائل،کمیونٹی اور سعودی قوانین کو سمجھنے میں وقت لگے گا،نچلی سطح پر بھی مقامی معاونین کو بدلا گیا ہے،جو کہ وقت کی مناسبت سے ٹھیک فیصلہ نہیں ہے،میری نظر میں وزارتِ خارجہ اور حکومت پاکستان کو سوچنا چاہئے اور سفیر پاکستان جنرل بلال اکبر صاحب کے ساتھ تجربہ کار ٹیم کو بھیجا جائے جو سفارتکاری میں تجربہ کار ہو۔
جیساکہ ہم جانتے ہیں سعودی عرب برادر ملک ہے،پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد یہاں کام کرتی ہے،ہزاروں فیمیلیز یہاں قیام پذیر ہیں،تین ملین کے قریب پاکستانی یہاں رہتے ہیں،پاکستان ایمبیسی اسکولز کا نیٹ ورک بھی کام کررہا ہے،ریاض میں سفارتخانہ ہے،جدہ میں قونصلیٹ ہے،لیکن کئی دور دراز کے علاقوں میں مستقل قونصل خانے نہیں ہیں بلکہ ایمبیسی کے اہلکار ہفتہ میں ایک بار عارضی عمارتوں میں آتے ہیں،کمیونٹی کے مسائل کو حل کرتے ہیں۔ایسٹرن ریجن میں کوئی مستقل عمارت نہیں ہے،الخبر کے تمیمی کمپاوٗنڈ میں عارضی بندوبست کیا گیا ہے،جہاں سفارتی خدمات فراہم کی جاتی ہیں۔وزیر اعظم پاکستان عمران خان کو اوور سیز پاکستانیوں کا احساس ہے،لیکن سعودی عرب میں موجود پاکستانی اس احساس کو اپنے لئے بالکل بھی محسوس نہیں کر رہے۔سعودی قوانین کے مطابق اقاموں کی تجدید ایک بڑا مہنگا کام بن چکا ہے،جس کی وجہ سے ہزاروں مزدور اقامے تجدید نہیں کرواتے اور غیر قانونی طور پر رہ رہے ہیں،جب پکڑے جاتے ہیں تو سفارتخانے پر بوجھ بن جاتا ہے کہ جلدی ان کو پاکستان بھیجا جائے۔مجھے تسلیم ہے کہ سفارتخانے میں نچلی سطح پر سب ٹھیک نہیں ہے،سفارتی اہلکار،سُستی اورٹرخاؤ پالیسی کا سہارا لیتے ہیں،جو کام جلدی ہو سکتا ہے،اس کو لٹکاتے ہیں۔
سعودی عرب میں پاکستانی کمیونٹی،سیاسی بنیادوں پر تقسیم ہے،سیاسی جماعتیں ان کے ورکرز،روایتی اختلافات کا شکار ہیں،سیاسی گروہ،سیاسی بنیادوں پر سفارتخانے پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔اگر ایک گروہ پیچھے رہ گیا تو سوشل میڈیا پر اس کا اظہار نظر آنا شروع ہو جاتا ہے۔سوشل میڈیا آج کے زمانے میں ایک بڑی طاقت ہے،میں حیران ہوتا ہوں کہ تحریک انصاف کی حکومت نے سوشل میڈیا پر چلنے والی افواہوں کی بنیاد پر سابق سفیر راجہ علی اعجاز کو واپس بلایا،انکے خلاف انکوائری کمیٹی قائم کی گئی۔کیا نکلا؟ کوئی ثبوت ملا؟
میں سمجھتا ہوں کہ سفیروں کے تبادلے ہوتے رہتے ہیں،افسران کی پوزیشنز بدلتی رہتی ہیں۔جس ڈھنگ سے ان کو میڈیا پر نشر کیا گیا،یہ صرف اور صرف سستی شہرت کا شاخسانہ لگتی ہے۔اِدھرسعودی عرب سے سفیر کو واپس بلانے کا علان ہوا،اُدھراسی سفیر کے ساتھ سیلفیاں بنوانے والے بڑھکیں مارنے لگے،یہ ہم نے کروایا ہے،نچلی سطح پر ایمبیسی اسٹاف کو باقاعدہ دھمکیاں دی جانے لگیں کہ دیکھو ہم نے سفیر بدلوا دیا ہے،تم لوگ کس کھیت کی مولی ہو؟
سابق سفیر پاکستان راجہ علی اعجاز کی خدمات قابلِ تحسین ہیں،بہت ہی قلیل عرصے میں بڑے موثر انداز میں وہ سعودی حکومت کے ساتھ سفارتی اور ذاتی سطح پر با اعتماد تعلقات قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے،انہوں نے شدید دباوٗ اور بحران میں بھی مضبوط اعصاب کا مظاہرہ کیا اور سفارتی خدمات کامیابی کے ساتھ سر انجام دیں۔انہوں نے کووڈ۱۹ کے لاک ڈاوٗن کے دوران کمیونٹی کے لئے جو کام کیا،اس کے اعتراف میں اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے تعریفی خط لکھا،اپنی کوششوں سے پی آئی اے کی پروازوں کو بحال کرانے پر پی آئی اے کے سی ای او ارشد ملک نے خط لکھ کر شاندار الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا۔جب وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے پائلٹس کے جعلی لائسنس کے حوالے سے بیان دیا،سعودی عرب کی مختلف ائرلائنز میں کام کرنے والے پاکستانی پائلٹس کو گراوٗنڈ کر دیا گیا،سفیر صاحب نے ذاتی دلچسی لیتے ہوئے سول ایوایشن اتھارٹی،گاکا اور وزارت خارجہ کے چینلز کو استعمال کرتے ہوئے سعودی حکومت کو رضا مند کیا کہ پاکستانی پائلٹس کے لائسنس کی تصدیق کی جائے،اس طرح ۱۷ پائلٹس اپنی ملازمتوں پر بحال ہو گئے۔
تحریک انصاف کی حکومت نے ان کو جس انداز میں اپنی سیاسی بیان بازی اور پوائنٹ اسکورنگ کے لئے استعمال کیا،قابل افسوس ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ اگر شکایات موصول ہوئیں تھیں تو سرکاری سطح پر،وزارتِ خارجہ اس کو ڈیل کرتی،میڈیا پر آکر سستی شہرت سمیٹنے سے کیا حاصل ہوا؟وزیر اعظم عمران خان کو کوئی سمجھائے کہ سفارتکاروں کو جب میڈیا پر بٹھا کر ذلیل کیا جائے گا تو وہ کیاخاک کام کریں گے؟آپ وزیر اعظم ہیں،باس ہیں آپ افسران کو تنبیہ کر سکتے ہیں۔اس بات کا سفیروں نے بہت بُرا بھی منایا تھا،وزیر خارجہ کی دانشمندی نے صورتحال سنبھال لی تھی۔میں تو کئی بار لکھ چکا ہوں کہ حکومت وزارتِ خارجہ کے تربیت یافتہ افسران کو سفیر بنا کے بھیج رہی ہے،یہ قابلِ ستائش ہے۔
راجہ علی اعجاز بہت سُلجھے،خوش اخلاق،خوش لباس،درویش منش بیوروکریٹ ہیں،انہوں نے خود کو حکومتِ وقت کے سامنے پیش کردیا،وزیر اعظم کے فیصلوں کے سامنے سرتسلیم خم کر دیا، اور کہا”میں سرکاری ملازم ہوں،سرکار کے ہر حکم کا پابند ہوں،ہر انکوئری کے لئے حاضر ہوں،ہم نے کام کرنا ہے،جہاں سرکار بھیجے گی،پہنچ جائیں گے“۔
کمال بندہ ہے؟ کوئی شکایت نہیں؟ کوئی شکوہ نہیں؟ کمیونٹی گواہ ہے کہ اس بندے نے بڑا کام کیا ہے، انہوں نے کمیونٹی کے لوگوں کو اپنا فون نمبر دیا ہوا تھا،کھلی کچہری ہوتی تھی،کووڈ کے دنوں میں ماسک لگائے،کالا سُوٹ اورکالا چشمہ پہنے،سفیر صاحب سفارت خانے کے انتظامات دیکھنے باہر خود نکل پڑتے تھے۔سعودی سرکاری اداروں میں پہنچے ہوتے،سعودی سرمایہ کاروں سے ملتے،پاکستان کے لئے کام کرتے،جیل میں بند پاکستانیوں کو پاکستان بھیجنے کے لئے سعودی قوانین سے رعایت کی سہولت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔میں عرض کرتا ہوں کہ ہم ان کو عزت سے رُخصت کرتے،انکوائری انکی منتظر نہ ہوتی،پاکستان ان کو خوش آمدید کہتا۔ان کا جی خوش ہو تا،وہ شکر گزار ہوتے کہ میں نے اپنی قوم کی خدمت کی ہے،لیکن راجہ صاحب ہم وہ لوگ ہیں جن کی شکایت کرتے ڈاکٹر قدیر خان اگلے جہاں سدھار گئے،آپ کو کیا سمجھتے ہیں ہم؟ہم ایسا ہی مزاج رکھتے ہیں،مسٹر ایمبیسیڈر
(کالم نگارقومی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

بے ایمانی، کام چوری اور ہڈ حرامی ایک فیشن

لیفٹیننٹ جنرل(ر)اشرف سلیم
بے ایمانی، کام چوری اور ہڈ حرامی زیر بحث تینوں خصوصیات بنیادی طور پر نہائیت ہی منفی اقدار اور رویہ اور کردار کی غماز ہیں۔ یہ اقدار شخصی طور پر یا اجتماعی طور پر معاشرے یا کسی گروپ یا کسی قسم کے قومی انحطاط کی علامت بھی ہو سکتی ہیں۔ یہ اقدار انفرادی حیثیت میں یا اجتماعی مرض کے طور پر پر بھی پائی جا سکتی ہیں۔ترقی یافتہ اقوام یا معاشرے کافی حد تک ان منفی اقدار کو اپنے اجتماعی کردار سے زیر نگوں کر لیتے ہیں مگر ایسے ممالک اور معاشروں میں اجتماعیت اور انفرادی ذمہ داری کا احساس ہونا بہت ضروری ہوتا ہے۔ اجتماعیت اور مثبت سوچ کا ہونا اور بدرجہ اتم ہونا معاشروں کی سلامتی کو یقینی بناتا ہے۔
جمہوریت مادر پدر آزادی اور کرپشن کی کھلی چھٹی کا نام نہیں بلکہ یہ اجتماعی اور انفرادی احساس ذمہ داری کا ثبوت ہونا چاہئے -کسی بھی قوم میں لیڈرشپ کے فرائض ادا کرنے والے گروپ یا انفرادی خدمات انجام دینے والوں کے لئے تین بنیادی تصور یاconcept نہایت ہی اہم بلکہ لیڈرز کی موجودگی کے پیش رو یا prerequisite ہوتے ہیں:
مشن یا ذمہ داری- وسائیل، جو اس مشن یا کام مکمل کرنے لئے لیڈر کو دئے جاتے ہیں اور تیسرا اور سب سے اہم جز ہے احتساب/accountably یا ذمہ داری۔
ہمارے ہاں سب لوگوں کو افسر بننے یا لیڈر بننے کا بہت شوق ہے مگر وہ لیڈر ہو نے کے تقاضے نبھانے کی قابلیت اور احساس ذمہ داری سے بالکل عاری ہوتے ہیں۔ وہ اپنے عہدے سے جڑے انعامات اور ہم حقوق تو بڑے دھڑلے سے انجوائے کرتے ہیں مگر نہ تو وہ اپنی ذمہ داری یا فرض نبھاتے ہیں اور نہ عوام جن کو انہوں نے serve کرنا ہوتا ہے ان کی کسی قسم کی خدمت بجا لاتے ہیں۔ خاص طور پر ہمارے اوپر والے معاشرتی طبقات سے تعلق رکھنے والے سرکاری ملازمین اپنے آپ کو ملازم کم اور افسر زیادہ تصور کرتے ہوئے عام لوگوں سے نہ صرف دوری اختیار کرتے ہیں بلکہ عوام کو اپنی خدمت پر مجبور کرتے ہیں۔ معاشرے کے نچلے طبقوں سے بہت کم لوگوں کو افسری کرنے یا سیاسی لیڈر بننے کا موقعہ ملتا ہے مگر جب ان کو موقعہ ملتا ہے تو وہ بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا کوئی موقعہ ضائع نہیں جانے دیتے اور اس طرح وہ بھی اپنی گزشتہ معاشی محرومیوں کا پورا مداوا عوام کو مزید لوٹ کر کرتے ہیں۔ سرکاری افسروں اور سیاست دانوں کے رویئے ایک ہی جیسے ہیں۔ سب مل کر یا اکیلے اکیلے سرکاری وسائل کو خوب لوٹتے ہیں اور جو وسائل عوام کی صحت اور تعلیم اور ان کو ہنرمند بناے پر خرچ ہونے تھے ان کو نہ صرف فضول خرچی کی نذر کیا جاتا ہے بلکہ قومی خزانے کا بھاری نقصان بھی ہوتا ہے۔
بات صرف یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ بہت سارے وہ سرکاری ادارے جو اپنی افادیت وقت کے ساتھ کھو چکے ہیں اور سراسر نقصان میں چل رہے ہیں اور وہ تکنیکی اور صنعتی لحاظ سے قابل درستگی نہیں رہے مگر ان کے ملازمین کو اسی طرح مفت میں تنخواہیں دی جارہی ہیں اور ان اداروں کا مالی نقصان بھی حکومت اپنے مزید وسائل لگا کر برداشت کرتی ہے۔ ان اداروں کو یا تو نجی شعبے میں منتقل کیا جانا ضروری ہے یا پھر ان کو بند کر دیا جائے اور ان میں سے جو وسائل نکل سکیں ان کو کسی اور مصرف میں لایا جائے۔
بجلی اور گیس کے محکموں میں بھی پیسے کی لوٹ مار جاری ہے۔ بجلی کی چوری ایک بہت بڑے سکیل پر جاری ہے۔ ملک کے کچھ حصے ایسے ہیں جہاں یہ چوری انتہائی حدود پار کر چکی ہے۔ اس چوری کو روکنے کے جدید طریقے استعمال میں لائے جانے ضروری ہیں۔
اوپر دی گئی چند مثالیں ہمارے معاشرے میں جاری بے ایمانی اور کام چوری کی زیادتی کو ظاہر کرتی ہیں۔ کام کی کچھ اخلاقیات ہوتی ہیں۔ کام کے اوقات کار میں اپنے ذاتی کام کرنے نکل جانا یا موبائل پر فضول باتوں میں وقت ضائع کرنا اور چائے پر معمول سے زیادہ وقت لگانا۔ یہاں تک کہ نماز کے لئے بھی ضرورت سے زیادہ وقت لگانا بھی اچھے work ethics کی علامت نہیں ہے۔
جو سرکاری افسر یا ملازم، اس کا تعلق کسی بھی گریڈ یا طبقے سے ہو اپنے کام کی جگہ یا دفتر وقت مقرر پر نہیں حاضر ہوتا وہ اپنے کام میں خیانت کا مرتکب ہوتا ہے۔ اسی طرح جو افسر یا ملازم وقت مقررہ سے پہلے اپنے کام سے چھٹی کر جائے وہ بھی اتنا ہی بڑا مجرم ہے۔ ہر بندہ اپنی ذمہ داری کا احساس کرے اور جو لوگ ان کے کام کے دائرہ کار میں آتے ہیں ان کو بھی ان ورک اخلاقیات کا پابند بنائے اور اگر وہ یہ اہتمام نہیں کرتا تو وہ اپنے کام میں خیانت کا مرتکب ہے۔ بہت سارے لوگ ہمارے معاشرے میں یا تو غربت کا بہانا کر کے یا اپنے پاس ہنر نہ ہونے کا بہانا کر کے کام چوری کے مرتکب ہوتے ہیں۔اسی وجہ سے ملک میں بھیک مانگنا اور ہڈ حرامی عام ہے۔ کسی چوراہے، بس سٹاپ، ریلوے سٹیشن، ٹریفک لائیٹ حتیٰ کہ ایئر پورٹس پر بھی پاکستان کا پہلا تاثرجو یہ بھکاری ملک سے باہر سے آنے والے افراد کو دیتے ہیں وہ نہائیت ہی منفی ہوتا ہے۔ کیا ہماری ساری قوم بھیک مانگنے والوں کی ہیں؟ دراصل بعض حکومتوں نے ملک کا پیسہ بینظیر اِنکم سپورٹ اور احساس پروگرام وغیرہ کی مد میں جہاں بہت سارے مستحق لوگوں کو دیا ہے وہیں ایک بہت بڑی تعداد غیر مستحق اور ہڈ حرام لوگ جو پیشہ ور کام چور اور بھکاری ہیں ان میں بھی غیر ضروری بانٹا گیا ہے۔ ڈاکٹر ثانیہ نشتر کی قیادت میں بے نظیر اِنکم سپورٹ فنڈ کا جو تجزیہ ہوا اس میں لاکھوں ایسے سیاسی اور غیر مستحق لوگوں کی نشاندہی ہوئی ہے۔
ہونا یہ چاہیے کہ احساس پروگرام اور بے نظیر فنڈ کی رقم کو ملک میں بھکاری پن اور غربت کے خاتمے اور صرف بوڑھے لوگوں کی کفالت پر استعمال کیا جائے۔ بھیک مانگنے کو ملک میں جرم قرار دیا جائے اور پناہ گاہوں کو صرف غریب اور بوڑھے افراد کی کفالت کے لئے استعمال کیا جائے۔ ملک کے اندر skill development یا ہنر مندی کی تربیت اور تعلیم کو لازم قرار دیا جائے۔ ہر شخص میٹرک تک تعلیم حاصل کرے اور میٹرک کا سرٹیفکیٹ اسی کو جاری ہو جو کم از کم ایک ہنر میں طاق ہو۔ یہ ہنر میٹرک کے سلیبس کا حصہ ہوں۔ ہنرمند افرادکو ان فنڈز سے قرض دیا جائے تا کہ وہ کوئی معقول کام کر سکیں۔ تقریبا پانچ سے سات سال میں بذریعہ سکل یا ہنر کی تعلیم سے نہ صرف ان لوگوں کو ملک سے باہر بھی اچھی تنخواہیں اور نوکریاں ملیں گی بلکہ بے روزگاری کو کافی حد تک ختم کیا جا سکتا ہے۔
معاشرے سے بھکاری پن اور غربت کا خاتمہ کرنا ضروری ہے اگر ہم نے اپنے ملک کو آگے لے کر جانا ہے۔ اسی طرح سرکاری ملازمین اور سیاسی لوگوں، دونوں کا رویہ تبدیل کرنا ضروری ہے۔ پاکستان کے نچلے لیول سے لوگوں کوبحال کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا اوپر والے یا حکومتی الیٹس elites کو ٹھیک کرنا ضروری ہے۔
تربیت تعلیم کا ایک بہت ہی اہم جز ہے اور کئی ملکوں میں تو تعلیم کے پہلے کچھ سال کتابوں اور امتحانوں کی بجائے صرف اور صرف تربیت پر توجہ دی جاتی ہے۔ تربیت میں سڑک پار کرنے کے طریقے سے لیکر کھانے کے آداب اور بولنے اور دوسروں سے بات چیت کا طریقہ بھی سکھایا جاتاہے۔ بنیادی معاشرتی یا مذہبی اخلاقیات بچوں کو سکھانا بہت اہم ہے تاکہ وہ ملک کے اچھے شہری بن سکیں۔ہمارے ملک میں سرکاری سکولوں کا ایک بہت بڑا جال بچھا ہوا ہے مگر بتدریج انحطاط کی وجہ سے اس سکول سسٹم نے اپنا مقام کھو دیا ہے۔ پہلے پانچ سال کی تعلیم کے لئے صرف خواتین اساتذہ کی خدمات لی جائیں۔ اور بنیادی اخلاقیات اور دین کے بنیادی اصول پڑھائے جائیں۔ میٹرک تک باقی پانچ سال یکساں نصاب میں سائنس کی تعلیم دی جائے اور ہر طالب علم ایک ہنر میں ماہر بنے۔ تمام بچوں کو مفت تعلیم و تربیت یقینی بنانا ہو گا۔ بلکہ جب کوئی بچہ پیدا ہو تو اس کی رجسٹریشن یونین کونسل یا جو بھی ریکارڈ رکھنے والی اتھارٹی ہو اس کے ساتھ ساتھ نزدیکی سکول میں بھی بچے کی رجسٹریشن ہو جائے اور جیسے ہی وہ بچہ پانچ سال کی عمرتک پہنچے سکول اس کو خود اپنے پاس داخلہ دے کر کلاسوں میں بٹھائے۔
آئیے ہم عہد کریں کہ:
ہم اپنے معاشرے کی ترقی کے لئے دن رات اپنے فرائض کو ایمانداری اور اپنی مکمل صلاحیت کے مطابق محنت سے ادا کریں گے۔ہم خواہ پیدل ہوں سائیکل پر ہوں موٹر سائیکل پر ہوں یا کار یا کسی بھی گاڑی میں ہوں ہم سب ٹریفک کے قوانین کی مکمل پابندی کریں گے اپنے ہاتھ پہ رہنا اور رفتار کی پابندی اور سڑک کی اخلاقیات کو ملحوظ خاطر رکھیں گے
نہ کسی کو رشوت دیں گے اور نہ رشوت لیں گے۔ اپنے رزق حلال پر قناعت کریں گے اور اپنے بچوں کو حرام رزق کی ایک رتی بھی نہیں کھلائیں گے اور نہ خود کھائیں گے۔
بھیک مانگنا اور پیشہ ور بھکاری ہونا ایک معاشرتی لعنت ہے اور اس کی ہر صورت میں حوصلہ شکنی ضروری ہے اور پیشہ ور بھکاریوں کو کسی قسم کی امداد یا رقم دینا ہر لحاظ سے نا جائز ہے۔ اس سے اس جرم اور اس سے جڑے ہوئے دوسرے جرائم جن میں معصوم بچوں کا اغوا بھی شامل ہے کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔
ملک میں قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مکمل تعاون کریں گے اور ہر طرح کے جرائم جو ہمارے علم میں آئیں ان کی رپورٹ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کریں گے۔اپنے بچوں کی تعلیم اور تربیت کا نہ صرف گھر پر بندوبست کریں گے بلکہ ان کو بر وقت سکول بھجوائیں گے اور ان کے اساتذہ کے ساتھ رابطے میں رہیں گے۔نہ صرف اپنے بچوں اور خود کو منشیات سے دور رکھیں گے بلکہ معاشرے کو اس لعنت سے دور کرنے کے لئے حکومتی اور معاشرتی لیول پر اجتماعی کوششوں کا ساتھ دیں گے۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
(کالم نگار ہلال ملٹری امتیازاورسابق ہائی کمشنر ہیں)
٭……٭……٭

گزشتہ20دنوں کے شوشے

سید سجاد حسین بخاری
گزشتہ20دنوں میں ملک بھر میں خطرناک حد تک قیاس آرائیاں ہوتی رہیں جس سے نہ صرف سیاسی بلکہ معاشی طور پر بھی اربوں روپے کا نقصان ہوا۔ ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کا معاملہ تھا جس کے لئے ایک مخصوص قسم کا طریقہ کار ہے جسے اپنانا ضروری ہوتا ہے اور اس کیلئے 20دن لگ گئے۔ ماضی میں پہلے فائل ورک مکمل کرکے وزیراعظم آفس کو بھیجا جاتا تھا پھر ملاقات میں اس پر اتفاق رائے قائم کرکے آئی ایس پی آر سے اعلان کروایاجاتا تھا مگر اس دفعہ فائل ورک بعد میں اور اعلان پہلے کیاگیا اور سوشل میڈیا پر ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کا خط جاری نہ ہونے پر شوشہ چھوڑ دیا گیا اور یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی اور تبصرے شروع ہوگئے۔ حکومت مخالف میڈیا گروپ نے خوب تبصرے کئے اور حکومت کو خوب لتاڑا۔
کمال یہ ہے کہ جو فوج پر گزشتہ تین سالوں سے نام لیکر الزام تراشی کررہے تھے وہ بھی فوج کے ہمدرد بن گئے اور وہ بھی کہنے لگے کہ حکومت نے اپنی فوج کے ساتھ بُرا کیا ہے۔ دنیابھر میں ہماری فوج کی رسوائی ہوئی ہے وغیرہ وغیرہ۔ نومبر میں حکومت کا دھڑن تختہ بھی ہونے کے دعوے کئے جارہے تھے اور اس کا نقشہ یار لوگوں نے اس طرح بنایا کہ فوج کا سربراہ اب حکومت مخالف ہوگیا ہے اب اگر وزیراعظم آرمی چیف کی مرضی کا ڈی جی لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم کو تعینات نہیں کرتے تو پھر فوجی قیادت حکومتی اتحاد میں شامل ایم کیو ایم‘ جی ڈی اے اور ق لیگ کو الگ کرکے پہلے پنجاب اسمبلی اور پھر قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریکوں کے ذریعے حکومت کا خاتمہ کردے گی۔ کچھ عقل کے اندھے اور نام نہاد تجزیہ نگاروں نے اپنے حلقہئ یاراں میں یہاں تک بھی تبصرے کئے ”قبر ایک ہے اور مردے دو“۔ سوال کیاگیا کہ حضوروہ کیسے؟جواب ملا کہ وزیراعظم اگر جنرل ندیم احمد انجم کا خط جاری نہیں کرتے تو پھر مارشل لا بھی لگ سکتا ہے یا پھر وزیراعظم فوجی سربراہ کو ملازمت سے فارغ بھی کرسکتے ہیں استغفراللہ۔ یعنی ان 20دنوں میں جتنی بیہودہ اور واحیات تبصرہ نگاری ملک بھر میں کی گئی اس سے محب وطن لوگوں کو بہت تکلیف ہوئی۔ ہر روز نیا شوشہ چھوڑا جاتا کہ حکومت یوں کرنے جارہی ہے اور آگے سے جواب یوں دینے کی تیاری ہوچکی ہے۔ ان 20دنوں میں افواہ ساز اور جھوٹ کی ان فیکٹریوں نے ڈالر کوپَر لگادیئے۔ سٹاک ایکسچینج میں گراوٹ‘ سونے اور اشیا خوردنی کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ کردیا جس سے غریب کی زندگی اجیرن ہوگئی۔
ان 20دنوں میں سنجیدہ صحافیوں اور تجزیہ نگاروں کا ایک گروپ بھی موجود تھا حالانکہ اس میں چند حکومت مخالف لوگ بھی تھے جنہوں نے خاموشی اختیار کی اور بس ایک ہی جملہ کہا کہ ہمارے نزدیک فوج اور حکومت چونکہ گزشتہ تین سالوں سے ایک صفحے پر ہیں لہٰذا نوٹیفکیشن صرف جنرل ندیم احمدانجم کا ہی ہوگا اس کے علاوہ اس سنجیدہ گروپ نے نہ حکومت کی تبدیلی اورنہ خاتمے کی بات کی اور نہ ہی فوجی سربراہ کی نوکری کے بارے میں کوئی تبصرہ کیا۔ یہ سب چہ میگوئیاں فوج مخالف گروپ نے کیں جس سے ہماری جگ ہنسائی ہوئی اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ حکومتی وزیروں کی اکثریت بھی عقل کا استعمال کم کرتی ہے ورنہ میڈیا پر وہ اس مسئلے کو سنبھال سکتے تھے۔ بہرحال ان 20دنوں میں جو کچھ ہوا وہ بُرا ہوا اور اس میں حکومتی کمزوری اور نااہلی سرفہرست ہے۔ اب یار لوگ یہ کیوں نہیں بتاتے کہ سعودی عرب کا دورہ کس نے کرایا؟امریکی اہلکار خصوصی طور پر سعودی عرب میں وزیراعظم کو کس پروگرام کے تحت ملنے کے لئے آئے؟ سعودی عرب نے 3ارب ڈالر اور ایک ارب 20کروڑ ڈالر کا تیل ادھار کس کی سفارش پر دیا؟ اورآئی ایم ایف نے بھی پاکستان کا قرضہ وزیراعظم کے دورہ سعودی عرب سے پہلے کیوں منظور نہیں کیا؟ ان سب کرم فرماؤں کی محنت کس نے کی؟ عمران خان گزشتہ ماہ امریکی نائب وزیرخارجہ سے کیوں نہیں ملے تھے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے پیچھے ان 20دنوں کی کہانی چھپی ہے جس کی تفصیل پھر سہی۔
(کالم نگارقومی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

ملک میں مہنگائی کیخلاف پیپلزپارٹی کا احتجاج

پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹوزرداری کی اپیل پر سندھ بھر میں مہنگائی کے خلاف مظاہرے کئے گئے، کارکنوں نے پارٹی پرچم اور بینرز اٹھا کر حکومت مخالف نعرے لگائے۔ 

ملک میں مہنگائی کے خلاف بلاول بھٹو کی اپیل پر سندھ میں مظاہرے کیے گئے۔ حیدرآباد میں پیپلزپارٹی کی کارکنوں نے پریس کلب کے سامنے مظاہرہ کیا۔ پارٹی پرچم اٹھائے کارکنوں نے مہنگائی اور حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔

سکھر میں بھی پیپلزپارٹی نے مہنگائی کے خلاف ریلی نکالی، ریلی مختلف راستوں سےہوتے ہوئےپریس کلب پہنچی۔ جیالوں نے خوب نعرے بازی کی۔ مرکزی رہنماوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نےعوام کے لئے روٹی کا حصول بھی مشکل کردیا ہے۔

لاڑکانہ میں بھی پیپلز پارٹی نے مہنگائی کے خلاف احتجاج کیا۔ غالب نگرسے جناح باغ تک ریلی نکالی گئی۔ مظاہرین نے مہنگائی اور وفاقی حکومت کے خلاف نعرے لگائے۔

ٹنڈوجام میں پیپلزپارٹی نے مہنگائی کے خلاف احتجاج کیا۔ پارٹی پرچم اٹھا کر وفاقی حکومت پر تنقید کے تیر چلائے۔

دادومیں بھی پیپلزپارٹی نے مہنگائی کے خلاف احتجاجی ریلی نکالی، پیر ہائوس سے شروع ہونے والی ریلی دادو پریس کلب پہنچی، جہاں رہنماؤں نے خطاب کیا۔

شکارپورمیں بھی مہنگائی کےخلاف مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ مہنگائی نے زندگی اجیرن کردی ہے۔

سندھ کے دیگر اضلاع میں بھی جیالوں نے ریلیاں نکالیں اور مظاہرے کئے

بنوں میں سی ٹی ڈی کی کارروائی میں 2 دہشت گرد ہلاک

بنوں: سی ٹی ڈی نے کارروائی کے دوران 2 دہشت گردوں کو ہلاک کردیا۔

 کاؤنٹر ٹیرارزم ڈیپارٹمنٹ بنوں ریجن اور حساس اداروں نے میر علی گاؤں کی حدود میں دہشت گردوں کی خفیہ اطلاع پر کارروائی کی جس پر وہاں موجود دہشت گردوں نے فائرنگ کردی، پولیس کی جوابی فائرنگ کے نتیجے میں 2 دہشت گرد ہلاک ہوگئے جب کہ دیگر رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فرار ہوگئے۔