کالعدم ٹی ایل پی سے کیساتھ مذاکرات کے دروازے بند نہیں ہوئے: وزیر داخلہ

وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کا کہنا ہے کہ کالعدم تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے دروازے بند نہیں ہوئے۔

وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت ہونے والے قومی سلامتی کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شیخ رشید نے بتایا کہ کمیٹی کا اجلاس 2 گھنٹے جاری رہا، اجلاس میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی ، آرمی چیف اور مسلح افواج کے سربراہ بھی موجود تھے ، آج کے اجلاس میں ہر آدمی نے بات چیت کی اور اجلاس میں مذاکرات کی رپورٹ بھی پیش کی گئی۔

ٹی ایل پی کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں شیخ رشید کا کہنا تھا کہ مذاکرات کے دروازے بند نہیں کیے لیکن ریاست کی رٹ کو ہر حال میں قائم کیا جائے گا، خواہش ہے کہ معاملات خوش اسلوبی سے حل ہو جائیں، حکومت نے لوگوں کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا ہم نے کالعدم تحریک لبیک سے جو مذاکرات کیے اور دستخط کیے تھے ان پر قائم ہیں،کالعدم تنظیم والوں نے وعدہ کیا تھا کہ جی ٹی روڈ کھول دیں گے، اگر شام کو ہمارے ان کے ساتھ مذاکرات ہوتے ہیں اور کسی نتیجے پر پہنچتے ہیں تو آپ کو بتائیں گے، وزیراعظم کل یا پرسوں قوم سے خطاب کریں گے، وزیراعظم کی تقریر  پوری حکومت کا بیانیہ ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ جشن عید میلاد النبی ﷺ کے جلوس کو دھرنے میں تبدیل کر دیا گیا، جی ٹی روڈ کے اطراف رہائشی اسکول اور کالجز متاثر  ہیں، 4 پولیس اہلکار شہید ہو گئے ہیں، 80 سے زائد اہلکاروں کو گولیاں لگی ہیں، جب ملکی فورس پر گولی چلائی جاتی ہے تو ایسے حالات میں پولیس کو رینجرز کے ماتحت کرنے کا فیصلہ کیا۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس حکومت کی رٹ کو قائم رکھنے کا فیصلہ ہوا ہے، ہم نے کل رینجرز کو آرٹیکل 147 کے تحت اختیار دیے اور پولیس کو رینجرز کے تحت کر دیا ہے۔

شیخ رشید نے کہا کہ کالعدم تنظیم کے مظاہرین بیرون ملک سے سوشل میڈیا چلا ہرے ہیں، واٹس ایپ انڈیا، ہانگ کانگ، امریکا اور برطانیہ سے چل رہے ہیں، ہانگ کانگ ،بھارت، برطانیہ اور امریکا سے ای میلز  بھی چل رہی ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں شیخ رشید کا کہنا تھا جانیں دونوں طرف قیمتی ہیں، پولیس والوں کے بھی بچے ہیں، گھر  والے ہیں، میں توقع رکھتا ہوں کہ قومی نقصان نا ہو، سعد رضوی جہاں بھی ہیں ان سے بات چیت ہو رہی ہے، ان کو مارچ روکنا چاہیے اور  مذاکرات کے نتائج دیکھنے چاہئیں۔

عبدالقدوس بزنجو بلامقابلہ وزیراعلیٰ بلوچستان منتخب

کوئٹہ: بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے میر عبدالقدوس بزنجو بلا مقابلہ وزیراعلیٰ بلوچستان منتخب ہوگئے۔

میر عبدالقدوس بزنجو 39 ووٹ حاصل کرکے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے جن میں ایک ووٹ اپوزیشن رکن جبکہ 38 ووٹ بی اے پی اور اتحادی جماعتوں کے تھے۔

وزیراعلیٰ بلوچستان کے انتخاب کے لیے ہوئے صوبائی اسمبلی کے اجلاس کی صدارت قائم مقام اسپیکر سردار بابر موسیٰ خیل نے کی جس کے دوران آئین کی دفعہ 130 (4) کے تحت انتخاب عمل میں لایا گیا۔

بلوچستان اسمبلی میں قائد ایوان کے انتخاب کے لیے ہونے والی ووٹنگ میں اپوزیشن کی جانب سے صرف پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے نواب ثنا اللہ زہری نے ووٹ دیا۔

ان کے سوا جمعیت علمائے اسلام (ف)، بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) مینگل اور پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ) اور آزاد امیدوار نواب اسلم رئیسانی نے اپنا ووٹ کاسٹ نہیں کیا۔

نو منتخب وزیراعلیٰ بلوچستان آج گورنر ہاؤس میں اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔

بلوچستان عوامی پارٹی کے اراکین نے سیکریٹری صوبائی اسمبلی کے پاس عبدالقدوس بزنجو کی جانب سے 5کاغذات نامزدگی جمع کروائے تھے لیکن ان کے سوا کسی اور امیدوار نے قائد ایوان کے عہدے کے لیے کاغذات نامزدگی جمع نہیں کروائے۔

خیال رہے کہ بلوچستان میں حکومتی جماعت بی اے پی کے ناراض اراکین کی جانب سے 20 اکتوبر کو بلوچستان اسمبلی میں سابق وزیراعلیٰ جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تھی۔

تاہم قرار داد پر ووٹنگ سے ایک روز قبل ہی جام کمال خان اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے تھے۔

خیال رہے کہ عبدالقدوس بزنجو اس سے قبل اسپیکر بلوچستان اسمبلی تھے لیکن جام کمال خان کے مستعفی ہونے کے بعد انہوں نے وزیراعلیٰ بلوچستان کے عہدے کے لیے اسپیکر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ: پاکستان آج تیسرا میچ افغانستان کیخلاف کھیلے گا

آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پاکستان کرکٹ ٹیم سپر 12 مرحلے کا اپنا تیسرا میچ افغانستان کے خلاف آج  دبئی میں کھیلے گی۔

بھارت اور نیوزی لینڈ کو شکست دینے کے بعد پاکستان کے سیمی فائنل میں پہنچنے کے امکانات روشن ہیں۔

دوسری جانب متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کی کنڈیشنز کو دیکھتے ہوئے افغانستان کو بھی خطرناک حریف تصور کیا جارہا ہے ۔

پاکستان بھارت کو  پہلے میچ میں خوب دھویا، دس بڑے ناموں کی ٹیم کو دس وکٹوں سے مارا، دوسرے میچ میں کیویز کو بھی بآسانی چت کیا، گرین شرٹس کا اگلا شکار اب افغانستان ہے۔

افغانستان کی ٹیم بھی اس ٹورنامنٹ میں خطرناک حریف کے طور پر سامنے آئی ہے۔وارم اپ میچ میں دفاعی چیمپئن ویسٹ انڈیز کو باآسانی شکست دی، پھر اسکاٹ لینڈ کو گروپ ٹو کے میچ میں 130 رنز کے بڑے مارجن سے زیر کیا۔

بولنگ میں راشد خان اور مجیب الرحمان اپنی گھومتی گیندوں سے بیٹسمینوں کو پریشان کررہے ہیں تو بیٹنگ میں حضرت اللہ ززائی، محمد شہزاد اور اصغر افغان شامل ہیں۔

دوسری جانب گرین شرٹس نے بھارت اور نیوزی لینڈ کو شکست دیکر سیمی فائنل تک رسائی کے لیے راہ ہموار کرلی ہے، بولرز فارم میں ہیں، بیٹسمینوں کے بلے بھی خوب چل رہے ہیں۔

کھلاڑیوں کے حوصلے بلند ہیں لیکن افغانستان کی ٹیم کو اب کمزور حریف نہیں کہا جاسکتا، یہ دونوں ٹیمیں جب بھی آمنے سامنے ہوں تو دلچسپ میچ دیکھنے کو ملتا ہے۔

ورلڈ کپ 2019 میں دونوں ٹیموں کے درمیان سنسنی خیز میچ ہوا، جس میں پاکستان نے تین وکٹ سے فتح حاصل کی تھی۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان میچ آج شام سات بجے دبئی کرکٹ اسٹیڈیم میں کھیلا جائے گا۔

شاکر شجاع آبادی کا سرکاری علاج شروع، پنجاب حکومت کی 3 لاکھ امداد

ملتان، لودھراں (خبرنگار‘خصوصی رپورٹ ‘ بیورو رپورٹ) وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی ہدایت پر معروف

سرائیکی شاعر شاکر شجاع آبادی کا علاج و معالجہ شروع کردیا گیا ہے۔ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے شاکر شجاع آبادی کو نشتر ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں میڈیکل بورڈ نے انکا تفصیلی معائنہ کیا۔ معروف شاعر شاکر شجاع آبادی کے بیٹوں ولید شاکر ، نوید شاکر کی ”خبریں“ گروپ و چینل کو ڈھیروں دعائیں۔ ”خبریں“ گروپ سے 20 سال کا پرانا رشتہ ہے۔ بانی وقائد ”خبریں“ گروپ ضیاشاہد مرحوم کی طرح اب چیف ایڈیٹر روزنامہ ”خبریں“ امتنان شاہد بھی خوب خیال رکھے ہوئے ہیں۔ ”خبریں“ میری آواز بنا۔ ادھر وزیراعلیٰ پنجاب کی جانب سے شاکر شجاع آبادی کو 3 لاکھ روپے کا امداری چیک بھی دیا گیا۔ صوبائی وزیر کلچر خیال احمد کاسترو نے نشتر ہسپتال میں امدادی چیک سرائیکی شاعر کے حوالے کیا اور انکی عیادت کی۔

TLP کیخلاف چناب پل پر ایکشن کا فیصلہ کالعدم تحریک لبیک کا مارچ اسلام آباد کی طرف جاری ، اہم شاہراہیں بند، ریلوے کا نظام درہم برہم، جگہ جگہ کنٹینرز کی دیواریں

لاہور، راولپنڈی (نمائندگان خبریں) کالعدم تحریک لبیک اور حکومت پنجاب ایک بار پھر مذاکرات کی میز پر آگئی۔ کالعدم تنظیم تحریک لبیک اور حکومت پنجاب ایک بار پھر مذاکزات کی میز پر آ گئے ہیں۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ پنجاب حکومت کا

مقف ہے کہ اگر کالعدم تحریک لبیک دھرنا ختم کرنے کا اعلان کردے تو ان کے جائز مطالبات منظور کر لیے جائیں گے۔ تاہم کالعدم تنظیم بدستور پیشگی اپنے مطالبات منظور کرانے کے لیے بضد ہے

انجلا ایگلر،یہ ملاقات اِک بہانہ ہے

عارف بہار
آئی ایس آئی کی سربراہی کے سوال پر سول ملٹری کشمکش کے آثار کیا پیدا ہوئے کہ امریکی ناظم الامور انجلاایگلرنے اچانک حزب اختلاف کی جماعتوں کے ساتھ براہ راست رابطے شروع کر دئیے۔امریکی ناظم الامور نے لاہور میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف،مریم نواز کے ساتھ ساتھ چوہدری پرویز الٰہی سے بھی ملاقات کی اور بتایا گیا کہ امریکی ناظم الامور نے ان راہنماوں کے ساتھ خطے کے معاملات اور باہمی دلچسپی کے امور پر بات چیت کی۔امریکی سفارت کاروں کا پاکستانی سیاست میں سرگرم ہو کر کردار ادا کرنا یا اپنی موجودگی کا احساس دلانا کوئی نئی بات نہیں۔ماضی میں امریکی سفارت کار اعلانیہ اور دھڑلے سے پاکستان کی سیاست کا نین نقش تراشا کرتے تھے۔
ملکی سیاست میں سرگرم جاگیردار،گدی نشین اور سرمایہ دار امریکی سفار ت خانے کا چکر لگا کر سیاسی بادنما پر آنے والے موسموں کا اندازہ کرتے تھے اور اس کے بعد اپنا رخ اسی سمت میں کرتے تھے۔ان وڈیروں،سرمایہ داروں اور پیر صاحبان کو جدید اصطلاح میں الیکٹیبلز کہا جانے لگا ہے۔کبھی امریکی سفارت کا ر خود انہیں کسی مشترکہ شکار کے دوران،کسی شام کی محفل اور پارٹی میں آنے والے موسموں کی رتوں کا پتا دیتے تھے اور کبھی یہ خود امریکی سفار ت خانے کا طواف کرکے مستقبل شناسی کرلیتے تھے۔جب سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں بگاڑ آیاہے اور امریکہ اور ملک کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تعلقات کے تار کمزو ر پڑتے چلے گئے امریکی سفارت کاروں کی سرگرمیوں کا یہ انداز بھی بدل کر رہ گیا۔اس کے بعد امریکہ خلیجی ملکوں کے سفارت کاروں اور خصوصی نمائندوں کے ذریعے پاکستانی سیاست کی الجھی ہوئی زلف کو سلجھانے لگا۔اس کا نقصان یہ ہوا کہ پاکستان میں ان برادر اسلامی ملکوں کی اس ادا کو مداخلت سمجھا گیا اور رائے عامہ میں شدید ردعمل سامنے آیا۔
امریکہ سے سو جوتوں او ر سو پیاز کا رشتہ تو تاریخ کے ایک جبر کے طور پر گوارا ہی تھا مگر برادر ملکوں کی یہ ادا برداران ِ یوسف کی سی شبیہہ بنانے کا باعث بنتی رہی۔جس کے بعد ان ملکوں نے بھی اپنی اس انداز سے موجودگی میں احتیاط برتنا شروع کی۔جنرل مشرف سے کمانڈ اینڈ کنٹرول سٹک حاصل کرنے کے بعد جنرل کیانی نے پاکستان کے طول عرض میں امریکی کنٹریکٹرز،این جی اوز سمیت پس پردہ کام کرنے والے افراد کو واپس بھیجنے کے مشکل ترین کام کا آغاز کیا تو یہ سلسلہ کم نہیں ہوا اور چند برس میں مکمل ہوگیا تو جواب میں امریکہ نے پاکستانی فوج کے ساتھ اپنے ماضی کے رشتوں اور تعلقات کا بوجھ اتارنا شروع کیا۔ اورسلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے کے انداز میں امریکہ کی فوجی اکیڈمیوں میں پاکستانی فوجی کی تربیت، مشترکہ مشقوں کا سلسلہ اور جدت لانے کے لئے فنڈز دینے کے تمام سلسلے ختم کردئیے۔ اب تو پاکستان اور امریکہ کے تعلقات پچہتر سالہ تاریخ کی سب سے نچلی سطح پر پہنچ چکے ہیں۔موجودہ حکومت کے دوران تو ان تعلقات کی حالت مزید پتلی ہو کر رہ گئی۔یہاں تک کہ امریکی صدر جوبائیڈن ہمارے وزیر اعظم سے ٹیلی فونک گفتگو سے بھی گریز کا راستہ اپنائے ہوئے ہیں اور جواباً وزیر اعظم عمران خان اس سے کمتر درجے کے کسی اہلکار کو منہ لگانے سے انکار کی راہ پر چل رہے ہیں۔کیسے کیسے طاقتور اہلکار ان کی دہلیز کے پاس سے گزر گئے مگر نہ حال احوال پوچھا گیا اور نہ چائے کی پیالی کی دعوت ملی بلکہ تعلقات کا بھرم رکھنے کو ایک تصویر بنانے کی نوبت بھی نہ آسکی۔
پہلے امریکہ پاکستان کے لئے اوپر والا ہاتھ تھا جو کچھ رعایتیں،چند سہولتیں اور مشکل لمحوں میں کچھ سہارا دیتا تھا اور لامحالہ نیچے والے ہاتھ بہت سی خواہشات کا احترام کرنے پر مجبور ہوتا تھا۔جب سے اوپر والے اور نیچے والا ہاتھ کا یہ رشتہ کلائی مروڑنے والے ہاتھ میں بدل گیا ہے تب سے پاکستان امریکہ کے دوستانہ اثر رسوخ سے آزاد ہو گیا ہے۔اب امریکہ کے پاس پاکستان کو کوئی بات کہنے لئے دباؤ اور دھمکی ہی باقی رہ گئی ہے۔دباؤ اور دھمکی کا کیا اثر ہوا تو ہوا نہ ہوا تو وقت کا دھارا اپنے ہی انداز سے بہتا چلا جاتا ہے۔ایسے میں سول ملٹری کشمکش کا تاثر ابھرتے ہی امریکی سفارت کا روں کا مسلم لیگ کی قیادت کے ساتھ ملاقاتوں سے کوئی طوفان تو شاید ہی اٹھے مگر اس مرحلے پر یہ دونوں فریقوں کے لئے ایک جُوّا ہے۔یہ فریقین کے درمیان نظریہ ء ضرورت کا اطلاق تو ہے مگر اس کی حیثیت علامتی ہی سہی مگر اس نے فریقین کو زیادہ فائدہ نہیں پہنچایا۔یہ ملاقات امریکی خواہش پر ہوئی یا مسلم لیگ کی دعوت پر مگراس کا کوئی نہ کوئی تعلق موجودہ سول ملٹری کشمکش کی خبروں سے ضرور ہے۔اس مرحلے پرمسلم لیگ ن نے ملکی اسٹیبلشمنٹ کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ امریکہ ان کی پشت پر ہے اور اگر اسٹیبلشمنٹ ان پر اعتماد کرے تو وہ امریکہ اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان پُل کا کردار ادا کرسکتے ہیں اور امریکہ کو پاکستان کی کلائی مروڑنے کے عمل سے باز رکھ سکتے ہیں۔امریکہ اور پاکستان کے سٹریٹجک مفادات میں اتنی دوری پیدا ہو گئی ہے کہ اسے قربت میں بدلنا مسلم لیگ یا پیپلزپارٹی کے بس میں نہیں۔دونوں کے بس میں ہوتا تو اپنے ماضی قریب کے دو الگ ادوا ر میں وہ یہ کارنامہ انجام دی چکی ہوتیں۔دونوں کوشش بسیار کے باجود اس مقصد میں کامیاب نہیں ہوئیں۔
دوسری طرف بظاہر دباؤ میں آئے ہوئے عمران خان کو امریکہ نے یہ پیغام دیا کہ ”ہرگز نہیں“ کا جواب ان کے پاس موجود ہے کہ وہ ان کے سخت گیر ناقدین کے ساتھ معاملات طے کرسکتا ہے۔وہ یہ بات بھول گئے کہ ہرگز نہیں سول حکمران کا تنہا فیصلہ نہیں بلکہ یہ سول ملٹری مشترکہ اعلامیہ ہے۔اس پارٹنر شپ کو توڑکر بھی اس فیصلے کو بدلا تو نہیں جا سکتا مگر اس میں کسی حد تک نقب لگائی جا سکتی ہے۔اس طرح پاکستان پر اثرو رسوخ کی صلاحیت سے محروم امریکہ نہ پاکستان کی اپوزیشن کو کچھ دے سکتا ہے اور نہ اسٹیبلشمنٹ کی اشیرباد سے محروم حزب مخالف کی کوئی جماعت امریکہ کو کوئی عملی فائدہ پہنچا سکتی ہے۔یوں ان ملاقاتوں پر کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے کاکا محاورہ ہی صادق آتا ہے۔
(کالم نگارقومی وسیاسی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

بحیرہ عرب میں موجودگی کیلئے بھارتی آبدوزوں کی کوشش

زیان تعمیر
16اکتوبر2021 کو تقریباً آدھی رات کے وقت پاکستان نیوی کے اینٹی سب میرین ہوائی جہازوں میں سے ایک نے پانی میں ایک مبہم سی شہ کا سراغ لگایا۔ پاکستانی فوج کے ترجمان کے مطابق اس رات وہ ہوائی جہاز اپنی معمول کے گشت پر تھا۔ اس مہم سے نشان شہ کا تعاقب کیا گیا اور اسے ہوائی جہاز پر موجود مختلف سنسرز سے دیکھا گیا۔ ایکٹو،پیسوو اور بصری تلاش نے یہ بات واضح کر دی کہ یہ ایک بھارتی کلویری کلاس آبدوز ہے۔ بحری زبان میں آبدوز کو دیکھ کر پہچان لینے کو certain submarine contact یا عرف عام میں certsub کہا جاتا ہے۔ اس طرح کا واقعہ تیسری بار ہوا ہے، پہلی بار 14 نومبر2016 کو ایسا واقعہ ہوا تھا جب پاک بحریہ کے لانگ رینج میری ٹائم پٹرول ہوائی جہاز نے بھارتی 209کلاس (جرمنی کی تیار کردہ) آبدوز کا سراغ لگایا تھا۔ اس سراغ لگانے کو بھارت نے ماننے سے انکار کر دیا تھا۔
4مارچ2019کو پلوامہ معاملے کے دوران، پاک بحریہ کے پی تھری سی اورین ائیرکرافٹ نے مکران کوسٹ کے قریب کراچی سے دور بھارت کی کلویری کلاس آبدوز کا سراغ لگایا تھا۔ اس کے خاکے، پیری اسکوپ اور دیگر حرکات سے یقین ہوگیا کہ وہ بھارتی آبدوز ہے۔ اگرچہ بھارت نے پاکستان کے اِن دعووں کو میڈیا کے ذریعے مسترد کر دیا لیکن جب وہ شکستہ آبدوز 2سے3میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گھر واپس گئی اور جب ممبئی کی بندرگاہ میں داخل ہوئی تو بھارتی بحریہ کے سب میرین کمانڈر کو فارغ کر دیا گیا۔ اکتوبر16 کو سراغ لگائی جانے والی آبدوزکے دعوؤں کو بھی بھارتی میڈیا نے یہ کہتے ہوئے مسترد کیاکہ یہ دعوے غیر تصدیق شدہ ہیں جب کہ دفاعی ذرائع نے ابھی اس موضوع پر کوئی رائے نہیں دی ہے۔
آبدوز کا پکڑا جانا اس وقت ہوا ہے جب کہ بھارتی فوج اثرورسوخ قائم رکھنے کے لیے اپنے جنگی کمانڈاینڈ کنٹرول طریقہ کار کی تنظیمِ نو پر بحث کر رہی ہے۔ ایک میری ٹائم تھیٹر کمانڈ بنانے کی تیاری ہے جس کا بنیادی مقصد بحیرہ عرب کے معاملات خصوصا پاکستان پر نظر رکھنا سمجھا جا رہا ہے۔ حال ہی کی آپریشنل ریکانفیگریشن کے علاوہ، بھارتی فوج پچھلے بیس سالوں میں کئی دفاعی اور آپریشنل نظریوں پر عمل درآمد کر کے انھیں چھوڑ چکی ہے۔ مارچ 2020میں زمینی جنگ کے موضوع پر منعقد ہونے والے سیمینار میں بھارتی آرمی چیف ایم ایم نروا نہ کے خطاب کے مطابق اِن میں سندر جی کابیک وقت اور گہرے دھچکے سے کولڈ اسٹارٹ اورImprovised Proactive Ops سے لے کر متحرک ریسپانس کے نظریے شامل ہیں۔
بھارت کی تھیٹر کمانڈز، امریکی گولڈ واٹر نکولس اسکیم کی طرز پر جوائنٹ ملٹری کمانڈز ہوں گی جنھیں تھری اسٹار فوجی افسران کمانڈ کریں گے۔ اِن جغرافیائی جنگی کمانڈز کا مقصد تمام ذرائع کو استعمال کرنا ہے اور بھارت کی سلامتی اور دفاعی مفادات کو لاحق کثیر الجہتی خطرات کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ بھارت کی دفاعی کمیونٹی یقین رکھتی ہے کہ چین اور پاکستان دونوں اس کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں لہٰذا یہ ہی جوائنٹ تھیٹر کمانڈز بنانے کا جواز بھی ہے۔ آبدوزوں کی تعیناتی میری ٹائم تھیٹر کمانڈ کے تحت ہو گی جسے بھارتی بحریہ کے ایک سینیئر رینک کے افسر کمانڈ کریں گے۔
بھارتی فوج کی پیشہ ورانہ مہارت پچھلے کچھ سالوں میں سخت جانچ پڑتال میں رہی ہے۔ پلوامہ کے بعد ہونے والی سرجیکل اسٹرائیک کے جواب میں پاکستان ائیرفورس نے آپریشن سوئیفٹ ریٹورٹ کیا اور دو بھارتی لڑاکا طیارے مار گرائے، جس پر بھارت نے معاملہ نہ بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ 2016میں اڑی کے واقع کے بعد بھارت کی جانب سے سرجیکل اسٹرائیک کی کوشش کا کوئی خاص فائدہ حاصل نہ ہو سکا حالاں کہ اس اسٹرائیک کے حوالے سے کافی جشن بھی منایا گیا۔ بھارت کا پاکستان کے ان علاقوں، جہاں اس کے حساب سے بھارت مخالف دہشت گرد پناہ لیے ہوتے ہیں، پر حملہ کرکے اسے نیونارمل کرنے کے مقاصد ناکام ہوئے کیونکہ پاکستان نے جارحانہ جواب دینے سے گریز نہیں کیا۔
پاکستانی پانیوں میں اور اس کے قریب بھارتی آبدوزوں کی تعیناتی کے کئی مقاصد ہو سکتے ہیں۔ یہ چھپے پلیٹ فارمز دفاعی اور معاشی سرگرمیوں کے حوالے سے اہم معلومات جمع کر سکتے ہیں جنھیں بعد میں ملٹری آپریشنز کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ڈیزل الیکٹرک آبدوز کا امن کے وقتوں کا بنیادی مشن معلومات حاصل کرنا ہی ہوتاہے۔ ان آبدوزوں کا ایک اور منفرد فائدہ ان کی کم گہرے پانی میں رہنے کی صلاحیت ہے کیوں کہ ساحل کے قریب کم گہرائی میں موجود رہ کر یہ کشیدہ صورتحال کے دوران مرچنٹ جہازوں کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتے ہیں۔
کسی بھی جدید بحری فوج کے لیے بھی پانی میں چھپی آبدوز کا سراغ لگانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ بحیرہ عرب میں یہ کام اور مشکل ہو جاتا ہے جہاں گہرائی اورحرارت کا تناسب اور ساتھ ہی آواز کی لہروں کا بہا آبدوز کو چھپے رہنے میں معاونت فراہم کرتا ہے۔ البتہ قسمت سے کوئی موقع ہاتھ لگ سکتا ہے جب آبدوز کا سراغ لگانا اور اسکا پیچھا کرنا ممکن ہوتا ہے لیکن اس کے لیے مکمل فوکس، چوکنا رہنا اور بہترین پیشہ ورانہ مہارت درکار ہے۔ پیری اسکوپ گہرائی پر موجود آبدوز ریڈار کو ایک بہت ہی چھوٹا Cross Sectionalایریا دیتی ہے جس کے ذریعے اس کا سراغ لگایا جاتاہے۔
بھارتی بحریہ کی آبدوز آپریشنز کی تاریخ کئی حادثوں اور نقصانات سے بھری ہوئی ہے۔ ایک پاکستانی آن لائن میگزین، میری ٹائم اسٹڈی فورم کے مطابق بھارتی آبدوز سندھوگھوش 2008 میں حادثے کا شکار ہوئی، سندھودرکشک پر 2010میں آگ لگنے کا واقعہ ہوا اور 2013 میں اس میں پانی بھر گیا جس کے باعث وہ ڈوب گئی، شان کش پر 2010میں آگ لگنے کا واقعہ ہوا، سندھو رتنا پر 2014میں بڑے پیمانے پر آگ لگ گئی اور آریہانتھ میں بھی 2017 میں پانی بھر گیا جس کے باعث وہ 9مہینے تک کار آمد نہ رہ سکی۔ پیری اسکوپ گہرائی پر آبدوز پکڑے جانے کی وجہ آبدوز کے کچھ تکنیکی مسائل بھی ہو سکتے ہیں ورنہ ایک آبدوز کا کمانڈر دشمن کے پانیوں کے قریب کبھی بھی نظر نہیں آنا چاہے گا۔ ناکامیوں کا سلسلہ یہ بھی بتاتا ہے کہ ایسے حادثے بھی رونما ہوئے ہوں گے جو رپورٹ ہی نہیں کیے گئے اور مجموعی طور پریہ بھارتی بحریہ کے ناکام آبدوز آپریشنز کے ریکارڈ کی نشاندہی ہے۔
بھارتی آبدوزوں کے آپریشنل حالات کے باعث یہ کہا جا سکتا ہے کہ بھارتی آبدوزوں کولے کر مستقبل میں ایسی کوئی صورتحال سامنے آئے تو پاکستان کو جارحایہ ردِ عمل کی ترغیب دے سکتی ہیں۔ بحیرہ عرب پر حکمرانی کرنے کی بھارتی خواہش آبدوزوں کے موجودہ حالات کے پیشِ نظر تو ممکن نہیں ہے۔ آبدوزوں کا سراغ لگ جانا اور ساتھ ہی بھارت کے اندر یورینیم کی چوری کے مختلف واقعات بھارتی دفاعی منصوبہ سازوں کے لیے معاملات مشکل بنا رہے ہیں اور انھیں مجبور کر رہے ہیں کہ وہ تھیٹر کمانڈز کے ہوتے ہوئے بھی پاکستان کے خلاف اپنے آپریشنل انتخابات پر نظرِ ثانی کریں۔ بھارتی بحریہ کے لیے یہ امر قابلِ غور ہونا چاہیے کہ جہاں ہو بیلیسٹک میزائل لے جانے والی نیوکلئیر آبدوزیں چلانے کا ارادہ کر رہے ہیں وہاں انھیں ایک ایسی بحری فوج نہیں بننا چاہیے جسے آئے دن certsubکا سامنا کرنا پڑتا ہو۔
(کالم نگار لکھتے ہیں)
٭……٭……٭

اقتدار کا غرور

نجیب الدین اویسی
آج میں جو کالم لکھ رہا ہوں مجھے خدشہ ہے جب میں 2023ء میں اپنی پارٹی ٹکٹ کے حصول کیلئے بورڈ کے سامنے انٹرویو دینے جاؤں گا تو بہت سے عمائدین مسلم لیگ اراکین بورڈ کے سامنے صدائے احتجاج بلند کریں گے۔ اس باغی کو ہر گز ٹکٹ نہ دیا جائے۔ اس کا قلم ہمیشہ زہر اگلتا رہتا ہے۔کوئی مرد مومن اس وقت یہ نہیں کہے گا یہ ہمیشہ سچ لکھتا تھا۔ اس کا مقصد پارٹی میں اصلاح احوال ہوتا تھا۔خیر مجھے اس کی پرواہ نہیں۔ میں ایک راسخ العقیدہ مسلمان ہوں میرا ایمانِ کامل ہے عزت ذلت میرے رب کے اختیار میں ہے۔ آج میں جن وزراء کا ذکر کر رہا ہوں وہ سابق وزراء ہیں۔
مجھے یاد ہے 95ء میں جب بینظیر بھٹو شہید کی حکومت تھی۔ مسلم لیگ مسجد شہداء(مال روڈ لاہور) سے پنجاب اسمبلی تک احتجاجی جلوس نکالا۔ پورے پنجاب سے کارکنوں کو کال دی گئی تھی۔ میں بھی اپنے دوستوں کیساتھ مال روڈ پہنچا۔جب ہمارا جلوس مسجد شہداء کے سامنے پہنچا تو کنٹینر پر مسلم لیگ کے لیڈران موجود تھے۔ مجھے میرے دوستوں نے کندھوں پر اٹھا کر کنٹینر پر پہنچایا۔
راجہ نادر پرویز نے نا صرف میرا پر تپا ک استقبال کیا بلکہ میری گردن پر پر جوش بوسہ بھی دیا۔97ء میں پنجاب اور مرکز میں مسلم لیگ کی حکومت بن گئی۔ راجہ نادر پرویز وفاقی وزیر مواصلات بن گئے۔ ہمیں ان سے ایک کام تھا، ہم پانچ ممبران پنجاب اسمبلی ان کے دفتر گئے۔ مگر وہ دفتر نہیں تھے۔ ان کے دفتر سے ہمیں ایک شریف آدمی نے بتایافلاں بلڈنگ میں وزیر موصوف نے اپنا خفیہ دفتر بنا رکھا ہے وہ وہیں بیٹھے ہیں۔ جب ہم وہاں پہنچے ان کے PAکے کمرے میں بیٹھے تھے ایک کارڈ پر اپنے نام لکھ کر صاحب موصوف کے پاس بھجوائے۔یہ اطلاع سنتے ہی راجہ صاحب غصے سے پھٹ پڑے: کس نے انہیں یہاں کا ایڈریس بتایا؟
وزیر بننے سے پہلے انکا رویہ کیا تھا، وزیر بننے کے بعد کیسے ہوگیا۔
98ء میں ممبر پنجاب اسمبلی کی حیثیت سے میں سلیم اقبال جو صوبائی وزیر جنگلات تھے کے پاس ایک درخواست لے کر گیاتو انہوں نے بڑے تحکمانہ انداز سے مجھ سے پوچھا میں تنظیمی امور کے لئے بہاولپور گیا تھا۔ آپ وہاں کیوں نہیں آئے؟میں نے انہیں جو جواب دیا ایسا جواب انہوں نے زندگی بھر کسی سے نہ سنا ہوگا۔
دوسرا واقعہ 98ء میں ذوالفقار کھوسہ جو صوبائی وزیر خزانہ تھے کے پاس ایک درخواست لے کر گیا۔وہ چیخنے چلانے لگے۔ ان کے الفاظ تھے ”کہیں ہمیں چین نہیں، کوئی کام بھی کرنے نہیں دیتے۔“میرا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا۔ جہاندیدہ کھوسہ سردار کومیرے سخت ردعمل کا اندازہ ہوگیا۔ انہوں نے فوراََ درخواست پر احکامات لکھنے شروع کردئیے۔
2013ء کے ہمارے وزراء صاحبان کی اکثریت ہم غریب ایم این ایز کی لابی میں ہمارے ساتھ بیٹھ کر چائے پینا، گپ شپ لگانا اپنی توہین سمجھتی تھی۔2013ء میں ہمارے وزیر خزانہ اسحق ڈار تھے جن سے ملنا وزیراعظم سے ملاقات سے بھی زیادہ مشکل ہوتا تھا۔ میرے دوستوں نے بتایا ہم پانچ پانچ ممبران ان کے دفتر میں گھنٹوں ملاقات کے لئے بیٹھ بیٹھ کر یہ جواب لے کر واپس آتے صاحب مصروف ہیں آپ سے نہیں مل سکتے۔ چوہدری نثار کا بھی یہی حال تھا۔ میں فقیر سا آدمی ہوں۔ میں نے کبھی بحیثیت ممبر صوبائی و قومی اسمبلی، وزیر اعلیٰ وزیراعظم سے ملاقات کی خواہش کا اظہار نہیں کیا۔ دو مرتبہ وزیر اعلیٰ (میاں شہباز شریف) بحیثیت ممبر صوبائی اسمبلی، دو مرتبہ وزیراعظم (میاں نواز شریف) سے ان کی طرف سے ملاقات کی خواہش پر ان سے ملاقات کی۔
میرا بتانے کا یہ مقصد ہے میں اسحق ڈار یا چوہدری نثار کے بارے میں اس لیے تنقید نہیں کر رہاکہ میرے ساتھ کچھ ایسا ویسا رویہ روا رکھا گیا۔
میں دو مرتبہ احسن اقبال کے دفتر میں گیا۔پہلی مرتبہ مجھے کہا گیا ان کے پاس ایئرفورس کے ایک آفیسر بیٹھے ہیں۔ مجھے دو گھنٹے انتظار کروایا۔ دوسری مرتبہ دو تین گھنٹے انتظار کروایا صاحب مصروف ہیں۔ وہ دن اور آج کا دن میں اس پروفیسر سے سلام دعا لینا بھی اپنی توہین سمجھتا ہوں۔
خواجہ سعد رفیق کے پاس میں ریاض پیرزادہ، بلیغ الرحمن کو لے کر گیا۔ ایک خاتون جو سولہ سال تک ریلوے سکول پڑھا چکی تھیں انہیں ملازمت سے فارغ کر دیا گیا۔ خواجہ سعد رفیق نے ہم سب کو ٹکا سا جواب دیا۔
میں 2015ء میں پارلیمانی سیکریٹری کامرس بنایا گیا۔ خرم دستگیر کامرس کے وزیر تھے ان کا رویہ مجھ سے دوستانہ تھا۔ شاہد خاقان عباسی جب وزیراعظم منتخب ہوئے تو انہوں نے کابینہ میں ردو بدل کیا، نئے وزراء بھی بنائے گئے۔ خرم دستگیر وزیرِ دفاع بنا دیے گئے۔ پرویز ملک مرحوم وفاقی وزیر کامرس، حاجی محمد اکرم انصاری وزیر مملکت کامرس بنا ئے گئے۔ایک دن اجلاس سے باہر نکلتے ہوئے میرا حاجی اکرم انصاری سے آمنا سامنا ہوگیا۔ انہوں نے مجھے بڑے تحکمانہ انداز میں ارشاد فرمایا: فلاں دن فلاں جگہ ایک میٹنگ ہے آپ نے وہ میٹنگ attendکرنی ہے۔ میں نے برجستہ جواب دیا آپ دو وزیر ہیں، آپ جائیں میں نہیں جاؤں گا۔دوسرے دن انہوں نے پارٹی کی اعلیٰ قیادت سے کہہ کر مجھے کامرس کے پارلیمانی سیکریٹری سے تبدیل کر کے اینٹی نارکوٹکس کا پارلیمانی سیکریٹری کا نوٹیفیکیشن کروا دیا۔میں خاموشی سے نارکوٹکس کے دفتر چلا گیا۔ میں نے اپنے دونوں وزراء صاحبان سے کوئی بات بھی نہ کی۔
اویس لغاری واپڈا کے وفاقی وزیر بنے، میں بڑی حُجت کیساتھ ان کے پاس گیا۔ ایک معمولی سا کام کہا، انہوں نے مجھے ایک لمبا چوڑا لیکچر دے ڈالا۔ مجھے اس وقت کے وزراء پر اس دوران بڑا غصہ آتا تھا۔ آج یہ سارے وزراء ہم غریب ایم این ایز کی لابی میں آکر بیٹھتے ہیں۔ ہر ایک سے زبردستی گلے ملتے ہیں، گفتگو کی کوشش کرتے ہیں۔ اب مجھے ان پر بڑا ترس آتا ہے۔ میں دل ہی دل میں انہیں بے چارے وزراء کہہ کر ہنس دیتا ہوں۔
افسوس ہم معمولی اقتدار کے وقت اپنی اوقات کیوں بھول جاتے ہیں۔ انسان خود فانی ہے۔ پانی کے بلبلہ کی مثل ہے۔مجھے امید ہے اگر ہمارے پارٹی برسر اقتدار آئی تو یہی لوگ دوبارہ کابینہ کا حصہ ہوں گے۔ چند ٹوٹے پھوٹے الفاظ اس لیے لکھ رہا ہوں، شاید اتر جائے تیرے دل میں میری بات۔
(کالم نگارمعروف پارلیمنٹیرین ہیں)
٭……٭……٭

وزیراعظم عمران خان نے کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کی تشکیل نو کر دی

 وزیراعظم عمران خان نے کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کی تشکیل نو کر دی ہے۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی کی تشکیل نو کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا۔

وزیراعظم نے مشیر خزانہ شوکت ترین کی جگہ وفاقی وزیر اقتصادی امور عمر ایوب کو ای سی سی کا چیئرمین مقرر کر دیا ہے۔ 12رکنی ای سی سی میں مواصلات، توانائی، صنعت و پیداوار، داخلہ، قانون و انصاف، میری ٹائم افیئرز کے وزراء بطور اراکین شامل ہیں۔ وزارت غذائی تحفظ، منصوبہ بندی، نجکاری، ریلوے، آبی وسائل کے وزراء بھی ای سی سی کے رکن بنائے گئے۔