مقبوضہ کشمیر میں بھارتی تسلط کے 74 سال، کشمیری آج یوم سیاہ منائیں گے

قبوضہ وادی سمیت دنیا بھر میں کشمیری عوام کی جانب سے یوم سیاہ منانے کا عمل دراصل اس امر کا اعلان ہے کہ مقبوضہ سر زمین پر بھارتی تسلط قبول نہیں کریں گے ،طاقت کے استعمال سے کشمیریوں کی جدوجہد کو کسی قیمت پر دبایانہیں جاسکتا،کرکٹ میں بھارت کی شکست پر کشمیریوں کا جشن اصل میں نئی دہلی سے نفرت کا اظہارتھا۔جہاں تک 27 اکتوبر کو یوم سیاہ منانے کے عمل کا سوال ہے تو یہ رد عمل دراصل اس مؤقف کا اظہار ہے کہ ہم مقبوضہ وادی میں بھارت کا غاصبانہ قبضہ تسلیم نہیں کرتے اور یہ کہ کشمیری عوام یہاں موجود بھارتی افواج سے نفرت کرتے ہیں کشمیریوں کے اس رد عمل کا بڑا مقصد دنیا کو یہ پیغام دینا ہے کہ تمام تر طاقت اور قوت کے استعمال کے باوجود ہمیں پسپائی پر مجبور نہیں کیا جا سکتا اور انہیں یہ حقیقت تسلیم کرنا ہو گی کہ ریاستی دہشت گردی کے باوجود کشمیریوں کی پر امن سیاسی جدوجہد نے اپنے مقدمے کو عالمی حیثیت دے کر دنیا کو متوجہ کیا ہے اور گیند دنیا کی کورٹ میں ہے اور خود بڑا سوال ان کے سامنے یہ کھڑا ہے کہ اگر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے عمل پر ان کا کردار ہے تو یہ کردار کشمیر جیسے سلگتے ایشو پر کیونکر حرکت میں نہیں آ رہا، یہاں خواتین اور بچوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے ظلم و ستم پر ان کا ضمیر کیونکر نہیں جاگ رہا اگر مشرقی تیمور، سوڈان اور ایریٹریا کے مسئلہ پر وہاں کے عوام کو حق خود ارادیت مل سکتا ہے تو کشمیر اور فلسطین کے ایشو پر ایسا کیونکر نہیں ہوپاتا کیا یہ عالمی برادری کا دوہرا اور منافقانہ کردار نہیں، کشمیر کاز پر کشمیریوں کی آواز اور ان کے کردار کو حرکت میں آئے 74 سال گزر چکے ہیں لیکن اپنے معاشی مفادات کے تحت عالمی قوتیں ٹس سے مس نہیں ہو رہیں اور بھارت کی انتہا پسند اور شدت پسند نریندر مودی سرکار کشمیریوں کی نسل کشی کا سفاکانہ کھیل کھیل رہی ہے ۔ الٹا اس نے ظلم، درندگی اور وحشت ناکی سے باہر کی دنیا کو بے خبر رکھنے کا پورا بندوبست کررکھا ہے اور بھارتی حکمران روز اول سے جھوٹ اور فریب کے ذریعے عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی بزدلانہ کوششیں کرتے چلے آ رہے ہیں لیکن زمینی حقائق یہی ہیں کہ گھر گھر تلاشی کے اس عمل کے نام پر خواتین اور بچوں کی تذلیل کے ساتھ کشمیری نوجوانوں کی ٹارگٹ کلنگ کا عمل جاری اور کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جس روز مقبوضہ وادی میں کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے نہ گونجتے سنائی دیتے ہوں، 27 اکتوبر 1947 کے بعد سے بھارت کی فاشسٹ حکومت نے جو اقدامات کیے ہیں اس کے نتیجہ میں آزادی کی یہ تحریک کمزور ہونے کے بجائے اور بھی مؤثر ہوتی گئی اور وہ بھارت سے کسی خیر کی توقع نہیں رکھتے اور اپنے بنیادی مسئلہ اور مطالبہ یعنی حق خود ارادیت سے پسپائی اختیار کرنے کو تیار نہیں ،کشمیریوں کی پاکستان سے یکجہتی کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ دبئی میں کرکٹ کے میدان میں جب پاکستانی کھلاڑی اپنے بھرپور کھیل کے ذریعے بھارت کو شکست فاش سے دو چار کرتے ہیں تو مقبوضہ وادی کشمیر کے گلی محلوں اور چوکوں چوراہوں پر پاکستانی جیت کا جشن منایا جاتا ہے اور کھلے طور پر بھارت سے نفرت کا اظہار ہوتا ہے اور یہی وہ رجحانات ہیں جس کی بنیاد پر خود عالمی رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ بھارت اگر مسئلہ کشمیر کا کوئی حقیقت پسندانہ حل نہیں نکالتا تو پھر کشمیر بھارت کیلئے ویتنام ثابت ہو سکتا ہے اور ایک بھارتی جنرل کا انٹرویوریکارڈ پر ہے جس کا کہنا ہے کہ سالہا سال کی طاقت کے بھرپور استعمال کے باوجود ہم کشمیریوں کی مزاحمت پر قابو نہیں پا سکے ۔

امن کابھاش

علی سخن ور
”بنگلہ دیش ایک جہادستان بن چکا ہے۔ وہاں کے مدرسے بنیاد پرستو ں کی تربیت گاہ ہیں اور وزیراعظم بنگلہ دیش حسینہ واجد مذہبی انتہا پسندی کو اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل میں استعمال کر رہی ہیں۔بدھ مت اور ہندومت کے پیروکار وہاں تیسرے درجے کے شہری شمار ہوتے ہیں۔اور گذرتے وقت کے ساتھ ہندوؤں کے خلاف تیزی سے بڑھتی ہوئی نفرت کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ دکھائی دیتی ہے۔“ ان زہریلے خیالات کا اظہار ابھی حال ہی میں ملعون زمانہ تسلیمہ نسرین نے اپنی ایک تحریر میں کیا جو بھارتی روزنامے ’دی ہندو‘ میں ۱۹، اکتوبر کو شائع ہوا۔ بلاشبہ تسلیمہ نسرین کی یہ تشویش اپنی جگہ جائز ہے کہ اس بد نصیب عورت نے ایک مسلمان گھرانے میں آنکھ کھولنے کے باوجود لادینیت کو اپنا عقیدہ قرار دیا۔1962میں پیدا ہونے والی تسلیمہ نسرین کی ایک بد نصیبی یہ بھی ہے کہ اپنے مکروہ عقائد کے باعث اسے اپنے ہی ملک میں داخل ہونے کی اجازت نہیں، اس کی کتابوں کی اشاعت اور فروخت بھی بنگلہ دیش میں ایک ناقابل معافی جرم کے برابر ہے۔ ان ہی وجوہات پر وہ بھارت کے شہر دہلی میں پناہ گزین ہے۔ ہندو انتہا پسند اسے دیوی کا درجہ دیتے ہیں اور دنیا بھر میں وہ ہندوؤں کی ترجمان کے طور پر جانی جاتی ہے۔ بنگلہ دیش میں ہندو انتہا پسند ایک مدت سے امن و امان خراب کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ حالات اس قدر خراب ہوجائیں کہ بھارت کو براہ راست مداخلت کا موقعہ مل جائے اور جس طرح پاکستان پر اقلیتوں کی حق تلفی کے الزامات لگا کر اسے مختلف انٹر نیشنل فورمز پر بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، بنگلہ دیش کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ کیا جاسکے۔ تاہم بنگلہ دیش کے لوگ ہر معاملے پر سمجھوتہ کر سکتے ہیں، دین کے نام پر نہیں۔وہ اپنی سرزمین پر کسی بھی دین دشمن قوت کو کبھی بھی پنپنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔واضح رہے کہ بنگلہ دیش کی 170ملین آبادی میں 10فی صد کے لگ بھگ ہندو اقلیت کے لوگ ہیں۔
بنگلہ دیش میں گذشتہ کئی روز سے ہندو مسلم فسادات جاری ہیں۔ تفصیلات کے مطابق، ان فسادات کی ابتداء تب ہوئی جب کومیلا میں دورگا پوجا کے دوران کلام پاک کے صفحات مقدس کی بے حرمتی کی خبریں سوشل میڈیا پرآئیں۔یہ خبر بھی عام ہوگئی کہ کسی ہندو نے ایک مسجد کو بھی ناپاک کردیا۔ ساتھ ہی کسی نے اس سانحے کی ویڈیو بھی اپ لوڈ کردی۔ مسلمانوں تک یہ خبر پہنچی تو ایک کہرام برپا ہوگیا۔ فسادات کی آگ ایسی بھڑکی کہ بہت سے ہندوؤں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔مندر، مورتیاں کچھ بھی محفوظ نہیں رہا۔ جواب میں ہندو انتہا پسندوں نے بھی کوئی کثر نہیں چھوڑی۔ مسلمانوں کی دکانیں اور گھر نذر آتش کردیے گئے۔ مختصر یہ کہ کومیلا سے شروع ہونے والے فسادات کی لہر نے پورے بنگلہ دیش کو لپیٹ میں لے لیا۔ ادھر ان واقعات کے بعد ہندو جگرانہ ویدک کے سیکریٹری جگدیش کرناتھ نے ایک بیان میں کہا کہ بنگلہ دیش میں ہندو اقلیت کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ کچھ نیا نہیں۔ دنیا بھر کے مسلمان بھارت کو ایک مسلم ریاست بنانے کے لیے اپنا پورا زور لگارہے ہیں۔ ہم ہندو ابھی تک سمجھ نہیں پائے لیکن حقیقت میں مسلمان ہمارے خلاف جہاد کر رہے ہیں۔
بنگلہ دیش میں مسلمانوں اور ہندو انتہا پسندوں کے بیچ فسادات کو دنیا بھر کا ہندو میڈیا ظلم اور زیادتی کی ایک خوفناک مثال بنا کر پیش کر رہا ہے۔ بے شک انسانی جان کسی کی بھی ہو اس کو نقصان نہیں پہنچنا چاہیے، اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری بنیادی معاشرتی رویوں کا حصہ ہوتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ تمام قوائد و ضوابط صرف اور صرف مسلمانوں کے لیے کیوں ہیں۔ہندوستان میں اقلیتوں کے ساتھ جو ظلم و ستم ڈھایا جاتا ہے اس پر صدائے احتجاج کیوں بلند نہیں کی جاتی۔ابھی چند ہفتے پہلے کی بات ہے، اتر پردیش کے علاقے کان پور کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائیرل ہوئی جس میں ایک پینتالیس سالہ مسلمان رکشہ ڈرائیور کو ہندو انتہا پسندوں کا ہجوم بدترین تشدد کا نشانہ بنا رہا تھا۔اس رکشے والے کی چھ سالہ بیٹی ہجوم سے ہاتھ جوڑ جوڑ کر التجا کرتی رہی کہ میرے بابا کو نہ مارو لیکن کسی نے ایک نہ سنی۔ ہجوم نے اسے جے شری رام اور ہندومت زندہ باد کے نعرے لگانے پر مجبور کیا۔ وہ نعرے لگاتا رہا لیکن اس پر تشدد کا سلسلہ بند نہیں ہوا۔ بعد میں پولیس نے اسے نیم مردہ حالت میں ہجوم کے قبضے سے چھڑایا۔ظلم اور نا انصافی کی اس بدترین مثال پر نہ تو تسلیمہ نسرین کو کوئی تکلیف ہوئی نہ ہی جگدیش کرناتھ کو۔انٹرنیشنل میڈیا بھی چپ رہا۔ہمارے خیال میں بنگلہ دیش میں جو کچھ بھی ہوا وہ بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی مسلسل نا انصافی اور ظلم و ستم کا رد عمل تھا۔اصل میں ابھی تک وہ تالی دریافت نہیں ہوسکی ہے جو ایک ہاتھ سے بجتی ہو۔یہ کیونکر ممکن ہے کہ لوگ میرے گھر کو آگ لگا دیں اور میں امن سے رہنے کا بھاشن سنتا رہوں۔
(کالم نگار اردو اور انگریزی اخبارات میں
قومی اور بین الاقوامی امور پرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

عمران خان پر اوچھے وار

حکمران سیاست کی زبان میں اپنے مخالفین کو Opposition کہتے ہی اس لئے ہیں کہ وہ حکومت کی مخالف اور ناقد ہوتی ہے۔اگر مخالفت میں نرمی برتی جائے تو اسے فرینڈلی اپوزیشن کہتے ہیں۔پاکستان میں ماضی میں فرینڈلی اپوزیشن کی جاتی رہی۔گزشتہ دور حکومت میں وزیراعظم نواز شریف کے مقابل پیپلزپارٹی کے سید خورشید شاہ کا اپوزیشن لیڈر بننا، اسی طرح سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں مولانا فضل الرحمان کا قائد حزب اختلاف رہنا فرینڈلی اپوزیشن کی مثالیں ہیں۔ تاہم گزشتہ دور حکومت میں ہی عمران خان نے اپوزیشن لیڈر نہ ہوتے بھی مسلم لیگ ن کی حکومت کو ناکوں چنے چبوائے۔ اسی طرح اب اپوزیشن لیڈر تو میاں شہباز شریف ہیں لیکن اسمبلی ممبر نا ہونے کے باوجود حقیقی اپوزیشن کا کردار مولانا فضل الرحمان اور مریم نواز ادا کر رہے ہیں۔
جمہوریت میں مضبوط اپوزیشن کو ہمیشہ سراہا جاتا ہے کیونکہ اس سے حکمران بادشاہ بننے کے بجائے راہ راست پر رہتے ہوئے عوام کے خادم بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ کہتے ہیں محبت اور جنگ میں کوئی اصول نہیں ہوتے لیکن جمہوری سیاست میں کچھ اصول موجود ہیں۔ ماضی میں مسلم لیگ ن نے سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو پر انتہائی گھٹیا حملے کئے۔ ان کے پیلے لباس پر کسی چوک چوراہے نہیں بلکہ قومی اسمبلی میں ایسے ایسے جملے کسے گئے کہ انہیں ضبط تحریر میں لانا بھی ممکن نہیں۔ بعد میں یہ رہنما اور اور ان کی اولادیں آپس میں مل بیٹھنے پر مجبور ہوئے تو ان جماعتوں کے حامی بھی ایک دوسرے سے نظریں نہیں ملا پا رہے تھے۔
عمران خان کی سابق اہلیہ جمائمہ خان برطانیہ میں اپنی عیش و آرام کی زندگی چھوڑ کر پاکستان میں رہنا چاہتی تھیں لیکن مسلم لیگ ن کے دور میں انہیں طرح طرح سے ہراساں کیا گیا۔ یہاں تک کہ ان پر ٹائلیں چوری کرنے کا مقدمہ قائم کر کے انہیں گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی جس پر وہ مایوس اور بددل ہوکر پاکستان چھوڑنے پر مجبور ہوئیں اور آخر کار معاملات ان کی طلاق پر جا پہنچے۔ آج بھی وہ اس گھٹیا سیاست پر صرف مسلم لیگ ن ہی نہیں پاکستانی قوم سے بھی بجا طور پر شکوہ کناں ہیں کہ وہ پاکستان کی بہو تھیں لیکن انہیں اس وقت ڈیفنڈ نہیں کیا گیا۔ ماضی کی تمام تر شرمندگیوں کے باوجود بھی مسلم لیگ ن اپنی ” عادت” سے باز نہیں آ رہی۔ اپنے قائدین کی بیرون ملک اربوں روپے کی غیر قانونی جائیدادوں اور ماضی میں کی گئی لوٹ مار سے توجہ ہٹانے کے لئے وزیراعظم عمران خان پر نامناسب جملے کسے جا رہے ہیں جنہیں کسی صورت سیاست نہیں کہا جاسکتا۔ ان حرکتوں میں سر فہرست عمران خان کے مذہبی عقائد اور ان کی اہلیہ خاتون اول پر دشنام طرازی ہے۔ مسلم لیگ ن کے باقاعدہ پے رول پر موجود صحافی نا صرف عمران خان کی تسبیح پڑھنے، ان کی طرف سے عید میلاد النبیؐ پر گھر میں چراغاں کرنے اور سرزمین مدینہ منورہ میں عمران خان کے ننگے پاؤں چلنے کو نشانہ بنا رہے ہیں بلکہ خاتون اول کے مسلکی نظریات پر بھی طعن و تشنیع کی جا رہی ہے حالانکہ یہ خالصتاً ان کے ذاتی معاملات ہیں جن پر ٹھٹھا مخول کسی کو بھی زیب نہیں دیتا۔
عمران خان آج انوکھی تسبیح پڑھتے ہیں کیا ماضی میں بے نظیر بھٹو ہاتھ میں تسبیح نہیں پکڑا کرتی تھیں؟ بلک ایک لطیفہ مشہور ہے کہ بے نظیر بھٹو سے ایک صحافی نے سوال کیا کہ آپ تسبیح پر کون سا وظیفہ، ورد کرتی ہیں۔ محترمہ نے جواب دیا کہ وہ آیت الکرسی پڑھتی ہیں۔ جس پر تبصرے کئے گئے کہ آیت الکرسی طویل آیت ہے۔ محترمہ جس طرح تسبیح کے دانے پر دانا پھینکتی ہیں اتنی جلدی کرسی، کرسی تو پڑھی جا سکتی ہے آیت الکرسی پڑھنا ممکن نہیں۔ کیا ماضی میں بے نظیر بھٹو کے بازو پر امام ضامن نہیں باندھا جاتا تھا اور کیا اب بھی آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری ایسا نہیں کرتے؟ خاتون اول کی پیر پرستی کو آج نشانہ بنایا جا رہا ہے کیا بے نظیر بھٹو کی ایک پیر صاحب کے قدموں میں بیٹھے تصاویر موجود نہیں ہیں۔ کیا آصف علی زرداری کے دور حکومت میں ایک پیر صاحب ان کے ساتھ مستقل موجود نہیں ہوتے تھے جو سیکیورٹی کلیرنس کے بعد بھی ان کی گاڑی پر پھونکیں مارا کرتے تھے۔ کیا نواز شریف اپنی عبادات کی تصاویر میڈیا میں بطور خاص جاری نہیں کیا کرتے تھے۔ کیا اب بھی مریم نواز تسبیح لیکر تصاویر نہیں بنواتیں؟۔ تو وہ سب کچھ جو مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی اور دیگر جماعتوں کے قائدین کے لئے جائز ہے عمران خان اور ان کی اہلیہ کے لئے ناجائز کیسے ہو گیا۔ بقول جگر مراد آبادی
یہ جناب شیخ کا فلسفہ
ہے عجیب سارے جہان میں
جو وہاں پیو تو حلال ہے
جو یہاں پیو تو حرام ہے
اپوزیشن حکومت کی مخالفت کرے، ڈٹ کر کرے، کہ یہ اس کا حق ہے۔ مہنگائی ایسا ایشو ہے جس پر احتجاجی تحریک چلا کر حکومت کے چودہ طبق روشن کئے جا سکتے ہیں لیکن ذاتی حملے اور وہ بھی گھریلو خواتین پر مناسب نہیں۔ اپوزیشن کا ٹارگٹ ایک ایسا وزیراعظم ہے جو کرکٹر بھی رہا ہے۔ انگریزی میں غیر منصفانہ، بے ایمانی پر مشتمل حرکتوں پر کہتے ہیں cricket It is just not آپ سیاسی حملے کریں لیکن اوچھے وار نہیں… ورنہ مہنگائی کے خلاف تحریک کے نتائج بھی ضائع کر بیٹھیں گے۔
(کالم نگار قومی و سیاسی امور پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭

ہم کہاں کھڑے ہیں

کرنل (ر) عادل اختر
ایک عالمی تنظیم کا نام ہے ورلڈ جسٹس اینڈ رول آف لاء۔ اس تنظیم نے دنیا کے 139 ممالک میں ایک سروے کرایا ہے جس میں انصاف، امن و امان، کرپشن، بنیادی انسانی حقوق کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا ہے۔ نہایت افسوس کے ساتھ ہم اس سروے کا خلاصہ آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ 139 ممالک میں سے پاکستان کا نمبر 130 ہے۔ سیکورٹی کے معاملات پر پاکستان دنیا کے بدترین ممالک میں شامل ہے یعنی پاکستانی شہری بہت غیر محفوظ ہیں۔ کرپشن کے معاملات میں دیکھا جاتا ہے کہ سرکاری فنڈز میں کس قدر خوردبرد ہوتی ہے، وہاں کا اعلیٰ طبقہ یعنی اشرافیہ جس میں پارلیمینٹ کے ممبران، اعلیٰ افسران، جرنیل، عدلیہ کے جج صاحبان کا طرز رہائش اور معیار زندگی کیا ہے۔ ہمارے ہاں صورتحال کیا ہے۔کرپشن میں پاکستان کو ریڈ زون میں رکھا گیا ہے۔ حکومتی شفافیت جاننے کے لئے یہ دیکھا جاتا ہے کہ حکومت اپنے عوام کو کتنی معلومات فراہم کرتی ہے اور کتنی معلومات ان سے چھپاتی ہے۔ کوئی حکومت اپنے عوام کو کتنے بنیادی حقوق دیتی ہے اور کتنے حقوق سے محروم رکھتی ہے۔ بنیادی حقوق کے سلسلے میں پاکستان کا نمبر 126 ہے۔
ضابطوں کا نفاذ۔ اس سلسلے میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ قانون پر کتنی سختی سے عمل درآمد کیا جاتا ہے۔ ان میں قانونی اور انتظامی ضابطے شامل ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستان کا نمبر 123 ہے۔
انصاف (سوشل جسٹس)۔ دیکھا جاتا ہے کہ شہریوں کو اپنی شکایات کے ازالے کے لئے کس قدر پرسکون ماحول میسر ہے۔ انصاف و سستا اور قابل رسائی امیدوار۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو۔ اس کا کم سے کم چودہ سال کی تعلیم اور سولہ سال کا علمی یا پروفیشنل تجربہ ہو۔ (پروفیسر۔ ڈاکٹر، انجینئر، صحافی، وکیل، ریٹائرڈ اعلیٰ سرکاری افسرہو)امین صالح ہو۔
جس پارلیمینٹ کے موجودہ ممبران کی مالی، اخلاقی اور سیاسی حالت شرمناک ہو وہ عوام کی امنگوں کی ترجمان نہیں ہو سکتی…… اگر پارلیمینٹ کے ممبر صالح اور دانشور ہوں گے، متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے ہوں گے تویقین ہے کہ وہ بہت سی خرابیوں پر کنٹرول کر لیں گے۔ عوام کی زندگی میں بہتری آئے گی، ذلت اور زوال کا سفر رک جائے گا۔
ملک میں لاکھوں یا کروڑوں، صالح اور سمجھ دار لوگ موجود ہیں۔ خدارا اتنا ظلم نہیں ہے کہ بائیس کروڑ میں سے بائیس لاکھ صالحین بھی نہ بستے ہوں۔ ہماری بقا امریکہ یا روس کے نہیں خود ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ اگر ریاست مدینہ قائم کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو نہ صرف پاکستان بلکہ غیر ممالک بھی اس کا خیرمقدم کریں گے۔
کیا جانتے بوجھتے ہم اپنے وطن کو تباہ کرتے رہیں گے۔ ہمارے پاس مثال موجود ہے۔ دس بارہ سال پہلے ہمارے ملک کے شہر کراچی میں ایک دیانتدار میئر نعمت اللہ خان آیا تھا۔ اس نے کراچی کانقشہ ہی بدل دیا۔ لوگ آج تک یاد کرتے ہیں۔ اگر ملک کی تقدیر پانچ سو صالح اور لائق افراد کے ہاتھوں میں دے دی جائے تو حالات کیوں نہیں بدل سکتے۔ کیا پاکستان میں عقل کا استعمال ممنوع ہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں اصلاحات کی غرض سے کمیشن بنے۔ بڑے بڑے عاقلوں اور تجربہ کار افسروں نے تجاویز دیں۔ اگر ان تجاویز پر عمل درآمد ہو جائے تو حالات بہت بہتر ہو جائیں لیکن سرکاری افسر خاص طور پر پولیس افسران اصلاحات پر عمل درآمد نہیں ہونے دیتے۔ اس طرح ان کے اختیارات اور رشوت میں کمی آ جاتی ہے جو انہیں منظور نہیں۔ حکومت کی رٹ اتنی کمزور ہے کہ اس میں ان اصلاحات کو نافذ کرنے کی طاقت نہیں ہے۔
پاکستان میں صادق اور صالح لوگوں کی کمی نہیں ہے۔ یہ لوگ صدق دل سے نظام مصطفےٰؐ یا ریاست مدینہ قائم کرنا چاہتے ہیں۔ دنیا کا کوئی ملک اس میں مزاحم بھی نہیں ہے۔ اگر مزاہم ہیں تو ہمارے کرپٹ طبقات جو ظالمانہ طریقوں سے عوام کو لوٹنے میں مصروف ہیں اور بہت عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کے پاس کروڑوں روپے کے محلات، گاڑیاں، گھڑیاں، آرائش کا سامان، نوکر چاکر بے شمار ہیں۔ وہ نہ تو ریاست مدینہ کا نظام پسند کرتے ہیں۔ نہ ریاست ماسکو کا۔ نہ ریاست واشنگٹن…… انہیں پاکستان کا موجودہ نظام (انارکی) ہی پسند ہے۔
کیا اس لوٹ کھسوٹ اور انارکی کا کوئی حل ہے۔ جی ہاں ہے۔ پاکستان کے ذی شعور عوام، سول سوسائٹی، دانشور، وکیل، صحافی، اساتذہ، پاکستان کے طاقتور اور ذمہ دار اداروں سے ہاتھ جوڑ کر درخواست کریں کہ ہمارے ملک کو بچا لو۔ اس کے لئے آئین کی ایک مشق میں معمولی سا اضافہ کر دیا جائے۔ امیدوار پارلیمینٹ کی اہلیت کے خانے میں یہ اضافہ کر دیا جائے (1) امیدوار متوسط طبقہ سے تعلق رکھتا ہو۔ اس کے پاس صرف ایک مکان اور ایک بیوی ہو۔
سرکاری افسروں کا عمل دخل ہے یا نہیں۔ نظام غیر جانبدار ہے یا نہیں۔ پولیس، وکیل، جج، جیلر کے افسر اور پورا نظام انصاف کی فراہمی میں انصاف کی فراہمی میں کیسی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس معاملے میں نمبر 108 ہے۔ یہ خبر پڑھ کر احساس ہوا کہ ایمان اور روشن ضمیر رکھنے والے افراد۔ دنیا کے ہر معاشرے اور ہر ملک میں پائے جاتے ہیں۔ سروے پڑھ کر ہمارا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ ہم کس قدر بدنصیب اور بے بس لوگ ہیں۔ یہ بے بسی اور مظلومیت موجودہ حکومت کا تحفہ ہے نہ پچھلی حکومتوں کا۔ یہ نصف صدی کا نہیں کئی صدیوں کا قصہ ہے۔ اس خرابیئ حال کی ذمہ داری پورے معاشرے پر عائد ہوتی ہے جو لوگ ایمان اور ضمیر کی دولت اپنے سینے میں رکھتے ہیں۔ بائیس کروڑ عوام میں سے کتنے لوگ ہوں گے…… ہر شخص خود اندازہ لگا سکتا ہے۔
جو ظالم اور بے حس حضرات ملک پر مسلط ہیں۔ ان کی تعداد چند ہزار یا چند لاکھ ہوگی۔ بائیس کروڑ عوام ان چند لاکھ افراد کے ہاتھوں یرغمال ہیں۔ ہمارے معاشرے میں انصاف نہیں ہوتا۔ اگر ہو جائے تو بھی مجرموں کے دلوں سے سزا کا خوف ختم ہو چکا ہے۔ ایک دن کسی شاہراہ پر ایک عورت ریپ ہو جاتی ہے۔ فرض کریں ظالم پکڑا جائے۔ سزا ہو جائے۔ پھر بھی دوسرے دن دوسرا کیس اور تیسرے دن تیسرا کیس رپورٹ ہو جاتا ہے۔ حکومت کی رٹ ختم ہو چکی ہے۔
(سیاسی ودفاعی مبصر اورتجزیہ نگار ہیں)
٭……٭……٭

شاہینوں نے دل جیت لیے

ملک منظور احمد
پاکستان بطور ملک گزشتہ کئی سالوں سے بہت سی مشکلات کا شکار رہا ہے،اور اب بھی کئی چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے،پاکستان نے گزشتہ 15سال کے دوران بد ترین دہشت گردی،کا سامنا کیا کبھی زلزلے اور سیلاب کی صورت میں بد ترین قدرتی آفات کا سامنا کیا اور کبھی توانا ئی کی شدید کمی اور 20,20گھنٹو ں کی لوڈ شیڈنگ کا سامنا کیا۔اور باقی تمام شعبوں کی طرح پاکستان کی کرکٹ بھی اس عرصہ کے دوران شدید مشکلا ت کا شکار رہی ہے۔2009ء میں لاہور میں سر لنکا کی کرکٹ ٹیم کے اوپر ہونے والے دہشت گردانہ حملے کے بعد بین الا ا اقومی کرکٹ نے پاکستان سے رخ موڑ لیا اور کسی بھی ٹیم نے پاکستان آنے سے انکار کر دیا،جس کے باعث ایک وقت میں تو ایسا لگ رہا تھا کہ پاکستان کرکٹ کہیں خدا نخواستہ اس صورتحال کے باعث کہیں ختم ہی نہ ہو جائے لیکن پاکستان کرٹ بورڈ نے اس عرصے کے دوران متحدہ عرب امارات کو اپنا گھر بنایا،پاکستان کی کرکٹ جاری رہی اور اب پاکستان نے تاریخ میں پہلی بار کسی ورلڈ کپ مقابلے میں بھارت کو شکست دی اور نہ صرف شکست دی بلکہ 10وکٹو ں سے شکست دے دی،جو کہ ٹی 20فارمیٹ میں بھارت کی سب سے بڑی شکست ہے۔میچ سے قبل کسی کوبھی توقع نہیں تھی کہ پاکستان ٹیم بھارت کو اس بڑے میچ میں شکست دے سکتی ہے اور نہ صرف یہ کہ شکست دے سکتی ہے بلکہ اتنے بڑے مارجن سے شکست دے سکتی ہے۔پاکستانی ماہرین کرکٹ بھی بھارت کی ٹیم کا اس میچ میں پلڑا بھاری قرار دے رہے تھے اور بھارتی ماہرین اور میڈیا کی تو کیا ہی بات کی جائے ان کا غرور تو آسمان پر تھا وہ تو میچ میں بھارت کو میچ ہونے سے پہلے ہی فاتح قرار دے بیٹھے ہوئے تھے۔
بھارتی سابق ٹیسٹ کرکٹر ہر بجن سنگھ نے تو حد ہی پار کر ڈالی اور پاکستان کو میچ کھیلنے کی بجائے بھارت کو وال اوور دینے کا مشورہ دے ڈالا،بھارتی کرکٹر کے اس بیان کا جواب پاکستان کے سابق فاسٹ بولر شعیب اختر نے دیا اور بھرپور انداز میں دیا لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ شاہینوں نے یہ میچ جیت کر اور اتنے بڑے مارجن سے جیت کر بھارت کا غرور خاک میں ملا ڈالا ہے۔پاکستان نے میچ کی ابتدا سے لے کر اختتام تک بھارت کی ایک نہ چلنے دی اور بیٹنگ بولنگ اور فیلڈنگ تینوں شعبوں میں بھارت کو مکمل طور پر آؤٹ کلاس کر دیا۔اور میچ میں پاکستان کے بولرز خصوصا ً شاہین شاہ آفریدی کی جتنی تعریف کی جائے وہ کم ہے،شاہین شاہ نے ابتدائی اوورز میں بھارت کے دو کھلاڑی آوٹ کرکے بھارت کو بیک فٹ پر دھکیل دیا جس کے باعث پاکستان کی فتح کا راستہ ہموار ہوا۔اور اس کے بعد دوسری اننگز میں پاکستانی اوپنرز بابر اعظم اور محمد رضوان نے شاندار کا رکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بغیر کوئی وکٹ گنوائے ہی ہدف مکمل کر دیا۔کئی دہائیوں کے انتظار کے بعد ایسی فاتح یقینا یاد گار ہے اور میچ کے بعد پاکستان سمیت دنیا بھر میں منائے جانے والا جشن اس بات کا غماز ہے کہ یہ فتح پاکستان کے لیے کتنی اہم تھی،مقبوضہ کشمیر،بنگلہ دیش سمیت دنیا بھر میں پاکستان کی جیت کا جشن منایا گیا،اور تو بھارت کے اندر بھی کئی علاقوں میں پاکستان کی جیت کا جشن منایا گیا جس کے بعد بھارتی مسلمانوں اور کشمیریوں پر تشدد کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔بھارتی شہروں میں ہاسٹلز کے اندر گھس گھس کر کشمیری طلبا ء پر تشدد کیا جا رہا ہے اور بھارتی کرکٹ ٹیم میں شامل واحد مسلمان کھلاڑی محمد شامی کو پاکستان سے شکست کی وجہ اور غدار قرار دینے کا سلسلہ بھی شروع کر دیا گیا ہے۔ان واقعات سے ہم بھارت معاشرے میں بڑھتی ہو ئی انتہا پسندی اور مسلمان دشمنی کا اندازہ بخوبی لگا سکتے ہیں۔
پاکستان کی جیت میدان کے اندر تک محدود نہیں تھی بلکہ یہ میچ جیت کر اور اس انداز میں جیت کر پاکستان نے کرکٹ کی دنیا کے نام نہاد بگ 3جن میں بھارت کے علاوہ،آسٹریلیا اور انگلینڈ بھی شامل ہیں۔ان کو یہ واضح پیغام دیا ہے کہ پاکستان سے کرکٹ چھینی جاسکتی ہے لیکن پاکستان کو گیم سے باہر کرنا ممکن نہیں ہے۔پاکستان کی قوم اس کھیل سے دلی لگاؤ رکھتی ہے اور یہ کھیل ملک میں اتحاد اور ہم آہنگی کو فروغ دینے کا باعث بھی ہے،اس کھیل کو بہتر کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔وزیر اعظم عمران خان نے سابق ٹیسٹ کرکٹر رمیز حسن راجہ کو پاکستان کرکٹ بورڈ کا چیئرمین نا مزد کیا ہے اور امید کی جارہی ہے کہ ان کے آنے کے بعد پاکستان کرکٹ میں بہتری دیکھی جائے گی کیونکہ وہ نہ صرف پاکستان کرکٹ بلکہ جدید کرکٹ اور اس کے تقاضوں کو بھی بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں۔پاکستان نے بھارت کے خلاف شاندار فتح تو حاصل کر لی ہے لیکن ابھی پاکستان کے ورلڈ کپ کے سفر کا آغاز ہو ا ہے۔
پاکستان کو اسی جوش اور جذبے اور کارکردگی کا تسلسل برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔پاکستان کا اگلا میچ نیو زی لینڈ سے ہے جو کہ بہت اہمیت کا حامل ہے میچ ہارنے کی صورت میں پاکستان کا افغانستان کے ساتھ میچ ڈو اینڈ ڈائی کی صورتحال اختیار کر جائے گا اس لیے اس صورتحال سے بچنے کے لیے پاکستان کو یہ میچ بھی جیتنا لازم ہے۔لیکن جیسی کا رکردگی کا مظاہر ہ پاکستان نے پہلے میچ میں کیا ہے اس کے بعد یہ امید کی جاسکتی ہے کہ پاکستان باقی میچوں میں بھی جیت کا تسلسل برقراررکھے گا۔ ہم سب کی بطور پاکستانی دعائیں پاکستان ٹیم کے ساتھ ہیں اور ہم سب کی یہی خواہش ہے کہ پاکستان ٹیم ورلڈ کپ ٹرافی اپنے ساتھ لے کر آئے امید ہے اس بار جس جذبے سے قومی ٹیم میدان میں اتری ہے،ٹیم ورلڈ کپ جیت کر قوم کو جشن منانے کا ایک اور موقع ضرور دے گی۔
(کالم نگارسینئرصحافی اورتجزیہ کارہیں)
٭……٭……٭

نیوزی لینڈ کی شکست پر گراؤنڈ میں ‘سکیورٹی سکیورٹی’ کے نعرے لگ گئے

ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کے سپر 12 مرحلے کے میچ میں پاکستان کے ہاتھوں نیوزی لینڈ کی شکست کے بعد گراؤنڈ میں سکیورٹی سکیورٹی کے نعرے لگ گئے۔

پاکستان نے نیوزی لینڈ کو 5 وکٹوں سے شکست دیکر ٹورنامنٹ میں دوسری فتح اپنے نام کی ہے شکست کے بعد گراؤنڈ میں موجود شائقین نے نیوزی لینڈ پر طنز کے نشتر چلائے اور ‘سکیورٹی سکیورٹی’ کے نعرے لگائے۔

اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر بھی نیوزی لینڈ کی ٹیم پر طنز کیا جارہا ہے۔ ڈیوڈ ایلس نامی ٹوئٹر صارف کا کہنا تھاکہ ویلڈن پاکستان، سکیورٹی کا مسئلہ کامیابی سے حل کرلیا۔

خیال رہے کہ گزشتہ دنوں نیوزی لینڈ کی ٹیم ‘سکیورٹی’ کا بہانہ بنا کر پاکستان کا دورہ ادھورا چھوڑ گئی تھی۔

ورلڈکپ سپر 12: نیوزی لینڈ کی پاکستان کیخلاف بیٹنگ جاری

آئی سی سی مینز ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے گروپ 2 کے میچ میں پاکستان نے نیوزی لینڈ کے خلاف ٹاس جیت کر بولنگ کا فیصلہ کیا ہے ۔

شارجہ میں کھیلے جارہے میچ میں پاکستان کے کپتان بابر اعظم نے نیوزی لینڈ کے خلاف ٹاس جیت کر بولنگ کا فیصلہ کیا ہے۔

پاکستان کرکٹ ٹیم میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ۔

پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان میچز کی تاریخ پر نظر

پاکستان اور نیوزی لینڈ کی ٹیمیوں کے درمیان 24 ٹی ٹوئنٹی میچز کھیلے گئے جس میں پاکستان نے 14 میچز میں کامیابی سمیٹی۔

اس کے علاوہ  دونوں ٹیمیں 8 بار متحدہ عرب امارات میں آمنے سامنے آئیں جس میں  پاکستان 7 جبکہ نیوزی لیڈ ایک میچ جیتنے میں کامیاب ہوا۔

اگر ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کی بات کی جائے تو وہاں بھی پاکستان ٹیم کا پلڑا بھاری ہے۔

دونوں ٹیمیں 5 بار ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں آمنے سامنے آئیں، پاکستان نے 3 جبکہ نیوزی لینڈ 2 میچز جیتنے میں کامیاب ہوا۔

یاد رہے کہ پاکستان متحدہ عرب امارات میں گزشتہ 12 میچز سے ناقابل شکست ہے ۔

محمد رضوان ایک اور اعزاز حاصل کرنے کے قریب

پاکستان کے محمد رضوان کو ایک کلینڈر ایئر میں ایک ہزار ٹی ٹوئنٹی  رنز مکمل کرنے کیلئے 169 رنز درکار ہیں۔

اگر محمد رضوان اس ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں مزید 169 رنز اسکور کر لیتے ہیں تو وہ ایک کلینڈر ایئر میں 1 ہزار ٹی ٹوئنٹی رنز بنانے والے دنیا کے پہلے بیٹسمین بن جائیں گے۔

واضح رہے کہ آئی سی سی مینز ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے ساتویں ایڈیشن کا سپر 12 مرحلہ  متحدہ عرب امارات میں جاری ہے۔

سپر 12 مرحلے میں 6،6 ٹیموں کو 2 گروپوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔

واضح رہے کہ ہر گروپ کی 2 ٹاپ ٹیمیں سیمی فائنل کیلئے کوالیفائی کریں گی۔

پاکستان اور نیوزی لینڈ کی ٹیمیں گروپ 2 میں شامل ہیں ،پاکستان نے اپنے پہلے میچ میں بھارت کو یکطرفہ مقابلے کے بعد 10 وکٹوں سے شکست دی جبکہ نیوزی لینڈ اپنا پہلا میچ آج پاکستان کے خلاف کھیل رہا ہے۔

لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم کی بطور ڈی جی آئی ایس آئی تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری

وزیر اعظم ہاؤس کی جانب سے انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) کی تقرری کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا۔

نوٹیفکیشن کے مطابق لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم کو ڈی جی آئی ایس آئی تعینات کیا گیا ہے جبکہ وزیراعظم نے ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کی منظوری دی۔

نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ نوٹیفکیشن کا اطلاق 20 نومبر 2021 سے ہوگا اور موجودہ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید 19 نومبر تک فرائض انجام دیں گے۔

خیال رہے کہ اس سے قبل وزیر اعظم ہاؤس میں وزیراعظم عمران خان سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے علیحدگی میں ملاقات کی تھی۔

وزیراعظم نے ڈی جی آئی ایس آئی کیلئے نامزد افسران کے انٹرویو کیے، پی ایم آفس

وزیراعظم آفس کے ترجمان کے مطابق وزیراعظم عمران خان سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ملاقات کی ہے جبکہ یہ ملاقات انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کمان کی تبدیلی کے وقت سے متعلق جاری مشاورتی عمل کا حصہ تھی۔

ترجمان کے مطابق ملاقات نئے ڈی جی آئی ایس آئی کی سلیکشن کیلئے جاری مشاورتی عمل کا حصہ تھی۔

ترجمان نے بتایا کہ مشاورتی عمل میں وزارت دفاع سے افسران کی فہرست موصول ہوئی اور وزیراعظم نے تمام نامزد افسران کے انٹرویو کیے۔

ترجمان وزیراعظم آفس کے مطابق وزیراعظم اور آرمی چیف کے درمیان مشاورت کا فائنل راونڈ ہوا اور  تفصیلی مشاورت کے بعد لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم کی بطور ڈی جی آئی ایس آئی تقرری کی منظوری دی گئی۔

 ترجمان وزیراعظم آفس کا کہنا ہے کہ نامزد ڈی جی آئی ایس آئی 20 نومبر2021 کو چارج سنبھالیں گے۔

راولپنڈی: زینب زیادتی و قتل کیس کے مجرموں کو دو دو مرتبہ سزائے موت کا حکم

راولپنڈی: عدالت نے 9 سالہ بچی زینب سے زیادتی اور قتل کے کیس میں مجرموں کو سزا سنادی۔

راولپنڈی کی سیشن عدالت نے تھانہ سول لائنز کی حدود میں 9سال کی زینب سے زیادتی اور قتل کیس کا فیصلہ سنایا جس میں عدالت نے جرم ثابت ہونے پر مجرم بابر مسیح اور محمد عدنان کو دو دو مرتبہ سزائے موت کا حکم دیا۔

عدالت کی جانب سے مجرمان کو 5،5 لاکھ روپے جرمانے کی سزا بھی سنائی گئی ہے جب کہ مجرمہ کویتا کو جرم چھپانے پر 7سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی۔

واضح رہےکہ 22 مارچ 2021 کو 9 سالہ زینب سے زیادتی اور قتل کا مقدمہ تھانہ سول لائنز میں درج کیا گیا تھا جب کہ مجرم نے دوران تفتیش زیادتی کا اعتراف بھی کیا تھا۔