12 ربیع الاول : سیکیورٹی پلان ترتیب دے دیا گیا

کراچی میں 12 ربیع الاول کے جلسوں اور جلوسوں کے سلسلے میں سیکیورٹی پلان ترتیب دے دیا گیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق کراچی پولیس 12 ربیع الاول کے جلوسوں اور محافل کی سیکیورٹی کیلئے شہر کے مختلف مقامات پر اپنے فرائض سر انجام دے رہی ہے۔

ترجمان کراچی پولیس کے مطابق 12 ربیع الاول کے روز مرکزی جلوس کے راستوں اور گزرگاہوں سمیت مرکزی جلوس کی نگرانی اور سیکیورٹی کیلئے مجموعی طور پر پولیس کے 4294 افسران و جوان موجود رہینگے۔

ذرائع کے مطابق کراچی پولیس کے 78 سینئر افسران سمیت 747 این جی اوز، 4087 ہیڈ کانسٹیبل/کانسٹیبل جبکہ سیکیورٹی ڈویژن کے 658 اہلکاروں سمیت اسپیشل سیکیورٹی یونٹ کے 400 کمانڈوز ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہیں۔

ترجمان کراچی پولیس کے مطابق اسپیشل سیکیورٹی یونٹ کی کمانڈ اینڈ کنٹرول بس مانیٹرنگ کیلئے موجود رہیگی جبکہ ایس ایس یو کے ماہر اسنائپرز مرکزی جلوس کے اطراف اور گزرگاہوں پر تعینات کئے گئے ہیں۔

اسپیشل سیکیورٹی یونٹ کی  ٹیمیں کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے کیلئے ہمہ وقت تیار ہیں۔

ذرائع کے مطابق کراچی پولیس کے سینئر افسران سمیت پولیس کے جوانوں کی بھاری نفری 12 ربیع الاول کے جلوسوں اور محافل کی نگرانی پر مامور ہیں۔

ترجمان کراچی پولیس 12ربیع الاول کے جلوس کیلئے ترتیب دیئے گئے ٹریفک کے متبادل روٹس سمیت مرکزی جلوس کے راستوں اور گزرگاہوں پر ٹریفک کی روانی کو برقرار رکھنے کیلئے ٹریفک پولیس کے افسران و جوان تعینات کئے گئے ہیں تاکہ عوام کو کسی بھی پریشانی سے محفوظ بنا کر ٹریفک کو رواں دواں رکھیں۔

کراچی پولیس 12 ربیع الاول کے جلوسوں اور محافل میں شرکت کرنے والے عاشقان رسول کو مکمل سیکیورٹی فراہم کر رہی ہے۔

کراچی پولیس نے اس حوالے سےعوام سے اپیل کی ہے کہ اپنے اردگرد پر نظر رکھیں اور کسی بھی مشکوک اور غیر معمولی صورت حال سے پولیس کو مددگار 15 پر فوری اطلاع دیں۔

ترجمان کراچی پولیس کا مزید کہنا ہےکہ عوام کے جان و مال کی حفاظت اور امن وامان کی بحالی کیلئے کراچی پولیس اپنا کردار ادا کرتی رہے گی۔

وزیراعظم عمران خان آئندہ ہفتے سعودی عرب کا دورہ کرینگے

اسلام آباد:  وزیراعظم عمران خان آئندہ ہفتے سعودی عرب کا دورہ کریں گے۔

ذرائع کے مطابق وزیراعظم کے دورہ سعودی عرب کے شیڈول کو حتمی شکل دی جارہی ہے، وزیراعظم سعودی قیادت سے ملاقاتیں کریں گے، وزیراعظم سعودی گرین انیشی ایٹو سمٹ میں شرکت کریں گے، وزیراعظم سعودی قیادت سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔

یاد رہے کہ چند روز قبل قومی اسمبلی میں  شوکت ترین نے تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ خام تیل کی عالمی قیمتوں میں اضافے کے بعد پاکستان نے سعودی عرب سے درخواست کی ہے، سعودی عرب کے ساتھ تیل کی فراہمی کا معاہدہ تکمیل کے قریب ہے۔ دو سے تین روز میں تفصیلات سامنے آ جائیں گی۔

یاد رہے کہ رواں سال جون کے مہینے میں پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں بہتری کے اشاروں کے بعد ریاض نے پاکستان کو ادھار تیل کی فراہمی کی سہولت بحال کر دی تھی۔

درآمدی تیل پر انحصار کرنے والے پاکستان کو سعودی عرب کی جانب سے ایک سال کی مؤخر ادائیگی پر 1.5 ارب ڈالر کا تیل فراہم کیا جائے گا۔ پاکستان کی وفاقی حکومت کی جانب سے یہ اعلان حماد اظہر اور اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی ریونیو وقار مسعود کی جانب سے کیا گیا تھا۔

سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کو مؤخر ادائیگی پر تیل کی فراہمی کی سہولت پہلی بار نہیں دی جا رہی اور ماضی میں بھی یہ سہولت پاکستان کو چند مرتبہ فراہم کی گئی۔ تاہم 1.5 ارب ڈالر مالیت کے تیل کی مؤخر ادائیگی پر فراہمی اس لحاظ سے اہمیت کی حامل ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان باہمی تعلقات میں گرم جوشی کے واپس آنے کی عکاسی کرتی ہے۔ جن میں کچھ عرصہ قبل کچھ رنجش پیدا ہو گئی تھی جس کی وجہ سے سعودی عرب نے تحریک انصاف کے دور حکومت میں دی جانے والی تین ارب ڈالر کی مؤخر ادائیگی پر تیل کی فراہمی معطل کر دی تھی۔

خیال رہے کہ پاکستان اپنی توانائی کی ضروریات کے لیے دس ارب ڈالر تک مصنوعات کو باہر کی دنیا سے منگواتا ہے اور آر ایل این جی کی درآمد سے توانائی کے شعبے کی درآمدات 14 سے 15 ارب ڈالر پہنچ جاتی ہے۔ پاکستان کی حکومت نے سعودی عرب سے سالانہ ڈیڑھ ارب ڈالر مالیت کے ادھار تیل کی سہولت دوبارہ دست یاب ہونے کی تصدیق کردی ہے۔

اقتصادی ماہرین کا کہنا تھا کہ ادھار پرتیل حاصل ہونے سے پاکستان کو زرِمبادلہ کے ذخائربرقرار رکھنے میں مدد تو ملے گی لیکن قرض بڑھے گا اور معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

گذشتہ سال سعودی عرب نے پاکستان کے ساتھ تعلقات میں گراوٹ کے باعث موخرادائیگیوں پر تیل کی فراہمی کے معاہدے پر عمل روک دیا تھا۔ سالانہ تین ارب ڈالر کے ادھار تیل کا معاہدے کے تحت سال 2020-2019 کے مالی سال میں پاکستان نے صرف پونے دو ارب ڈالر کی سہولت حاصل کی تھی۔

سعودی عرب نے 2018 کے آخر میں پاکستان کو چھ ارب 20 کروڑ ڈالر کا مالی پیکیج دیا تھا جس میں تین ارب ڈالر کی نقد امداد اور تین ارب 20 کروڑ ڈالرز کی سالانہ تیل و گیس کی موخرادائیگیوں کی سہولت شامل تھی۔

قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہئے شوکت ترین نے کہا کہ پاکستان کی ایکسپورٹ میں کمی اور امپورٹ میں اضافہ ہورہا، اس سال ساڑھے چار ارب روپے کی کورونا ویکسین خریدی گئی، گزشتہ سالوں میں گندم کی قیمت نہ بڑھانے سے پیداوار میں کمی ہوئی، موجودہ حکومت قلت کے باعث گندم امپورٹ کر رہی ہے۔

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ آج ہی ہم نے اہم فیصلہ کیا کہ ڈی اے پی بہت زیادہ سبسڈی دے رہے ہیں، چینی اور گندم کی کمی 30 سال سے حکومت کرنے والوں کی ناکامی ہے، گھبرانے کی ضرورت نہیں معیشت بہتر ہورہی ہے، اس سال 27 ملین ٹن گندم ہوئی ہم اس کو 30 ملین ٹن کا ہدف مقرر کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یقین دلاتا ہوں یہ وزیرخزانہ کہیں نہیں جارہا، پہلے بھی وزیرخزانہ اور سینیٹر رہ چکا ہوں، مجھے سینیٹر بنانے کی کوشش ہو رہی ہے، یہ وزیرخزانہ تو تنخواہ بھی نہیں لیتا۔

انسداد دہشتگردی فورس کا پنجاب بھر میں آپریشن ،4 دہشتگرد گرفتار، 3 مارے گئے

انسداد دہشتگردی فورس نے گزشتہ ایک ہفتے کے دوران 22 مشتبہ افراد کو حراست میں لیا، ان میں سے چار دہشتگردوں کو گرفتار کیا گیا جبکہ تین مارے گئے۔ انسداد دہشتگردی فورس کے صوبے بھر میں آپریشنز جاری۔ عمر دراز اور دو نامعلوم دہشتگرد سی ٹی ڈی کے ساتھ مقابلے میں ہلاک ہوئے۔ دہشتگردوں کے قبضے سے ہینڈ گرنیڈ ، اسلحہ، بارودی مواد اور دیگر سامان برآمد ہوا ہے۔ سی ٹی ڈی کے مطابق چنیوٹ، ساہیوال، راولپنڈی سمیت دیگر شہروں سے بھی دہشتگردوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔

کاروباری ہفتہ کے پہلے روز ڈالر کی اونچی اڑان، 92 پیسے مہنگا

انٹربینک میں امریکی ڈالر مزید مہنگا، پاکستانی روپے کے مقابلے قدر میں 92 پیسے اضافہ ہو گیا۔ کاروباری ہفتہ کے پہلے روز امریکی ڈالر تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا، 92 پیسے اضافے سے ڈالر 172 روپے 10 پیسے کا ہو گیا۔ معاشی تجزیہ کاروں نے ڈالر کی بڑھتی قیمت کو پاکستانی معیشت کیلئے منفی پیشرفت قرار دیا ہے۔

مریخ کے بعد ایک اور سیارے کی کھوج کا سفر

امریکی خلائی ادارے ناسا نے نظام شمسی کے فوصل کی دریافت کے لیے مریخ کے بعد مشتری یعنی جوپیٹر کی کھوج شروع کر دی ہے، جس کے لیے انہوں نے اپنا مشن روانہ کر دیا ہے۔ مشن کو لوسی کا نام دیا گیا ہے، اگلے 12 برس میں اس مشن پر 981 ملین امریکی ڈالر خرچ کیے جائیں گے۔ اس دوران لوسی مشن سات ٹروجنز کی جانچ اور ان کا مطالعہ کرے گا۔ 1974 میں ایتھوپیا میں دنیا کا قدیم ترین ڈھانچہ دریافت ہوا تھا ، جسے لوسی کا نام دیا گیا ، لوسی نامی اس ڈھانچے کی دریافت نے انسان کی ابتدا اور ارتقا کے متعلق نظریات کو بدل کر رکھ دیا۔ مشتری پر ٹروجن کی چھان بین کے لیے ناسا نے اپنے مشن کا نام اسی اولین انسانی ڈھانچے کے نام پر رکھا ہے۔ ریکی خلائی ایجنسی کے سائنسدانوں کے مطابق مشن سے سب سے بڑے سیارے کے مدار میں گیس کے بڑے ٹکڑے کے آگے اور پیچھے جو سیارچوں کا ایک غول ہے اس کا دو گروپس میں مطالعہ کیا جائے گا۔ ان کا ماننا ہے کہ یہ چیزیں اس سیارے کی تشکیل کے دوران بچ گئی تھیں اور نظام شمسی کی ابتدا کے بارے میں اہم معلومات ان باقیات میں چھپی ہو سکتی ہیں۔ ناسا کا کہنا ہے کہ اس تحقیق سے یہ بھی پتہ چل سکتا ہے کہ ہمارے نظام شمسی میں سیاروں کی موجودہ پوزیشن کے پیچھے کیا عوامل کار فرما ہیں۔

سانحہ کارساز کو14برس بیت گئے

سانحہ کارساز کراچی کو14 برس بیت گئے۔ المناک واقعے میں پیپلزپارٹی کے150 سے زائد کارکنان شہید اور 400 سے زائد زخمی بھی ہوئے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے جیالے ملک بھر سے سابق وزیرِاعظم بے نظیر کی وطن واپسی پر ان کا استقبال کرنے کراچی پہنچے تھے۔ عوام کا ایک جم غفیر محترمہ کے استقبال کے لیے موجود تھا۔ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹوکا قافلہ جلسہ گاہ کی طرف بڑھ رہا تھا۔ کاروان کو اس وقت خون میں نہلادیا گیا جب وہ کارساز پہنچا۔ ٹھیک رات بارہ بج کر 52 منٹ پر 50 سیکنڈ کے وقفے سے یک بعد دیگرے دو دھماکے ہوئے۔ کیس کے دومقدمات درج کئےگئے۔ دوسری ایف آئی آر سندھ کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے درج کرائی۔ دھماکے کی جگہ کو بھی اسی رات دھو دیا گیا تھا، جس کی وجہ سے کئی اہم ثبوت ضائع ہوگئے۔ پولیس نے مختلف افراد کو حراست میں لیا لیکن ٹھوس ثبوت نہ ملنے پر ان کو بھی رہا کردیا گیا۔ محترمہ نے اپنی کتاب میں جس حزب المجاہدین کے قاری سیف اللہ اختر کا ذکر کیا۔ اس سے بھی تفتیش کی گئی۔ سیف اللہ کا امیگریشن ریکارڈ چیک کیا گیا تو پتہ چلا کہ محترمہ کے کراچی کے جلوس میں دھماکے کے وقت وہ دبئی میں تھا اس لئے اسے چھوڑ دیا گیا، جوبعد میں ڈرون حملے میں مارا گیا تھا۔ اس کیس کے انویسٹی گیشن آفیسر ڈی ایس پی نواز رانجھا کو بھی قتل کردیا گیا تھا۔ بےنظیر بھٹو کی شہادت کی تفتیش کرنے والے اقوام متحدہ کے کمیشن نے کراچی کا بھی دورہ کیا اور اس واقعہ کے بارے میں معلومات اکٹھی کیں۔ تفتیشی ٹیم کی جانب سے دوسری ایف آئی آر کا سبب بننے والے محترمہ بے نظیر بھٹو کا وہ اہم خط بھی بارہا درخواست کے باوجود تفتیشی حکام کو نہیں ملا ہے جس کی وجہ سے تفتیش آگے نہ بڑھ سکی۔

ایلون مسک نے ایک بار پھر جیف بیزوس کو شکست دے دی

ایلون مسک نے ایک بار پھر جیف بیزوس سے دنیا کا امیر ترین شخص ہونے کا خطاب چھین لیا۔ ٹیسلا اور اسپیس ایکس کے بانی ایلون مسک کی دولت کی مجموعی مالیت 230 بلین ڈالر تک پہنچ گئی ہے جس کے بعد وہ ایمازون کے مالک جیف بیزوس کو ایک بار پھر ہرانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ ایلون مسک گزشتہ سال کے وسط میں ہی فوربزکی ٹاپ دس ارب پتیوں کی فہرست میں شامل ہوئے تھے لیکن اب وہ اس پر راج کر رہے ہیں۔ ڈیلی میل کے مطابق اسپیس ایکس نے 8 اکتوبر کو 100 بلین ڈالر کے شئیرز فروخت کیے جس سے کمپنی کی دولت میں ایک دم اضافہ ہوا، شیئرز کی قیمت میں 33 فیصد اضافہ نے کمپنی کے حصص کو 100 اعشاریہ 3 بلین تک پہنچا دیا جو فروری میں 74 بلین ڈالرز پر تھی۔ اس وقت بل گیٹس اور وارن بفٹ دونوں کی دولت ملا کر بھی ایلون مسک کی دولت سے زائد نہیں ہے۔ اسپیس ایکس کے بانی نے اپنی خوشی کو بھی الگ انداز میں منایا۔ انہوں نے اپنے حریف جیف بیزوس کی ٹوئیٹ کے نیچے دوسری پوزیشن کا میڈل شئیر کر کے انہیں مقابلے میں اپنی جیت سے آگاہ کیا۔ لیکن اس بار جیف بیزوس اپنے کام سے زیادہ اپنی نجی زندگی میں مصروف ہیں، جہاں ایلون مسک ان کا تخت چھین رہے تھے وہیں ایمازون کے مالک اپنی دوست کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے نیویارک میں سیر کر رہے تھے۔ ایمازون اور بلیو اوریجن کے بانی جیف بیزوس اس وقت 197 بلین ڈالرز کی مالیت کے ساتھ دنیا کے دوسرے امیر ترین شخص ہیں۔ یاد رہے اس سے پہلے بھی ایلون مسک نے جیف بیزوس سے دنیا کا امیر ترین شخص ہونے کا خطاب چھینا تھا لیکن صرف دو دن بعد ہی جیف بیزوس نے ان سے اپنا خطاب واپس لے لیا تھا۔

اسکوئیڈ گیم کی آمدن ڈیڑھ کھرب روپے سے اوپر جانے کا امکان

نیٹ فلکس سیریز’اسکوئیڈ گیم‘ ڈالر کمانے کی مشین بن گئی ہے۔ سیریز کی لاگت ساڑھے تین ارب روپے تھی اور اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ اس کی آمدن ڈیڑھ کھرب روپے سے اوپر چلی جائے گی۔ رپورٹ کے مطابق اسکوئیڈ گیم کو ابتدائی 23 دنوں میں 132 ملین افراد نے کم از کم دو منٹ کے لئے دیکھا۔ اس نے برطانیہ کے معروف ڈرامے’بریجرٹن‘ کا ریکارڈ توڑا جسے آن ایئر ہونے کے 28 دنوں میں 82 ملین اکاوئنٹس نے اسٹریم کیا تھا۔ جنوبی کوریا میں فلمائی گئی یہ سیریز نو اقساط پر مشتمل ہے۔ اس سنسنی خیز ڈرامہ سیریز میں قرض میں ڈوبے لوگوں کو 45.6 ارب (3 کروڑ 80 لاکھ ڈالر) جیتنے کا لالچ دے کر بچوں کے کھیل کھلائے جاتے ہیں اور ہارنے والے کو گولی مار دی جاتی ہے۔ یہ سیریز نیٹ فلیکس پر دنیا کی نمبر ون سیریز بن چکی ہے۔ نیٹ فلیکس کے مطابق شو شروع کرنے والے 89 فیصد لوگوں نے اسکوئیڈ گیم کی ایک سے زیادہ قسطیں دیکھیں۔ اور 66 فیصد ناظرین نے پہلے 23 دنوں میں اس سیریز کو مکمل طور پر دیکھ لیا۔ اسکوئڈ گیم امریکا میں بھی نیٹ فلکس پر پہلی نمبر پر ہے۔

دوستا سوچی وی ناں

انجینئر افتخار چودھری
خالد منہاس بڑا تگڑا صحافی ہے لفظ لکھتا ہے تو جی چاہتا ہے قلم کی مدح سرائی میں کوئی قصیدہ لکھا جائے البتہ متن سے اختلاف کی گنجائش رہتی ہے انہوں نے ایک کالم لکھا ہے جو پاکستان کے ایک ابھرتے ہوئے روزنامے میں چھپا ہے۔ فرماتے ہیں حکومت کے نیچے سے قالین سرک رہا ہے۔میں یہ تو دعوی نہیں کرتا کہ میں عمران خان کا بہت قریبی ہوں خاص طور پر حکومت بننے کے بعد وہ میری پہنچ سے بہت دور ہیں۔ ابھی فردوس عاشق اعوانوں اورندیم چنوں کے چن چڑھانے کے دن ہیں۔ جب پیارے قائد رج جائیں گے تو ہم بھی مستفید ہو جائیں گے لیکن پارٹی کی بڑی ذمہ داری کے لئے مجھے سیف اللہ نیازی نے چنا ہے اور مرکزی سپوکس پرسنز لسٹ میں بھی احمد جواد نے اعتماد کر رکھا ہے۔یہی وجہ ہے کہ سینٹرل ایڈوائزر ٹریننگ کی اضافی ذمہ داری بھی پارٹی قیادت ہی نے دی ہے۔میڈیا کا ایک بڑا گروپ بھی چلا رہا ہوں۔ پی ٹی آئی میڈیا کالمسٹ گروپ میں میرے ساتھ کوئی سو کے قریب صحافی ہیں یہ تو تھی دیسی گھی کی طاقتیں۔اب میں فرزند شکر گڑھ اور یار جدہ خالد منہاس ابو عبداللہ کو جواب دینا چاہوں گا۔پہلی بات تو یہ ہے میرے بھائی نہ تو عمران خان کسی فرش مخمل پر چل رہے ہیں اور نہ ہی کسی دبیز قالین پر۔پہلے دن سے ہی وہ انہی پتھروں پر چل رہے ہیں جن پر چلنے کا حوصلہ کوئی کوئی کرتا ہے۔2018 کے انتحابات میں عمران خان کو کہیں کی اینٹ اور کہیں کا روڑا لے کر حکومت بنانا پڑی۔کھوبے میں پھنسی گاڑی کو باہر نکالنے میں انہی دوستوں نے زور لگایا۔ہم تو خوش ہیں وہ کسی نے کیا خوب کہا سب کو دو اور ہمیں بھی نہ بھولو۔کہ ہم چاہنے والے ہیں تیرے
اوروں پہ کرم اپنوں پہ ستم اے جان وفا یہ ظلم نہ کر۔یہ ظلم نہ کر۔
قارئین! ہم کون سا شکوہ کرتے ہیں۔ دل لگی ہے اپنے لیڈر کے ساتھ سامنے بھی ہوں تو ایسے ہی کہتے ہیں اب اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اس نے یہ ساری جد وجہد معین قریشی اور شوکت عزیز‘ راجہ پرویز اشرف اور یوسف رضا گیلانی بننے کے لئے کی ہے تو اسے اپنے ذہن سے یہ بات نکال لینی چاہئے
اہم بات یہ ہے کہ اگر عمران خان نے کوئی کام غلط کہے ہوتے تو وہ بچھ بچھ جاتا وہ لوگ جو اسے کٹھ پتلی سمجھتے تھے آج وہ دوسری جانب کھڑے ہو کر درفنتنیاں چھوڑ رہے ہیں۔ انہیں کج نہیں لبھے گا۔جو کچھ نہ کر سکے وہ کسی کو کچھ کرتا دیکھ کر بھی نادم نادم سے ہیں۔
میں بات کو آگے بڑھانے سے پہلے یہ بات ضرور کروں بلکہ ایک چھوٹی سی نشست کی بات سنا کر آگے بڑھتا ہوں۔دو روز پہلے شہباز گل سے میرا وقت طے تھا اس وقت وہ پنجاب ہاؤس نہیں پہنچ سکے لیکن جیسے ہی وہاں سے گڈی کے کے نکلا تو کال آ گئی کہ پلیز واپس آئیے گل صاحب آگئے ہیں۔ملاقات ہوئی گل بات ہوئی اور گلوں گلوں میں ایک کم دی گل یہ بتائی کہ انجنیئر صاحب خوش قسمتی جسے luck کہتے ہیں یہ اللہ کی جانب سے ہوتی ہے ورنہ جتنا کام بھائی عمر چیمہ اور آپ کا ہے وہ کیا عمران خان کو نہیں معلوم لیکن جس دن اللہ نے چاہا حکومتی ذمہ داری بھی مل جائے گی میں نے بر وقت کہا ہمیں بھی کوئی کالہی نہیں۔ قارئین میرا کالم کوئی کالم ہوتا ہے یہ تو میں دل کی باتیں اور دل کے ساز کے تار تڑن کر کے چھیڑ دیتا ہوں ضیا شاہدصاحب اور مجیب شامی‘ الطاف حسن قریشی‘مجید نظامی جیسے لوگوں کو پسند آجاتا ہوں۔میں دراز قد خوبصورت باتوں کے شہنشاہ شہباز گل کی باتیں سن رہا تھا۔کبھی کبھی چھوٹے میاں کو سپیڈ شریف کہا جاتا تھا اب شہباز گل کے لیے اتنا ہی کہوں گا۔
تینوں رب دیاں رکھاں
فرخ حبیب کو اور فواد چوہدری کو یاد کر رہا تھا کہ یہ بہترین ٹیم ہے جو میرے قائد کا دفاع کر رہی ہے۔
باقی فیاض چوہان کی بات ہی الگ ہے لیڈر اور صوبائی اسمبلی کا۔ممبر بننے میں فرق ہوتا ہے۔بندے کو اچھے دن یاد کرنے چاہئیں۔ اللہ کی ذات نے انہیں عمران خان کی نمائیندگی کرنے کے لیے چن لیاہے ہم پارٹی کا پرچم تھامے کسی اور میدان میں نکل گئے آخر انڈین میڈیا پر جو چھترول میں کرتا ہوں ان کے پاس وہ محاذ تو نہیں ہے۔لہٰذا خالد منہاس بھائی سے کہنا چاہوں گا کہ قالین ایک دو بندوں کی نوکری اپوائنٹمنٹ سے نہیں سرکا کرتے۔عمران خان اس ملک کے کروڑوں لوگوں کا چہیتا ہے اور آج بھی اس کی کال پر میدان بھر جاتے ہیں۔
ایک ڈی جی آئی ایس آئی کی پوزیشن کی وجہ سے ٹکراؤ ہو جائے گا یہ ہو جائے گا وہ ہو جائے گا خدا کے بندو یہ بابے شیخ کی ہٹی ہے جو لٹ جائے گی پٹ جائے گی۔یا یہ دونوں بڑے اسکول بوائے ہیں کہ معمولی سی بات پر تھو کر لیں گے اور بولیں گے نہیں۔اصل میں وہ طبقہ جسے ہمیشہ یہ بات پسند رہی کہ پاکستان میں ہنگامے ہوتے رہیں شور شرابے چلتے رہیں سب کچھ ہو امن نہ ہو۔
دوستو!جمہوریت جتنی پاکستان میں،، کمزور،، دکھائی جا رہی ہے اتنی ہے نہیں۔سیانے کہتے ہیں کہ زنجیر اتنی ہی کمزور ہوتی ہے جتنی اس کی کمزور کڑی۔ عمران خان دوسری کڑیوں کی طرح ایک مضبوط کڑی ہے جس نے اپنے پاؤں کے نیچے،،کھیڑی،، پہنی ہو جس کے سول،،ٹائر کے ہوں وہ سلپ نہیں کرتا اور سب سے زیادہ طاقت کیا سبز گنبد والا اسے اکیلا چھوڑے گا اور ان دنوں میں جب،،ہفتہ رحمت اللعالمین،،منانے جا رہا ہو اور منائے عمران خان۔ دوستا سوچی وی ناں۔
(تحریک انصاف شمالی پنجاب کے سیکرٹری اطلاعات ہیں)
٭……٭……٭

ہماری بدقسمت تاریخ

اسرار ایوب
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے انتقال پر ایئر مارشل اصغر خان صاحب(مرحوم) کا ایک انٹرویو یاد آگیا، اُن سے پوچھا گیا کہ آپ اتنے بااصول اور سچے ہیں تو سیاست میں مقبول کیوں نہیں ہوئے؟جواب میں اصغرخان صاحب نے یہ دلچسپ سوال کیا کہ میں مقبول نہیں ہوا تو کون ہوا، ”بابائے قوم“ جنہیں شدید علالت کی حالت میں کراچی لایا گیا تو ایئر پورٹ پر ایک ایسی ایمبولنس بھیجی گئی جو راستے میں ہی خراب ہو گئی، یا لیاقت علی خان جنہیں عین جلسے میں قتل کر دیا گیا اور قاتل تاحال نہیں مل سکا، یا”قائدِ ملت“ کے بعد6برس میں تبدیل کئے گئے6وزرائے اعظم جن میں حسین شہید سہروردی جیسی ہستی بھی شامل تھی،یا”مادرِ ملت“جن کے بارے کیا کچھ نہیں کہا گیا،یا ایوب خان جنہیں اتنا بے عزت کیا گیا کہ اقتدار چھوڑنے پر مجبور ہوگئے، یا ذولفقار علی بھٹو جن کی لاش تک نہیں ملی، یا ضیاالحق جن کوبم دھماکے میں اڑا دیا گیا؟
ایئر مارشل صاحب کے انٹرویو تک یہی سب لوگ مقبول ہوئے تھے سو انہوں نے انہی مثالوں پر اکتفا کیا لیکن کون نہیں جانتا کہ مقبولیت کا یہ سلسلہ اس کے بعد بھی جاری و ساری رہا، پروزیر مشرف پر غداری کا کیس چلا اور وہ بیرونِ ملک چلے گئے، بے نظیر بھٹو کو سرِعام قتل کر دیا گیا اور ان کا قاتل پیپلز پارٹی کی اپنی حکومت میں بھی نہیں پکڑا جا سکا۔ نواز شریف اور آصف زرداری کے حالات بھی سب کے سامنے ہے، اور عمران خان کاجو حال ہو رہا ہے وہ بھی سب اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں؟ قصہ مختصرکوئی اچھا تھا یا بُرا ہم نے کسی کو بھی نہیں چھوڑاکہ یہی ہمارا قومی وطیرہ ہے۔
بچپن کے دنوں میں ہماری اردو کی کتاب میں ”محسنِ پاکستان“کے عنوان سے ایک مضمون شامل ہوا کرتا تھا جس کے ذریعے ہمیں پہلی مرتبہ پتہ چلا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہمارے قومی ہیرو ہیں تو ہم اسی تصور کے ساتھ بڑے ہوئے لیکن پھر جنرل مشرف کی حکومت آ گئی اور ہمیں یہ باور کرایا جانے لگا کہ ہمارے بچپن کا یہ سبق حقیقت پر مبنی نہیں تھا۔صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ڈاکٹر صاحب کو بطورِ مجرم امریکہ کے حوالے کئے جانے کی باتیں تک منظرِ عام پر آنے لگیں جن پرڈاکٹر صاحب تادمِ مرگ رنجیدہ رہے۔توکیا وہ بچے قومی ہیرو بننے کا تصوربھی ذہن میں لا سکتے ہیں جنہوں نے ”محسنِ پاکستان“کو اپنے ساتھ ہونے والے سلوک کے خلاف سڑکوں پر بیٹھ کر احتجاج کرتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا؟یہی نہیں بلکہ وہ اس بات کے بھی چشم دید گواہ ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کی نمازِ جنازہ میں کون آیا اور کون نہیں آیا؟بالفرضِ محال ڈاکٹر صاحب ”محسنِ پاکستان“نہیں بھی تھے تو بھی حکمرانوں کو کم از کم اس سبق کی لاج تو رکھ لینی چاہیے تھی جوہمیں سکولوں میں پڑھایا جاتا رہا۔
مشہور شاعر،فلسفی اور مصورجبران خلیل جبران(1883-1931)نے اپنی ایک نظم(Pity the Nation)میں ایک”شرمناک قوم“کے متعلق کہا تھا کہ وہ عقائد سے بھری لیکن مذہب سے خالی ہوتی ہے،وہ کپڑا پہنتی ہے جو خود نہیں بُنتی،وہ روٹی کھاتی ہے جو اس کے اپنے کھیتوں میں نہیں اُگتی، غنڈوں کو ہیرو قرار دیتی ہے اور ہر غالب آنے والے کو جھولی بھر بھر کے درازیء عمر کی دعا ئیں دیتی ہے،اس کی آوازجنازوں اورماتمی جلوسوں کے سوا کہیں بلند نہیں ہوتی، اپنے کھنڈرات پر ناز کرتی ہے، اس وقت تک بغاوت پر آمادہ نہیں ہوتی جب تک موت کے منہ میں نہ پہنچ جائے۔اس کے سیاست دان اور سفارت کار لومڑ اور فلسفی مداری ہوتے ہیں،تخلیق سے عارعی ہوتی ہے اور اس کا ہُنر نقالی ہوتا ہے،ہر حکمران کا استقبال خوشی کے نقارے بجاکر کرتی ہے اور آوازے کَس کَس کے اسے رخصت کرتی ہے تاکہ اس کے بعد والے کو بھی شادیانوں کے ساتھ خوش آمدید کہہ کر گالیوں کے ساتھ گڈبائے کہہ سکے۔ قومی یکجہتی سے دور ہو کر اس طرح ٹکڑے ٹکڑے ہو چکی ہوتی ہے کہ ہر ٹکڑا خود کو ایک الگ قوم تصور کرنے لگ جاتاہے۔
جبران نے جو کہا اسے پاکستانی قوم کے حالات کو سامنے رکھ کر ایک مرتبہ پھرپڑھیے اور سوچیے کہ کیا اُس نے ہمارا ہی نوحہ نہیں لکھا؟پاکستان کا ماحول اول تو ایسا ہے ہی نہیں کہ یہاں فی الواقعہ کوئی ہیرو پیدا ہوکہ یہ معاشرہ نااہلی اور کرپشن کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ بالفرضِ محال کوئی ہیرو پیدا ہو بھی جائے تو ہم اُس پر یوں کیچڑ اچھالنا شروع کر دیتے ہیں جیسے کوئی قومی فریضہ انجام دے رہے ہوں۔
یاد رکھیے کہ کسی قوم کی تاریخ دراصل اُن لوگوں کی سوانح عمری ہوتی ہے جنہیں وہ اپنا ہیرو سمجھتی ہے، یہ میں نہیں کہتا بلکہ مشہور سویڈش مورخ ”تھامس کارلائل“کہتے ہیں جوریاضی اور فلسفے کے ماہر بھی تھے، تاریخ پر اُن کی مشہور کتاب کا نام ہے ”آن ہیروز، ہیرو ورشِپ اینڈ دِی ہیرواِک اِن ہسٹری“۔ اس کتاب میں اُنہوں نے دنیا کی اُس وقت تک کی تاریخ کو چھ ابواب میں تقسیم کئے گئے ہیروز کی سوانح عمری قرار دیا ہے(ہیرو بطور دیوتا، ہیرو بطور پیغمبر، ہیرو بطورشاعر، ہیرو بطور پادری، ہیرو بطور صاحب علم، اور ہیرو بطور بادشاہ)۔’ہیروبطور پیغمبر‘والے باب میں فقط ایک ہی نام درج ہے اور وہ ہے خدا کے آخری اور ہمارے پیارے نبیؐ کا (جبکہ کارلائل مسلمان نہیں تھے)، اس کتاب پر کسی اور وقت تفصیل سے بات کریں گے فی الوقت یہ بتانا مقصود ہے کہ اسلام کی اولین تاریخ نبی مکرم محمدؐ کی”آٹو بائیو گرافی“کے سوا کچھ نہیں۔
کارلائل کے فارمولے کو یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ جو قوم جیسے لوگوں کو اپنا ہیرو تصور کرتی ہے ویسی ہی خود بھی بن جاتی ہے یا جو قوم جیسی خود ہوتی ہے ویسے ہی لوگوں کو اپنا ہیرو بھی مانتی ہے۔اس اُصول کو مدِ نظر رکھا جائے تو وطنِ عزیز کی بدقسمت تاریخ پر حیران ہونے کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔
(کالم نگار ایشیائی ترقیاتی بینک کے کنسلٹنٹ
اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں)
٭……٭……٭