محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کومکمل سرکاری اعزاز کیساتھ سپرد خاک کردیا گیا

محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کواسلام آباد کے ایچ 8 قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا۔قبل ازیں ان کی کی نماز جنازہ فیصل مسجد میں ادا کی گئی تھی جس میں وفاقی وزرا، اراکین پارلیمنٹ اور عسکری قیادت نے شرکت کی۔
بتایا گیا ہے کہ نماز جنازہ کے موقع پر عوام کی بڑی تعداد بھی موجود تھی، سکیورٹی اداروں نے اس دوران سخت حفاظتی انتظامات کررکھے تھے۔ ڈاکٹر اے کیو خان کی تدفین اسلام آباد کے ایچ 8 قبرستان میں مکمل سرکاری اعزاز کے ساتھ کی گئی۔
یاد رہے کہ ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان آج صبح مقامی ہسپتال میں انتقال کر گئے تھے۔ گذشتہ شب پھیپھڑوں کے عارضے کے سبب ان کی طبعیت خراب ہوئی جس پر انہیں فوری طور پر ہسپتال منتقل کیا گیا تھا، آئی سی یو میں ڈاکٹروں کی جان توڑ کوششوں کے باوجود وہ جانبر نہ ہو سکے۔ صدر ، وزیراعظم سمیت سیاسی رہنماوں اور عسکری قیادت نے ان کی وفات پر شدید رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔

نبی آخر الزماں ﷺ کی سیرت طیبہ پر عمل ہی کامیابی کا واحد راستہ ہے:وزیراعظم

عشرہ رحمت اللعالمین ﷺ کا باقاعدہ آغاز ہوگیا، اسلام آباد میں مرکزی تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں وزیراعظم عمران خان نے نوجوانوں کو خصوصی پیغام دیتے ہوئے کہا کہ نبی آخر الزماں ﷺ کی سیرت طیبہ پر عمل ہی کامیابی کا واحد راستہ ہے، عشرہ رحمت اللعالمینﷺ کے آغاز پر فخر محسوس کررہا ہوں،میری والدہ نے ہمیشہ مجھے سیدھے راستے پر چلنے کی دعا مانگنے کا کہا جیسا میں آج ہوں ویسا پہلے کبھی نہیں تھا۔
اسلام آباد میں عشرہ رحمت اللعالمینﷺ کی مرکزی تقریب کا انعقاد کیا گیا۔تقریب کا آغاز تلاوت کلام مجید سے کیا گیا جبکہ تقریب میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے لئے فاتحہ خوانی بھی کی گئی۔
تقریب سے خطاب کرنے سے پہلے وزیراعظم عمران خان نے محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے لئے فاتحہ خوانی کروائی۔ انہوں نے کہا کہ روزانہ اپنی زندگی کا تنقیدی جائزہ لیتا ہوں،18سال کی عمر میں پہلی مرتبہ انگلینڈ گیا،جیسا میں آج ہوں ویسا پہلے کبھی نہیں تھا، موجودہ دور میں نوجوان نسل دباؤ کا شکار ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ زندگی میں دو راستے ہوتے ہیں،ایک راستہ ناجائز دولت کمانے کا اور دوسرا سیرت نبیﷺ پر عمل کرنے کا ہے،اللہ ہمیں نبی ﷺ کی زندگی سے سیکھنے کا کہتا ہے۔

اگلے انتخابات میں مرکز‘ پنجاب کا راستہ ”شاہراہ جنوبی پنجاب“ سے گزر کر آئیگا

2018  کے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے مرکز‘ پنجاب‘ خیبرپختونخوا میں اکثریت   حاصل کرکے حکومت بنائی‘ انتخابات کے 3 مہینے قبل ”جنوبی پنجاب محاذ“ کے کچھ اراکین جوکہ اس وقت کی حکمران جماعت مسلم لیگ ن میں شامل تھے‘ اسے چھوڑ کر ایک نیا اتحاد قائم کیا جس کا مقصد ”جنوبی پنجاب“ کے صوبے کی تحریک کو فعال کرنا‘ خانیوال سے لیکر صادق آباد تک مشتمل اس خطے کے پسماندہ علاقوں جہاں سے وہ جیتتے آئے ہیں‘ کی ترقی کے لئے ترقیاتی فنڈحاصل کرنا اور ایک پریشر گروپ بنانا جو آنے والی ہر حکومت پر جنوبی پنجاب کے صوبے اور نعرے کو اقتدار کے طاقتور ایوانوں تک پہنچا سکے۔ 2018ء کے الیکشن سے قبل یہ نیااتحاد ”جنوبی پنجاب محاذ“ اپنے ایم این ایز اور ایم پی ایز کے ساتھ پاکستان تحریک انصاف میں ضم ہوجاتا ہے اور موجودہ وزیراعظم عمران خان پر اعتماد کا اظہار کرتا ہے۔ الیکشن ہوتا ہے‘ تحریک انصاف دو صوبوں اور مرکز میں اپنی حکومت تشکیل دیتی ہے اور اس وقت معلوم ہوتا ہے کہ اس خطے سے منتخب ہونے والے قومی اور صوبائی اسمبلی کے اراکین اگرعمران خان کا ساتھ نہ دیتے تو وزیراعظم عمران خان کا مرکز اور پنجاب میں حکومت بنانا ناممکن تھا۔ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور سے ہی جنوبی پنجاب سے الگ صوبے کی آوازیں آنا شروع ہوگئی تھیں‘ پیپلز پارٹی کی حکومت نے یوسف رضا گیلانی کو ملتان سے تعلق ہونے کی وجہ سے وزیراعظم بنایا۔ انہوں نے بھی جنوبی پنجاب کے صوبے کا نعرہ لگایا لیکن اسمبلیوں میں اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے وہ نعرہ ہی رہ گیا۔ اس کے بعد مسلم لیگ ن کی حکومت میں بھی جنوبی پنجاب کی الگ حیثیت کے لئے نعر ے لگتے رہے اور پاکستان تحریک انصاف نے اسی خطے کو 90 دن کے اندر صوبہ بنانے کا اعلان کیا تھا۔ خیر صوبہ تو تاحال نہ بن سکا کیونکہ سیاسی جماعتوں کے اندر اس مسئلے پر کوئی ٹھوس اور سنجیدہ کوشش نہیں ہوئی البتہ اس کا پورا پیپر ورک اور ڈرافٹنگ پیپلز پارٹی کے دور میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے وقت میں ہوئی اور پارلیمانی کمیٹیوں نے صوبے کے انتظامی اور دیگر لوازمات پر کام کیا جس کا پیپر ورک ابھی بھی قومی اسمبلی کی الماریوں اور درازوں میں موجود ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے جب پنجاب جیتنے کے بعد صوبے کے وزیراعلیٰ کا انتخاب کیا تو ان کا تعلق بھی جنوبی پنجاب کے ایک پسماندہ علاقے سے تھا۔ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے دور میں اس پسماندہ لیکن ثقافتی طور پر مضبوط خطے کے لئے ملتان اور بہاولپور میں الگ سیکرٹریٹ تو قائم ہوئے جو اس بات کی تصدیق تھی کہ جنوبی پنجاب کا الگ صوبہ بننا کتنا ضروری اور وقت کی ضرورت ہے۔ نہ صرف انتظامی معاملات کو تیز ترین بنانے بلکہ وفاق پاکستان کو مضبوط کرنے کے لئے بھی ضروری ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کو دو حصوں میں تقسیم کرکے پیچھے رہ جانے والے علاقوں کو آگے لایا جائے۔ وزیراعظم عمران خان پہلے دن سے اپنی ہر تقریر میں یہی بات کہتے آئے ہیں کہ جوعلاقے پچھلے 20 سال میں پیچھے رہ گئے‘ ان میں ترقیاتی کاموں پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے البتہ جنوبی پنجاب کے صوبے کے حوالے سے صرف دو شہروں میں سیکرٹریٹ بننے کے علاوہ تاحال کوئی عملی اقدام نہیں ہو پایا۔ جنوبی پنجاب محاذ کے ممبران قومی اور صوبائی اسمبلی جو 2018ء کے الیکشن میں تحریک انصاف میں شامل ہوئے اور الگ صوبے کانعرہ لگایا‘ جس پر انہوں نے الیکشن لڑا اور جیتا‘ ا ن کی کاوشیں بھی ایک بار پھر اقتدار کے ایوانوں میں شامل ہونے کے بعد مدھم اور مخدوش ہوگئیں اور غالباً ان کے کرتا دھرتا وزراء اور مشیران جنوبی پنجاب کے عوام سے کیا گیا اپنا وعدہ وفا نہ کرسکے۔
اس صورتحال کے اندر جنوبی پنجاب کے خطے کے عوام اس کے منتظر ہیں کہ ہماری سیاسی جماعتیں اس خطے کی محرومی اور پستی کو دیکھتے ہوئے اپنی پوری توجہ صوبے کے قیام پر مختص کریں لیکن تاحال اس حوالے سے کوئی سنجیدہ پیش رفت نہیں ہو پائی۔ صوبہ جنوبی پنجاب کے نعرے کے ایک اور چمپئن جہانگیر خان ترین بھی رہے ہیں لیکن وہ بھی اپنے کیسز اور شوگر سکینڈلز کی زد میں آکر منظر سے غائب ہیں۔ 2023ء میں عام انتخابات ہونے جارہے ہیں۔ شنید ہے کہ شاید 2022ء کے آخر تک بھی ہو جائیں البتہ جنوبی پنجاب کے وہ منتخب نمائندے جنہوں نے ہر بار کبھی محاذ بناکر‘ کبھی ٹوپیاں بدل کر تو کبھی سیاسی قلابازیاں لگا کر وہاں کے رہنے والوں کو ایک آس اور سہارا دیا کہ وہ ان کے ووٹ سے اس صوبے کا نعرہ مزید بلند کریں گے‘ ان کو شاید اس بات کا ادراک نہیں کہ ان کے ووٹ سے اقتدار میں ایوانوں میں بیٹھے یہ وزراء‘ مشیران کے لئے عوام میں کتنا غصہ ہوگا جب وہ اگلے الیکشن سے پہلے ان سے ووٹ مانگنے جائیں گے۔ اگلے عام انتخابات سے قبل جنوبی پنجاب میں بہت توڑ پھوڑ ہوگی‘ کئی سیاسی ہیوی ویٹ ٹوپیاں بھی بدلیں گے اور جماعتیں بھی اور لیڈر بھی۔ کیونکہ اس خطے سے منتخب ہونے والے عوامی نمائندے کسی بھی مرکزی یا صوبائی حکومت کی تشکیل میں اہم پوزیشن رکھتے ہیں۔ حال ہی میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور پنجاب میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز شریف نے بھی اس خطے کا رخ کیا۔ اتفاق سے میری دونوں سے ہی بہت اچھی سلام دعا اور بے تکلفی ہے لہٰذا میں کھل کر ان سے اس خطے میں موجود مسائل پر بات کرلیتا ہوں۔ پیپلز پارٹی 20 سے 22 قومی اسمبلی کی سیٹوں پر بہت متحرک ہوگی اور اس کی نظر بھی انہیں حلقوں میں ہے جہاں ان کے خیال میں پی ٹی آئی یا مسلم لیگ ن کو چت کیا جاسکتا ہے اور اس کا ثبوت بلاول بھٹو زرداری کے دورہ جنوبی پنجاب کے ان ضلعی صدر مقامات کے دوروں سے ملتا ہے۔ قائد حزب اختلاف پنجاب حمزہ شہباز ایک متحرک سیاسی ورکر رہے ہیں‘ اپنے تایا اور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اور اپنے والد اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کی جلاوطنی کے دوران جس طرح انہوں نے مسلم لیگ ن کوخاص طور پر پنجاب میں ”Active & Alive“ رکھا اور پورا وقت سابق صدر مشرف کے دور میں پنجاب کے اندر متحرک رہے‘ وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ میں نے ان سے اپنی آخری ملاقات میں بھی ان کے پنجاب بھر کے دوروں کا ذکر کیا اور اب شنید ہے کہ وہ جنوبی پنجاب کے دورے کے بعد وسطی/ سنٹرل پنجاب کے ضلع وار دوروں پر نکل رہے ہیں۔ میں ہمیشہ یہ کہتا آیا ہوں کہ اپنے والد کی طرح ان کی انتظامی صلاحیتیں وقت کے ساتھ ساتھ نکھر رہی ہیں لہٰذا ان کے لئے پنجاب بھر میں تیزی کے ساتھ متحرک ہونا‘ ان کی پارٹی کے اندرونی اختلافات کو بھی ختم کرسکتا ہے اور میں جانتا ہوں کہ ان کو اس بات کا بہت اچھی طرح علم ہے۔ ان کے حالیہ دورے میں خانیوال‘ ملتان‘ لودھراں‘ راجن پور‘ مظفر گڑھ شامل تھے جہاں پر پارٹی سے کچھ ناراض اور کچھ خفاء ہوکر الگ ہونے والے دوبارہ مسلم لیگ ن میں شامل ہوئے اور نواز شریف‘ شہباز شریف او ر حمزہ شہباز کی قیادت پر اعتماد کیا۔ حمزہ شہباز کے دورے میں میری ذاتی معلومات بھی یہی ہے کہ بہت محنت کی گئی اور شہباز شریف کے ترجمان ملک احمد خان اور عمران گورائیہ نے بہت بھاگ دوڑ کی البتہ یہ تمام کوششیں لوگوں کو اس وقت پسند آئیں گی جب ان کو کسی قسم کا ریلیف ملے گا۔ ان کے اس دورے میں کچھ مقامی لیڈران کی آپسی چپقلش بھی سامنے آئی لیکن مجموعی طور پر پنجاب اور خصوصاً اس خطے میں اسی سیاسی لیڈر اور سیاسی جماعت کو ووٹ ملے گا جو ان کے زخموں پر مرہم رکھے گا اور ان کے ساتھ کئے گئے وعدے کی پاسداری کریگا۔ جیسے میں نے پہلے بھی لکھا کہ اس خطے سے آنے والی آواز ہمیشہ اقتدار کے ایوانوں تک تو پہنچتی ہے لیکن بدقسمتی سے یہاں کے اکثر منتخب نمائندے اقتدار کے طاقتور ایوانوں میں پہنچ کر اپنے وعدے اور نعرے‘ دونوں بھول جاتے ہیں۔ 2018ء کے الیکشن میں نام نہاد جنوبی پنجاب محاذ جو اب تحریک انصاف کا حصہ ہے‘ میری معلومات کے مطابق وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار دونوں کو معلوم ہوچکا ہے کہ شاید ان کو اس خطے میں صرف دو سیکرٹریٹ کھولنے کے علاوہ خود ”کھل کر فرنٹ فٹ“ پر کھیلنا ہوگا اور اسی خطرے کو مسلم لیگ ن اور میاں شہباز شریف اور حمزہ شہباز نے بھانپ لیا ہے کیونکہ میرے خیال کے مطابق اگلے انتخابات میں مرکز اور پنجاب کی حکومتوں کا راستہ ”شاہراہ صوبہ جنوبی پنجاب“ سے گزر کر آئیگا۔
٭٭٭

Once again it’s smooth sailing for Betfair. You might think it doesn’t matter where you place your first goalscorer bets but after reading this article you’ll have changed your mind. Use Pinnacle’s arbitrage betting calculator to find arb opportunities Betting Online – How to Bet from Different Countries (2022). Last season, Tottenham’s Harry Kane finished top of the goalscoring charts with a superb 25 strikes to add to his 21 the season before.

بھوک کے بڑھتے سائے

پاکستان تحریک انصاف کے کارکن اپنے قائد اور وزیراعظم پاکستان عمران خان سے بجا شکوہ کرتے ہیں کہ خان صاحب!ہم مسلم لیگ ن کے متوالوں اور پیپلز پارٹی کے جیالوں سمیت اپوزیشن جماعتوں کے ہر طعنے اور ہر سیاسی و غیر سیاسی وار کا منہ توڑ جواب دے سکتے ہیں لیکن جب ایک عام پاکستانی ریاست مدینہ کی دہائی دیتے ہوئے ہم سے بیروزگار اور بھوکا ہونے کی بات کرتا ہے تو ہمارے پاس اس کی مایوس آنکھوں میں موجود کسی سوال کا کوئی جواب نہیں ہوتا۔ پاکستان میں غربت اپنے نوکیلے دانت ہر دم تیز کئے رکھتی ہے اور آئے روز کوئی نا کوئی غریب خودکشی کر کے اس عفریت سے پیچھا چھڑانے کی کوشش کرتا ہے۔ خود عمران خان کو بھی اس صورت حال کا بخوبی احساس ہے۔یہی وجہ ہے کہ غربت کا ذکر کرتے ان کی آواز میں پیدا ہونے والا ارتعاش واضح محسوس کیا جاسکتا ہے۔ تاہم وہ حکومت کے سربراہ اور اپنی پارٹی کے قائد ہونے کے ناطے قوم اور خصوصاً اپنے حامیوں کی ڈھارس بھی بندھاتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں وزیراعظم نے ملک میں مہنگائی بڑھنے کا اعتراف کیا ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں مہنگائی عالمی سطح پر بڑھنے والی ہوش ربا شرح سے بہت کم ہے۔ مثال کے طور پر وہ کہتے ہیں کہ پچھلے چند مہینوں میں پٹرول کی قیمت دنیا بھر میں 100 فیصد بڑھی ہے لیکن پاکستان میں پٹرولیم قیمتیں صرف 22 فیصد بڑھائی گئی ہیں۔ اسی طرح گندم دنیا میں 37 فیصد مہنگی ہوئی لیکن پاکستان میں یہ اضافہ 12 فیصد ہے۔چینی بھی دنیا میں 40 فیصد مہنگی ہوئی لیکن پاکستان میں یہ اضافہ 21 فیصد تک محدود رکھا گیا ہے۔ وزیراعظم موت دکھا کر قوم کو بخار پر راضی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے بھوکے بچے کو سلانے کے لئے ماں کوئی اچھوتی کہانی سنانے کی کوشش کرے لیکن قوم اس بہلاوے میں آخر کہاں تک آئے۔ اخلاق ساغری نے کہا تھا
بھوک میں کوئی کیا بتلائے، کیسا لگتا ہے
سوکھی روٹی کا ٹکڑا بھی، تحفہ لگتا ہے
یارو اس کی قبر میں روٹی بھی رکھ دینا
مرنے والا جانے کب کا بھوکا لگتا ہے
2012 میں بان کی مون اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل تھے۔ انہوں نے اس وقت 2030 ZHC یعنی Zero Hunger Challenge 2030کے عنوان سے ایک پروگرام شروع کرتے ہوئے ایک زبردست امید ظاہر کی کہ سائنس اور مینجمنٹ کی مدد سے 2030 تک دنیا سے بھوک ختم کر دی جائے گی۔ یہ میرے لئے حیران کن اور ناقابل فراموش بات تھی کیونکہ اسی بھوک کے خاتمے، برابری و مساوات کے لئے ہی تو دنیا بھر کے مذاہب اور تہذیبیں ہزاروں سال تک کوشاں رہی ہیں۔ کوئی بھوکا نا سوئے کا پیغام لے کر کئی پیغمبر مبعوث ہوتے رہے، اب اگر سائنس اور مینجمنٹ کی مدد سے اس مقصد کو حاصل کیا جا سکتا ہے تو اس سے بڑھ کر کیا بات ہو سکتی ہے۔ آج اس پروگرام کو شروع ہوئے 9 سال ہو چکے اور ٹارگٹ کے حصول کے لئے محض 11 سال باقی ہیں تو میں نے سوچا اس خوش کن امید کی موجودہ صورتحال دیکھی جائے۔ اس حوالے سے اعدادوشمار بڑے دلچسپ ہیں۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 2000 میں دنیا کی 15 فیصد آبادی انتہائی غربت کا شکار تھی اور تقریبا 81 کروڑ افراد ایسے تھے جنہیں روٹی میسر نہیں تھی۔ بھوک مٹاو پروگرام کے بعد 2019 میں یہ تعداد کم ہو کر 69 کروڑ افراد رہ گئی۔ اگر ایسے ہی چلتا رہتا تو 2030 تک بھوک کا خاتمہ ہو بھی سکتا تھا لیکن درمیان میں کووڈ بحران آگیا جس نے 6 کروڑ مزید انسانوں کو اس دلدل میں دھکیل دیا۔ اب اکتوبر 2021 کے دوسرے ہفتے جب آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہیں تو ورلڈو میٹر کے مطابق دنیا کی آبادی 7 ارب 89 کروڑ 81 لاکھ 51 ہزار 192 ہو چکی ہے اور گزشتہ رات وہ رات تھی جب دنیا کے 75 کروڑ افراد بھوکے سوئے ہیں۔
عالمی سطح پر کسی انسان کو اس وقت بھوک کا شکار مانا جاتا ہے جب کئی دن تک اسے روٹی نا ملے اور دیگر ذرائع سے بھی اسے 24 گھنٹوں میں حاصل ہونے والی کیلوریز کی تعداد 1800 سے کم ہو۔ کیلوریز کا اندازہ آپ اس طرح لگا سکتے ہیں کہ 100 گرام کی روٹی میں 297 کیلوریز ہوتی ہیں۔ ایک عام شخص جب دال کے ساتھ دو روٹی کھا لے تو اس کے جسم کو ایک ہزار کیلوریز حاصل ہوتی ہیں۔ اس لحاظ سے تحریک انصاف حکومت کی طرف سے بنائی گئی پناہ گاہوں میں جب ایک شخص کو دو ٹائم دال کے ساتھ ہی کم از کم دو روٹیاں کھانے کو مل جاتی ہیں تو اس کے جسم کو زندہ رہنے کے لئے کم از کم ایک دن کا ایندھن حاصل ہو جاتا ہے۔ لیکن عمران خان صاحب!میں کیا کروں میرے سامنے آپ کی اپوزیشن کی جانب سے پیش کئے گئے اعدادوشمار نہیں بلکہ اقوام متحدہ کا ڈیٹا پڑا ہوا ہے جو بتا رہا ہے کہ پاکستان کی اکتوبر کے پہلے ہفتے تک کل آبادی 22 کروڑ 65 لاکھ 16 ہزار 455 تھی اور آپ کی بنائی گئی پناہ گاہوں کے باوجود گزرنے والی کل کی رات بھی پاکستان کے 4 کروڑ لوگ ایسے تھے جنہیں دو روٹیاں بھی نہیں مل سکیں۔ دنیا میں انتہائی غریب ترین آبادی 9.9 فیصد لیکن پاکستان میں یہ شرح اب بھی کل آبادی کا 26 فیصد ہے۔ پاکستان دنیا میں آبادی کے لحاظ سے 5 واں بڑا ملک ہے لیکن دنیا کے 107 غریب ملکوں میں یہ 88 ویں نمبر پر ہے۔ پاکستان میں خوراک کی کمی نہیں بلکہ پاکستان کے صرف کسان اتنی خوراک پیدا کرتے ہیں کہ 22 کروڑ کے بجائے 34 کروڑ آسانی سے کھا سکتے ہیں اور قدرتی طور پر پیدا ہونے والے پھل اور خوراک اس کے علاوہ ہے لیکن پھر بھی یہاں کے 4 کروڑ لوگ رات کو بھوکے سونے پر مجبور ہیں۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بہت پہلے بتا دی تھی کہ جب ایک بندہ رات کو بھوکا سوتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ نے اس کا رزق پیدا نہیں کیا بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ اس کا حق کوئی اور کھا گیا ہے۔ اور آخر میں اپنے وزیر اعظم کیلئے بطور حکمران حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول دہرانا چاہوں گا کہ دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوک سے مر گیا تو اے عمر!تجھ سے اس کی بازپرس ہوگی۔ خان صاحب آپ اپنی سیاسی لڑائی لڑتے رہیں لیکن ان 4 کروڑ خالی پیٹ لوگوں کے بارے بھی کوئی فوری لائحہ عمل بنائیں۔
(کالم نگار قومی و سیاسی امور پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭

سرائیکی وسیب کو خبریں بہاول پور مبارک ہو

خضر کلاسرا
بہاولپور مبارک ہو۔آپ صحافت کی دنیا میں ایک بڑے سیٹ اپ کا حصہ یوں بن گئے ہیں کہ آپ کی دھرتی کے فرزند ضیا شاہد صاحب کے بیٹے چیف ایڈیٹر روزنامہ خبریں،امتنا ن شاہد نے لاہور سے آکر اپنی دھرتی بہاولپور کو صحافت کی دنیا میں قومی دھارے میں شامل کرنے کیلئے روزنامہ خبریں کی بہاول پور سے اشاعت کا بڑا فیصلہ کیا ہے۔ یہ بات ریکارڈ پہ ہے کہ جناب ضیا شاہد،صحافت کی دنیا میں اعلیٰ مقام پر پہنچنے پر بہاول پور کی محبتوں اور اس کو درپیش مسائل کو کبھی نہیں بھولے تھے،اور نہ ان کے بیٹے امتنان شاہد بھولے ہیں۔ضیا شاہد صاحب نے بہاول پور کے عوام کی خوشیوں اور غم کو اپنا سمجھا۔ستلج کی کہانی سے لے کر عام آدمی کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد سمجھتے ہوئے جب ‘ جب بہاول پور کے ایشوز پر لکھتے تھے تو تخت لاہور کیایوان لرزتے تھے۔، ضیا شاہد صاحب نے بہاولپور کی محرومیوں کا مقدمہ قومی سطح پر یوں رکھا جیسے کہ حق تھا وگرنہ بہاولپور کے مقامی اخبارات تواپنے تئیں ‘بہاولپور صوبہ پر جنرل یحییٰ خان کے ڈاکہ پر آواز اٹھاتے لیکن بصد احترام دیگر قومی اخبارات میں بہاول پور کے حوالے سے کوئی خاطر خواہ کوریج نہیں دی جاتی تھی ‘ لیکن جیسے ضیا شاہد صاحب نے بہاول پور کے ایشوز کو روزنامہ خبریں میں اٹھایا اور روزنامہ خبریں کو عام آدمی کا اخبار بنایا تومجبوراً دیگر اخبارات کو اپنی گرتی ساکھ کو بچانے کیلئے ہاتھ پاؤں مارنے پڑے۔لیکن پھر بھی بھی خبریں کو جو اعزاز حاصل ہے۔وہاں سے کہیں دور کھڑے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں چیف ایڈیٹر روزنامہ خبریں جناب امتنان شاہد نے ضیا شاہد صاحب کو روزنامہ خبریں کی بہاولپور سے اشاعت کا تحفہ دے کر ان کی روح کو خوش کردیا ہے۔یہ ضیا شاہد صاحب کا ِخواب پورا ہوا ہے۔وہ اس بہاول پور دھرتی کا فرزند ہونے ناطے اس سے بے لوث محبت اور پیار کرتے تھے۔جناب امتنان شاہد اپنے اس بڑے فیصلے پر مبارکباد قبول کریں۔
اب میں اس طرف آتا ہوں کہ راقم الحروف روزنامہ خبریں کی بہاول پور سے اشاعت پر اتنا خوش کیوں ہے؟ اس کی ایک تو بڑی وجہ یہ ہے کہ بہاولپور کے ایشوز جوکہ اس سے پہلے دبے رہے ہیں ‘ وہ اب سامنے آئینگے۔بیشک روزنامہ خبریں ملتان میں بہاول پور کے ایشوز کو کوریج ملتی تھی لیکن اگر مجھے اختلاف کرنے کی اجازت دیں تو اتنی نہیں ملتی تھی۔جتنے کا وہ حقدار تھا۔وجہ سادہ تھی کہ ملتان بڑا اسٹیشن تھا۔اس کے اپنے ایشوز اتنے تھے کہ بہاولپور کے مسائل کو جو کوریج ادارہ دینا چاہ رہا ہوتا تھاوہ نہیں ملتی تھی۔کچھ ملتان کے دوست بھی اپنی رائے ملتان کے خانہ میں ڈال دیتے تھے پھر بہاولپور والے اپنے صوبہ بہاولپور بحالی پر فوکس کرتے تھے جبکہ ملتانی سرائیکی صوبہ کے حامی تھے۔یوں اس بڑے اور حساس ایشو پر دونوں آمنے سامنے آجاتے تھے؟ اس بڑے اور حساس ایشو پر معاملات اور طرف چلے جاتے تھے؟ لیکن ضیا شاہد صاحب نے بہاول پور کیساتھ ملتان کی اس کہانی کا حل یہ نکالا تھا کہ وہ بہاول پور کیلئے کالم لکھتے تھے تاکہ بہاولپور کی حق تلفی نہ کی جاسکے۔ان کی میرے جیسے صحافت کے طالب علم پر بھی نظر پڑی کہ یہ بہاول پور کے ایشوز پر بولتا اور لکھتا ہے تو روزنامہ خبریں میں بحیثیت کالم نگار موقع دیا۔
میرے لیے یہ بات بڑے اعزاز سے کم نہیں تھی کہ میں جناب ضیا شاہد کی زیرسرپرستی میں لکھنے لگا۔میری بہاولپور سے محبتوں کی کہانی اپنے بڑے بھائی ڈاکٹر نعیم کلاسرا کی بدولت تھی۔انہوں نے جہاں ایک طرف مجھے قلم پکڑنا سکھایاوہاں بہاولپور کے انقلابی،سیاسی اور صحافی دوستوں کی ایسی کھیپ دی جوکہ کتاب دوست کے علاوہ کمال لوگ تھے۔ادھر نعیم بھائی کی عباس منزل کے کمرہ نمبر (19) کی الماری لائبریری سے جہاں مختلف موضوعات پر اعلیٰ کولیکشن پر مشتمل کتابوں کی زیارت ہوئی۔وہاں عباس منزل کیساتھ جڑی سینٹرل لائبریری بہاول پور میں موجود بہاولپور کی تاریخ کی کتابیں میرے لیے خزانہ تھیں۔ادھر نعیم بھائی کی زندگی کی بڑی خوشی یہ ہوتی تھی کہ ہم کتابوں کی دنیا میں رہیں۔نواب آف بہاول پور بھی کیا علم دوست شخصیت تھے۔انہوں نے جہاں اپنی ریاست بہاولپور کے لوگوں کو اعلیٰ تعلیمی ادارے دئیے۔وہاں پر سینٹرل لائبریری کی شکل میں انمول بھی تحفہ دیا۔اعلیٰ بہت اعلیٰ۔پھر بہاول پور کے مقامی اخبارات کی قربت ملی بالخصوص روزنامہ کائنات بہاولپور تھا۔
میرے لیے روزنامہ کائنات بہاولپور میں بحیثیت رپورٹر کام کرنا اعزاز یوں تھا کہ بہاول پور کی صحافت میں ابتدائی ادوار کے اخبارات کی صف اول کے اخبارات میں شامل ہونے کے علاوہ عوام کے ایشوز پر فوکس رکھتا تھا۔ روزنامہ کائنات، بہاولپور میں رپورٹر اور پھر ایڈیٹر احمد علی بلوچ کی محبتوں کی بدولت کالم لکھنے کا بھی آغاز کیا۔اس دوران میری نظر روزنامہ کائنات بہاولپور کے ”گولی نمبر“پر پڑی جوکہ روزنامہ کائنات بہاولپور نے اشاعت خاص کے طور پر شائع کیا تھا ”گولی نمبر“شائع کرنے کی نوبت یوں آئی تھی، جب جنرل یحییٰ خان نے ون یونٹ کو ختم کیا تو بہاول پور صوبہ بحال کرنے کی بجائے اس کو پنجاب میں شامل کر دیا۔اس فیصلے کے ردعمل میں بہاولپور کے لوگ رنگ،نسل اور زبان سے بالاتر ہوکر احتجاج کیلئے نکلے تو ایوانوں کے در ودیوار ہل گئے۔ادھر یحییٰ خان نے بہاولپور صوبہ بحالی کے حامیوں پر گولی چلانے کا حکم دیا تو ستلج دریا کے پانی کا رنگ سرخ ہوگیا لیکن وہ دن اور آج کا دن بہاولپور کے عوام صوبہ بحالی کے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ بہاولپور کے عوام اور نواب صاحب پاکستان پر قیام پاکستان پر احسانات کی شکل میں یوں برسے جیسے روہی میں باکر وال برستا ہے مطلب جو پاکستان کیلئے ضرورت تھا۔نواب آف بہاولپور پیش کرتے گئے لیکن یہاں اس بات کا اعتراف کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے محسن نواب بہاولپور کی عوام کو محبتوں کی بدولت ککھ بھی حکمرانوں کی طرف سے واپس نہیں لوٹایا گیا ہے جوکہ زیادتی نہیں بلکہ بہت بڑی ناانصافی ہے۔ آجکل روزنامہ خبریں بہاولپور کے ویب ایڈیشن کی ترجیحی بنیادوں پر زیارت کرتا ہوں۔روزنامہ خبریں بہاولپور کی ٹیم کی اوپننگ کو سراہتا ہوں۔ اور بہاولپور سے روزنامہ خبریں نے جو سیکنڈل ابھی تک بریک کئے ہیں۔ان میں سے آپ کی اجازت سے دو ایک ٹواب کیلئے پیش بھی کرتا ہوں۔”عملہ کی نااہلی یا ملی بھگت۔بہاولپور کارپوریشن کی اربوں کی مالیتی اراضی پر مافیا قابض،پٹرول پمپس اور دکانیں تعمیر۔سالہال سال سے لیز ایگریمنٹ ختم ہونے کے باوجود مافیا کا قبضہ چھوڑنے سے انکار“اب اندازہ کریں کہ کس طرح حکومتوں نے مافیا کے آگے ہتھیار ڈالے ہوئے ہیں۔اس بھی بڑا سیکنڈل جوکہ روزنامہ خبریں بہاولپور میں رپورٹ ہوا ہے۔وہ یہ ہے کہ چولستان اراضی کی بندر بانٹ 4 لاکھ ایکڑ بغیر معاوضہ لیز پر دینے کا انکشاف۔حیرت ہوتی ہے کہ حکومتی اداروں کی موجودگی کے باوجود اتنی بڑی سطح پر وارداتیں ہورہی ہیں، اب ایک پٹواری کی وارداتیں بھی چلتے چلتے سن لیں۔وہ یہ ہے کہ کرپٹ پٹواری کے پاس 3 مواضعات کا چارج اور کروڑوں کی بے نامی کی جائیدادیں بنالی ہیں۔ مطلب انی مچی ہوئی ہے۔ادھر ہیڈ راجکاں پونے چار کروڑ کا مدینہ پارک کا منصوبہ کرپشن کی نذر ہوچکا ہے۔رہے نام اللہ کا۔
(کالم نگاراسلام آباد کے صحافی اورتجزیہ کار ہیں)
٭……٭……٭

الیکٹرونک ووٹنگ

طارق ملک
قارئین کرام! میں اپنے پچھلے کالموں میں تفصیل سے ذکر کر چکا ہوں کہ کس طرح پاکستان میں 1970ء سے لے کر آج تک اپوزیشن جماعتوں نے الیکشن کا رزلٹ قبول نہیں کیا اور اس دوران میں پاکستان حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان میدان جنگ بنا رہا ہے ملک ترقی کی بجائے تنزلی کی طرف جا رہا ہے۔ ہمارے ساتھ اور ہم سے بعد میں آزاد ہونے والے ملک ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہو چکے ہیں۔ الیکشنوں میں پری پول رگنگ کی وجہ سے عوام الناس کی الیکشن میں دلچسپی کم سے کم ہو رہی ہے جس سے ایک بڑا طبقہ ووٹ ڈالنے سے محروم ہے۔ جس کی وجہ سے 22 کروڑ عوام کی حقیقی نمائندگی نہیں ہو رہی اور زیادہ تر جو لوگ ووٹ ڈالتے ہیں وہ بھی یہ کہتے سنے جاتے ہیں کہ اُنہوں نے ووٹ تو کسی اور کو ڈالا تھا مگر نکلا کسی اور کے کھاتے میں اس طرح لوگوں کا الیکشن کی شفافیت سے اعتماد اُٹھ چکا ہے۔ ایک ایم این اے کے حلقے میں تقریباً تین سو پولنگ اسٹیشن ہوتے ہیں اگر وہ ہر پولنگ اسٹیشن پر سو جعلی ووٹ ڈلوانے میں کامیاب ہو جائیں تو ان کو 30 ہزار کے قریب جعلی ووٹ مل جائیں گے اسی طرح اگر وہ اپنے مخالف فریق کے دس ووٹ ہر پولنگ اسٹیشن سے منسوخ کروانے میں کامیاب ہو جائیں تو ان کو تین ہزار ووٹوں کی برتری حاصل ہو سکتی ہے اس طرح کل 33 ہزار ووٹوں کی برتری حاصل ہو سکتی ہے جو لوگ متواتر الیکشن لڑتے ہیں اُنہوں نے اپنے حلقوں میں ہزاروں جعلی ووٹ بنوائے ہوتے ہیں اور وہ پریزائیڈنگ آفیسر اور عملہ پولنگ اسٹیشن سے مل کر یہ دھاندلی کرتے ہیں اسی طرح یہ بااثر لوگ ریٹرننگ آفیسر پر اثر انداز ہو کر اپنے من پسند پولنگ اسٹیشن بنواتے ہیں اور اپنے من پسند سٹاف کی ڈیوٹیاں بطور پریزائیڈنگ آفیسر اور پولنگ آفیسر لگواتے ہیں تا کہ وہ آزادی سے دھاندلی کر سکیں یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں ووٹنگ کا ٹرن اُور بہت کم ہوتا ہے۔ 1985ء کے الیکشن میں ٹرن اوور 53 تھا 1988ء میں ٹرن اُوور 43 فیصد تھا 1990ء میں ٹرن اوور 45 فیصد تھا 1993ء میں ٹرن اوور 40 فیصد تھا 1997ء میں ٹرن اُوور 36 فیصد تھا 2002ء میں ٹرن اُوور 42 فیصد تھا۔ 2008ء میں ٹرن اوور 44 فیصد تھا 2013ء میں ٹرن اوور 55 فیصد تھا جبکہ 2018ء میں ٹرن اوور 52 فیصد تھا اگر ہم اوسط دیکھیں تو 50 فیصد سے زیادہ ووٹر ووٹ ڈالنے نہیں آتے کیونکہ اُن کا الیکشن کی شفافیت پر یقین نہ ہے۔
موجودہ حکومت نے نادرا کو ہدایت کی ہے کہ انکوائری کر کے 90 لاکھ جعلی ووٹوں کو فوری طور پر ختم کیا جائے۔ اسی طرح الیکٹرونگ ووٹنگ مشین متعارف کروائی گئی ہے جس کے ذریعے نہ تو جعلی ووٹ ڈال سکیں گے اور نہ ہی پولنگ عملہ کی ملی بھگت سے کسی کے ووٹ منسوخ ہو سکیں گے۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ پولنگ سکیم بھی جیو ٹیکنگ کے ذریعے شفاف طریقہ سے کرائی جائے تا کہ ووٹرز آسانی سے اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکیں اس طرح ایک تو اخراجات کم ہوں گے جن میں بیلٹ پیپر کی چھپائی الیکشن میٹریل کا خرچہ الیکشن سٹاف کی کنوینس اور ان کے ٹی اے ڈی اے کے اخراجات بچ جائیں گے اگر حساب لگایا جائے تو الیکٹرونک ووٹ مشین کا خرچہ ان اخراجات سے کم ہے اور یہ مشین آئندہ الیکشن اور بلدیاتی الیکشن میں بھی کام آئے گی۔ اور اس طرح آنے والے تمام الیکشن بہت کم خرچے میں ہو سکیں گے۔
حکومت اور اپوزیشن کو چاہئے کہ وہ مل بیٹھ کر الیکٹرونک ووٹنگ مشین کے استعمال کو آئندہ بلدیاتی اور جنرل الیکشن میں یقینی بنائیں اس طرح عوام کا منصفانہ الیکشن پر اعتماد بڑھے گا اور وہ آزادی سے اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکیں گے جس سے ٹرن اوور زیادہ ہو گا اور عوام کے حقیقی نمائندے سامنے آ سکیں گے جو ملک اور قوم کی خواہشات کے مطابق خدمت کر سکیں گے۔
دوستوں کا کہنا ہے کہ اس وقت مسلم لیگ ن کے دو دھڑے بن چکے ہیں ایک دھڑے میں شیخ روحیل اصغر، خواجہ سعد رفیق، سردار ایاز صادق اور رانا تنویر حسین شامل ہیں جب کہ دوسرے دھڑے میں خواجہ آصف، احسن اقبال اور شاہد خاقان عباسی شامل ہیں۔ دوستوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ چودھری نثار علی خان کو پی ٹی آئی پنجاب کی صدارت کی پیش کش کی گئی ہے اور انہیں یہ بھی باور کرایا گیا ہے کہ پنجاب کے آئندہ وزیراعلیٰ وہی ہوں گے لیکن چودھری نثار علی خان نے سردست یہ پیش کش یہ کہہ کر قبول کرنے سے معذرت کی ہے کہ انہوں نے ساری زندگی مسلم لیگ ن میں بھی کوئی پارٹی عہدہ قبول نہیں کیا تھا۔ الیکشن قریب آنے پر پارٹی میں شامل ہو سکتا ہوں۔ دوستوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ جنرل الیکشن سے پہلے پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر میاں محمد شہباز شریف بھی نااہل ہو جائیں گے۔
آئندہ الیکشن میں عمران خان، بلاول بھٹو زرداری، ایم کیو ایم اور مولانا فضل الرحمن الیکشن لڑیں گے۔ مستقبل میں مسلم لیگ ن کی قیادت کون کرتا ہے یہ ابھی کوئی پتہ نہیں ہے۔ دوستوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ مسلم لیگ کے سینئر رہنما رانا تنویر حسین نے میاں محمد نوازشریف کو ملک واپس آنے کا مشورہ دیا ہے جس کی دیگر سینئر رہنماؤں نے بھی تائید کی ہے۔
طارق ثناء باجوہ داتا گنج بخش ٹاؤن لاہور کے ناظم رہ چکے ہیں۔ اُنہوں نے اپنے دور میں تجاوزات کے خاتمے کے لئے دبنگ اقدامات کئے جن کے نتیجے میں کسٹم ہاؤس کے سامنے ایک معروف پرائز بانڈ کی تین منزلہ بلڈنگ جو کہ سرکاری جگہ پر بنی تھی کو گرا دیا اور یہاں پر ہائی کورٹ کے ججز کے لئے گیٹ لگوا کر راستہ بنوایا۔
ثناء باجوہ کاآج کل تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہے۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان خان بزدار کو طارق ثناء باجوہ کی صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اُٹھانا چاہئے۔
(کالم نگار ریٹائرایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل ہیں)
٭……٭……٭

نیب آرڈیننس ایک نیا این آر او؟

ملک منظور احمد
پاکستان تحریک انصاف ملک میں بلا امتیاز احتساب کا نعرہ لے کر اقتدار میں آئی تھی،وعدے تو خیر انھوں نے عوام سے اور بھی بہت سے کیے تھے لیکن بہر حال مرکزی وعدہ ملک میں کرپشن کے خاتمے اور طاقت ور اشرافیہ کے احتساب کا تھا۔خود وزیر اعظم عمران خان اور تحریک انصاف کے کئی مرکزی رہنما کئی بار یہ بات مختلف مواقع پر کر چکے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کا بنیادی ایجنڈا احتساب ہی ہے لیکن اگر حکومت کے گزشتہ تین سالہ دور اقتدار پر نظر دوڑائی جائے تو ہمیں معلوم ہو تا ہے کہ حکومت نے احتساب کے نام پر پکڑ دھکڑ تو بہت کی ہے متعدد اپوزیشن رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا اور پابند سلاسل کیا گیا،اپوزیشن لیڈر شہباز شریف سے لے کر سابق اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ تک اور سابق صدر آصف علی زرداری سے لے کر سابق وزیر اعظم نواز شریف تک تمام بڑے اور نامی گرامی رہنما سلاخوں کے پیچھے گئے سب نے جیل کی ہوا کھائی لیکن وہ سوال جو کہ اکثر میڈیا کی زینت رہتا ہے اپنی جگہ پر موجودہ ہے کہ آخر اتنی گرفتاریوں اور پکڑ دھکڑ کے بعد حکومت اور اس سارے احتسابی عمل میں حکومت کا ہرا ول دستہ نیب آخر ان سیاست دانوں سے کتنی ریکوری کر سکے ہیں اور اس سوال کا جواب حکومتی وزراء اور لیڈروں کی جانب سے دیا بھی جاتا ہے ایسا نہیں ہے کہ جواب نہیں دیا جاتا، جواب میں کہا جاتا ہے کہ نیب نے تین سالوں میں کئی سو ارب کی ریکوری کر لی ہے۔ اس سلسلے میں ایک خاص نمبر بھی کوٹ کیا جاتا ہے لیکن اگر ان اعداد و شمار کے حوالے سے تفصیل میں جا کر غور کیا جائے تو معلوم ہو تا ہے کہ ریکوری ضرور ہوئی ہے اور نیب نے ہی کی ہے لیکن سیاست دانوں سے نہیں بلکہ دیگر کیسز میں ریکوری ہو ئی ہے۔نیب کا ادارہ اپنے قیام سے لے کر آج تک تنازعات کا شکار رہا ہے اور نیب کو حاصل بعض اختیارات جن میں بغیر ریفرنس دائر کیے ہوئے یعنی کہ بغیر مقدمہ کے گرفتاری اور پھر اس کے بعد ضمانت نہ ہو نا ایسے اختیارات ہیں جو کہ شاید دہشت گردی کے ملزموں کے لیے تو شاید ہوں لیکن وائٹ کالر کرائم کے ملزموں کے حوالے سے ضرورت سے زیادہ سخت معلوم ہو تے تھے اور اپوزیشن سمیت دیگر حلقوں کی جانب سے بھی گاہے بگاہے اس حوالے سے اعتراضات اٹھائے جاتے رہے ہیں۔
یہ بات بھی اپنی جگہ پر حقیقت ہے سابقہ حکومتوں کے ادوار میں اور یہاں پر میں وضاحت کرتا چلوں کہ میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پا رٹی کے ادوار کی بات کر رہا ہوں یہ جماعتیں اپنے آپ کو جمہوریت کی علمبردار قرار دیتی تھیں لیکن نہ صرف انھوں نے یہ قوانین نہیں بدلے بلکہ ایک دوسرے کے خلاف استعمال بھی کیے۔پاکستان تحریک انصاف کے تین سالہ دور میں نیب قوانین کا بھرپور استعمال کیا گیا،ایک کے بعد ایک اپوزیشن رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا لیکن کچھ ٹھوس حقائق سامنے نہیں آئے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کئی مرتبہ نیب قوانین کو تبدیل کرنے کے حوالے سے بات بھی چلی اپوزیشن نے اس حوالے سے 34ترامیم بھی حکومت کے سامنے رکھیں جن کو حکومت کی جانب سے نہ صرف مسترد کر دیا گیا بلکہ اپوزیشن کو نشانے پر رکھ لیا گیا کہ اپوزیشن نیب قوانین میں ترمیم نہیں بلکہ این آر او مانگ رہی ہے۔اور حکومت اپوزیشن کو کسی بھی صورت میں این آر او نہیں دے گی۔بہرحال اس وقت نیب آرڈیننس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی لیکن اب اچانک چیئرمین نیب کی توسیع کے معاملے پر حکومت نے ایک نیب آرڈینس سامنے لا کر بہت سے لوگوں کو حیران کر دیا ہے۔اپوزیشن سے کسی قسم کی مشاورت کے بغیر یہ آرڈیننس سامنے لاگیا ہے بلکہ اب تو یہ آرڈیننس نافذ اعمل بھی کر دیا گیا ہے۔اس آرڈیننس کے تحت چیئرمین نیب کی مدت ملازمت میں چار سال کی توسیع کی جاسکے گی۔اس حوالے سے صدر وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کی مشاورت سے فیصلہ کرے گا۔نیب عدالتوں کو ضمانت کا اختیار حاصل ہو جائے گا مقدمات کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر ہو گی اور 6ماہ کے اندر اندر نیب مقدمات کا فیصلہ سنائے گا۔
اس کے علاوہ نجی کا روباری معاملات،بیو رو کریسی اور بینکوں کے معاملات کو بڑی حد تک نیب کی پہنچ سے استثنا دے دیا گیا ہے۔اس آرڈیننس میں جو سب سے اہم بات ہے وہ یہ ہے وفاقی اور صوبا ئی وزراء کو نیب قانون سے مبّرا قرار دے گیا ہے۔نیب کسی بھی وفاقی یا صوبائی وزیر کے معاملات کی چھان بین کے اختیار سے محروم ہو جائے گا اور اس کے ساتھ ساتھ حکومتی فورمز جن میں ایکنک،سمیت دیگر شامل ہیں ان کے معاملات بھی نیب کی پہنچ سے باہر ہو جائیں گے نیب آرڈیننس کی یہ شق کئی لوگوں کے لیے حیرت کا باعث بنی ہے۔اور بادی النظر میں وزیر اعظم عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف کے انصاف کے کرپشن کے حوالے سے دیرینہ موقف کی نفی معلوم ہو تی ہے۔اپوزیشن نے اس آرڈیننس کو مسترد کر دیا ہے اور اس کو عدالت میں چیلنج کرنے کا بھی عندیہ دیا ہے لیکن ہمیں اس حوالے سے دیکھنا ہو گا کہ آیا اپوزیشن واقعی اس آرڈیننس کے خلاف کوئی قدم اٹھاتی ہے یا پھر اپوزیشن کے اس حوالے سے دعوے صرف اور صرف زبانی جمع خرچ ثابت ہو تے ہیں کیونکہ اس آرڈیننس کے تحت براہ راست سندھ حکومت کے وزراء کو بھی فائدہ پہنچے گا بلکہ اپوزیشن کے دیگر رہنماؤں جن میں شاہد خا قان عباسی،مفتاح اسماعیل اور احسن اقبال شامل ہیں ان کو براہ راست فائدہ پہنچ سکتا ہے اور ان کے کیسز ختم ہو سکتے ہیں۔بہر حال حکومت کی کرپشن کے حوالے سے بیانیہ پر سوال ضرور اٹھ چکے ہیں اور الزامات عائد کیے جا رہے ہیں کہ وزرا ء کو اس حوالے سے استثناٰ دے کر حکومت نے اپنے اہم لوگوں کو این آر او نہیں تو منی این آر او تو دے ہی دیا ہے،اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس آرڈیننس کے بعد نہ صرف نیب کی کارروائیوں میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئے گی بلکہ ملک میں تین سال سے جاری احتساب کے عمل کی رفتار بھی نمایاں طور پر سست ہو جائے گی۔سیاسی حوالے سے بات کریں تو اس آرڈیننس سے پاکستان تحریک انصاف کو سیاسی طور پر کتنا نقصان پہنچے گا یہ تو بہر حال وقت ہی بتائے گا۔
(کالم نگارسینئرصحافی اورتجزیہ کارہیں)
٭……٭……٭

اسمبلی سے استعفیٰ دے چکا‘ پی ٹی آئی بھی چھوڑ دی: عامر لیاقت

کراچی(این این آئی) پاکستان تحریک انصاف کے ناراض رہنما ڈاکٹرعامر لیاقت نے کہاہے کہ جن وزیروں اور مشیروں کے نام پنڈورا پیپر میں آئے ہیں وہ تاحال پاکستان چلارہے ہیں، انہیں کیوں نہیں ہٹایا جا رہا،اگر نام آنا کافی نہیں ہے تو پھر نوازشریف کے ساتھ جو ہوا وہ کیوں ہوا، تحریک انصاف کو ان لوگوں نے ووٹ دیا ہے جو کرپشن کے خلاف ہیں،وہ قلم کے آدمی تھے لیکن دوستوں نے ان کے ہاتھ میں بندوق تھمادی،اگر انہوں نے استعفے کی وجہ بتادی تو پورا پاکستان دہل جائے گا۔خصوصی گفتگوکرتے ہوئے ڈاکٹرعامرلیاقت نے کہاکہ تحریک انصاف کراچی میں عمران اسماعیل، علی زیدی اور فیصل واوڈا کے الگ الگ گروپ ہیں۔جنہوں نے کراچی کو تباہ کرنا تھا انہوں نے تباہ کردیا، اللہ پاکستان کی حفاظت کرے ورنہ جو کچھ ہورہا ہے بہت برا ہورہا ہے۔انہوں نے تو الیکشن جیت کر پیسے نہیں کمائے لیکن باقی لوگوں نے بہت کچھ کمایا ہے۔انہوں نے کہاکہ انہیں دیوار سے لگایا اور نظرانداز کیا جارہا ہے، انہیںنیشنل بینک نے ایک سال سے کسی کے کہنے پر قرضہ تک نہیں دیا۔

مسجد بے حرمتی کیس‘ صبا قمر اور بلال سعید پر فرد جرم کے لئے تاریخ مقرر

لاہور (خبر نگار) مسجد وزیر خان میں شوٹنگ اور ویڈیو بنانے کے معاملے پر اداکارہ صبا قمر اور بلال سعید پر فرد جرم عائد کے لیے تاریخ مقرر کردی گئی۔لاہور کی ضلع کچہری میں مسجد وزیر خان میں شوٹنگ اور ویڈیو بنانے کے معاملے پر اداکارہ صبا قمر اور بلال سعید کے کیس کی سماعت ہوئی، جوڈیشل مجسٹریٹ نے کیس پر سماعت کی۔ عدالت میں اداکارہ صبا قمر اور بلال سعید نے اپنے وکیل بیرسٹر حامد لغاری کے ہمراہ پیش ہو کر حاضری مکمل کرائی۔ اس موقع پر اداکارہ صبا قمر برقع پہنے عدالت آئیں۔ پراسیکیوٹر کی جانب سے عدالت میں چالان جمع کرا دیا گیا۔ عدالت نے آئندہ سماعت پر ملزمان کو چالان کی نقول فراہم کرنے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی سماعت 14 اکتوبر تک ملتوی کردی۔خیال رہے کہ گزشتہ برس اگست میں سوشل میڈیا پر صبا قمر اور بلال سعید کے گانے کی ریکارڈنگ کی ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں لاہور کی تاریخی مسجد وزیر خان کے تقدس کو پامال کیا گیا تھا۔ ویڈیو پر سماجی اور مذہبی حلقوں سمیت سوشل میڈیا پر اس کی بھرپور مذمت کی گئی تھی۔

افغانستان کی صورتحال‘ امریکی نائب وزیرخارجہ آج اسلام آباد پہنچیں گی

واشنگٹن(این این آئی)امریکی محکمہ خارجہ نے کہاہے کہ امریکا کی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمین افغانستان کے معاملے پر امریکہ اورپاکستان کے درمیان بڑھتے ہوئے شگاف کو ختم کرنے کے لیے مذاکرات کی غرض سے آج (جمعرات کو) اسلام آباد پہنچیں گی،امریکی ٹی وی کے مطابق ایک بیان میں امریکی محکمہ خارجہ نے کہا کہ وینڈی شرمین دوطرفہ ملاقاتوں، سول سوسائٹی کی تقریبات اور انڈیا آئیڈیاز سمٹ میں شرکت کے لیے 6 اکتوبر کو نئی دہلی پہنچیں۔وہ 7 اکتوبر کاروباری شخصیات اور سول سوسائٹی کے اراکین سے ملاقاتوں کے لیے ممبئی کا دورہ کریں گی۔محکمہ خارجہ کے ترجمان کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ڈپٹی سیکریٹری وینڈی شرمین سینئر حکام سے ملاقاتوں کے لیے 7 سے 8 اکتوبر تک اسلام آباد کا سفر کرنے کے بعد اپنا دورہ مکمل کریں گی۔واشنگٹن میں موجود دیگر سفارتی ذرائع نے کہا کہ یہ ایک اہم اور بائیڈن انتظامیہ کے آنے کے بعد کسی بھی اعلی امریکی عہدیدار کا پہلا دورہ ہوگا۔وینڈی شرمین، امریکی سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن کے بعد محکمہ خارجہ کی سب سے سینئر عہدیدار ہیں۔اسلام آباد کی جانب سے اس دورے کو اہم سمجھے جانے کے سوال پر سینئر سفارتی ذرائع کا کہنا تھا کہ یہ دورہ افغانستان اور پورے خطے میں پیشرفت دونوں کے تناظر میں بہت نازک وقت میں ہو رہا ہے۔انہوں نے نشاندہی کی کہ بائیڈن انتظامیہ ایک ساتھ بھارت اور پاکستان کے دوروں میں تذبذب کا شکار نہیں نظر آتی، جیسا کہ ماضی میں ہوتا تھا۔امریکیوں کا خیال ہے کہ ان معاملات پر موقف میں تبدیلی سے طالبان کی ساکھ پر مثبت اثر پڑے گا اور اقوام متحدہ میں انہیں تسلیم کیے جانے کی راہ ہموار ہوگی۔ان کا کہنا تھا کہ اس وقت تک پاکستان اور دیگر ممالک کو طالبان کو تسلیم کرنے میں تاخیر کرنی چاہیے۔