غریب کریں تو کیا کریں

عبدالباسط خان
اتوار کا دن سکون اور آرام کا دن ہوتا ہے گھر میں ہو تو بچوں پوتے اور پوتیوں، نواسے اور نواسیوں سے گفت و شنید ہوتی ہے۔ دل میں راحت محسوس ہوتی ہے اور اپنے بچپن کی یادیں تازہ ہوتی ہیں گھر سے باہر نکلیں تو سڑکوں پر بہت سکون ہوتا ہے لوگ مارکیٹوں میں چنے نان اور نہاریوں کے لئے لائن لگائے ہوتے ہیں۔ غرضیکہ غریب ریڑھی والے یا دوکان والے کے چہرے مسرت اور شادمانی سے سرشار نظر آتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو رزقِ حلال کماتے ہیں رات کو پکوان لوگوں کیلئے تیار کرتے ہیں اور صبح صبح لوگوں کو چنے، حلیم، نہاری جیسے مزیدار کھانے بنا کر دیتے ہیں اور ایک قلیل سی رقم منافع میں حاصل کر کے خوش اور شادمان رہتے ہیں وہ لوگوں کو خوش کرتے ہیں اور خود بھی خوش ہوتے ہیں اور پھر یہ غریب لوگ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں لیکن کیا صرف غریبوں کے لئے اتنا ہی کافی ہے کیا ان کا دل نہیں کرتا کہ وہ اپنے بچوں کو گرمیوں کی چھٹیوں میں مری کی سیر کرائیں کیا ان کا دل نہیں کرتا کہ ان کا اپنا گھر ہو اور ان کے بچے انگلش میڈیم سکولوں میں جا کر تعلیم حاصل کریں کیا وہ نہیں چاہتے کہ کم از کم ہفتے میں ایک دن گوشت پکائیں کیا ان کا دل نہیں چاہتا کہ ان کے بچے اچھے کپڑے پہنیں کیا ان کا دل نہیں چاہتا کہ ان کی بیٹیاں اچھے گھروں میں بیاہی جائیں یقینا ان کا دل چاہتا ہے مگر موجودہ مہنگائی نے ان کے تمام خواب چکنا چور کر دیئے ہیں ابھی یہ ذکر میں صرف غریب ترین طبقے کا کر رہا ہوں اگر متوسط طبقے یا تنخواہ دار طبقے کی بات کریں تو وہ بھی اس ہوشربا مہنگائی سے بہت تنگ نظر آرہے ہیں حالات بہتری کی طرف نہیں جا رہے اور نہ ہی امید ہے کہ مستقبل قریب میں ہماری عوام کے مسائل حل ہوں گے کیونکہ ہمارے ملک کے سیاستدان جو لوگوں سے ووٹ حاصل کر کے پارلیمنٹ میں جاتے ہیں وہ اچھے اچھے مہنگے مہنگے ہوٹلوں میں کھانے اور پارٹیاں کھاتے ہیں بیرون ملک کی سیر کو نکل جاتے ہیں باہر کے ملکوں میں ان کے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں وہاں ان کے شاندار بنگلے اور گھر موجود ہوتے ہیں وہ عوام کی صرف فرضی محبت میں گرفتار ہوتے ہیں واجبی سے انداز میں میڈیا کے سامنے بولتے ہیں کہ غریبوں کا جینا دوبھر ہو گیا ہے۔ غریبوں کو دووقت کی روٹی میسر نہیں ہوتی وغیرہ وغیرہ جب ان محلوں اور شاندار بنگلوں میں رہنے والے لوگوں سے یہ گفتگو میڈیا میں دیکھتے ہیں تو ہم لوگ دانتوں میں انگلیاں دبا لیتے ہیں کیا واقعی ان کو اس عوام کے دکھ درد کا احساس ہے جن سے ووٹ لینے کے لئے یہ منت سماجت اور التجائیں کرتے تھے۔
گرانی کا درد یا پریشانی صرف ایک غریب ہی سمجھ سکتا ہے کیونکہ وہ خود اس چکی میں پس رہا ہوتا ہے وگرنہ یہ خوش شکل خوش پوش پراڈو اور لینڈ کروزر میں پھرنے والے غربت، تنگدستی، بیماری، افلاس جہالت کی اندرونی کہانیوں سے واقفیت یا ادراک ہرگز نہیں رکھ سکتے یہ ان کے ڈی این اے میں بھی نہیں ہوتی ہے وگرنہ پاکستانی بخوبی واقف ہیں کہ کرونا جیسی موذی بیماری جس نے پوری دنیا کے بازار، ہوئی اڈے، ریسٹورنٹ، ہوٹل، دکانیں، مالز بند کروا دیئے تھے ہمارے ان بڑے صنعت کاروں، بزنس ٹائیکون، سرمایہ داروں، اربوں ڈالرز کے گھر بیرون ملک بنانے والوں نے پاکستان کی عوام کو کیا دیا صرف حکومت پر تنقید بازار کیوں بند کر دیئے یا بازار کیوں بند کریں کیا کسی ایک سیاست دان نے اپنے حلقے میں ہی لوگوں کے کرونا ٹیسٹ فری کروائے کیا کسی بڑے بینک کے سربراہ نے اپنے ملازمین کیلئے ویکسین کی دستیابی ممکن بنائی؟
کیا کسی بڑے سے بڑے سرمایہ دار نے لوگوں میں پیسے تقسیم کئے جن کی دیہاڑی نہیں لگی؟ بالکل نہیں۔ اب ذرا سیاستدانوں کی طرف آ جائیں ہر پارٹی میں رئیس ابن رئیس، بڑے بڑے سرمایہ دار جاگیردار صنعتکار موجود ہیں مگر کسی نے بھی حکومت کو پیشکش نہیں کی کہ ہم احساس پروگرام میں اپنا حصہ ڈالنا چاہتے ہیں ہم ایک لاکھ یا دو لاکھ ویکسین لوگوں کے لئے فری دینا چاہتے ہیں قوموں کے مزاج اوران کی عظمت بڑائی کا اندازہ اس وقت ہی لگتا ہے جب کوئی آفت مصیبت سیلاب، زلزلہ یا وبائی امراض وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ ہمارے پڑوسی ملک ہندوستان میں فلمی اداکاروں سے لے کر ٹاٹا، برلا مکیش امبانی نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اپنے اپنے ملازمین کیلئے کرونا ٹیسٹ ویکسین سے لے کر فوت ہو جانے والوں کے بچوں کی تاحیات نوکریوں کا بندوبست کیا لیکن ہمارے ملک میں امیر آدمی یہ سوچتا رہ گیا کہ شائد اگر اس نے غریب آدمی کیلئے چندہ دے دیا تو وہ غریب ہو جائے گا ہم لوگ من حیث القوم بے حس، ذہنی طور پر دیوالیہ اور موت کوبھول چکے ہیں موت کا خوف عارضی طور پر اس وقت آتا ہے جب قبرستان میں تدفین کیلئے جاتے ہیں ہم لوگ برائی کرنے نکتہ چینی کرنے دوسروں کو تہ تیغ کرنے، اجاڑنے بے بس کرنے میں پیش پیش اور نیکی کرنے ہاتھ پھیلانے والے کو اور فلاح عامہ کے کاموں میں ہاتھ بٹانے چندہ دینے خاص طور پر ایسے نادار اور غریب دیہاڑی دار طبقے کی مدد کرنے میں سب سے پیچھے ہوتے ہیں۔ کوئی مجھ سے سوال ضرور کرے گا کہ یہ کام تو حکومت کے ہوتے ہیں تومیں کہتا ہوں کہ حکومت کے پاس ہے کیا جو وہ عوام کو دے سکتی ہے۔ حکومت رات دن یہ راگ الاپتی ہے کہ ہم تو صرف ماضی کی حکومتوں کے قرضوں کا سود ہی ادا کر رہے ہیں ٹیکس وصولی کا حال ہم سب بخوبی جانتے ہیں اس ملک کے تمام بڑے بڑے شہروں میں اگر آپ لوگوں کے طرز بودو باش کا اندازہ لگائیں تو آپ عرب ممالک کے شہزادوں کو بھول جائیں۔ افسروں کے گھروں میں بیرون ملک کی تمام اشیا اس طرح موجود ہیں جس طرح غریب آدمی کو کھانے کے لئے بھنے چنے یا سوکھی روٹیاں۔ بزنس مین طبقہ ہر وقت حکومت سے مراعات کا متلاشی رہتاہے ٹیکس ایمنسٹی اسکیموں سمیت ٹیکس ربیڈ، ریفنڈ، پرچیز ان کی دسترس میں ہے کیونکہ ان کے ہی چہیتے دوست حکومت میں موجود ہیں لیکن ایکسپورٹ میں اضافہ واجبی سا بڑے بڑے بزنس مین کارخانے والے بجلی چوری میں پیش پیش ہوتے ہیں۔گھرتو چھوڑیں گاؤں کے گاؤں، بجلی چوری سینہ تان کر کرتے ہیں مجاز ہے کہ بجلی میٹر چیک کرنے والا وہاں داخل ہو لہٰذا ان کی چوری جس سے گردشی قرضوں میں اضافہ ہوتا ہے کا سارا ملبہ غریب لوگوں پر پڑ جاتا ہے غریب کرے تو کیا کرے۔ غریب آدمی اپنے بجلی کے بل کی قسطیں کروانے کیلئے دربدر پھر رہا ہوتاہے دو تین مرلے کے مکان میں رہنے والے بے چارے پچاس ہزار سے لے کر ایک لاکھ کا بل لئے وفاقی محتسب کی عدالت میں XEN اور SDO کے دروازے پر سارا دن گزار دیتے ہیں۔ یہ حکومت آئی تو کہا گیا کہ گردشی قرضے ختم کر دیئے جائیں گے مگر یہ نہ ہو سکا کیونکہ اس معاشرے میں مافیاز لاتعداد میں موجود ہیں۔ بجلی چوروں کے گارڈین اور محافظ۔ ہمارے ملک میں بیوروکریٹس سے لے کر وزراء اور حکومتی پارلیمنٹرین سب برابر کے شریک ہیں غریب کریں تو کیا کریں۔
لوگ بل ادا کریں یا کھانا کھائیں یا بیماری کا بل ادا کریں، ڈاکٹر کی فیس وہ نہیں دے سکتے اور ڈاکٹر بھی ملے تو وہ بھی گزارا لائق امیروں کے لئے بڑے بڑے پرائیویٹ ہسپتال بڑے بڑے ڈاکٹر ہر قسم کی مشینیں دستیاب مگر غریب بیچارہ کہاں جائے اگر وہ کلرک ہے یا عام سا ملازم تو پھر وہ رشوت نہ لے تو کیا کرے اور اگر رشوت میں پکڑا جائے تو پھر اس کی ضمانت میں گھر کے زیور بیچنے پڑ جاتے ہیں۔ رہ سہ کر ایک آٹا تھا جس کو پکا کر غریب آدمی دو وقت کی روٹی پیاز کے ساتھ کھا لیتا تھا مگر اب آٹا بھی اس کی دسترس سے باہرہے۔ وہ ملک جو زرعی ملک ہے اور اب لاکھوں ٹن گندم باہر سے امپورٹ کر رہا ہے غریب کریں تو کیا کریں۔
(کالم نگارمختلف موضوعات پرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

خبریں۔اُفقِ صحافت پرچمکتا چاند

میجرجنرل(ر) زاہدمبشرشیخ
70ء کی دہائی سے ہم نے ایک نوجوان اور بیباک صحافی کا نام سننا شروع کیا۔ ضیا شاہد کا نام کبھی اردو ڈائجسٹ میں نظر آیا اور کبھی مشہور صحافیوں میں شمار ہونے لگا تھا۔ پھر انہوں نے اپنا پرچہ ہفت روزہ ”کہانی“ کے نام سے شائع کرنا شروع کیا۔ ”کہانی“ کے بعد انہوں نے ہفت روزہ صحافت کا اجراء کیا۔ اس ہفت روزہ کا ایک سادہ سا دفتر ایک کوٹھی کے گیراج میں چوبرجی کے قریب واقع تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہفت روزہ صحافت ایک مقبول ہفت روزہ بن گیا۔ پھر اچانک ہی یہ ہفت روزہ ایک مقبول عام روزنامہ میں تبدیل ہوگیا۔ اس زمانے میں لاہور میں کافی روزنامے موجود تھے لیکن جو چیز روزنامہ صحافت کو دوسروں سے ممتاز کرتی تھی وہ عوامی دلچسپی کے موضوعات تھے۔ روزنامہ صحافت سرکاری محکموں کیلئے بھی ایک محتسب کا کردار ادا کرتا تھا۔ رشوت خور افسر اور وزیر روزنامہ صحافت سے خوف کھاتے تھے اور جن بے کس عوام کی کہیں شنوائی نہیں ہوتی تھی وہ جناب ضیا شاہد کا دروازہ کھٹکھٹاتے تھے انصاف کے طلبگار ہوتے تھے۔
وقت نے ایک اور کروٹ لی اور روزنامہ خبریں کا اجراء 26ستمبر 1992ء کو لاہور سے کیا گیا۔ کچھ عرصے بعد روزنامہ صحافت کی ادارت خوشنود علی خان صاحؓ کے حصے میں آئی اور جناب ضیا شاہد نے اپنی زندگی روزنامہ خبریں کیلئے وقف کردی۔ اس کے بعد ضیا شاہد صاحب نے پیچھے ہٹ کر نہیں دیکھا۔ روزنامہ خبریں ترقی کی منزلیں طے کرتا گیا۔ ترقی کے اس سفر میں ان کے شریک زندگی محترمہ یاسمین شاہد صاحبہ نے بھی ان کا خوب ساتھ دیا۔ وہ خود بھی ایک جیّد صحافی ہیں۔ وہ ضیا شاہد صاحب کیلئے ایک آئیڈیل شریک حیات ثابت ہوئیں۔ انہوں نے نہ صرف ان کی پیشہ ورانہ زندگی میں ان کا ہاتھ بٹایا بلکہ ان کی اولاد کی تعلیم وتربیت بھی نہایت احسن طریقے سے کی۔ جناب ضیا شاہد کی قیادت میں روزنامہ خبریں پاکستان کے مقبول ترین اخبارات میں سے ایک ہے۔
آج روزنامہ خبریں پاکستان کے آٹھ بڑے شہروں سے شائع ہوتا ہورہا ہے۔ روزنامہ خبریں اب ایک مضبوط ادارے کی حیثیت حاصل کر چکا ہے۔ اسی ادارے کے زیر نگرانی دوپہر کا اخبار ”نیا اخبار“ بھی شائع ہوتا ہے۔ پنجابی روزنامہ ”خبراں ِِ بھی اس ادارے کا اخبار ہے۔ سندھی روزنامہ ”خبرون“ سندھ کے صوبے میں اس ادارے کی نمائندگی کرتا ہے۔ اسی ادارے نے ٹی وی ”چینل ۵“ کا اجراء بھی کیاجو آج کل ایک مقبول ٹی وی چینل ہے۔
ریٹائرمنٹ کے بعد میں نے اخبار میں کالم لکھنا شروع کیا تو روزنامہ خبریں سے رابطہ کیا۔ ادھر میں ایک طویل عرصے تک خبریں لکھتا رہا۔ اس دوران جناب ضیا شاہد سے ملاقات کا شرف بھی بارہا حاصل ہوا۔ میں نے ضیا شاہد صاحب کو ایک محب وطن پاکستانی اور ایک صاحب علم شخصیت پایا۔ ان کی سب سے زیادہ وابستگی پاکستان کے کے ساتھ تھی اور اس کے بعد جمہوریت کے ساتھ۔ وہ پاکستان اور جمہوریت ہر قربانی کیلئے تیار رہتے تھے۔ اپنے ہونہار بیٹے عدنان شاہد کی جواں سال موت نے انہیں گہرا صدمہ دیا اور اس کے بعد ان کی صحت گرتی چلی گئی۔
اس بڑے میڈیا گروپ کی عنان اب ان کے دوسرے بیٹے امتنان شاہد کے ہاتھ ہے۔ امتنان شاہد اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ایک بڑے ماں باپ کے تربیت یافتہ ہیں۔ اپنے عظیم والد کی وفات کے بعد امتنان شاہد نے جس طرح اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان کے کام کو آگے بڑھایا ہے وہ قابل تحسین ہے۔ وہ اسلام‘ پاکستان اور جمہوریت کا علم لے کر آگے بڑھ رہے ہیں۔ یکم اکتوبر سے9ویں شہر بہاولپور سے روزنامہ خبریں کی اشاعت کا آغاز ہوچکا ہے۔ اس موقع پر وہ مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے آپ کو جناب ضیا شاہد کا صحیح جانشین ثابت کردیا ہے۔ روزنامہ خبریں کی تمام ٹیم کو دی مبارکباد۔
(کالم نگاریوکرائن میں پاکستان کے سابق سفیر ہیں)
٭……٭……٭

آف شورکمپنیاں۔پیسہ باہرکیسے گیا؟

ملک منظور احمد
آج سے پانچ سال قبل جب دنیا میں پانامہ پیپرز کا اجرا کیا گیا تھا تو اس وقت عوام کو اور شاید سیاست دانوں کو بھی اس معاملے کی سنگینی اور ہنگامہ خیزی کا اندازہ نہیں تھا۔اس وقت پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف بھی شاید اسی غلط فہمی میں مبتلا رہے اور اس کے نتیجے میں انہیں نہ صرف وزارت عظمیٰ بلکہ اپنے سیاسی کیرئیر سے بھی ہاتھ دھونے پڑے۔اس بار ایک تبدیلی ضرور تھی کہ پنڈورا پیپرز کے عالمی صحافتی تنظیم آسی آئی جے کی جانب سے اجرا سے قبل ہی میڈیا سمیت سیاست دان بھی سانس روکے ہوئے بیٹھے تھے۔کچھ اشارے اس حوالے سے بھی دیے گئے کہ شاید وزیر اعظم عمران خان کی بھی کو ئی نئی آف شور کمپنیاں منظر عام پر آسکتی ہیں لیکن آئی سی آئی جے نے حوالے سے وضاحت کر دی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے نام پر کوئی آف شور کمپنی موجود نہیں ہے۔لیکن بہر حال وفاقی وزراء جن میں وزیر خزانہ شوکت ترین،مونس الہیٰ شامل ہیں اس کے علاوہ سینیٹر فیصل واوڈا،سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے صاحبزادے علی ڈار،علیم خان،سابق سیکرٹری خزانہ وقار مسعود سمیت کئی اہم کا روباری،سابق عسکری اور میڈیا شخصیات کے نام ان پیپرز میں سامنے آئے ہیں۔اور یہ نام سامنے آنے کے بعد یہ سوال سب کے ذہنوں میں اٹھ رہے ہیں کہ اب کیا ہو گیا؟ کیا پنڈورا پیپرز میں سامنے آنے والی شخصیات کے خلا ف تحقیقات ہوں گی اور اگر ہوں گی تو کیسی ہو ں گی۔معاملہ پر سیاست بھی ہو رہی ہے جو کہ ہونی ہی تھی اپوزیشن کا اس حوالے سے مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اپنے ہی سابقہ بیانات کی روشنی میں پہلے اپنے وزراء اور ساتھیوں سے استعفی ٰ لیں اور اس کے بعد تحقیقات کروائیں،اور اصولی طور پر دیکھا جائے تو اپوزیشن کی یہ بات خود وزیر اعظم کے سابقہ موقف کی روشنی میں وزن بھی رکھتی ہے۔لیکن کیا وزیر اعظم یہ اقدام اٹھائیں گے؟ اس بات کا جواب چند دنوں میں سب کے سامنے آجائے گا لیکن فی الوقت اس کے امکان انتہائی کم دکھائی دیتے ہیں۔اس حوالے سے وزیر اعظم نے تحقیقات کے لیے انسپکشن کمیشن کے تحت تین رکنی اعلیٰ سطحی کمیٹی تو تشکیل دے دی ہے،جس میں نیب ایف آئی اے اور ایف بی آر کے نمائندے شامل ہوں گے لیکن ان کے ان اقدامات پر سوالات ضرور اٹھ رہے ہیں،اور سوال اٹھنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وزیر اعظم کا معائنہ کمیشن طویل عرصے سے مکمل طورپر غیر فعال ادارہ بن چکاہے۔اس ادارے کی رپورٹ پر آج تک عمل نہیں کیا گیا ہے۔وزیر اعظم کے معائنہ کمیشن کے مینڈیٹ میں سرکاری اداروں میں پائی جانے والی بے ضابطگیوں،بے قاعدگیوں اور خلاف ضابطہ کام کے حوالے سے کام کرنا ہے لیکن وزیر اعظم معائنہ کمیشن کی کا رکردگی ہمیشہ سے ہی مایوس کن رہی ہے۔
اپوزیشن کے رہنما بھی پنڈورا پیپرز کے تحقیقاتی سیل کے قیام کے حوالے سے سرکاری اعلان کو مضحکہ خیز قرار دے رہے ہیں۔ بعض لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ کیا وزیر اعظم اپنے لوگوں کے خلاف سپریم کو رٹ جا ئیں گے؟یہ قیاس آرائیاں بھی جا ری ہیں کہ یہ سیل صرف اور صرف اپوزیشن کو نشانہ بنانے کا ہتھکنڈہ ثابت ہو سکتا ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ پانامہ پیپرز کے اجرا کے بعد وزیر اعظم عمران خان جو کہ اس وقت اپوزیشن کے لیڈر تھے انھوں نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف اس حوالے سے ایسی عوامی اور قانونی مہم چلائی تھی جس کی شاید پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اس ے قبل مثال نہیں ملتی ہے۔اور اب عوام کی توقع یہی ہے کہ وزیر اعظم اپنے ساتھیوں کے خلاف بھی اسی انداز میں سخت ایکشن لیں اور کا روائی کریں جس انداز میں سابق وزیر اعظم اور ان کے خاندان کے خلاف ہوئی۔
یہاں پر یہ بات بھی نہایت ہی اہم ہے کہ پانامہ پیپرز لیکس میں بھی محض سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کے نام شامل نہیں تھے بلکہ کئی سو پاکستانیوں کے نام اس فہرست میں شامل تھے لیکن ان کے خلاف کوئی تحقیقات نہیں کی گئی اور نہ ہی ان کے خلا ف بادی الّنظر میں کو ئی کا رروائی ہو ئی۔اگر اس حوالے سے تحقیقات ہونی ہیں تو اکراس دا بورڈ،اور نہایت ہی شفاف تحقیقات ہونی چاہئیں اسی طرح بہتر انداز میں اس معاملے کو ڈیل کیا جاسکتا ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ پنڈورالیکس میں نام آنے والا ہر شخص ہی قصور وار ہو لیکن بہر حال اس حوالے سے تحقیقات ہونا لازمی ہیں۔پنڈورا میں جن 700پاکستانیوں سے یہ پوچھا جانا چاہیے کہ ان کی منی ٹریل کیا ہے اگر ان کی آف شور کمپنی قانونی بھی ہے تو پیسہ باہر کیسے گیا اور کیا اس پیسے پر ٹیکس کی ادائیگی ہوئی یا نہیں یہ اہم سوالات ہیں جن کے جواب آنا ضروری ہے۔
یہاں پر یہ اس بات کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ بعض حلقوں کی جانب سے آئی سی آئی جے کے مقاصد بلکہ ان کی نیت پر شک و شکوک کا اظہار کیا جا رہا ہے یہ کہا جا رہا ہے کہ تنظیم امریکی فنڈڈ این جی او چلاتی ہیں اور فنڈ کرتی ہیں۔ان کی رپورٹس میں تضادات اور مبالغہ آرائی کے اعتراضات بھی اردن اور روس سمیت دیگر ممالک نے اٹھائے ہیں یقینا ان میں بھی وزن ہے اور اسی قسم کے اعترضات پانامہ لیکس کے وقت بھی سامنے آئے تھے لیکن اب اس حوالے سے جو مثال قائم ہو چکی ہے اور خود موجودہ وزیر اعظم عمران خان نے بطور اپوزیشن لیڈر قائم کی تھی اس کے بعد پنڈورا پیپرز کے بعد بھی سب کی نظریں اب وزیر اعظم عمران خان پر ہی مرکوز ہیں۔پنڈورا پیپرز کی تحقیقات یقینا بہت سارے لوگوں کی نظر میں جن میں ان کے ووٹرز بھی شامل ہیں وزیر اعظم کی ساکھ کا امتحان ہیں آیا وزیر اعظم اس امتحان میں کامیاب ہو تے ہیں یا نہیں اس سوال کا جواب ہمیں چند دنوں تک بڑی حد تک مل ہی جائے گا۔
(کالم نگارسینئرصحافی اورتجزیہ کارہیں)
٭……٭……٭

ہم ٹارگٹڈ سبسڈیز سے مہنگائی کے مسئلے پر قابو پائیں گے ، معلوم ہے مہنگائی کی وجہ سے غریب عوام تکلیف میں ہیں

اسلام آباد (نامہ نگار خصوصی) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ہم ٹارگٹڈ سبسڈیز سے مہنگائی کے مسئلے پر قابو پائیں گے ، معلوم ہے مہنگائی کی وجہ سے غریب عوام تکلیف میں ہیں، ماضی میں غلط معاشی پالیسیاں اختیار کی گئیں، ریاست مدینہ کے اصولوں پر چلنے سے ہم ترقی کے راستے پر چل نکلیں گے، ریاست مدینہ کا ماڈل ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ اسلام آباد میں کامیاب پاکستان پروگرام کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ 74 سال قبل بڑی غلطی کی کہ ہم سمجھتے تھے کہ جب ہمارا ملک خوشحال ہوجائے، ہمارے پاس پیسہ آجائے پھر پاکستان کو فلاحی ریاست بنایا جائے۔انہوں نے کہا کہ یہ سوچ کے پہلے ہمارے پاس پیسہ اکٹھا ہوگا، ملک میں سرپلس ہوگا تو ہم غریبوں پر لگائیں گے، یہ غلط فیصلے تھے، میں ریاست مدینہ کی اس لیے بات کرتا ہوں کیوں کہ وہ دنیا کی تاریخ کا سب سے کامیاب ماڈل تھا اس کے نتائج تاریخ کا حصہ ہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ مدینہ میں پہلے فلاحی ریاست بنائی گئی تھی پھر پیسہ آیا تھا پھر خوشحالی آئی تھی، یہ خیال بالکل غلط ہے کہ پہلے پیسہ آیا تھا پھر انہوں نے نچلے طقبے کو منتقل کیا تھا۔انہوں نے کہا کہ ریاست مدینہ کے اصولوں پر چلنے سے ہم ترقی کے راستے پر چل نکلیں گے، ریاست مدینہ کا ماڈل ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔انہوں نے کہا کہ ماضی میں غلط معاشی پالیسیاں اختیار کی گئیں، چین نے مدینہ کا ماڈل فالو کیا، ترقی حاصل کی، چین نے غربت کے خاتمے کے لیے مختلف منصوبے شروع کیے، چینی صدر نے حال ہی میں اعلان کیاکہ وہاں انتہائی غریب نہیں رہے ۔وزیراعظم نے کہا کہ انسانیت اور انصاف تہذیبوں کی بنیاد ہیں، بھارت اور چین کو دیکھ لیں دونوں کی ایک جتنی آبادی ہے 35 سے 40 سال قبل دونوں ممالک کی صورتحال ایک جیسی تھی، آج چین آسمان پر پہنچ گیا جبکہ بھارت میں وہی امیر لوگوں کا ایک جزیرہ ہے اور نیچے غربت ہے۔وزیراعظم نے کہاکہ بانیانِ پاکستان نے کہا تھا کہ یہ اسلامی فلاحی ریاست بنے گی تو اس فیصلے پر کبھی عمل ہی نہیں ہوا بلکہ اشرافیہ کا نظام بن گیا۔انہوں نے کہا کہ تعلیم کے نظام میں ہی دیکھ لیں کہ چھوٹے سے طبقے کو انگریزی میڈیم میں تعلیم دلوا کر نوکریاں انہیں دلوادیں باقی عوام اوپر ہی نہیں آسکتی اور پھر دینی مدرسے چل رہے ہیں، کبھی کسی نے ان سب کو ملانے کی کوشش نہیں کی کہ ایک ملک ہے ایک قوم ہے اس کا نصاب تو ایک ہو۔ملکی نظام ایسا تھا صرف اوپر والا طبقہ ہی مراعات حاصل کرسکتا تھا، معاشر ے میں عدم مساوات کسی بھی ریاست کے زوال کی علامت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ معلوم ہے کہ اس وقت لوگ مشکلات کا شکار ہیں، اس وقت مہنگائی کی وجہ سے غریب عوام تکلیف میں ہیں، اس وقت جب چیزیں مہنگی ہیں، حکومت اپنی پوری کوشش کررہی ہے کہ غریب طبقے کو تکلیف نہ ہو، دنیا میں تیل کی قیمت گذشتہ چند ماہ میں 100 فیصد بڑھی ہے، پاکستان میں ہم نے اس وقت 22 فیصد بڑھائی ہے، دنیا میں تیل پیدا کرنے والے 19 ممالک کے سوا، اس وقت ہم دنیا میں پاکستان میں سب سے کم قیمت پر پٹرول اور ڈیزل بیچ رہے ہیں، ہندوستان میں اس وقت پٹرول ڈیزل کی قیمت ہم سے دگنا ہے، کورونا کے باعث دنیا میں گندم کی 37 فیصد قیمت بڑھی ہے، پاکستان میں ہم نے 12 فیصد بڑھائی ہے، دنیا میں چینی کی قیمت میں 40 فیصد اضافہ ہوا ہے، پاکستان میں ہم نے 21 فیصد بڑھائی ہے، حالانکہ ملک پر مالی خسارے اور قرضوں کی وجہ سے کافی دباﺅ ہے، ہم نے اپنی طرف سے غریب طبقے پر کم سے کم بوجھ ڈالا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے پٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس اور لیوی بھی کم کی ہے، اگر نہ نیچے لاتے تو حکومت کو ایک سال میں 400 ارب روپے کا فائدہ ہوتا، لیکن ہم نے 400 ارب کا نقصان کیا تاکہ لوگوں پر بوجھ نہ پڑے، قیمتیں بڑھنے سے یقینا لوگوں کو تکلیف ہے لیکن ہم نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی ہے کہ لوگ کم سے کم متاثر ہوں، انشا اللہ آنے والے دنوں میں احساس ٹارگٹڈ سبسڈیز پروگرام لارہے ہیں، جس میں غریب گھرانوں کو آٹے، چینی اور گھی پر براہ راست سبسڈیز دیں گے، گھی ہم 75 فیصد درآمد کرتے ہیں، دنیا میں پام تیل کی قیمت 80 فیصد بڑھی ہے، ملک میں مہنگا ہونے کی وجہ ہی یہی ہے، بنیادی طور پر یہ درآمدی افراط زر ہے، امپورٹڈ انفلیشن کی وجہ سے ملک میں مہنگائی ہے، ہم ٹارگٹڈ سبسڈیز سے مہنگائی کے مسئلے پر قابو پائیں گے، اور امید ہے کہ دنیا میں اجناس کی قیمتیں کم ہونے سے پاکستان میں بھی قیمتیں کم ہوں گی۔وزیراعظم نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ ملک کی ترجیحات اور عوام کی سوچ تبدیل کریں، جب حکمران عام آدمی کی زندگی بہتر کریں، غریب آدمی کی دعائیں لیں تو اسی معاشرے میں اللہ کی برکت آتی ہے۔

شادی کا وقت گزرچکا‘ اب پورے ہندوستان کی لڑکیوں کا بھائی ہوں: سلمان خان

ممبئی(این این آئی) بالی وڈ کے ”دبنگ“ اداکار سلمان خان نے شادی سے متعلق سوال کرنے پر بھارتی گلوکارہ افسانہ خان کو دلچسپ جواب دیا ہے۔میڈیا رپورٹ کے مطابق بھارتی گلوکارہ اور بگ باس 15 کی کنٹیسٹنٹ افسانہ خان نے پریمیئر ایپیسوڈ کے دوران سلمان خان سے شادی سے متعلق سوال کیا۔افسانہ خان نے سلو میاں سے پوچھا کہ آپ پیار اور شادی کے بغیر کیسے رہ رہے ہیں، میں تو اپنے منگیتر کے بغیر بیمار پڑ گئی تھی۔ سلمان خان نے اپنے جواب میں کہا کہ ‘میں یہ نہیں کہوں گا کہ ابھی تھوڑا ٹائم ہے ، دراصل اب تو وہ تھوڑا ٹائم بھی نکل چکا ہے ۔گلوکارہ نے پوچھا کہ اگر میں آپ کو ”بھائی“ کہوں تو ؟ اس کے جواب میں سلمان خان نے کہا کہ ‘ضرور کہیں، کیونکہ اب مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں پورے ہندوستان کا بھائی ہوگیا ہوں۔

پٹرول کے بعد بجلی مہنگی‘ 1.65 پیسے فی یونٹ اضافہ

اسلام آباد(صباح نیوز) بجلی ایک سال کے لئے 1.65 پیسے فی یونٹ مہنگی کردی گئی۔تفصیلات کے مطابق حکومت کی جانب سے پیٹرول بم کے بعد نیپرا نے بجلی ایک سال کیلئے 1.65 فی یونٹ مہنگی کر دی ، جس کے بعد بجلی کی فی یونٹ قیمت 16.44 سے بڑھ کر 18.16 روپے فی یونٹ ہو گئی اور اس فیصلے سے بجلی صارفین پر 90 ارب روہے کا بوجھ پڑے گا، اس حوالے سے اتھارٹی نے بجلی مہنگی کرنے کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا ۔نیپرا نے کہا کہ بجلی کی قیمت میں ہونے والا حالیہ اضافہ 2019-20 اور 2020-21 کی سہ ماہی ایڈجسٹمنٹس کی مد میں کیا گیا، فیصلے کا اطلاق 300 یونٹ سے زائد استعمال کرنے والوں پر ہو گا، 80 فیصد صارفین ماہانہ 300 یونٹ سے زائد استعمال کرتے ہیں، کے الیکٹرک صارفین پر فیصلے کا اطلاق نہیں ہو گا۔

ٹی ٹوینٹی ورلڈکپ میں پاکستان اور بھارت کے درمیان میچ کے تمام ٹکٹ چندگھنٹوں میں فروخت

لاہور (این این آئی)ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں پاکستان اور بھارت کے درمیان میچ کے تمام ٹکٹ چند گھنٹوں میں فروخت ہو گئے۔رواں ماہ ٹی 20 ورلڈ کپ میں روایتی حریف پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والے میچ کے ٹکٹ آن لائن فروخت کئے گئے، ویب سائٹ پر خریداری کے لیے ونڈو کھلتے ہی ہزاروں کی تعداد میں شائقین ٹکٹ کے حصول کے لیے کوشاں تھے۔گزشتہ رات 1500 درہم کے پریمیئم اور2600 درہم کے پلاٹینم ٹکٹ ہی باقی رہ گئے تھے تاہم پیر کی صبح ہونے تک یہ بھی ختم ہوگئے، سوشل میڈیا پر شائقین کی بڑی تعداد بلیک میں ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے کوشاں نظر آتی ہے۔واضح رہے کہ ورلڈ کپ میں پاکستان اور بھارت کا میچ 24 اکتوبر کو کھیلا جائے گا۔

گستاخانہ خاکے بنانے والا ملعون عبرتناک موت سے دوچار‘ ٹریفک حادثے میں جل کر راکھ

سٹاک ہوم (نیوز ایجنسیاں)گستاخانہ خاکے بنانے والا سویڈن کا ملعون کارٹونسٹ لارس ولکس کارحادثے میں جھلس کر ہلاک ہوگیا،واقعہ میں سکیورٹی پر تعینات 2پولیس اہلکار بھی ہلاک ہوگئے ۔لارس ولکس نے 2007 میں گستاخانہ خاکے بنائے تھے اور اس کے بعد سے پولیس اس کی حفاظت پرتعینات تھی۔سویڈش پولیس نے تصدیق کی کہ 75 سالہ کارٹونسٹ اور دو پولیس افسران کار حادثے میں ہلاک ہو گئے جو ٹرک سے ٹکرا گئی تھی۔پولیس کے ایک ترجمان نے مزید کہا کہ سڑک حادثے کی تفتیش کی جا رہی ہے۔ کیونکہ اس میں دو پولیس اہلکار بھی مارے گئے ۔پولیس کے مطابق دونوں گاڑیوں میں آگ لگ گئی تھی اور ٹرک ڈرائیور کو ہسپتال منتقل کر دیا گیا ۔ حادثے کی وجہ فی الحال واضح نہیں ہے۔علاقائی پولیس سربراہ کارینا پرسن نے کہا جس شخص کی ہم حفاظت کر رہے تھے، وہ اوراس کے دو ساتھی اس ناقابل فہم اور خوفناک حادثے میں مر گئے ۔پولیس کی جانب سے بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ کار اور ٹرک کی ٹکر کیسے ہوئی تاہم ابتدائی طورپر اس میں کسی کے ملوث ہونے کے شواہد نہیں ملے۔ملعون لارس ولکس نے 2007 میں گستاخانہ خاکے بنائے جس سے مسلمانوں میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی تھی،پولیس اسے تحفظ فراہم کرتی تھی۔

بابراعظم ٹی 20 کرکٹ میں تیز ترین 7000 رنز بنانے والے کرکٹر بن گئے

راولپنڈی(این این آئی) پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں تیز ترین 7000 رنز بنانے والے کرکٹر بن گئے ہیں، انہوں نے یہ سنگ میل 187 اننگز میں عبور کرکے ویسٹ انڈیز کے جارح مزاج بیٹسمین کرس گیل کا ریکارڈ توڑ دیا۔بابر اعظم نے یہ ریکارڈ قومی ٹی ٹوئنٹی چمپئن شپ میں سینٹرل پنجاب اور سدرن پنجاب کے درمیان میچ میں عبور کیا، اس میچ سے قبل بابر اعظم کو سات ہزار رنز مکمل کرنے کے لیے چار رنز درکار تھے۔پاکستانی کپتان نے 187 اننگز میں سات ہزار رنز مکمل کرکے کرس گیل کا ریکارڈ توڑا، کرس گیل نے 192 اننگز میں سات ہزار رنز ٹی ٹوئنٹی رنز کا سنگ میل عبور کیا تھا۔بابر اعظم اس سے قبل تیز ترین چھ ہزار رنز کرنے والے ایشین بیٹسمین بھی رہ چکے ہیں، چھ ہزار رنز مکمل کرنے میں وہ کرس گیل سے صرف تین اننگز پیچھے تھے مگر انہوں نے چھ ہزار سے سات ہزار رنز کا سفر 22 اننگز میں مکمل کیا۔بابر اعظم نے کم سے کم اننگز کے ساتھ کم سے کم وقت میں بھی تیز ترین سات ہزار رنز کا ریکارڈ اپنے نام کیا۔بابر اعظم نے ڈیبیو کے 8 سال 10 ماہ میں یہ سنگ میل عبور کیا، وہ نو سال سے کم وقت میں سات ہزار ٹی ٹوئنٹی رنز مکمل کرنے والے پہلے بیٹسمین ہیں۔یاد رہے کہ اس سال اپریل میں بابر اعظم نے تیز ترین دو ہزار انٹرنیشنل ٹی ٹوئنٹی رنز کا ریکارڈ بھی اپنے نام کیا تھا۔اس ریکارڈ کے لیے انہوں نے بھارت کے ویرات کوہلی کو چار اننگز سے پیچھے چھوڑا تھا۔

آئی ایم ایف کی شرائط پر بجلی‘ گیس کی قیمت میں 35 فیصد اضافہ ہوگا: رضاربانی

اسلام آباد(صباح نیوز)پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما سینیٹر رضا ربانی نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط پر حکومت بجلی اور گیس کی قیمت میں 35 فیصد اضافہ کرے گی، اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے نے عام آدمی کی کمر توڑ دی ہے۔سینیٹر رضا ربانی نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ چینی، آٹا، دال، گھی، پیٹرول، بجلی اور گیس کی قیمتیں ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ ہیں۔انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کی شرائط پر حکومت بجلی اور گیس کی قیمت میں 35 فیصد اضافہ کرے گی، منافع پاور پلانٹس چلانے والی ملٹی نیشنل تیل کمپنیوں اور دوست سرمایہ داروں کی جیب میں جائے گا۔