طالبان اور پاکستان کے تعلقات بگڑسکتے ہیں:امریکہ

واشنگٹن (نیوز ایجنسیاں) امریکا کے سیکریٹری دفاع لائیڈ آسٹن نے کانگریس کو بتایا کہ افغان فوج کی اچانک پسپائی سے پنٹاگون مشکل میں پڑ گیا اور افغانستان میں امریکا کی طویل جنگ میں کرپشن سمیت غلطی کا اعتراف کرلیا۔خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق امریکی سیکریٹری دفاع لائیڈ آسٹن نے سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کو بتایا کہ ‘حقیقت یہ ہے کہ افغان فوج کئی جگہ ایک فائر کیے بغیر پسپا ہوگئی، جس سے ہم سب کو حیرت میں ڈال دیا’۔انہوں نے کہا کہ ‘اس کے علاوہ دعوے کرنا بددیانتی ہوگی’۔ لائیڈ آسٹن افغانستان میں جنگ کے خاتمے پر پیدا ہونے والی افراتفری سے متعلق دو روزہ اجلاس کے ابتدا میں آگاہ کر رہے تھے اور اس جنگ میں امریکی فوجیوں اور شہریوں کو بھاری جانی نقصان ہوا جبکہ طالبان واپس حکومت میں براجمان ہوگئے۔۔آسٹن نے بتایا کہ ‘کیا یہ بہترین ہے؟ تو بالکل نہیں ‘ اور اشارہ کیا کہ افغان شہری جو ملک چھوڑنا چاہتے تھے وہ امریکی فوجی طیارے سے گر کر ہلاک ہوئے اور امریکی ڈرون کی زد میں آکر جاں بحق ہونے والے افغان شہریوں کا بھی تذکرہ کیا۔
سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی میں شامل ری پبلکن کے سینئر رہنما سینیٹر جیمز انہوف نے بائیڈن انتظامیہ پر الزام عائد کیا کہ ناقدین جس طرح 20 سالہ جنگ کا خاتمہ ہوا ہے اس کو شرم ناک کہتے ہیں۔ امریکی فوج کے جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل مارک ملی کا کہنا ہیکہ افغانستان میں القاعدہ دوبارہ منظم ہوسکتی ہے، افغان فوج اور حکومت ختم ہونیکی توقع اتنی جلدی نہیں تھی۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق واشنگٹن میں امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کا افغانستان پر اجلاس ہوا، اجلاس میں امریکی وزیر دفاع جنرل آسٹن، سینٹ کام کمانڈر جنرل مکنزی اور جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل مارک ملی بھی شریک ہوئے۔جنرل ملی کا کہنا تھا کہ دوحہ معاہدے نے افغان فوج کا مورال کم کیا، طالبان اب بھی دہشت گرد تنظیم ہے،طالبان کے اب بھی القاعدہ کے ساتھ روابط ہیں، افغانستان میں القاعدہ دوبارہ منظم ہوسکتی ہے اور افغان سرزمین امریکا کے خلاف استعمال ہو سکتی ہے۔جنرل ملی کا کہنا تھا کہ افغان فوج کا اس طرح تحلیل ہونا متوقع نہیں تھا، اشارے تھے کہ امریکی انخلا سے افغان فوج اور حکومت ختم ہوسکتی ہے، لیکن افغان فوج اور حکومت ختم ہونیکی توقع اتنی جلدی نہیں تھی، افغان فوج میں نیت اور قیادت کا فقدان تھا، افغانستان سے انخلا سے امریکی ساکھ متاثر ہوئی، ٹرمپ اوربائیڈن کوخبردار کیا تھا کہ اچانک انخلا سے افغان حکومت گر سکتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ دوحہ معاہدے کے تحت طے شدہ شرائط میں سے طالبان نے صرف ایک شرط پوری کی جو اتحادی افواج پر حملہ نہ کرنے کی تھی۔سینٹ کام کمانڈر جنرل مکنزی کا کہنا تھا کہ میراخیال تھا کہ امریکی فوج افغانستان میں رہنی چاہیے کیونکہ امریکی فوج کے انخلا سے افغان فوج متاثر ہوگی،طالبان کے زیر اثر افغانستان کی طرف سے پاکستان پر دبا بڑھ سکتا ہے، آنے والے دنوں میں پاکستان کے لیے مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔ جس سے پاکستان اور طالبان کے تعلقات بگڑ سکتے ہیں۔ جزل مکنزی کا کہنا تھا کہ افغانستان تک فضائی اور زمینی رسائی پاکستان کی ذریعے ہوتی رہی، افغانستان تک رسائی سے متعلق پاکستان کے ساتھ بات چیت رہی ہے۔امریکی وزیر دفاع جنرل آسٹن کا کہنا تھا کہ افغانستان میں مزید کسی فوجی کارروائی کا کوئی ارادہ نہیں،جنرل آسٹن کا کہنا تھا کہ افغانستان میں ہم نے ایک ریاست تو بنالی پر ایک قوم نہ بناسکے،حقیقت یہ ہیکہ ہم نے اور ہمارے اتحادیوں نے جو افغان فوج کو تربیت دی وہ بہت جلد بہہ گئی، متعدد بار ایک گولی چلائے وہ ہتھیار ڈال گئے، ہزاروں افغان فوج اور پولیس کے اہلکار مرگئے لیکن ہم ان میں جیتنے کی خواہش نہیں پیدا کرسکے۔

 

سیاسی دباؤ اور چمک MGموٹرز کے گرفتار ملزمان کو تھانے میں دی آئی پی پروٹوکول

لاہور(خصوصی ر پورٹر)ایم جی مو ٹر ز کے مبینہ تشددسے 55سالہ شہر ی کی ہلا کت کا معاملہ، آپریشنز ونگ کی جانب سے حرا ست میں لیے گئے ملزمان کوسیاسی دباؤ اور چمک کے باعث انویسٹی گیشن ونگ کے حوالے کر نے کے بعد وی وی آئی پی پرو ٹوکو ل ملنے لگا جبکہ انویسٹی گیشن پولیس کی جا نب سے ایف آئی ار میں نا مزد تینوں ملزمان کی گرفتا ر ی بھی التواء میں ڈال دی گئی۔ تفصیلا ت کے مطا بق ایم جی مو ٹرز پیکجز ما ل پر 24ستمبر کو 55سالہ شہر ی ثوبل گو ند ل کا جھگڑا ہوا جس کے با عث مذکو ر ہ شخص جاں بحق ہو گیا تھا، خبریں، چینل 5 نے ایم جی موٹرز کی انتظامیہ کے مبینہ تشدد سے ہلاک ہونے والے شہری کی نشاند ہی کی جس پر فیکٹر ی ایریا پولیس نے ملازم کی مدعیت میں مقدمہ درج کرلیا تھا اور واقعہ میں ملوث تین ملزمان جس میں ایم جی مو ٹر ز پیکجز کا جنرل منیجر زبیر احمد،سیکورٹی گا رڈ یا سر اور ٖغفار کو آپریشن پولیس کی جا نب سے حرا ست میں بھی لیا گیا تھا اور مقد مہ کی مزید تحقیقات کیلئے انویسٹی گیشن پولیس کے حوالے مزکور ہ ملزمان کو دیا گیا،لیکن اب ان ملزمان کی منظر عا م پر آنے والی ویڈیو میں دیکھا جا سکتاہے کہ ملزمان کو انچار ج انویسٹی گیشن کمرے میں وی وی آئی پی طر یقے سے آرام کر ر ہے ہیں جبکہ انہیں کھا نے اور دیگر اشیا ء بھی فراہم کی گئی ہیں۔ واضح رہے کہ تھا نہ فیکٹر ی ایریا میں ملزمان کے خلاف مقدمہ نمبر 3508 در ج ہے۔ جس کے مطا بق مقد مہ مدعی غلام حسین عرصہ 30/35 سال سے ثوبل احمد گوندل کے پاس ملازمت کر رہا ہے، مقد مہ مدعی کیمطا بق میرے مالک نے پیکجز مال سے MG گاڑی بک کروا رکھی تھی جو 24تا ریخ کو ایم جی مو ٹرز کی والوں کی طرف سے فون کال موصول ہوئی کہ اپنی گاڑی آکر لے جائیں میں اورجس پر مالک ثوبل گوندل تقریبا 4 بچے شام پیکجز مال پہنچے ثوبل تو مزکو ر ہ موٹرز کے GM سے بات کی جو باتوں باتوں میں ان کے درمیان تلخ کلامی ہوگئی مزکور ہ کی کے GM اور اس کے سٹاف نے ثوبل گوندل کے ساتھ بد تمیزی اور گالی گلوچ شروع کر دی جو نے ان کو سمجھایا لیکن وہ لوگ باز نہ آئے تو ثوبل گوندل نے بھی ان کو سخت الفاظ کہے شو روم MG سے اور پیجز مال سے باہر آکر اپنی گاڑی میں بیٹھ کر جانے لگے تو اتنے میں مزکو ر ہ شورم کے GM زبیر احمد، سیکیورٹی گارڈ محمد یاسر، سکیورٹی گارڈ ن غفار سمیت 13/20 کسی نامعلوم افراد جن کو سامنے آنے پر شناخت کر سکتے ہیں کے ہمراہ آگئے اور زبردستی گاڑی کو روک لیاجس پر ہم نے گاڑی سے نکل کر بات کرنے کی کوشش کی توملزم GM اور اس کے ساتھیوں نے زبردستی گاڑی کے دروازے نہ کھولنے دیئے اس دھکم پیل کے دوران ثوبل گوندل کی طبیعت خراب ہو گئی اور بے ہوش ہو گئے میں نے فورا ان کے پینے غوث گوند ل کو اطلاع دی اور GM اور دیگر افراد کو منت سماجت کی کہاان کی طبیعت خراب ہوگئی ہے ہمیں طبی امداد کیلئے ہسپتال جانے دیں لیکن ان تمام لوگوں نے میری ایک نہ سنی اور ہماری گاڑی کو زبردستی روکے رکھا اسی دوران کابیٹا غوث بھی موقع پر بھی کیا اور جب ہم نے ثوبل گوندل کو چیک کیا تو وہ ہلا ک ہو چکے تھے جس کے بعد کیلئے ان کو اتفاق ہسپتال لے کر آئے جہاں پر ہسپتال والوں نے ان کی موت کی تصدیق کر دی۔پولیس نے واقعہ کا مقد مہ در ج کر کے تفتیش کاآغاز کردیا ہے۔ تا حا ل نہ دیگر ملزمان کو حرا ست میں لیا جبکہ آپریشنز ونگ کی جا نب سے حرا ست میں لئے گئے ملزمان کو انویسٹی گیشن ونگ کی جانب سے وی وی آئی جی پروٹوکول دیاجانے لگا ہے۔

ترقی کیلئے مل کر چلیں،وزیراعظم کی سندھ حکومت کو پیشکش

کراچی (وقائع نگار خصوصی) وزیراعظم عمران خان نے کہاہے کہ کراچی کے مسائل کے حل کیلئے وفاق اور سندھ کو مل کر چلنا ہوگا۔ٹرانسپورٹ اور پانی کراچی کے بڑے مسائل ہیں،ترقی یافتہ ملک دیکھیں تو وہاں کوئی ایک شہر ملک کو لے کر چلتا ہے، کراچی کی اہمیت کا اندازہ پوری طرح سے نہیں لگایا گیا، ہم جانتے ہیں 70کی دہائی میں کراچی کیا تھا،80 میں ترقی کرنے لگا تو شورش شروع ہوگئی،کراچی شہر سارے پاکستان کے لیے سرمایہ کاری لاسکتا ہے، وزیراعلی سندھ سے کہوں گا بنڈل آئی لینڈ پر غور کریں۔وہ پیر کو کراچی کینٹ اسٹیشن پر کراچی سرکلر ریلوے کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب کررہے تھے۔کراچی سرکلرکا ٹریک 29 کلو میٹر طویل ہوگا، 16اسٹیشن ہوں گے۔ منصوبے پر ڈھائی سو ارب روپے لاگت آئے گی۔جدید سرکلر ریلوے کے اسٹیشنز رہائشی، صنعتی اور دفتری علاقوں کو ملائیں گے جس سے کراچی میں نہ صرف ٹریفک کا بہا ؤکم ہوگا بلکہ روزگار کے لیے سفر کرنے والے مسافروں کو سہولت ہوگی۔207 ارب کی مجموعی لاگت سے مکمل ہونے والے جدید کراچی سرکلر ریلوے منصوبے میں بجلی سے چلنے والی ٹرینیں شامل کی جائیں گی جس سے آلودگی کو کم کرنے میں معاونت ملے گی۔ اس موقع پروزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ، گورنر سندھ عمران اسماعیل، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری، وفاقی وزیر برائے بحری امور علی زیدی اور وفاقی وزیر ریلوے اعظم خان سواتی موجود تھے۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ کراچی سرکلر ریلوے کا سنگ بنیاد رکھنا بڑا موقع ہے، یہ منصوبہ صرف کراچی کے لیے نہیں ہے بلکہ اس سے سارے ملک کو فائدہ ہوگا۔ کے سی آر منصوبے پر وزیراعلی سندھ اور گورنرعمران اسماعیل کی معاونت کے مشکور ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کی شرح نمو میں ایک شہر ان کی قیادت کرتا ہے، انگلینڈ میں لندن، امریکا میں نیو یارک اور پاکستان کے لیے کراچی وہ اہم شہر ہے۔ کراچی ایسا شہر ہے جس کی ترقی میں سارے پاکستان کی ترقی ہے تاہم یہاں 80 کی دہائی میں پیدا ہونے والے مسائل نے پورے ملک کو متاثر کیا۔انہوں نے کہا کہ شہر کے لیے سب سے اہم اس کا ٹرانسپورٹ کا نظام ہے جس پر اس طرح سے سرمایہ کاری نہیں ہوئی جیسے ہونی چاہیے تھی۔وزیر اعظم نے کہاکہ کے سی آر، گرین لائن کراچی کے لیے بہت بڑا قدم ہے اور جس تیزی سے کراچی پھیل رہا ہے، ہمیں مزید کام بھی کرنا ہوگا۔انہوں نے کہاکہ ٹرانسپورٹ کا نظام کسی بھی شہر کی بنیادی چیز ہوتی ہے، سرکلر ریلوے منصوبہ سارے شہر سے گزرے گا، ٹریفک کادباؤ کم کرے گا۔انہوں نے کہا کہ کراچی کا دوسرا بڑا مسئلہ پانی ہے، کراچی میں پانی کے مسئلے پر واپڈا کے چیئرمین سے بات کی،واپڈا چیئرمین نے بتایا ہے کہ 2 سالوں میں کراچی کو کے 4 کے ذریعے پانی پہنچادیا جائے گا۔ کے فور منصوبہ کراچی کے لیے بڑی نعمت ہے۔انہوں نے کہاکہ گزشتہ سال کراچی ٹرانسفارمیشن پلان بنایا، یہ معیشت کے حوالے سے اہم شہر ہے۔ اس کی اہمیت کا پوری طرح اندازہ نہیں لگایا گیا۔کراچی میں انتشار کے بعد اس کی ترقی تیزی سے گرنا شروع ہو گئی۔ہمیں سندھ کی ترقی کے لیے آگے بڑھنا اور ساتھ چلنا ہوگا۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ کراچی پھیلتاجارہا ہے جس کے باعث مسائل بڑھ جاتے ہیں،لاہور بھی پھیل رہا ہے جس کی وجہ سے شہروں پر دباؤ بڑھ جاتاہے اور وسائل کم ہوجاتے ہیں۔کراچی کے مسائل بروقت حل نہ کیے گئے تو کنٹرول کرنا مشکل ہوجائے گا،کراچی کی ترقی کے لیے بنیادی انفرااسٹرکچر کی ضرورت ہے۔وزیراعظم نے کہاکہ ٹرانسپورٹ کی سہولت بنیادی انفرا اسٹرکچر کا اہم جزو ہے،کراچی سمیت ملک بھر کے بڑے شہروں کے لیے منصوبہ بندی کرناہوگی۔کراچی کے مسائل کے حل کیلیے وفاقی حکومت پرعزم ہے،امید ہے سندھ حکومت بھی کراچی کے لیے بھرپور کام کر ے گی۔انہوں نے کہاکہ کئی چیزیں ایسی ہیں جو وفاقی حکومت، صوبائی حکومت کے بغیر نہیں کرسکتی۔عمران خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ بنڈل آئی لینڈ کے منصوبے سے سب کو فائدہ ہو گا، شہر پر دبا کم ہوگا، ابھی سے منصوبہ بنائیں کہ کن علاقوں پر کام کرنا ہوگا، بنڈل آئی لینڈ سے پاکستان کا فائدہ بیرون ملک سے سرمائے کا آنا ہے، بیرون ملک مقیم پاکستانی بھی اس منصوبے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ بنڈل آئی لینڈ سے فائدہ سندھ کو ہے، اس پر وزیراعلی سے مزید بات کریں گے، بنڈل آئی لینڈ کے منصوبے پر سندھ اور وفاق دونوں کو فائدہ ہوگا۔انہوں نے کہا کہ بڑے منصوبے مشکل ہوتے ہیں، سیاسی عزم کا اظہار نہیں ہوتا، بڑھتی آبادی کے لیے ابھی سے منصوبہ بندی کرنا ہوگی، وفاق اس منصوبے پر پرعزم ہے، امید ہے حکومت سندھ اس پر تعاون کرے گی۔وزیر اعظم نے کہاکہ کراچی میں گزشتہ سال سیلاب سے جو مسئلے آئے تھے، خوشی ہے کہ ان پر کام کا آغاز ہوگیا ہے، 3 اہم نالوں کا کام بھی ہوگیا ہے۔انہوں نے کہاکہ کے سی آر جیسے بڑے منصوبوں پر سندھ اور عوام کو پوری زور لگانی ہوگی کیونکہ اس میں مسائل پیدا آتے ہیں تاہم اگر یہ وقت پر مکمل ہوا تو اس پر کم سے کم لاگت آئے گی۔قبل ازیں وزیر ریلوے اعظم سواتی نے اپنے خطاب میں کہا کہ جدید کے سی آر منصوبہ پاکستان میں تاریخ رقم کریگا، اس منصوبے سے کراچی کے شہریوں کی سفری مشکلات کم ہوں گی،بدقسمتی سیکراچی ترقی کے بجائے کچرا کنڈی بن گیا، ہم ریلوے کومنافع بخش ادارہ بنانا چاہتے ہیں۔ کراچی کوجدید ٹرانسپورٹ کی فراہمی کاسہرا وزیراعظم کے سر ہے۔وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کے پانچ بڑے منصوبوں پر پیش رفت جاری ہے۔انہوں نے کہا کہ کراچی میں کام کرنے کے لیے وفاقی و صوبائی حکومتوں نے فیصلے کیے۔اسد عمر نے کہا کہ اکتوبر میں وزیراعظم گرین لائن منصوبے کا افتتاح کریں گے۔وفاقی وزیر نے کراچی میں بارش میں کئی علاقے ڈوب جاتے ہیں، کراچی کے تین بڑے نالوں سے گیارہ لاکھ ٹن کچرا صاف کیا۔انہوں نے کہا کہ کے فور منصوبہ ایک دہائی سے التوا کا شکار تھا، کئی سال سے التوا کا شکار منصوبے حقیقت بنتے نظر آرہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے پیر کو کراچی سرکلرریلوے منصوبے کا سنگ بنیاد رکھ دیا۔کے سی آر ٹریک کی لمبائی تینتالیس کلومیٹر ہو گی اور33 اسٹیشنز تعمیر کیے جائیں گے۔ منصوبہ اٹھارہ سے چوبیس ماہ میں مکمل ہو گا۔سرکلر ریلوے دو ٹریکس پر چلے گی، ایک ٹریک سٹی اسٹیشن سے شہرکاچکرلگا کر کینٹ اسٹیشن، دوسرا سٹی اسٹیشن سے دھابیجی جائے گا۔سرکلر ٹرین سٹی اسٹیشن سے چلے گی اور سائٹ، گلشن اقبال، گلستان جوہر سے ہوتی ہوئی واپس سٹی اسٹیشن پہنچے گی۔ راستے میں ٹرین کے تیس اسٹاپ ہوں گے۔ٹریک کی لمبائی تینتالیس کلو میٹر ہوگی۔ بائیس کلو میٹر ٹریک ایلی ویٹیڈ پر بنے گا۔ ٹرین کے راستے میں کئی انڈر پاسز بھی بنائے جائیں گے۔کراچی سرکلر ریلوے کے نئے ٹریک پر کوئی پھاٹک نہیں ہوگا، بائیس کراسنگ پوائنٹس کی تعمیر پر بیس ارب روپے سے زائد لاگت آئے گی۔ہر چھ منٹ بعد ٹرین اسٹیشن پر آئے گی، ہر ٹرین میں چار کوچز ہوں گی۔ جن میں 800 سے زائد مسافر سفر کرسکیں گے۔یومیہ تین سے پانچ لاکھ مسافروں کے مستفید ہونے کا امکان۔ الیکٹرک ٹرین زیادہ سے زیادہ ایک سو بیس کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑے گی۔

اسلام آباد (صباح نیوز) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان کو افغانستان میں جنگ کے نتائج پر مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا، اب الزام تراشی کا رویہ ترک کردینا چاہیے اور افغانستان کے مستقبل کی فکر کرنے کی ضرورت ہے،افغانستان میں امن و استحکام کے لئے طالبان حکومت کے ساتھ تعاون کیا جائے۔امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں شائع اپنے مضمون میں وزیراعظم نے لکھا کہ 2001سے دنیا کو بار بار آگاہ کیا کہ افغان جنگ نہیں جیتی جا سکتی، افغان جنگ کے نتائج پر پاکستان کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ امریکی کانگریس میں پاکستان پر الزامات لگائے جانے پر حیرانی ہوئی۔وزیراعظم نے لکھا کہ نائن الیون کے بعد ماضی کے مجاہدین کو دہشت گرد قرار دیا گیا، پاکستانی حکومتیں ماضی میں قانونی حیثیت کے حصول کے لئے امریکا کو افغانستان کے معاملے پر خوش کرتی رہیں۔ دہشت گردی کیخلاف امریکا کی جنگ کی حمایت کرنے کے بعد عسکری گروپس نے پاکستان کی ریاست کے خلاف جنگ شروع کر دی۔عمران خان نے لکھا کہ ہم اپنی بقا کے لئے لڑے، بہترین فوج اور انٹیلی جنس آلات کے ذریعہ دہشتگردی کو شکست دی۔ نائن الیون کے بعد یکے بعد دیگرے آنے والی افغان حکومتیں افغانوں کی نظروں میں مقام پیدا نہ کرسکیں یہی وجہ تھی کہ کوئی بھی بدعنوان اور ناکام حکومت کے لئے لڑنے کو تیار نہ تھا۔انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا 3 لاکھ افغان سکیورٹی فورسز کا ہتھیار ڈالنے کا ذمے دار پاکستان ہے؟ حقیقت کو تسلیم کرنے کی بجائے افغان اور مغربی حکومتوں نے پاکستان پر الزام لگانے کے لئے بھارت کے ساتھ مل کر جعلی خبریں پھیلائیں، بے بنیاد الزامات کے باوجود پاکستان نے سرحد کے بائیو میٹرک کنٹرول اور سرحد کی مشترکہ نگرانی کی پیشکش کی۔وزیراعظم نے کہا کہ اپنے محدود وسائل کے باوجود افغانستان کے ساتھ سرحد پر باڑ لگائی، ہمیں اب الزام تراشی کارویہ ترک کردینا چاہیے اور افغانستان کے مستقبل کی جانب دیکھنا چاہیے۔۔ افغانستان میں امن و استحکام کے لئے نئی حکومت کے ساتھ تعاون کیا جائے۔ طالبان کی حکومت اور بین الاقوامی برادری کی شمولیت ہر ایک کے لئے مثبت مفادات لائے گی۔انہوں نے مزید لکھا اگر درست اقدامات کئے گئے تو دہشتگردی سے پاک اور معاشی طور پر خوشحال افغانستان کے مقاصد حاصل کر لیں گے اور اگر ماضی کی غلطیوں کو دہرایا تو بڑے پیمانے پر مہاجرین اور دہشتگردی جیسے مسائل بڑھیں گے۔

بارش اور گلِ نرگسِ آبی

مریم ارشد
بارش مجھے ہمیشہ بے چین کر دیتی ہے۔ بارش کی ایک قطار میں برستی بوندیں ایک طویل سہرے کی لڑیوں جیسی لگتی ہیں۔ سرمئی اور سلیٹی بادلوں کی گھٹائیں جب آسمان پر تیرتی ہیں تو دل جھوم اُٹھتا ہے۔ کئی دنوں سے بارشیں خوب کھل کر برس رہی ہیں۔ پچھلے دو دن سے بارش پھر سے اپنا رنگ برسا رہی ہے۔ اپنے لاؤنج کی بڑی سی فرنچ ونڈو سے مَیں پائیں باغ میں ایستادہ انجیر، السٹونیا، زیتون اور پام کے درختوں اور پودوں کو دُھلتے نکھرتے دیکھ کر مسکرانے لگی ہوں۔ آسمان سے جب سرمئی پردہ ہٹتا ہے اور چاندی کا رنگ جھلکنے سے باغ کے سبزے پر بھی چاندی سی چمکنے لگتی ہے۔ برستی بارش کو دیکھ کر مجھے ہمیشہ برطانیہ کے وہ قصبے اور گاؤں یاد آتے ہیں جن کی میں نے خاک چھانی ہے۔ مجال ہے کہیں سڑکوں اور گلیوں میں پانی کھڑا ہو جائے۔ صدیوں پہلے سے انہوں نے اپنے رہائشی علاقوں کی بہترین منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔ آج کی برستی بھیگتی بارش مجھے ولیم ورڈز ورتھ اور اس کی مشہور زمانہ نظم Daffodils بے طرح یاد آ رہی ہے۔ جی کرتا ہے اپنے بائیں باغ میں ڈھیروں ڈھیر گلِ نرگسِ آبی اُگا ڈالوں۔ لیکن ایک مضائقہ ہے کہ گلِ نرگسِ آبی معتدل آب و ہوا میں بہار کے ابتدائی دنوں میں اُگتے ہیں۔ مزید یہ کہ انہیں تاباں دھوپ کی روشنی خشک مگر نم مٹی اور ہلکی سی تیزابی زمین کی ضرورت ہوتی ہے۔ بات ہو رہی تھی بارش اور بادلوں کی سُرمئی گھٹاؤں کی۔۔۔۔۔ اور ولیم ورڈز ورتھ کی۔ وہ 1770میں نارتھ ویسٹ انگلینڈ کی کاؤنٹی کمبر لینڈ کے نزدیک کو کرماؤتھ کے قصبے میں پیدا ہوا۔ یہ قصبہ Lake District کے کنارے واقع ہے اور مناظرِ قدرت سے مالا مال ہے۔ ورڈز ورتھ نیچر کا سچا پجاری اور شدید عاشق ہے۔ نیچر اس کے لیے ایک دھرم کی حیثیت رکھتی تھی۔ گلِ نرگسِ آبی نظم جسے انگریز میں Daffodils کے نام سے بے انتہا شہرت حاصل ہے میری بہت پسندیدہ نظم ہے۔ میں نے بہت سی انگریزی نظموں کے منظوم ترجمے کیے اور وہ نظمیں بارشوں کی طرح میرے دل کے قریب ہو گئیں۔ گلِ نرگسِ آبی میں ورڈز ورتھ بیان کرتا ہے کہ غالبًا ہمارے پاس اپنی زندگی میں کچھ لمحات ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو اہم اپنی یادداشت میں دہراتے رہتے ہیں۔ لیکن اِن بیتے ہوئے لمحوں کو بیان کرنے میں تصویریں یا ویڈیوز انصاف نہیں کر سکتیں کیونکہ وہ ہمارے دلی جذبات کی عکاسی نہیں ہوتی۔ یہ نظم نیچر اور اس کے تمام مظاہر کی عظمتوں کو خراج تحسین پیش کرتی ہے۔ ورڈز ورتھ اپنی اس نظم میں کہتا ہے کہ ایک روز وہ دیہی علاقے میں یونہی سیر سپاٹا کر رہا تھا کہ اچانک ہی اس نے گلِ نرگسِ آبی کا جمِ غفیر دیکھا۔ بادِ صبا میں ناچتے ہوئے گلِ نرگس کا یہ دل نشین نظارہ اس کے دل کو لُبھا گیا۔ اس کو لگتا ہے کہ گلِ نرگس ایک نہ ختم ہونے والی لمبی لکیر میں متواتر بغیر کسی وقفے کے پھیلے ہوئے تھے۔اِن کو دیکھ کر لگتا تھا جیسے کہکشاں میں جھلملاتے ہوئے ڈھیروں ستارے۔ وہ جھیل کے کنارے اُگے ہوئے تھے اور اُن کے سَر لگاتار ہوا میں خوشی سے ہچکولے کھا رہے تھے۔ جھیل کی شفاف چاندی جیسی لہریں بھی خوشی سے ناچ رہی تھیں۔ مستی میں جھیل کی لہروں کے گُچھے اچھل اچھل کر خوبصورت جھاگ بنا رہے تھے۔ ورڈز ورتھ کہتا ہے کہ ایسے دل کش پھولوں کی مسرور رفاقت نے اسے وہ دائمی دولت عطا کی ہے جس سے اُسے تسکین محسوس ہوتی ہے۔ وہ جب کبھی تنہا یا غمگین بیٹھا ہو توگلِ نرگس کی حسین یادیں جھٹ سے امید کی کرن بن جاتی ہیں۔ اسے لگتا ہے کہ وہ بھی وادی میں نٹ کھٹ بادل کی طرح آوارہ گھوم رہا ہے اور اس کا دل نرگس کے پھولوں کے ساتھ رقص کیے جاتا ہے۔ اپنا لکھا ہوا منظوم ترجمہ اپنے قارئین کی نذر کرتی ہوں:
گھٹاؤں کی طرح سے میں تنہا آوارہ بھٹک رہا تھا
جو تیرتی ہیں اُونچا پہاڑیوں اور وادیوں کے اُوپر
جب اچانک ہی میں نے اک جمگھٹا سا دیکھا
تھا وہ نرگس کے سنہری پھولوں کا جھرمٹ جو دیکھا
ندی کے کنارے گھنے درختوں کے تلے
بادِ صبا میں پھڑ پھڑاتے، ناچتے وہ اوپر چلے
یوں جیسے ستارے مسلسل رات میں ہیں چمکتے
اور وہ آسماں پہ سراپا کہکشاں میں ہیں دمکتے
وہ اک نہ ختم ہونے والی لکیر میں پھیلے ہوئے تھے
جھیل کے کنارے کے ساتھ ساتھ پھیلے ہوئے تھے
میں نے دس ہزار اک ہی نگاہ میں دیکھے تھے جگمگاتے
پھولوں کے ننھے سرخوشی سے محوِ رقصاں تھے ڈگمگاتے
لہریں بھی تھرکتی تھیں پہلُو میں اُن کے
مگر نرگس خوشی سے بڑھ گئے تھے جلو میں اُن کے
ایسے میں اک شاعر ہو سکتا تھا صرف مسرور
اس کو تھا ایسی خوش گوار رفاقت پہ غرور
میں ٹِکٹکی باندھے دیکھتا رہا…… دیکھتا رہا مگر خیال میں نہ آیا
وہ اتنا دل فریب نظارہ میرے لیے کیا دولت لایا
اب کبھی جو میں اپنے پلنگ پہ محوِ استراحت ہوتا ہوں
کبھی رنجیدہ یا تنہائی کے احساس میں مبتلا ہوتا ہوں
تب ہی نرگس آبی میری چشمِ بینا میں اتر آتے ہیں
پھر یہی نرگس آبی زرد میری تنہائی کو بھا جاتے ہیں
اور پھر میرا دل فرطِ مسرت سے لبریز ہوا جاتا ہے
اور پھر ہمراہ گلِ نرگسِ آبی کے رقص کیے جاتا ہے
اس نظم میں ورڈز ورتھ نے رقص کا لفظ کئی بار استعمال کیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ شاعر ہمیں بتانا چاہتا ہے کہ رقص کائنات کا توازن ہے۔ زمین کا گھومنا رات کا دن میں تبدیل ہونا ایک متوازن رقص ہے۔ اس خوب صورت نظم میں خدا اور شاعر دونوں اپنے ہاتھ ملاتے ہیں۔ ایک خوب صورتی کو تخلیق کرتا ہے دوسرا اس خوب صورتی کی حمدو ثنا کرتا ہے۔
(کالم نگارقومی وسماجی ایشوزپرلکھتی ہیں)
٭……٭……٭

پاکستان اور تصور ریاست مدینہ

شفقت اللہ مشتاق
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو وہاں کے حالات بہت ہی دگرگوں تھے۔ یہودیوں کا کاروبار پر مکمل قبضہ تھا۔ جو لوگ مسلمان ہوئے تھے ان کے لئے مہاجرین مسلمانوں کی آبادکاری بہت بڑا چیلنج تھا۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ نئے آنے والوں کو وہاں کے مقامی لوگ قبول نہیں کرتے اور خصوصاً ان حالات میں کہ مہاجرین ہر چیز مکہ میں چھوڑ کر یہاں آئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک عام آدمی کی حیثیت میں مدینہ داخل نہ ہورہے تھے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نبیؐ تھے اور اس لحاظ سے انہوں نے مدینہ ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کے لوگوں کو دعوت حق دینا تھی اور پوری دنیا کی اصلاح کا ایک قابل عمل پروگرام بھی دینا تھا۔ ایسی صورتحال میں یہ ان کی شخصیت کا بہت بڑا امتحان تھا۔ مذکورہ جملہ معاملات کو حل کرکے آپ نے ایک تو نئی ریاست کا قیام عمل میں لانا تھا اور پھر سب لوگوں کو اپنی قیادت میں کام کرنے لئے آمادہ کرنا تھا۔
یقینا مہاجرین کا بے سرو سامان یہاں آنا اور یہاں آکر آباد ہونا خانہ جنگی کو بھی جنم دے سکتا تھا۔ریاست مدینہ کے بانی نے اس عنصر کو ختم کرنے کے لئے بھائی چارہ مبنی بر اخلاص کی عمارت کی بنیاد رکھی۔ ہر مہاجر کو ایک انصاری کا بھائی بنادیا اور یہ محض بھائی چارہ ہی نہ تھا بلکہ انصاری بھائی کی پوری جائیداد میں مہاجر بھائی کو آدھی جائیداد کا حصہ دار بنا دیا گیا اور ایسی فضا قائم کی گئی کہ اس تقسیم کو دونوں نے خوشی خوشی قبول کیا۔ یوں وسائل کی منصفانہ تقسیم کی گئی جس کی مثال کرہ ارض پر نہیں ملتی۔ قربانی، اخلاص،محبت اور یگانگت کی بھی یہ بے نظیر مثال تھی۔ ہیو اور ہیوو ناٹ کی خلیج کو جھٹ میں ختم کردیاگیا۔ مدینہ کے سب لوگوں کو ایک ہی پلیٹ فارم پر لانے کے لئے میثاق مدینہ کو ترتیب دیا۔ اس معاہدہ کی رو سے ریاست مدینہ قائم ہوئی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس ریاست کے سربراہ بن گئے۔ معیشت میں استحصالی قوتوں کے خاتمے کے لئے لین دین کے معاملات مبنی بر انصاف کے اصول پر وضع کیے گئے اور جھگڑے کی شکل میں فیصلے کا اختیار آپؐ کے پاس تھا اور آپؐ کے انصاف کے ترازو میں کبھی بھی جھول نہ آتی تھی اور یوں انصاف پر مبنی معاشرہ قائم ہوگیا۔ یہودی اگر حق پر ہوتا تو مسلمان کے خلاف فیصلہ دیا جاتا۔اور غاصب کے ہاتھ کر روک کر عوام الناس کو پُر امن اور پُر سکون ماحول فراہم کیا گیا۔ آپؐ نے عدل و انصاف کا ایسا ماڈل پیش کیا جس کو دیکھ کر کافر بھی لا الہ الا اللہ کہنے پر مجبور ہوجاتے تھے یوں ریاست مدینہ کا قیام کسی معجزاتی تبدیلی سے کم نہ تھا۔ بغیر کسی خون خرابے کے ایک ایسی ریاست معرض وجود میں آگئی جس سے معاشرہ فوری طور پر بدل جاتا ہے۔ قوانین کا اجرا ہو جاتا ہے۔ تصورات اخلاق و کردار اور معاشرت و سیاست، تہذیب و تمدن سب بدل جاتے ہیں۔ یہ ایک عمرانی معاہدہ تھا جس کے تحت ایک جگہ کے باشندوں نے اپنی آزاد مرضی سے کسی ایک شخص کو اپنا سربراہ مان لیا تھا۔ اس ریاست کی بنیاد نسل علاقہ، زبان،قبیلہ یا معاشی و سیاسی مفادات کے کسی اشتراک پر نہیں رکھی گئی تھی بلکہ چند اصولوں کی حفاظت اور ان کے اجرا کے لئے یہ ریاست وجود میں آئی۔ یہ ایک جمہوری اور شورائی ریاست تھی جس سے سارے کام عوام کی فلاح کی بنیاد پر کئے جاتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ دیکھتے ہی دیکھتے اس نظام کے چرچے پوری دنیا میں پھیل گئے۔
پاکستان وہ مملکت خداداد ہے جس کو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ہے۔ جس کے معرض وجود میں آتے ہی مہاجرین کی بہت بڑی تعداد کو ہجرت کرنا پڑی تھی۔ شروع میں اس ریاست کے کوئی اپنے وسائل نہ تھے۔ یہاں کا معاشرہ آج بھی امیر اور غریب کے طبقات پر مشتمل ہے۔یہاں استحصالی قوتوں نے پوری طرح پنجے گاڑھ رکھے ہیں روز بروز امیر امیر تر اور غریب‘غریب تر ہو رہا ہے۔ دولت اور وسائل پر چند لوگوں کا قبضہ ہے۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول کار فرما ہے۔ جمہوریت امیروں کے ہاتھوں کی لونڈی بن چکی ہے۔ حکمران اور سرکاری ادارے مکمل طور پر عوام کا اعتماد کھو چکے ہیں۔
کرپشن، اقربا پروری اور لوٹ کھسوٹ نے عوام کی مت مار دی ہے۔ اوپر سے بین الاقوامی مالیاتی اداروں نے استحصال کی بدولت اس ملک کو کنگال کردیا ہے۔ مذکورہ مسائل کو ختم کرنے کے لئے کئی بیانیے منظر عام پر آئے اور بے سود ثابت ہوئے۔ مایوسی ہی مایوسی۔ پریشانی پر پریشانی۔عدم اعتماد عدم اعتماد اور عدم اعتماد۔ لیفٹ اور رائٹ کیفیت۔ ایسی کیفیت میں موجودہ وزیراعظم عمران خان کا منظر عام پر آنا اور تصور ریاست مدینہ کی بات کرنا۔ بات کی اصلیت کو پرکھنے کے لئے عقل و منطق کی ضرورت ہے اور بات رد کرنے کے لئے دلیل کی ضرورت ہوتی ہے۔ مخالف قوتوں نے تو خیر کو بھی شر کہنا ہوتا ہے اور پھر ہمارے ہاں مروجہ سیاسی نظام میں منزل اقتدار ہوتی ہے اور اس کے لئے پانچ سال انتظار کرنا بہت ہی مشکل کام ہے۔ کاش ایک لمحے کے لئے پاکستان کے مسائل کا تعصب کی عینک اتار کر جائزہ لے لیا جاتا اور پھر ریاست مدینہ کے خدوخال کو دیکھ لیا جاتا۔ تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی کہ یہاں سب سے بڑا مسئلہ قیادت کا ہے اور ریاست مدینہ کی قیادت کا ماڈل ہی سب سے اہم حل ہے۔
اس وقت ہم سب ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں اور ہمیں اخوت کی مالا میں پرویا جایا جانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم نے معاشرتی عدم استحکام پیدا کردیا ہے اور آج ہیوو اور ہیوو ناٹ کی خلیج ختم کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ریاست مدینہ کے مہاجر اور انصار کے مواخات کی بنیاد پر وسائل کو برابر تقسیم کر دیا جائے۔ہمارے ملکی اور بین الاقوامی لین دین کے معاملات میں بے انصافی اور لوٹ کھسوٹ اس حد تک ہو چکی ہے کہ پورا معاشرہ اضطراب، ہیجان اور پریشانی کا شکار ہے۔ اس ساری صورتحال کے خاتمے کا ایک ہی حل ہے کہ ریاست مدینہ کی طرز پر لین دین کے معاملات مبنی بر انصاف قائم کئے جائیں۔ یہ ہے نچوڑ ریاست مدینہ کے خدوخال کا اور اجمالی خاکہ ہے ہمارے مسائل کا۔ کیا اس صورتحال میں ریاست مدینہ کے علاوہ کوئی اور بیانیہ بنتا ہے۔ ذرا سوچئے لیکن سوچنے سے پہلے تعصب کی عینک اتار لینا شرط ہے۔ اور ہر شخص کو کسی نہ کسی شرط پر کھیلنا پڑتا ہے اور میرا مشورہ ہے کہ ہمیں دنیا کے میدان پر خوشحال پاکستان کی شرط پر کھیلنا چاہیئے اور اس شرط کو جیتنے کے لئے ریاست مدینہ کی قیادت کے رول ماڈل کی ضرورت ہے۔ وسائل کی منصفانہ تقسیم کی ضرورت ہے اور استحصال، جبر اور دھونس دھاندلی جیسی لعنتوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی ضرورت ہے اور ضرورت ایجاد کی ماں ہے شاید اسی لیے آج کے دور میں وزیراعظم پاکستان نے ریاست مدینہ کو رول ماڈل کے طور پر پیش کیا ہے۔
(کالم نگار‘ممتاز شاعراورضلع بہاولنگر
میں ڈپٹی کمشنر تعینات ہیں)
٭……٭……٭

گنج بخش فیض عالم مظہر نورِخدا

علامہ محمد الیاس عطار قادری
حضرت سیدنا داتا علی ہجویری علیہ رحمۃ اللہ القوی کی ولادت باسعادت کم و بیش 400ھ میں افغانستان کے شہر غزنی میں ہوئی۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے خاندان نے غزنی کے دو محلوں جلاب و ہجویر میں رہائش اختیار فرمائی اسی لئے آپ ہجویری جلابی کہلاتے ہیں۔ آپ کی کنیت ابوالحسن، نام علی اور لقب داتا گنج بخش ہے۔ ماہر اَنساب پیر غلام دستگیر نامی علیہ رحمۃ اللہ الغنی نے آپ کا شجرہئ نسب اس طرح بیان فرمایا ہے: ”حضرت مخدوم علی بن سید عثمان بن سید عبدالرحمن بن سید عبداللہ (شجاع شاہ) بن سید ابوالحسن علی بن سید حسن بن سید زید بن حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن علی کرم اللہ وجہہ الکریم۔
حضرت سیدنا داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے والد حضرت سیدنا عثمان رحمۃ اللہ علیہ اپنے وقت کے جید عالم اور عابد و زاہد تھے۔ شاہان غزنیہ کے زمانے میں دنیا کے کونے کونے سے علماء و فضلاء، شعراء اور صوفیاء غزنی میں جمع ہو گئے تھے جس کی وجہ سے غزنی علوم و فنون کا مرکز بن چکا تھا، حضرت سیدنا عثمان رحمۃ اللہ علیہ نے بھی یہاں ر ہائش اختیار فرمائی۔ آپ کی والدہ ماجدہ حسینی سادات سے تھیں، عابدہ و زاہدہ خاتون تھیں، اسی لئے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ حسنی جمال اور حسینی کمال دونوں ہی کے جامع تھے۔ حضرت سیدنا داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے ماموں کو زہد و تقویٰ کی بنا پر تاج الاولیا کے لقب سے شہرت حاصل تھی۔
حضرت سیدنا داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے جس پاکیزہ فطرت ماں کی آغوش میں پرورش پائی، ان کی زبان ذکر الٰہی میں مصروف اور دل جلوہئ حق سے سرشار رہتا تھا اسی لئے آپ نے ابتدائے عمر ہی سے بڑی محتاط اور پاکیزہ زندگی گزاری۔ آپ کو بچپن ہی سے عبادت کا شوق تھا، نیک والدین کی تربیت نے آپ کے اخلاق کو شروع ہی سے پاکیزگی کے ڈھانچے میں ڈھال دیا تھا۔ ہوش سنبھالتے ہی آپ رحمۃ اللہ علیہ کو تعلیم کیلئے مکتب میں بٹھا دیا گیا، حروف شناسی کے بعد آپ نے قرآن پاک مکمل پڑھ لیا۔
حضرت سیدنا داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ آج کل جیسی سہولیات میسر نہ ہونے کے باوجود کئی آزمائشوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی علمی پیاس بجھانے کیلئے جلیل القدر ہستیوں کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور ان سے نہ صرف بھرپور استفادہ کیا بلکہ باطنی تربیت بھی حاصل فرمائی۔ اس نوعیت کا ایک واقعہ آپ رحمۃ اللہ علیہ خود بیان فرماتے ہیں: ایک دن میں حضرت سیدنا ابوالقاسم عبداللہ بن علی گرگانی رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں حاضر تھا اور جو لطائف مجھ پر منکشف ہوئے تھے وہ میں آپ کی بارگاہ میں عرض کر رہا تھا تاکہ آپ کی ہدایات کے مطابق اپنے احوال درست کر سکوں اس لیے کہ آپ ناقد وقت تھے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ بہت ادب و احترام سے سن رہے تھے، میرا لڑکپن اور جوش جوانی اپنا حال بیان کرنے پر حریص بنا رہا تھا، عین اسی حالت میں میرے دل میں یہ خیال گزرا کہ جو لطائف میرے اوپر گزرے ہیں شاید اس قدر لطائف ان بزرگ (یعنی حضرت سیدنا ابوالقاسم عبداللہ بن علی گرگانی رحمۃ اللہ علیہ) پر نہیں گزرے، یہی وجہ ہے کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نہایت توجہ اور احترام سے میرے احوال سن رہے ہیں۔ حضرت سیدنا ابوالقاسم عبداللہ بن علی گرگانی رحمۃ اللہ علیہ بذریعہ کشف میرے اس خیال پر مطلع ہو گئے اور فرمایا: عزیز بیٹے! میرا یہ احترام صرف آپ کیلئے خاص نہیں بلکہ یہ تو ہر ابتدائی طالبعلم سے ہے جو بھی اپنا حال بیان کرتا ہے میں اسی احترام سے اسکے احوال سنتا ہوں۔ میں یہ سن کر خاموش ہو گیا۔
ایک مرتبہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت سیدنا ابوالقاسم بن علی گرگانی رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں عرض کی: شرط صحبت کیا ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا: صحبت میں ہر قسم کی آفات موجود ہیں، کیونکہ (صحبت کی سب سے بڑی آفت یہ ہے کہ) ہر ایک اپنا مطلب پورا کرنے کا خواہشمند ہوتا ہے۔ آسائش کے طالب کو صحبت سے تنہائی بہتر ہے۔ (صحبت کی آفتوں سے بچ کر فائدہ حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ) بندہ اپنی خوشی کو ترک کر دے اور اپنی مشکلات میں خوشی محسوس کرے (یعنی جب بندہ اپنی خوشیوں کو چھوڑ کر مشکلات اور آزمائش پر صبر کرنا سیکھ جائے) تو ایسی صورت میں وہ صحبت سے فائدہ اٹھا سکے گا۔
حضرت سیدنا داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ عامل سنت، حرص دنیا سے کوسوں دور اور مسلمانوں کے خیرخواہ تھے اسی لئے آپ نے حضرت سیدنا خضر علی نبینا وعلیہ والصلوٰۃ والسلام سے نہ صرف ملاقات فرمائی بلکہ آپ کی صحبت میں رہ کر ظاہری و باطنی علوم حاصل فرمائے نیز آپ کی حضرت سیدنا خضر علی نبینا وعلیہ والصلوٰۃ والسلام سے بہت ہی گہری دوستی تھی۔
آپ نے جتنے بھی ممالک کا سفر فرمایا، اسکا مقصد علماء و مشائخ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر اکتساب فیض کرنا اور اپنی علمی پیاس بجھانا تھا، اس مقصد کیلئے آپ نے صرف خراسان کے تین سو مشائخ کی خدمت میں حاضری دی اور ان کے علم و حکمت کے پربہار گلستانوں سے گل چینی کر کے اپنا دامن بھرتے رہے۔
بزرگان دین کا معمول رہا ہے کہ دنیا و آخرت میں کامیابی کیلئے کسی مرشد کامل سے شرف بیعت ضرور حاصل فرمایا کرتے، یوں ظاہر کی تعمیر کیساتھ باطن کی ترقی کا سلسلہ بھی شروع ہو جاتا۔ حضرت سیدنا داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ خواجہ ابوالفضل محمدبن حسن ختلی جنیدی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید تھے۔ آپ کا شجرہئ طریقت 9واسطوں سے حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ علیہ تک پہنچتا ہے۔
اللہ والوں کی زیارت اور مزارات اولیاء سے استفادہ کی غرض سے سفر کی صعوبتیں برداشت کرنا ایسا مجاہدہ ہے جو مشاہدے کی دولت سے نوازتا ہے۔ حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ مجاہدہ بھی حد کمال کو پہنچا دیا، تقریباً تمام عالم اسلام کی سیاحت اور وقت کے اعاظم مشائخ و صوفیہ سے اکتساب فیض کیا۔ آپ نے شام، عراق، بغداد، آذربائیجان، طبرستان، کرمان، خراسان، ماوراء النہر اور ترکستان وغیرہ کا سفر فرما کر بزرگوں سے ملاقات کا شرف حاصل کیا۔
اللہ عزوجل نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو علوم ظاہری اور باطنی سے نوازا تھا اور دین اسلام کے بہت سے اسرار و رموز کا علم بھی عطا فرمایا تھا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے حصول علم کیلئے جو سفر اختیار فرمائے ان سے آپ کو کثیر مشاہدات حاصل ہوئے۔ آپ نے مخلوق خدا کی خیرخواہی کیلئے کئی گرانقدر کتب تصنیف فرمائیں جن کے نام یہ ہیں: منہاج الدین، دیوان، اسرار الخرق والمؤنات، کتاب البیان لاہل العیان، بحرالقلوب، الرعایۃ بحقوق اللہ، کتاب فنا و بقاء، شرح کلام منصور مگر افسوس! فی زمانہ آپ کی کتابوں میں سے صرف کشف المحجوب ہی بآسانی دستیاب ہے۔ آپ نے عربی اشعار پر مشتمل ایک مکمل دیوان مرتب فرمایا تھا جسے ایک شخص نے آپ رحمۃ اللہ علیہ سے مانگ کر لے لیا اور اس کو اپنے نام سے منسوب کر لیا، ولی کامل کی ایسی دل آزاری کے سبب وہ بے ایمان ہو کر مرا، چنانچہ آپ نے اسکے برے خاتمے کی خبر دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: وہ شخص جو میرا دیوان لے گیا تھا بے ایمان دنیا سے گیا۔
حضرت سیدنا داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ نے پوری زندگی خوب محنت و لگن سے خدمت دین کا کام سرانجام دیا، دکھی انسانیت کو امن و سکون کا پیغام دیا اور اپنے مریدین و محبین کی دینی و دنیاوی حاجتوں کو پورا فرمایا۔ آپ کا وصال پرملال اکثر تذکرہ نگاروں کے نزدیک 20صفر المظفر 465ھ کو ہوا۔ آپ کا مزار منبع انوار و تجلیات مرکز الاولیاء لاہور میں بھاٹی دروازے کے بیرونی حصے میں ہے، اسی مناسبت سے لاہور کو مرکز الاولیاء اور داتانگر بھی کہا جاتا ہے۔ آپ کے فیضان کا اندازہ اس بات سے بآسانی لگایا جا سکتا ہے کہ سلطان الہند حضرت سیدنا خواجہ غریب نواز معین الدین سید حسن چشتی سنجری اجمیری علیہ رحمۃ اللہ القوی بھی ایک عرصے تک آپ کے دربار میں مقیم رہے اور منبع فیض سے گوہر مراد حاصل کرتے رہے۔
(امیراہلسنت ہیں)
٭……٭……٭

سپرطاقت اوربڑی غلطی

وزیر احمد جوگیزئی
مسلمان ہونے کے ناطے علم حاصل کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔اللہ تعالیٰ نے خود قرآ ن شریف میں کہا ہے کہ ہم نے انسان بنایا۔اور اس کو زبان بولنا سیکھائی اور پھر اسی زبان کے ذریعے علم دیا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ علم حاصل کرنا ہر انسان پر فرض ہے۔اور علم انسان کو انسان بناتا ہے۔اگر انسان علم حاصل کرنے کے بعد اچھا انسان بن جاتا ہے تو یقینی طور پر اچھا مسلمان بھی ہو گا اور کرشماتی طور پر اس کو کامیا بیاں بھی ملیں گی۔لیکن مشکل یہ ہے کہ ہم انسان کو پہلے مسلمان بناتے ہیں اور پھر اس کے بعد کچھ اور بنانے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ در حقیقت ہونا اس کے الٹ چاہیے۔قران شریف میں واضح طور پر انسان کی بات کی گئی ہے نہ کہ مسلمان کی قرآ ن شریف انسان کو مخاطب کرکے اسے تعلیمات دیتا ہے اور پھر ان تعلیمات کے زیر اثر جب مسلمان بنتا ہے تو طارق بن زیاد بھی بنتا ہے،خالد بن ولید بھی بنتا ہے اور ارطغرل غازی بھی بنتا ہے۔اصل میں مسلمان بننا اتنا آسان کام نہیں ہے۔
ایک مسلمان کو بے خوف ہونا چاہیے اور ڈٹ کر برائی کا مقابلہ کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔ایسی برائیوں کا مقابلہ مسلمان کرتا ہے جو کہ انسان کی نشو نما اور بہبود کے خلاف ہوں جو مسلمان ڈر جاتا ہے وہ ایک کمزور مسلمان ہے اور اللہ تعالیٰ ان پر رحم اور مہر بانی کرے ہم سب کا شمار اسی کیٹگری کے مسلمانوں میں ہو تا ہے۔میں اپنی اس بات کو موجودہ دور اور سیاست کے زمرے میں دیکھوں تو آج کی دنیا میں ہم بطور قوم امریکہ سے مرعوب ہیں بلکہ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ امریکہ سے ڈرتے ہیں۔اور بات یہاں ختم نہیں ہو تی ہم تو اتنا ڈرتے ہیں کہ ان کے بارے میں سچ بولنے سے بھی اجتناب کرتے ہیں۔افغانستان کے تناظر میں بات کروں تو حال ہی ہم نے دیکھا ہے کہ افغانستان میں امریکہ کے ساتھ کیا حشر ہوا ہے،اللہ کے نڈر بندوں نے 40سال کی مسلسل کوشش کے بعد افغانستان میں امن قائم کیا ہے اور حکومت حاصل کر لی ہے۔اس طویل جد و جہد کے دوران وہ ہر طرح کی آزمائش سے گزرے ہیں۔طرح طرح کی مصیبتوں اور مشکلا ت کا سامنا کیا بد ترین تذلیل اور تشدد کا سامنا بھی کیا اس سب کے بعد انسان یہ ضرور سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ آخر ان میں ایسی کیا بات تھی کہ وہ دنیا کی طا قت ور ترین قوتوں کو شکست دینے میں کامیاب ہو گئے؟ ان میں آخر کچھ تو ایسی بات ہو گی کہ ایسا ممکن ہوا جو کہ بظاہر ناممکن تھا اس کا جواب انسان کے ذہن میں یہی آتا ہے کہ یہ لوگ سچے مسلمان ہیں اور ایمان کی طاقت سے لبریز ہیں اور کسی طرح سے بھی کمزور مسلمان نہیں ہیں۔یہ مثال ہمارے سامنے موجود ہے۔افغان قوم اس لحاظ سے شاید دنیا کی نرالی قوم ہے کہ انھوں نے کسی بھی طرز حکومت پر اکتفا نہیں کیا ہے پہلے بادشاہت کی حکومت کا خاتمہ کیا،اس کے بعد جمہوری حکومتوں کا خاتمہ کیا سوشلسٹ حکمرانوں کو بھی نہیں ٹکنے دیا گیا اور ان کو بھی افغانستان سے نکال باہر کیا۔طویل جدو جہد کے بعد جب سویت یونین کو افغانستان سے نکال باہر کیا گیا تو افغان عوام بلا شبہ ایک عظیم فتح سے ہمکنار ہو ئے لیکن دنیا کی سامراجی قوتوں کو افغان عوام کی فتح پسند نہیں آئی اور افغانستان کو خانہ جنگی کی دلدل میں دھکیل دیا گیا۔افغانستان کی تاریخ کے اس تاریک دور میں تحریک طالبان ابھری اور انھوں نے افغانستان کو امن دیا،استحکام دیا اور افغان عوام کو ایک بہتری کی امید دلائی لیکن اس کے بعد ان کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا دنیا میں سوائے تین ممالک کے کسی نے ان کی حکومت کو تسلیم تک نہ کیا۔افغانستان کو تنہا چھوڑ دیا گیا ایک طرح سے دنیا سے کاٹ دیا گیا جس کا نتیجہ کیا نکلا کہ افغان سرزمین اور افغان عوام محرومیوں میں گھرتے چلے گئے اور افغان سرزمین پر ایسی قوتوں نے جنم لیا جن کو شاید جنم نہیں لینا چاہیے تھا اور انھی قوتوں کے باعث افغانستا ن میں ایک اور جنگ مسلط ہوئی۔
امریکہ نے قبضہ کیا اور اس کے بعد اس تحریک کے ارکان کے ساتھ جو سلوک کیا گیا وہ میں شاید اپنے قلم سے یہاں پر تحریر بھی نہ کر سکوں۔اس کے بعد کی کہانی بھی سب ہی جانتے ہیں امریکی نے افغانستان میں ڈالروں کا انبار لگادیا۔ایک فوج بنائی،ایک انتظامیہ تشکیل دی گئی کچھ حکمران بھی منگوائے گئے یعنی کہ حکمرانی کے جو بھی لوازمات ہوتے ہیں وہ سب پورے کیے گئے لیکن اگر کچھ نہیں کیا تو وہ یہ تھا کہ اس تمام کٹھ پتلی نظام کو افغان عوام کی حمایت اور قبو لیت بلکہ اگر ”اونر شپ“ کا لفظ استعمال کیا جائے تو زیادہ مناسب ہو گا،نہیں دلواسکے۔دنیا کی سپر پاور اپنی طاقت کے نشے میں عوام کو کچھ سمجھتی ہی نہیں ہے اور شاید یہی سپر پاور کی سب سے بڑی غلطی ہو تی ہے جس کے باعث ناکامی اس کا مقدر ٹھہرتی ہے۔عوام کی طاقت اور حمایت کے بغیر کو ئی بھی نظام نہیں چلایا جاسکتا ہے عوام ہی وہ بنیادی قوت ہوتی ہے جس کے اوپر ایک نظام کھڑا کیا جاتا ہے۔اس لیے کوئی بھی حکمران کتنا ہی عظیم اور طاقت ور کیوں نہ ہو عوام کی طاقت کے بغیر زیادہ دیر چل نہیں سکتا ہے۔اسی لیے کہا جاتا ہے کہ زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو بہر حال خلق کی آواز کو خدا کی آواز سمجھنا چاہیے۔اور افغانستان میں اس آواز کا نہ کو ئی لحاظ کیا گیا اور نہ ہی کوئی بھروسہ کیا گیا اور سامراجی قوتوں کی جانب سے اس قسم کا رویہ صرف اور صرف افغانستان کے حوالے سے روا نہیں رکھا گیا ہے بلکہ امریکہ نے ہر ترقی پذیر اور غریب ملک کے عوام کو انسان سمجھنے سے انکار کیا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ امریکہ اتنی بڑی طاقت ہوتے ہوئے بھی پوری دنیا میں تتر بتر ہے۔اور اسی رویے کی وجہ سے امریکہ کے دنیا میں مقاصد پورے نہیں ہو پاتے ہیں۔بہرحال طالبان خوش قسمت ہیں کہ اللہ تعالی نے انہیں افغانستان پر حکومت کا دوسرا موقع دیا ہے اور وہ گولی چلائے بغیر کابل میں داخل ہو گئے اور قبضہ کر لیا۔لیکن دنیا کی مقتدر قوتیں کبھی نہیں چاہیں گی کہ دنیا میں ایک صحیح مسلم ریاست وجود میں آئے ایک ایسی مسلم ریاست جس کا نقشہ علامہ محمد اقبال نے خطبہ الٰہ باد میں پیش کیا تھا،پاکستان کے نصیب میں تو ایسی ریاست بننا نہ تھا لیکن افغانستان اپنے نڈر عوام کی وجہ سے ایسی ریاست ضرور بن سکتا ہے۔ایک ایسی ریاست جس کے خوف سے آج امریکہ بھی نئے اتحاد بنا تا پھرتا ہے۔
(کالم نگار سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی ہیں)
٭……٭……٭

نومور کی قیمت چکانا پڑتی ہے

سید سجاد حسین بخاری
اخبار کی لیڈ ہے کہ ”کرکٹ میچز منسوخی نومور کی قیمت“ (Do more) ڈومور کا جملہ پرویز مشرف دور کی ایجاد ہے۔ جس کی تاریخی حیثیت ہے اور ”نومور“ کا جملہ پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے کہا اور وہ بھی اقتدار میں آنے سے پہلے۔ امریکہ اس وقت دنیا کی واحد سپر طاقت ہے جبکہ دنیا میں امریکہ کے علاوہ فی الحال ایسا ایک بھی ملک نہیں ہے جو سپر طاقت بننے کی شرائط/لوازمات پورے کرتا ہو۔ مقابلے میں روس تھا وہ قصہ پارینہ بن چکا۔ جرمنی نے 2030ء میں سپرطاقت بننے کا ٹارگٹ رکھا ہوا ہے۔ چین بڑی تیزی سے سپرطاقت بننے کی طرف بڑھ رہا ہے مگر امریکہ اپنی بھرپور طاقت کے ذریعے چین کا گھیراؤ کئے ہوئے ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ 2025ء تک امریکہ چین کو سپر پاور بننے دیتا ہے یا نہیں، تاہم چین سپر طاقت کی شاہراہ پر فل سپیڈ سے جا رہا ہے اور سفر بھی بہت کم رہ گیا۔ اگر کوئی حادثہ نہ ہوا تو چین منزل تک پہنچ کر ہی دم لے گا۔ ڈومور اور نومور کی آوازیں ہمارے ہوش سنبھالنے کی ہیں اور ہم نے اپنی آنکھوں کے سامنے نومور کرنے والوں کا انجام دیکھا ہے۔ تیسری دنیا کے سیاسی رہنماؤں پر آپ ایک نظر ڈالیں تو سب کچھ آپ پر واضح ہو جائے گا۔ بھٹو دور سے بات کا آغاز کرتے ہیں اس سے قبل صدر ایوب اور اس سے پہلے لیاقت علی خان کا قتل اور ایوب خان کو اقتدار سے ہٹانے کی بات ایک تاریخ ہے جس پر کچھ نہیں کہا جاسکتا مگر بھٹو دور کے تو ہم خود گواہ ہیں کہ جب شہید ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی اور وزیراعظم بھی بن گئے تو انہوں نے امریکہ اور یورپ کو بڑا آسان لیا اور کمال یہ کیا کہ تیسری دنیا کا نعرہ لگا دیا۔ اپنی اسلامی اقوام متحدہ، اپنا اسلامی ورلڈ بینک اور امریکہ کو سفید ہاتھی قرار دے دیا۔ اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد کیا۔ تمام عرب ممالک کو اکٹھا کرلیا اور انہیں تیل بند کرنے کا سبق پڑھایا۔ شاہ فیصل شہید نے جب امریکہ کا تیل بند کیا تو فراٹے بھرتی ہوئی امریکی گاڑیاں سڑکوں پر رک گئیں۔ دنیا بھر کے میڈیا نے وہ مناظر شائع کئے۔ امریکہ کی جگ ہنسائی تو ہوئی مگر ذوالفقار علی بھٹو، شاہ فیصل، یاسر عرفات اور کرنل قذافی کا انجام تاریخ کے اوراق پر موجود ہے۔ بھٹو کے بعد ضیاء الحق ڈومور کی تعمیل کرتے کرتے بالآخر تھک گئے اور انہوں نے بھی افغانستان کے مسئلہ پر نومور کا نعرہ نہیں صرف ایک لائن لکھی تھی حالانکہ اس وقت کے وزیر خارجہ زین نورانی نے ضیاء الحق کو مشورہ بھی دیا تھا مگر ضیاء الحق کی قسمت کہ انہوں نے سولو فلائیٹ کا فیصلہ کرلیا اور پھر انجام ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ امریکہ یقینا ایک سپرطاقت ہے وہ کسی صورت اپنے زیر اثر کسی ملک کے حکمران کو سولو فلائیٹ نہیں کرنے دیتا۔ ضیاء الحق کے بعد بینظیر اور نوازشریف آپ کے سامنے ہیں۔
پرویزمشرف نے امریکہ کی بڑی تابعداری کی حتیٰ کہ انہیں تو کہا جاتا تھا کہ مشرف امریکہ کی ایک کال پر لیٹ گیا اور یہ حقیقت ہے کہ امریکہ نے مشرف کو خوب استعمال کیا خصوصاً افغانستان کی صورتحال کے بارے میں مگر بعد میں امریکہ نے مشرف پر ڈبل گیم کرنے کا الزام لگا دیا۔ اس اثناء میں نوازشریف کی امریکہ سے گوٹی فٹ ہوگئی تھی۔ امریکہ کا بڑا مقصد پاک فوج کو کمزور کرنا تھا اور وہ کام نوازشریف کو سونپا گیا جو نوازشریف اور مریم نواز بڑے احسن طریقے سے کر رہے ہیں۔ پرویز مشرف نے بھی جب ملکی مفاد میں چند اہم فیصلے کئے جو امریکہ کی مرضی کے خلاف تھے تو مشرف بھی مکھن میں سے بال کی طرح نکال دیئے گئے اور آج وہ دیارغیر میں بے یارومددگار پڑے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ بھٹو کے بعد عمران خان دوسرا سرپھرا وزیراعظم ہے جو پوری دنیا کو عموماً اور امریکہ کو خصوصاً نومور سناتا ہے۔ کیا امریکہ یہ برداشت کرے گا؟ پاکستان بڑا خوش ہے کہ چین، روس، ترکی اور ایران کا خطے میں ایک طاقتور بلاک بن گیا ہے، اب امریکہ کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تو یہ دیوانے کا خواب ہوسکتا ہے۔ اس بلاک سے پہلے ایک آر سی ڈی ایران، ترکی اور پاکستان نے بنایا تھا وہ کہاں گیا؟ ہم خوش ہیں کہ چین کے پاس دنیا میں سب سے زیادہ سونے اور ڈالر کے ذخائر ہیں، یہ سچ ہے مگر صرف پیسہ سب کچھ نہیں ہوتا اور پھر چین کو اس کے اپنے ہمسایوں سے پھنسوایا جا رہا ہے۔ شمالی کوریا اور بھارت سرفہرست ہیں۔
جاپان، آسٹریلیا اور دیگر چھوٹے ممالک کے علاوہ پورے یورپ کو امریکہ نے چین کے سامنے لاکھڑا کیا ہے اور امریکہ کی فی الحال ایک ہی خواہش ہے کہ چین کی ترقی کو روکا جائے۔ اس بابت کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا مگر ایک بات طے ہے کہ امریکہ آسانی سے چین کو سپرطاقت نہیں بننے دے گا اس کیلئے خواہ امریکہ کو جو قیمت چکانا پڑے۔ جہاں تک ہمارے خطے کا تعلق ہے اس میں چین، ترکی، روس اور ایران کی صف بندی تو ہو چکی ہے مگر پاکستان کس طرف ہے؟ امریکی صدر نے صرف ایک فون نہیں کیا تو ہمیں نیند نہیں آرہی اور اسے ہم بے عزتی سمجھ رہے ہیں حالانکہ امریکی حکومت نے عمران حکومت کو اسی دن اپنے مخالفین کی فہرست میں لکھ دیا تھا جب عمران خان نے امریکہ کو اڈے دینے سے انکار کیا تھا۔ تفصیل دینے کی گنجائش نہیں ہے صرف ایک جملہ عرض کرونگا کہ بھٹو کے خلاف پی این اے کی تحریک ایک رول ماڈل تھی اسی طرح امریکہ اب کئی طریقوں سے عمران حکومت کیلئے مشکلات پیدا کرے گا، لہٰذا حکومت یہ بھول جائے کہ امریکہ آرام سے بیٹھے گا، پاکستان کو نومور کی قیمت چکانا پڑے گی۔ اس کی درجنوں صورتیں ہو سکتی ہیں لہٰذا ہمیں گھبرانے کے بجائے کسی بلاک میں شامل ہونے کا جلد فیصلہ کرنا چاہیے بلکہ کسی مجوزہ بلاک کی تشکیل کے سلسلے میں ہمیں ایک بڑا اور مرکزی کرداراداکرناچاہیے۔
(کالم نگارقومی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

خبریں کی خبر پر ایکشن ایم جی موٹرز کا منیجر اور سکیورٹی گارڈ گرفتار‘ مقدمہ درج

لاہور (خصوصی ر پورٹر) خبریں، چینل 5 بنا ایک بار پھر مظلوم کی آواز، ایم جی موٹرز کی انتظامیہ کے مبینہ تشدد سے ہلاک ہونے والے شہری کی نشاند ہی کر نے پر پولیس نے ملازم کی مدعیت میں مقدمہ درج کرلیا۔ تھا نہ فیکٹر ی ایریا میں در ج ایف آئی ار نمبر 3508 کے مطا بق مقد مہ مدعی غلام حسین کیمطا بق عرصہ 30/35 سال سے ثوبل احمد گوندل کے پاس ملازمت کر رہا ہے، مقد مہ مدعی کیمطا بق میرے مالک نے پیجز مال سے MG گاڑی بک کروا رکھی تھی 24تا ریخ کو ایم جی مو ٹرز کی والوں کی طرف سے فون کال موصول ہوئی کہ اپنی گاڑی آکر لے جائیں میں اورجس پر مالک ثوبل گوندل تقریبا 4 بچے شام پیکجز مال پہنچے ثوبل تو مزکو ر ہ موٹرز کے GM سے بات کی جو باتوں باتوں میں ان کے درمیان تلخ کلامی ہوگئی مزکور ہ کی کے GM اور اس کے سٹاف نے ثوبل گوندل کے ساتھ بد تمیزی اور گالی گلوچ شروع کر دی جو نے ان کو سمجھایا لیکن وہ لوگ باز نہ آئے تو ثوبل گوندل نے بھی ان کو سخت الفاظ کہے شو روم MG سے اور پیجز مال سے باہر آکر اپنی گاڑی میں بیٹھ کر جانے لگے تو اتنے میں مزکو ر ہ شورم کے GM زبیر احمد، سیکیورٹی گارڈ محمد یاسر، سکیورٹی گارڈ ن غفار سمیت 13/20 کسی نامعلوم افراد جن کو سامنے آنے پر شناخت کر سکتے ہیں کے ہمراہ آگئے اور زبردستی گاڑی کو روک لیاجس پر ہم نے گاڑی سے نکل کر بات کرنے کی کوشش کی توملزم GM اور اس کے ساتھیوں نے زبردستی گاڑی کے دروازے نہ کھولنے دیئے اس دھکم پیل کے دوران ثوبل گوندل کی طبیعت خراب ہو گئی اور بے ہوش ہو گئے میں نے فورا ان کے پینے غوث گوند ل کو اطلاع دی اور GM اور دیگر افراد کو منت سماجت کی کہاان کی طبیعت خراب ہوگئی ہے ہمیں طبی امداد کیلئے ہسپتال جانے دیں لیکن ان تمام لوگوں نے میری ایک نہ سنی اور ہماری گاڑی کو زبردستی روکے رکھا اسی دوران کابیٹا غوث بھی موقع پر بھی کیا اور جب ہم نے ثوبل گوندل کو چیک کیا تو وہ ہلا ک ہو چکے تھے جس کے بعد کیلئے ان کو اتفاق ہسپتال لے کر آئے جہاں پر ہسپتال والوں نے ان کی موت کی تصدیق کر دی۔پولیس نے واقعہ کا مقد مہ در ج کر کے تفتیش کاآغاز کردیا ہے۔

مریم نواز آرمی چیف کی توسیع کی مخالف حمزہ نے حمایت کردی

لاہور(خبر نگار خصوصی) پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز قلمکار روڈ پرگذشتہ روزلیگی رہنما حاجی شرافت لیاقت بھٹی کے گھر گئے،جہاں انہوں نے ایم پی اے رمضان بھٹی کے تایا زاد بھائی حاجی نور محمد بھٹی کے انتقال پر اہلخانہ سے تعزیت کی،اس موقع پر حمزہ شہباز نے حاجی نور محمد بھٹی مرحوم کے ایصال ثواب کیلئے فاتحہ خوانی ان کی مغفرت اور درجات کی بلندی کے لئے دعا بھی کی،بعدازاں پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج قوم ایک ایسے دور سے گزر رہی ہے جو کبھی دیکھا نہ سنا، آئے روز آٹے چینی اور بجلی کی قیمت بڑھ رہی ہے، گیس کے گھریلو صارفین کے پینتیس فیصد قیمتیں بڑھ رہے ہیں، یہ پی ٹی آئی کی حکومت نہیں پی ٹی آئی کا عذاب ہے، پچاس لاکھ گھر اور ایک لاکھ نوکریاں کہاں ہے، ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے چینی آٹا پشاور میٹرو کے اربوں روپے نظر آتے ہیں، قوم ڈینگی بھول گئی تھی شہبازشریف نے ڈینگی کامقابلہ کیا، ادویات چار سو فیصد تک اضافہ ہوچکا ہے مہنگائی کا طوفان تھمنے کا نام نہیں لے رہا، پی ٹی آئی حکومت کے عذاب سے نجات دلاناؤگی، انہوں نے مزید کہا کہ عوامی رابطہ مہم سبز باغ چکنا چور ہوگئے ایسے ملک آگے نہیں چل سکتا سیاسی جماعتوں کو کردار ادا کرنا ہوگا، ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ مفاہمت کامطلب دو سال جیل میں چلے جائیں ہم سیاسی جدوجہد پربقین رکھتے ہیں،2018ء کا پہلا داغدار الیکشن تھا، مفاہمت کا مطلب آئندہ انتخابات میں سب کو موقع ملنا اور صاف و شفاف الیکشن ہونا چاہئیے،پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کا مزید کہنا تھا کہ آرمی چیف ایکسٹیشن کا فیصلہ پارلیمنٹ میں ووٹ دینے کا قیادت کا فیصلہ تھا، قومی مفاد کے پیش نظر ووٹ دیا جو درست فیصلہ تھا، اپوزیشن نے پی ڈی ایم پلیٹ فارم ایوانوں میں احتجاج کیا موقع دیا تاکہ یہ لوگ ایکسپوز ہوں،مہنگائی مسئلہ نمبر ون ہے کرپشن میں عوام کو الجھایاجاتاہے، پنجاب حکومت میوزیکل چئیر بن گئے ایک دن میں اٹھارہ کمشنر اور چیف سیکرٹریز تبدیل ہوتے ہیں، ریپ کے کیسز عام حکومت امن و امان میں ناکام کیونکہ پولیس کو رشوت سے لگایاجاتاہے، حکومت کی کوئی کورونا پالیسی نہیں جس پر ریڈ لسٹ میں ڈالا جاتاہے، حکومتی وزراء کہتے دنیا بھر میں مہنگائی ہے لیکن پاکستان کی معیشت زمیں بوس ہو چکی ڈالر ایک سو ستر روپے کا ہوچکا ہے،ان کا کہنا تھا کہ فارن فنڈنگ اور ہیلی کاپٹر کیس کا ملزم عمران خان ہے بنی گالہ کا محل چند لاکھ سے ریگولرزائز لیکن غریب کی جھونپڑی ناجائز تجاوزات سے گرا دئتے ہیں،ریاست مدینہ کا نعرہ لگانے والے شرم کریں، نیوزی لینڈ کی ٹیم چلی گئی جس کا مجھے بہت افسوس ہے۔

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف نے کہا ہے کہ اگر قیادت نے آپس کے جھگڑے ختم نہیں کیے تو پھرہم کبھی کام یاب نہیں ہو سکیں گے۔موجودہ حکومت کسی بھی وقت ختم ہوسکتی ہے، لیکن ہمیں اپنی صفوں میں اتحاد قائم کرنا ہوگا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے راولپنڈی میں مسلم لیگ (ن) زیراہتمام ہونے والے ورکرز کنوینشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ جھگڑے ہمارے عام کارکن کے نہیں بلکہ قیادت کے ہیں۔ اگر قیادت نے اپنے جھگڑے ختم نہ کیے تو پھر ہم کبھی بھی کام یاب نہیں ہوسکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ کنٹونمنٹ کے الیکشن میں 73 فیصد ووٹ موجودہ حکم رانوں کے خلاف پڑا، اور ان انتخابات میں ن لیگ کی کامیابی عوام کے لیے کی گئی خدمت کا صلہ ہے۔ مسلم لیگ ن نے ہمیشہ عوام کی خدمت کی ہے، لیکن آئندہ انتخابات میں کام یابی کے لیے ہمیں اتحاد قائم کرناہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان اور آزادکشمیر میں ہونے والے انتخابات شفاف نہیں تھے، عوام مہنگائی اور غربت سے تنگ آچکی ہے، موجودہ حکومت کابوریا بستر کسی بھی وقت گول ہوسکتا ہے، پاکستان میں انتخابات کسی بھی وقت ہوسکتے ہیں.