بھارت پاکستان کو نیچا دکھانے کیلئے منفی حرکتیں کر رہا ہے: وزیر خارجہ

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ اگر افغانستان کی صورتحال بگڑتی ہے تو اس سے سب متاثر ہوں گے، ہمیں ماضی سے سبق سیکھنا چاہیے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغانستان سے مثبت پیغام آرہا ہے تو اس کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے، اگر افغانستان کو تنہا چھوڑا گیا تو اس کا نقصان سب کو ہو گا، ہمیں ماضی سے سبق حاصل کرنا چاہیے نہ کہ اسے دہرانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ بھارت پاکستان کو نیچا دکھانے کے لیے منفی حرکتیں کر رہا ہے، بھارت نے مختلف گروہوں کو دہشت گردی کے لیےجوڑا، بھارت خطے کا امن تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے۔

پیپلز پارٹی نے پیٹھ پیں چھرا گھونپنے کی کوشش کی : پی ڈی ایم

کراچی (مانیٹرنگ ڈیسک) حکومت مخالف سیاسی اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ اورپی ڈی ایم کے صدر مولانافضل الر حمن نے کہاہے کہ پیپلزپارٹی نے ہم پر وار کیا مگر ہمار ا ہدف وفاق پر مسلط حکمران ہیں۔ اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم نے حکومت کیخلاف فیصلہ کن تحریک پراتفاق کرلیا،لانگ مارچ استعفوں کی تجویز دیدی گئی۔ اپوزیشن لیڈرشہبازشریف نے کہاکہ متفقہ طور پر آگے بڑھیں گے ۔اپوزیشن اتحاد نے اجلاس میں صدر کے پارلیمنٹ سے خطاب پراحتجاج کا اعلان کردیا ۔

مینگل ، اچکزئی ، ڈاکٹر عبد المالک نہ آئے جبکہ مریم ،نوازشریف،اسحاق ڈار نے ویڈیوپر شرکت کی۔پی ڈی ایم کی جانب سے آج کراچی میں سیاسی طاقت کا مظاہرہ کیاجائے گا،تیاریاں مکمل کرلی گئیں۔تفصیل کے مطابق اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم نے حکومت کے خلاف فیصلہ کن تحریک کے لئے ملک گیرجلسوں اور احتجاجی کار واں شروع کرنے پراتفاق کرلیا ، صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے پارلیمنٹ سے خطاب کے دوران احتجاج کا اعلان کیا ہے ۔

پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں جے یوآئی ف کے سربراہ اورپی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الر حمن نے حکومت مخالف تحریک کا فیصلہ کن راؤنڈ شروع کرنے کی تجویز پیش کردی اورکہا کہ حکومت کے خلاف لانگ مارچ کیا جائے اوراسمبلیوں سے استعفے دیئے جائیں،ان کا کہنا تھا کہ پانی سر سے اونچا ہوگیا ہے ،حکومت کو ٹف ٹائم دینے کیلئے انتہائی فیصلے کرنا ہوں گے ، نالائق حکومت تین سال سے عوام پر مسلط ہے ،باقی دوسال بھی گزر جائیں گے اور ہم جلسے کرتے رہ جائیں گے ۔

ہفتہ کو ملکی سیاسی صورتحال اور آئندہ کے لائحہ عمل پر غور و خوض کے لئے پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی زیر صدارت اجلاس مقامی ہوٹل میں ہوا ۔اجلاس میں مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف کے علاوہ آفتاب شیرپائو ، پروفیسرساجد میر، اویس شاہ نورانی اور دیگرشریک ہوئے ۔سابق وزیراعظم نوازشریف اور اسحاق ڈار لندن سے ویڈیو لنک کے ذریعے شریک ہوئے جبکہ مریم نواز بھی لاہور سے ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس میں موجودتھیں۔پی ڈی ایم میں شامل بلوچستان کی تینوں جماعتوں کے سربراہان شریک نہیں ہوئے جن میں سردار اختر مینگل محمود اچکزئی اور ڈاکٹر عبد المالک شامل ہیں ۔سربراہی اجلاس میں بی این پی ،نیشنل پارٹی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے وفود شریک ہوئے ۔اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہاکہ عزم مصمم کرلیا ہے کہ جمہوریت کی بقا کی جدوجہد تادم مرگ جاری رکھوں گا ۔ پاکستان عالمی طور پر بدترین تنہائی کا شکار ہوچکا ہے ،عوام میں اب بھی وہی جذبہ بیدار ہے ،پی ڈی ایم کی تحریک کامیابی سے ہمکنار ہوگی ۔اجلاس سے قبل مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ سطحی مشاورت ہوئی، سابق وزیراعظم نواز شریف نے ویڈیو لنک کے ذریعے اپوزیشن لیڈر سمیت دیگر رہنماؤں کے ساتھ مشاورت کی،سابق وزیراعظم نے بھی پی ڈی ایم کو مزید فعال اور متحرک بنانے کی تجویز دی ہے ۔میاں نوازشریف نے اپنے خطاب میں مزید کہاکہ جب 2018میں چیئرمین سینیٹ منتخب ہوا وہ بھی منظر سب نے دیکھا تھا،غلامی سے نجات کے لئے لاکھوں لوگ اس تحریک میں شامل ہوئے تھے ،ہم نے لوگوں کو حوصلہ اور ہمت دینی ہے ،اداروں کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال نہ کیاجائے ،پی ڈی ایم درست سمت میں جارہی ہے ،کون ہے جو جمہوریت کا راستہ روک رہاہے ۔

چینی ، گندم، دودھ سمیت 150 اشیا کی قیمتیں کنٹرول کرنے کا حکم نامہ جاری

سلام آباد:( صباح نیوز) وفاقی حکومت نے ملک میں چینی، گندم، دودھ، گوشت اور دالوں سمیت پچاس اشیا ء کی قیمتیں کنٹرول کرنے، منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی روکنے کا حکم نامہ 2021ء جاری کردیا۔

وفاق،صوبوں اور ڈپٹی کمشنرز کی سطح پر کنٹرولر جنرل آف پرائسز کے اختیارات سونپ دیئے گئے جنہیں امپورٹرز،ڈیلرز اور پروڈیوسرز سے ماہانہ یا بہ وقت ضرورت رپورٹ کا ریکارڈ طلب کرنے،سوموٹو، ٹریڈ ایسوسی ایشن کی حدود میں سرچ اور داخلے کا اختیار ہوگا۔

وزارت صنعت و پیداوار نے وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد پرائس کنٹرول، منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی روکنے کے ایکٹ 1977 کے تحت آرڈر 2021 کا نوٹیفکیشن جاری کردیا جس کا اطلاق فوری طور پر ہوگا۔

حکم نامے کے تحت صوبائی سیکرٹری صنعت، وفاق میں متعلقہ سیکرٹریز، اسلام آباد کی حد تک سیکرٹری داخلہ اورمتعلقہ ڈپٹی کمشنرز کو کنٹرولر جنرل کے اختیارات دیئے گئے ہیں۔

چینی اور گندم کی قیمتیں مقرر کرنے کا اختیار وفاقی وزارت نیشنل فوڈ سکیورٹی کے سیکرٹری کو دیا گیا ہے۔

خوردنی تیل،چائے، گوشت، سیمنٹ، موٹرسائیکل، سائیکل، ٹرکس، ٹریکٹرز، فروٹ جوسز، مشروبات، فیس ماسکس، آکسیجن سلنڈرز اور ہینڈ سینٹائزر سمیت 15 اشیاء کی قیمتیں مقرر کرنے کا اختیار وفاق کی سطح پر متعلقہ وزارت یا ڈویژن کے سیکرٹری کے پاس ہوگا۔

اسی طرح دودھ، پیاز، ٹماٹر، دالوں، گوشت، انڈے، روٹی، نان اور نمک سمیت 33 اشیا ء کی قیمتیں مقرر کرنے کے اختیارات صوبائی سطح پر سیکرٹری صنعت جبکہ اسلام آباد کی حد تک سیکرٹری داخلہ اور متعلقہ ڈپٹی کمشنرز کو دیئے گئے ہیں۔

نوٹیفیکیشن کے مطابق کنٹرولر جنرل آف پرائسز امپورٹرز،ڈیلرز اور پروڈیوسرز سے ماہانہ یا بہ وقت ضرورت رپورٹ کا ریکارڈ طلب کرسکیں گے۔ کنٹرولر جنرل کے پاس سوموٹو، ٹریڈ ایسوسی ایشن کی حدود میں سرچ اور داخلے کا اختیار ہوگا۔

کنٹرولرجنرل کے پاس ایف بی آر، ایس ای سی پی اور مسابقتی کمیشن سے معاونت اور قیمتیں مقرر کرنے کیلئے رکارڈ طلب کرنے کا اختیار بھی دیا گیا ہے۔نوٹیفکیشن کے مطابق پروڈیوسر،ڈیلرز اور امپورٹرز کو اپیل کا حق حاصل ہوگا-حکم نامے کی خلاف ورزی پر قانون کے مطابق سزا دی جاسکے گی۔

ٹی ٹی پی کو طالبان سربراہ کی بات ماننا پڑے گی : ذبیح اللہ مجاہد کا دوٹوک پیغام

افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان، افغانستان کا نہیں بلکہ پاکستان کا مسئلہ ہے، اس لیے اس حوالے سے حکمت عملی بنانا بھی پاکستان کا کام ہے۔

ٹی ٹی پی کو طالبان سربراہ کی بات ماننا پڑے گی : ذبیح اللہ مجاہد کا دوٹوک پیغام

جیو نیوز کے پروگرام ‘جرگہ’ میں گفتگو کرتے ہوئے ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ حکومت کی تشکیل کے حوالے سے بھرپور طریقے سے کام جاری ہے، بعض معاملات کی وجہ سے تاخیر ہو رہی ہے جن میں سے ایک یہ ہے کہ کابل میں اچانک داخلہ اور نظم و نسق سنبھالنا غیرمتوقع تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم چاہ رہے ہیں کہ حکومت کی تشکیل میں وسیع تر مشاورت کریں تاکہ ایک مضبوط حکومت تشکیل دی جا سکے اور جنگ کے خاتمے کے ساتھ ایک ایسا نظام تشکیل دیا جا سکے جو عوامی خواہشات کی نمائندگی کرتا ہو۔

طالبان ترجمان نے کہا کہ ہم کافی حد تک اس میں کامیاب ہو چکے ہیں لیکن اس حوالے سے کام اور تمام معاملات پر گفت و شنید جاری ہے اور آپ جلد سنیں گے کہ حکومت کا قیام عمل میں لایا جا چکا ہے۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ چند روز میں ہم اس قابل ہو جائیں گے کہ حکومت کی تشکیل کا اعلان کردیں اور ہمیں احساس ہے کہ حکومت کا اعلان نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں روزمرہ کے کاموں، تجارتی اور سفارتی معاملات میں مشکلات کا سامنا ہے۔

سابقہ افغان حکومت میں شامل افراد سے مذاکرات کے حوالے سے سوال پر ان کا کہناتھا کہ ہم ان سے مشاورت کررہے ہیں اور ان سے تجاویز بھی لے رہے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ ان لوگوں کو حکومت میں شامل کریں جنہیں عوام کی حمایت حاصل ہو اور ایسے لوگوں سے اجتناب کریں جو کابل میں تنازعات کا حصہ رہے ہیں۔

پنج شیر کی صورتحال حوالے سے سوال پر ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ 60فیصد امید ہے کہ معاملہ بات چیت سے حل ہو جائے گا، ہم اس سلسلے میں تمام وسائل بروئے کار لا رہے ہیں، علما اور جہادی رہنماؤں سے بھی مدد لے رہے ہیں، بات چیت اور پیغامات کا تبادلہ جاری ہے تاکہ جنگ کی ضرورت پیش نہ آئے اور چاہتے ہیں کہ جیسے ہم نے اکثر صوبوں میں لڑے بغیر کنٹرول حاصل کیا ہے، اسی طرح پنج شیر کو بھی کابل کے زیر اثر لایا جائے۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ اگر جنگ کی ضرورت پڑی بھی تو یہ زیادہ طویل نہیں ہو گی کیونکہ ہمارے جنگجوؤں نے اسے چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے، یہ معاملہ زیادہ وقت نہیں لے گا اور بات چیت سے مسئلہ حل ہو جائے گا۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حامد کرزئی اور عبداللہ عبداللہ نظربند نہیں بلکہ دیگر افغانوں کی طرح آزاد ہیں تاہم ان کی حظاظت یقینی بنانے کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں، انہیں سہولیات حاصل ہیں اور وہ اپنی مرضی سے ہر جگہ آ جا سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ صرف حامد کرزئی اور عبداللہ عبداللہ ہی نہیں بلکہ ہر افغان اپنی مرضی سے ملک سے باہر جا سکتا ہے اور ہماری طرف سے کوئی رکاوٹ نہیں ہے، یہ ان کا حق ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عام معافی کا اعلان اشرف غنی سمیت تمام افغانوں کے لیے ہے اور اگر سابق افغان صدر وطن واپس آنا چاہتے ہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں، ہمارا کسی سے انتقام کا ارادہ نہیں ہے۔

ایک سوال کے جواب میں طالبان ترجمان نے کہا کہ سابق افغان نائب صدر امراللہ صالح اگر جنگ پر اصرار چھوڑ دیں تو ان کے لیے معافی کا آپشن موجود ہے لیکن اگر وہ جنگ اور افغانستان کو دوبارہ آگ میں جھونکنا چاہتے ہیں تو ان کے ساتھ ہمارا رویہ مختلف ہو گا۔

انہوں نے سی آئی کے سربراہ کی ملا عبدالغنی برادر سے ملاقات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اس طرح کی کوئی خبر نہیں ہے لیکن سابقہ معاہدوں کے سبب ہمارا افغانستان اور خطے کے مفادات کے حوالے سے امریکا سے تبادلہ خیال ہوتا رہتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ بات درست نہیں کہ ہم نے افغانستان میں چھ ماہ تک داخل نہ ہونے کا کوئی معاہدہ کیا تھا، ہمارا اس حوالے سے کوئی باضابطہ معاہدہ نہیں ہوا تھا لیکن ہم نے ازخود فیصلہ کیا تھا کہ ہم کابل کی حدود میں پہنچ کر رک جائیں گے تاکہ امن و امان کی صورتحال خراب نہ ہو۔

امریکی انخلا میں توسیع کے حوالے سے سوال پر ترجمان نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ معاہدے کی رو سے طے شدہ تاریخ تک بیرونی افواج کا انخلا 31تاریخ تک مکمل ہو جائے گا کیونکہ یہ آخری مراحل میں ہے۔

کابل ایئرپورٹ پر دھماکے کے حوالے سے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ہماری اس حوالے سے تحقیقات جاری ہیں، ہم نے سنا ہے کہ بعض لوگ اسے داعش سے منسوب کررہے ہیں اور ہمارا بھی یہی خیال ہے کہ اسی طرح کے لوگوں نے یہ کارروائی کی ہو گی۔

ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ہمارا یہ اصولی موقف ہے کہ ہم کسی کو افغانستان کی سرزمین کسی دوسرے ہمسایہ ملک کے خلاف استعمال اور امن خراب کرنے کی اجازت نہیں دیں گے اور ہم اس پر قائم ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان طویل سرحد ناہموار ہے اور ایسے علاقے موجود ہیں جہاں ہمارا کنٹرول نہیں ہے اور ایسے علاقے بھی ہیں جہاں پاکستان کی فورسز بھی موجود نہیں ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) اپنے آپ کو ہمارا تابعدار سمجھتے ہیں اور ہمارے امیرالمومنین کو مانتے ہیں تو پھر انہیں ان کی باتوں پر عمل کرنا ہو گا۔

ٹی ٹی پی کو پاکستان کے خلاف کارروائی سے روکنے کے حوالے سے سوال پر افغان طالبان کے ترجمان نے کہا کہ یہ پاکستان کا مسئلہ ہے اور اس حوالے سے ان کے عوام، علما اور پاکستانی حلقے لائحہ عمل طے کریں، یہ ہمارا قضیہ نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ مسئلہ افغانستان کا نہیں بلکہ پاکستان سے متعلق ہے اس لیے حکمت عملی بنانا بھی پاکستان کا کام ہے۔

القاعدہ کی موجودگی کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ القاعدہ کے لوگ افغانستان سے تعلق نہیں رکھتے، وہ عربی بولتے تھے اور ان کا لباس اور حلیہ بھی افغانوں جیسا نہیں تھا، 2001 کے بعد عرب ممالک میں کافی تبدیلیاں رونما ہوئیں جس کی وجہ سے وہ وہاں واپس چلے گئے اور وہاں ان کی جدوجہد شروع ہو گئی جس کی وجہ سے وہ افغانستان میں موجود نہیں ہیں۔

دنیا کی توجہ اور پاکستانی سیاست کا دھارا

شوکت پراچہ
آج دنیا بھر کی توجہ افغانستان کی ابھرتی ہوئی صورت حال کے پیش نظر اپنے اپنے قومی مفاد کے تحفظ پر مرکوز ہے۔عالمی برادری افغانستان میں وقوع پذیر حالات کا سامنے کرنے کے لیے انفرادی اور اجتماعی کوشش میں جڑی ہے۔ مغربی دنیا اپنے سفارت کاروں، شہریوں یا افغانستان میں گذشتہ ادوار میں مختلف ترقیاتی منصوبوں پر کام کرنے والے مزدوروں اور پروفیشنلز کے انخلا میں مصروف ہے۔اس خطے کی چین، روس، پاکستان، ایران جیسی بڑی طاقتیں افغانستان کی ہمسایگی کے چیلنجز کو کم کرنے میں انفرادی یا اجتمایی لاحہئ عمل طے کرنے پر توانائیاں صرف کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔ اگلے ماہ یعنی ستمبر کی سولہ اور سترہ تاریخ کو تاجکستان کے دارلحکومت دوشنبے میں شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس منعقد ہونے جارہا ہے۔چین، روس، تاجکستان، کرغستان، ازبکستان، ایران کے صدور جبکہ پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم افغانستان کی صورت حال کوخصوصی طور پرزیرغور لائیں۔
دنیا کی ترجیحات کے برعکس پاکستان کی سیاست اپنے مخصوص ڈگر پر چل رہی ہے۔ سیاسی کھلاڑی اپنے اپنے زاویوں سے کھیلنے میں مگن ہیں۔۔میاں شہباز شریف کے خلاف دیگر کیسوں میں ضمانتوں کے بعد پروفیسر احسن اقبال کے بھای کو ٹھیکہ دینے کے الزام میں طلبی سے احتساب کا عمل آگے بڑھانے میں یقینی طور پر ماضی کی طرح بے پناہ مدد ملے گی۔پی ڈی ایم کا پہلا راؤنڈ نتیجہ خیز نہ ہو دوسرا راؤنڈ شروع تو کیا جا سکتا ہے۔پی ڈی ایم کی سٹیرنگ کمیٹی نے افغانستان کے ہمسایہ یعنی پاکستان میں جلسے جلوس اور ریلیوں کا پروگرام مرتب کر دیا۔ اب اگست بروز ہفتہ پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں منظوری کے بعد ملک میں جلسے جلوس ہوں گے۔دوسرے راؤنڈ کا اگلا جلسہ اگلے ہی دن یعنی اگست کو کراچی میں ہوگا۔کراچی کے مجوزہ جلسے میں سندھ کی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی، کراچی میں بسنے والے لاکھوں پٹھانوں کی نماندگی کی دعوے دار عوامی نیشنل پارٹی، ماضی میں کراچی کی واحد نمائندہ جماعت متحدہ قومی موومنٹ۔پاکستان اور کراچی سے موجودہ قومی اسمبلی کی چودہ نشستیں رکھنے والی پی ٹی آئی بھی نہیں ہوگی۔ پھر بھی پی ڈی ایم جلسے کی کامیابی کے لیے پرامید ہے۔بلاول بھٹو زرداری انتیس اگست کے کراچی جلسے کی مخالفت نہیں کر رہے تو انہوں نے اس جلسے میں شرکت کا بھی فیصلہ نہیں کیا ہے۔
پی ڈی ایم تحریک کے پارٹ ون میں مریم نواز شریف صاحبہ آگے آگے تھیں۔انہوں نے تقریرکے گُر سیکھے اور یقینا موثر انداز اختیار کیا۔انہوں نے خصوصاً پنجاب میں پی ڈی ایم کے جلسے جلوسوں میں ہجوم اکٹھے کیے۔پی ڈی ایم پارٹ ون نے گجرانوالا، پشاور، کراچی میں گہرا اثرڈالا لیکن شریف خاندان کے اپنے گھر لاھور میں توقعات سے کم عوامی ردعمل نے باقی ماندہ اثرات کو انتہائی سرعت کے ساتھ زائل کر دیا۔اب کی بار میاں شہباز شریف پی ڈی ایم کے ساتھ ہیں۔مریم نواز شریف بھی اطلاعات کے مطابق کراچی جلسے میں شرکت کریں گی۔تاہم خواجہ آصف کی خاموشی، خواجہ سعد رفیق کو پارٹی میں نہ سنے جانے کی شکایات اور پاکستان مسلم لیگ ن کے اندر دیگر بہت سے عوامل کی موجودگی میں کراچی سے شروع ہونے والے دوسرے راؤنڈ کی کامیابی کے بارے میں بہت سے سوالات اپنی جگہ برقرار ہیں۔
پی ٹی آئی کی حکومت ابھی تک اپوزیشن کو غیر اہم مسائل کی پچ پر کھلانے کی پالیسی میں کامیاب رہی ہے۔ ”سر سے پاؤں“ تک احتساب پر عمل پیرابیرسٹر شہزاد اکبر کی آج کل کی خاموشی کے باوجود جاری ہے۔سابق صدر آصف علی زرداری، میاں شہباز شریف، فریال تالپور، سید مراد علی شاہ، آغا سراج درانی، چودھری احسن اقبال، خواجہ محمد آصف، خواجہ سعد رفیق، خواجہ سلمان رفیق اور دیگر جیل اور ضمانتوں کے مراحل سے گذر چکے ہیں۔سید خورشید شاہ کے بارے میں اب مخالفین بھی آواز نکال رہے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے۔ پی ڈی ایم اگر پارٹ ٹو شروع کر رہی ہے تو چوہدری احسن اقبال کے بھائی کے نام پر کیس شروع کرنے سے دوسری طرف سے بھی اگلے راؤنڈ کا آغاز ہوا چاہتا ہے جس میں نیب کے ساتھ ساتھ ایف آئی اے اور پنجاب اینٹی کرپشن کا محکمہ بھی شامل ہے۔اپوزیشن کا پاؤں زلف دراز میں پھنسا ہوا ہے لیکن ابھی یہ کہیں سے ظاہر نہیں ہو رہا۔ اگر ایسا ہونا ہوتا تو داکٹر ظفر مرزا، ندیم بابر، راجہ عامر کیانی اور دیگر یوں سکاٹ فری اندرون و بیرون ملک نہ پھر رہے ہوتے کراچی جلسے میں اپوزیشن اپنے خلاف پیدا کردہ حالات پر بات کرے یا پھر انکے بقول احتساب کے دہرے معیار پر تنقید کرے گی حکومت ایسی سرگرمی کو اب کوئی اہمیت نہیں دے رہی۔ کیونکہ اپوزیشن تقسیم ہے اور پہل کرنے کا عمل حکومت نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہوا ہے۔اپوزیشن جماعتیں حکومتی ایجنڈے کے مطابق حکومتی پچ پر ہی کھیلتی ہیں۔ اپوزیشن میں دم ہوتا، اصولوں پر یگانگت ہوتی، واضح لاحہئ عمل ہوتا تو پی ٹی آئی کی تین سالہ کارکردگی کو چیلنج کرتی۔ وزیراعظم ایسی تقریرنہ کرتا جیسے عمران خان نے جمعرات کو کی۔ چینی، دال، چاول، آٹا، گھی، کوکنگ آل، انڈے، گوشت، مرغی،پھل، سبزیاں، بجلی، گیس، ٹماٹر سب کچھ تو دیکھتے ہی دیکھتے عوام کی دسترس سے نکل چکا۔ احتساب کے گرداب میں پھنسی ہوی اپوزیشن کچھ بھی نہ کر سکی۔
(کالم نگارمعروف سیاسی تجزیہ نگارہیں)
٭……٭……٭

تجارتی حجم میں خاطرخواہ اضافے کی ضرروت

ڈاکٹر شاہد رشیدبٹ
افغانستان کی صورتحال میں بہت تیزی کے ساتھ تبدیلیاں رونما ہو ئیں ہیں،طالبان ایک مرتبہ پھر کابل کی حکومت حاصل کر چکے ہیں،اور سابق افغان قیادت ملک سے فرار ہو گئی ہے۔بہر حال سیاسی معاملات تو اپنی جگہ پر لیکن اس تمام ترصورتحال کے معاشی مضمرات پر بھی نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ افغانستان ایک غریب ملک ہے اور اس سے تجارت کی کوئی زیادہ اہمیت نہیں ہے لیکن حقیقت اس عمومی تاثر سے یکسر مختلف ہے۔
پاکستان تجارت کے لیے افغانستان کے لیے کلیدی حیثیت کا حامل ہے اور افغانستان سے سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے جبکہ دوسری طرف افغانستان کی اہمیت بھی پاکستان کے لیے کسی طور پر بھی کم نہیں ہے اور افغانستان پاکستان کی برآمدات کے لیے دنیا کی چوتھی بڑی ما رکیٹ ہے۔اور حالیہ برسوں میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت میں خاطر خواہ اضافہ بھی دیکھا گیا ہے۔حکومتی اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2021ء میں پاکستان کی افغانستان کو برآمدات 15فیصد اضافے سے 869ملین ڈالرزہیں جو کہ گزشتہ برس 754ملین ڈالر تھیں۔ پاکستان نے آئندہ برس افغانستان کو 1.5ارب ڈالر تک کی برآمدات کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے جو کہ مشکل ہے لیکن بہر حال محنت کے ساتھ حاصل کیا جاسکتا تھا لیکن اب افغانستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں اس ہدف کا حصول مشکل دیکھائی دے رہا ہے۔تقریباً دو ہفتے قبل پاکستان اور افغانستان کے درمیان سپین بولدک کا بارڈر طالبان کے قبضے کے بعد بند کر دیا گیا اور اس تحریر کے لکھتے وقت تک تجارت کے لیے بند ہے جبکہ کچھ ایسی ہی صورتحال طو رخم بارڈر کی بھی ہے۔ لیکن امید کی جاسکتی ہے کہ یہ صورتحال عارضی ثابت ہو گی کیونکہ طالبان افغانستان میں حکومت قائم کر چکے ہیں،اور بڑی حد تک معاملات کو کنٹرول میں لے چکے ہیں۔ حالیہ دنوں میں طالبان نے کابل میں پریس کانفرنس کی ہے اور اس پریس کانفرنس میں جہاں پر طالبان نے عالمی برادری کے ساتھ مل کر چلنے کی خواہش کا اظہار کیا وہیں پر انہوں نے ہمسایہ ممالک کے ساتھ بھی اچھے تعلقات رکھنے کے عزم کا اظہار کیا اور کہا کہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ تجارت کو فروغ دینے کے لیے اقدامات کیے جا ئیں گے۔ان کی اس بات سے یہ محسوس ہو تا ہے کہ آنے والے چند دنوں میں افغانستان کے ساتھ پاکستان کی تجارت کی صورتحال آہستہ آہستہ معمول پر آنا شروع ہو جائے گی اور پاکستان کو اس حوالے سے زیادہ نقصان نہیں اٹھانا پڑے گا،اور اعداد و شمار بھی اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔کسٹمز کے اعداد و شمار کے مطابق 15اگست کو پاک افغان سرحد پر 415مال بردار ٹرکوں کی نقل و حمل دیکھی گئی،جو کہ ریکارڈ کم سطح پر تھی لیکن دو روز بعد ہی جیسے ہی افغانستان کی صورتحال کچھ واضح ہو ئی تو 17اگست کو پاک افغان سرحد پر 1123مال بردار گاڑیوں نے سرحد عبور کی جبکہ محرم گزر جانے کے بعد اس تعداد میں مزید اضافہ بھی متوقع ہے۔
پاک افغان سرحد پر ابھی تک صورتحال مکمل طور پر کنٹرول میں ہے اور وفاقی وزیر داخلہ کے مطابق ابھی تک سرحد پر مہاجرین کی آمد کے بھی کوئی آثار نہیں ہیں۔ یہ پیشرفت بھی پاکستان کے لیے بہت مثبت ہے اور افغانستان میں زندگی معمول کے مطابق ہونے کا ایک اشارہ ہی تصور کی جاسکتی ہے۔ میں پہلے بھی اپنی تحریر وں میں اس بات کاذکر کرتا رہا ہوں کہ پاکستان کی برآمدات کے لیے منڈیاں روایتی اور قلیل رہی ہیں جس کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔پاکستان روایتی طور پر امریکہ،یو رپ اور چین کو ہی برآمدات کرتا آیا ہے جبکہ دنیا اس سے کہیں زیادہ بڑی ہے،پاکستان کو مشرق وسطیٰ،افریقا،وسطی ایشیا ء اور لا طینی امریکہ میں اپنی برآمدات کو وسعت دینے کی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ہمسایہ ممالک جن میں افغانستان اور ایران قابل ذکر ہیں ان کے ساتھ اپنی موجودہ تجارتی حجم میں خاطر خواہ اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف برآمدات کے شعبے کے لیے انپٹ کا سٹ کو کم کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔حالیہ کچھ عرصے میں پاکستان کی ٹیکسٹائل کی صنعت کو درکار را میٹریل جس میں بجلی،گیس،پانی کے علاوہ لیبر اور کپاس بھی شامل ہیں کی قیمتوں میں خا طر خواہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ پیٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی ہو ئی قیمتوں کے باعث ٹرانسپورٹ کے اخراجات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے،جبکہ پاکستان کے تمام ہمسایہ ممالک،اور خصوصا ً بھارت اور بنگلہ دیش میں ان بنیادی ضروریات کی قیمتیں برآمدی صنعت کے لیے نہایت ہی کم ہیں۔
پاکستان کے برآمد کنندگان نے ہمسایہ ممالک میں کرونا وائرس کے باعث لاک ڈاؤن کے باعث فائدہ اٹھا یا اور پاکستان کی برآمدات میں اضافہ کیا لیکن اب بڑھتی ہو ئی انپٹس اور ہمسایہ ممالک کی صنعتیں فعال ہونے کے باعث اب پاکستان کے برآمد کندگان کو سخت مقابلے کا سامنا ہو گا حکومت پاکستان کو فوری طور پر اس حوالے سے توجہ دینے اور اقدامات لینے کی ضرورت ہے۔خصوصا ً حکومت پاکستان کو کپاس اور کاٹن کی پاکستان میں مقامی پیدا وار میں اضافہ کرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ سپننگ انڈسٹری اس وقت ٹیکسٹائل شعبے کے آرڈر پورے نہیں کر پا رہی ہے۔ بھارت میں سستے داموں میں یہ اشیا ء امپورٹ ضرور کی جاسکتی ہیں لیکن موجودہ حالات میں ایسا ممکن نہیں ہے لہذا پاکستان کو اپنے دم پر ہی اپنی ٹیکسٹائل کی صنعت میں استعمال ہونے والی اشیا ء کی پیدا وار میں خاظر خواہ اضافہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ نہ صرف پاکستان کی صنعت کی ضرورت پوری ہو بلکہ کپاس اور کاٹن کی قیمتوں میں بھی کمی آسکے۔
(سابق صدر اسلام آباد چیمبر آف کامرس ہیں)
٭……٭……٭

سردارعثمان بزدار‘سرداری اوروضعداری

شفقت اللہ مشتاق
قومی ورثہ کی حفاظت ہم سب کی ذمہ داری ہے کیونکہ ہم سب ذمہ دار شہری ہیں اور یہ ملک ہمارا ہے اسے ہم نے سنوارا ہے۔ جس نے بھی دنیا میں رہتے ہوئے کوئی بڑاکام کیا ہے تو لوگ اس کو رہتی دنیا تک یاد رکھتے ہیں۔لاہور کی کینال روڈ کی ایک اپنی اہمیت ہے اور پھر اس پر انڈر پاسز کے نام بڑی بڑی سر برآوردہ شخصیات کے ناموں پر رکھے گئے ہیں۔ یہ کام نورالامین مینگل اس وقت کے ڈی سی او لاہور نے کیاتھا اور اس حوالے سے انہوں نے ایک اچھا نام کمایا ہے۔ ایک نام میر چاکر خان بھی تھا۔ میر کے لفظ سے میر تقی میر یاد آئے اور چاکر نیا لفظ اور خان تو پھر خان۔ خاناں دے خان پروہنے۔ آئیے میر چاکر خان سے آپ کو ملواتے ہیں۔
ایک سردار اور وہ بھی بلوچ۔ خان پُنن یاد آیا۔ بلوچوں کی وضع قطع، مہمان نوازی،رہتل سہتل اور پھر روایات بالکل منفرد۔ دوستی میں بھی بہت آگے تک جاتے ہیں اور دشمنی میں تو اس سے بھی آگے تک جاتے ہیں۔ قبیلے سے وفاداری ان کے خون میں ہوتی ہے۔ لیکن بات اصول کی ہے اور اصولوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں خواہ اس کے لئے دربدر ہی کیوں نہ ہونا پڑے۔میر چاکر خان رند میر شہک خان رند کے بیٹے تھے۔ میر چاکر خان صرف ایک نام یا ایک شخصیت نہیں بلکہ بلوچوں کی تہذیب و ثقافت، تاریخ وتمدن،معیشت ومعاشرت،اخلاق و آداب، بہادری وجوانمردی، جوش و جذبہ،گفتار و کردار، ایثاروقربانی،ایفائے عہد اور انتقام کا نام ہے۔ چاکر اعظم خود بھی بہادر تھے اور بہادر دوستوں ہی کو نہیں بلکہ دشمنوں کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے وہ مکران میں قیام کے دوران میں اپنی ابھرتی جوانی میں ہی قوم میں مقبول ہو گئے تھے۔ میر شہک خان کے انتقال کے بعد وہ رند علاقوں کا حکمران بنے۔یہ رندوں کی تاریخ کا سنہری دور تھا لیکن اس دور کا اختتام اتنا تاریک اور عبرت انگیز ہے کہ میر چاکرخان کے آخری دور میں نہ صرف رند بلکہ پوری بلوچ قوم اس طرح منتشر ہوئی کہ آج تک دوبارہ اپنے پاؤں پرکھڑی نہ ہو سکی۔ ان کا دور بلوچوں کا عروج اور خوشحالی کا دور تھا اور آج بھی بلوچ قوم کا اجتماعی طور پر ہیرو میر چاکر ہے۔ وہ اپنے قول کا دھنی تھا۔ اپنے قول کے مطابق ایک مال دار عورت گوہر کو امان دی اور اس کی حفاظت کے لئے اپنے ہی بھائیوں لشاریوں سے جنگ کی جو تیس سالہ کشت و خون میں بدل گئی۔ خان بڑے فخر سے کہتا کہ سچ بولنا بلوچوں کا شیوہ ہے اور جھوٹ ایمان کی کمزوری کی نشانی ہے اور جو شخص جھوٹ بولے اور وعدہ خلافی کرے وہ زندہ نہیں بلکہ مردہ ہے۔ بلوچ لوگ عورتوں اور بچوں پر کبھی ہاتھ نہیں اٹھاتے مہمان اور مہمان نوازی بلوچ معاشرے کا ایک لازمی حصہ ہے۔ وہ 1468 میں پیدا ہوئے اور تیس سالہ جنگ نے انہیں وطن چھوڑنے پر مجبور کردیا اور انہوں نے پنجاب کا رخ کیا اور ان کے اس رخ نے ہندوستان میں حکمرانی کی ہوا کے رخ کو بدل کر رکھ دیا۔ مغلیہ خاندان کی تقدیر بدل گئی۔ نصیر الدین ہمایوں کو شیر شاہ سوری نے شکست دی تو اس کو ایران بھاگنا پڑا اور وہاں سے واپس مڑا تو شیر شاہ سوری راہی ملک عدم ہو چکے تھے اور پھر سونے پر سہاگہ ہمایوں اور میر چاکر خان کی ملاقات۔ بن بادلوں کے برسات ہوگئی۔ سرسری ملاقات دوستی میں بدل گئی اور یہ ایک حقیقت ہے کہ دوست دوستوں کا مداوا ہوتے ہیں۔ نہتے نصیر الدین ہمایوں کو بلوچ سردار کا سہارا۔ مغلیہ سلطنت دوبارہ قائم ہوئی اور ایسی قائم ہوئی کہ کئی سو سال ہندوستان پر مغلیہ راج کو میر چاکر خان نے کندھادیا اور اتنی بڑی تبدیلی آئی کہ بعد ازاں لاہور یا اس کے گردو نواح میں جس کسی نے بھی کوئی کام کیا ہے لاہور نے اس کو یاد رکھا ہے۔ شاید اسی لئے میر چاکر خان کا نام کینال روڈ پرواقع ایک انڈر پاس پر جلی حروف میں لکھا ہوا ہے۔ جن کے نام ہوتے ہیں ان کی قبریں زیارت گاہ اہل عزم و ہمت ہوتی ہیں۔ بقول اقبال
زیارت گاہ اہل عزم و ہمت ہے لحدمیری
کہ خاکِ راہ کو میں نے بتایا راز الوندی
مذکورہ بلوچ سردار 1565میں دار فانی سے کوچ کر گئے اور ان کی آخری آرام گاہ اوکاڑہ کے قریب ایک گاؤں ستگھرہ میں ہے۔ مجھے ایسے تاریخی مقامات دیکھنے کا بڑا شوق ہوتا ہے اور یہی شوق مجھے ایک دفعہ اوکاڑہ سے آگے مذکورہ بستی میں لے کر چلاگیا۔ بہت بڑی حویلی اور پھر ایک تہہ خانہ جس میں ایک قبر۔ حویلی گرنے کو پوری تیاری کر چکی تھی اور مزار۔صد افسوس کہاں گئے قومی ورثہ کے محافظ۔ شاید سو گئے ہیں ان کو جگانے کے لئے تین چار ملازم معطل کرنا پڑیں گے اور پھر ایک ٹھیک ٹھاک خبر بنے گی۔ لیکن خبریں بنانے کے لئے شوبازی کی ضرورت ہوتی ہے اور سرداری وضع داری کی متقاضی ہے۔ وضعداری کے ساتھ معاملات سلجھائے جائیں تو مضبوط اور پائیدارمعاشرہ تخلیق ہوتا ہے۔ افراتفری، بناوٹ، ہلا گلا،شور شرابا اور”پھڑ لو پھڑلو“ کے سارے بت پاش پاش ہو جاتے ہیں۔ عملی طور پرکام کا کلچر فروغ پاتا ہے۔
جس طرح کہ مذکورہ سطور میں بیان کیا گیا ہے کہ چند ہی سال پہلے چاکر اعظم کی قبر اور اس کے گرد حویلی ہر آنے والے کا منہ چڑھا رہی تھی اور اس کی یہ حالت زار سوال کرتی تھی کہ کیا زندہ قومیں اپنے قومی ورثہ کی حفاظت یوں کرتی ہیں۔ زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد۔ ابن خلدون کے نزدیک جذبہئ عصبیت ارتقا کے لئے جزو لا ینفک ہے۔ جب یہ مضبوط ہوتا ہے تو قبیلہ مضبوط ہوتا ہے اور جب یہ کمزور ہوتا ہے تو تنزلی مقدر بن جاتی ہیں۔ جذبہئ عصبیت کی بدولت بندے بڑے بڑے کام کر جاتے ہیں۔ اس فلسفہ کی صداقت کو جانچنے کے لئے سردار عثمان احمد خان بزدار وزیر اعلیٰ پنجاب کا دورہ اوکاڑہ کا جائزہ لینا پڑے گا۔ جب وہ بلوچ سردار میر چاکر خان کے مزار پر پہنچے تو یقینا ان کی آنکھیں کھلیں کہ ایک بلوچ سردار کی آباد حویلی کس قدر بے آباد ہو چکی ہے۔ وزیر اعلیٰ بلوچ سردار ہیں اور ان کا تعلق پنجاب سے ہے۔ بلوچستان کے بلوچ سردار کے مزار کا یہ حال پنجاب کے بلوچ سردار سے نہ دیکھا گیا اور یوں انہوں نے اس مزار کی تزئین و آرائش کے احکام جاری کئے۔ موجودہ وزیر اعلیٰ پنجاب باتوں پر اتنا یقین نہیں رکھتے جتنا کہ عمل ان کے ہاں اہم ہے۔ وہ نرم دم گفتگو اور گرم دم جستجو کی عملی تفسیر ہیں۔ آج وقت کا بھی تقاضا ہے کہ ہم عملی طور پر اقدامات کریں اور ملکی تعمیر و ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔ قوم کے سامنے سچ رکھیں اور وعدہ خلافی نہ کریں بتدریج صورتحال تبدیل ہوگی اور پھر تبدیلی کی جاں فزا ہوا زندہ دل پاکستانیوں کو سوچنے پر مجبور کردے گی کہ حقیقت کیا ہے اور افسانہ کیا ہے۔ قارئین کرام! آئیے اپنے قومی ورثہ کی حفاظت کرنے میں سردار عثمان احمد خان بزدار وزیر اعلیٰ پنجاب کا ساتھ دیں۔
(کالم نگار‘ممتاز شاعراورضلع بہاولنگر
میں ڈپٹی کمشنر تعینات ہیں)
٭……٭……٭

جدید ٹیکنالوجی اورہماری ترجیحات

وزیر احمد جوگیزئی
قطع نظر اس کے کہ اسلام آباد میں حکمران کون ہے،کس جماعت کی حکومت ہے،اس بات سے بھی فرق نہیں پڑتا کہ حکمران کس طرح سے بر سر اقتدار آیا ہے،جمہوری طریقے سے آیا ہے یا پھر غیر جمہوری طریقے سے آیا ہے۔ہم اپنی ترجیحات کو اصل شکل دینے میں ناکام رہے ہیں۔اور یہ ناکامی کسی ایک لیڈر کی یا جماعت کی نہیں ہے بلکہ سب کی ہے۔کل ہی وزیر اعظم عمران خان نے کنونشن سینٹر اسلام آباد میں اپنی تین سالہ کا رکردگی پر ایک بڑا پروگرام کیا اور اس پروگرام میں اپنی کامیابیاں قوم کو گنوائیں اور پھر کامیابیاں گنوانے کے ساتھ ساتھ اپنے سیاسی مخالفین پر بھی سیاسی گولہ باری کی۔اورشدید گولہ باری کی۔ لیکن اپنے مخالفین کو جو مرضی کہیں لیکن اس بات میں کو ئی شک نہیں ہے کہ حکومت کی تین سالہ کارکردگی بالکل سوالیہ نشان ہے۔ اور یہ اس لیے بھی ہے کہ ہماری قیادت کی ذاتی اور جما عتی ترجیحات ملک کی ترقی میں مدد گار ثابت نہیں ہو رہی ہیں۔پاکستان کی ترقی میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ پاکستان کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔حکومت کے تین سال مکمل ہونے کی اس تقریب میں اس حوالے سے کوئی بات نہیں کی گئی اور نہ صرف حکومت بلکہ اپوزیشن جماعتیں اور ان کے جلسوں میں بھی اس حوالے سے ذکر تک نہیں کیا جاتا ہے،ذر تودور کی بات ہے بلکہ اشارہ تک نہیں ہو تا۔میرے مطالعہ کے مطابق پاکستان کا سب سے سنگین مسئلہ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کو کنٹرول کرنا اور پھر اس آبادی کو ہنر مند بنانا ہے اور یہ بات تو صاف ظاہر ہے کہ جب تک پاکستان کی آبادی کنٹرول نہیں ہو گی تب تک آبادی کو ہنر مند نہیں بنایا جاسکے گا۔
جب تک کہ آبادی بڑھنے کی رفتار میں ٹھہراؤ نہیں آئے گا تب تک آبادی کی مناسب تعلیم اور تربیت کا بندوست نہیں ہو سکے گا،جتنے بھی سکول اور کالج قائم کر لیے جا ئیں وہ کم ہی رہیں گے اور آبادی کی ضروریات پوری نہیں کی جا سکیں گی۔یہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے لیکن بد قسمتی سے اس مسئلہ پر بات سب سے کم کی جاتی ہے بلکہ شاید کی نہیں جاتی ہے۔اور اس حوالے سے جو بھی ترکیبیں لڑائیں جاتی ہیں اور ساری منصوبہ بندیاں کی جاتی ہیں وہ ہوائی قلعے ہی ثابت ہوں گے۔نہ تو مہنگائی کریں کم ہو سکے گی او نہ ہی دیگر دیرینہ مسائل کا کوئی حل نکلے گا۔اور جہالت جس میں ہم 100فیصد تک غرق ہو چکے ہیں اس سے نکلنے کے لیے ہمیں اچھی خاصی توانا ئیاں خرچ کرنا ہو ں گی،تب ہی جا کر اس صورتحال میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔انسان کی تربیت اور اس کو ہنر مند بنانا مشکل ضرور ہے لیکن نا ممکن نہیں،یہ حکومت کی اولین ترجیح ہو نی چاہیے۔
حکمران اس وقت گاڑی کو گھوڑے کے ساتھ باندھ رہے ہیں،اس صورتحال میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔حکمرانی کرنے کے جہاں بہت سارے فوائد ہیں وہیں پر حکمرانی کرنے کے آداب بھی ہوتے ہیں اور ان آداب کا پاس کرنا ہر حکمران کی ذمہ داری ہو تی ہے لیکن بڑی بد قسمتی کی بات ہے کہ حکومت کے تین سال مکمل ہونے کی تقریب میں زیادہ تر توانائیاں اسی کام میں صرف کی گئیں ہیں۔بڑھتی ہوئی آبادی کے مسئلہ پر بات کرنا یا اس کے حل کے لیے کو ئی پلان پیش کرنا کسی کی ترجیح میں شامل نہیں ہے،لیکن مخالفین کو گرانا زیادہ ضروری کام ہے۔بہر حال آج کل کی دنیا ٹیکنالوجی کی دنیا ہے جس کے پاس ٹیکنالوجی ہے وہ ہی اس دنیا میں آگے ہے یہ ایکے حقیقت ہے جس سے انکار کرنا ممکن نہیں ہے، لیکن ہم ٹیکنالوجی سے بھی فائدہ اٹھانے میں ناکام رہے ہیں اور ہم جدید ٹیکنالوجی کا فائدہ اٹھانے سے قاصر اس لیے ہیں کہ ہم ٹیکنالوجی کے میدان میں سرمایہ کاری کرنا ہی نہیں چاہتے ہیں۔ پاکستان بنیادی طورپر ایک زرعی ملک ہے او ر زراعت کی ترقی پاکستان کی ترقی کی بنیاد ہے اور آجکل دنیا کے کئی ممالک میں زرعی ٹیکنالوجی بہت آگے جا چکی ہے اور بہت ہی کم پانی کے ساتھ بھی بہت ہی زیادہ پیدا وار حاصل کی جاتی ہے لیکن ہم نے اس طرف بھی نہیں سوچا اور پرانے طریقے ہی اپنائے ہو ئے ہیں جس کے نتیجے میں اس میدان میں بھی ہم بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔اور شاید ہم اس لیے اس طرف توجہ نہیں کرتے اور اس بارے میں سوچتے نہیں ہیں کیونکہ عوام ترقی کریں گے تو ان میں آزاد خیالی آئے گی اور آزاد خیالی کو ہم پسند نہیں کرتے،اور اس کی سخت مخالفت کرتے ہیں ہمیں صرف ایسا پاکستان چاہیے جو کہ جا ہل ہو اور عوام غربت کی چکی میں پستے رہیں اور ایک خاص طبقہ عیاشی کرتا رہے۔
پاکستان کی آزادی صرف اور صرف آزادی فکر، آزادی تحریر اور اور آزاد عدلیہ کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔یعنی کہ صحافت کی آزادی،خیال کی آزادی اور عدل کی آزادی اس کے بغیر پاکستان حقیقی معنوں میں آزاد نہیں ہو سکتا ہے۔ایک ایسا پاکستان جس میں ایک مخصوص خیال اور سوچ رکھنے والے دوسرے پاکستانی کو اپنی سوچ کا قائل کر سکتا ہوں لیکن صرف اور صرف گفت و شنید کے ذریعے اور کسی طریقے سے نہیں۔پاکستان بنا ہی اس لیے تھا کہ اس ملک کے ذریعے ایک آزاد جمہوری نظام مسلم دنیا میں متعارف کروایا جائے گا جس کی ایک عالی شان آزاد عدلیہ ہو گی اور آزادی صحافت اس ملک کا طرہئ امتیاز ہو گا،اور آج کی جدید دنیا میں ان دو چیزوں کو دیکھ کر ہی کسی بھی ملک کے اچھے ہونے یا پھر برے ہونے کا احاطہ کیا جاسکتا ہے۔
(کالم نگار سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی ہیں)
٭……٭……٭

یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے

نعیم ثاقب
پچھلے زمانے کی بات ہے تین آدمی کہیں راستے میں جا رہے تھے کہ اچانک بارش نے نہیں آ لیا۔ وہ تینوں بارش سے بچنے کے لیے پہاڑ کی غار میں گھُس گئے(جب وہ اندرچلے گئے)تو پہاڑ سے پتھر گرا اور غار کا منہ بند ہو گیا۔ تینوں بہت پریشان ہوئے مل کر زور لگایا مگر بھاری پتھر نہ ہٹا سکے۔ تھک ہار کر بیٹھ گئے اور آپس میں یوں کہنے لگے کہ اللہ کی قسم ہمیں اس مصیبت سے اب تو صرف سچائی ہی نجات دلائے گی۔ بہتر یہ ہے کہ اب ہم میں سے ہر شخص اپنے کسی ایسے عمل کو بیان کر کے دعا کرے جس کے بارے میں اسے یقین ہو کہ وہ خالص اللہ تعالی کی رضا مندی کے لیے کیا تھا۔ چنانچہ ایک نے اس طرح دعا کی۔ اے اللہ!تجھ کو خوب معلوم ہے کہ میں نے ایک مزدور رکھا تھاجس نے چاول کی کچھ مقدار کے عوض مزدوری پر میرا کام کیا تھا لیکن وہ شخص کسی بات پر غصے میں آ کر چلا گیا اور اپنے چاول چھوڑ گیا۔ میں نے اس کے چاول کو لیا اوراس کی کاشت کی۔ اس سے اتنا کچھ ہو گیا کہ میں نے پیداوار میں سے گائے بیل خریدلیے۔ اس کے بہت عرصے بعد وہی شخص مجھ سے اپنی مزدوری مانگنے آیا۔ میں نے کہاکہ یہ گائے بیل کھڑے ہیں ان کو لے جا۔ اس نے کہا کہ میرے تو صرف چاول تھے۔میں نے اس سے کہا یہ سب گائے بیل لے جا کیونکہ انہی چاولوں کی آمدنی ہے۔ آخر وہ گائے بیل لے کر چلا گیا۔ پس اے اللہ!اگر تو جانتا ہے کہ یہ ایمانداری میں نے صرف تیرے ڈر سے کی تھی تو، تُو غار کا منہ کھول دے۔ چنانچہ اسی وقت وہ پتھر کچھ ہٹ گیا۔ پھردوسرے نے اس طرح دعا کی۔ اے اللہ!تجھے خوب معلوم ہے کہ میرے ماں باپ جب بوڑھے ہو گئے تو میں ان کی خدمت میں حاضر ہوروزانہ رات کو اپنی بکریوں کا دودھ لا کرنہیں پلایا کرتا تھا۔ ایک دن اتفاق سے میں دیر سے آیا تو وہ سو چکے تھے۔ ادھر میرے بیوی اور بچے بھوک سے بلبلا رہے تھے لیکن میری عادت تھی کہ جب تک والدین کو دودھ نہ پلا لوں، بیوی بچوں کو نہیں دیتا تھا مجھے انہیں بیدار کرنا بھی پسند نہیں تھا اور چھوڑنا بھی پسند نہ تھا(کیونکہ یہی ان کا شام کا کھانا تھا اور دودھ کے نہ پینے کی وجہ سے وہ کمزور ہوجاتے)پس میں ان کا وہیں انتظار کرتا رہا یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔ پس اگر تیرے علم میں بھی میں نے یہ کام تیرے خوف کی وجہ سے کیا تھا تو تُو ہماری مشکل دور کر دے۔اس وقت وہ پتھر کچھ اور ہٹ گیا اور اب آسمان نظر آنے لگا۔ پھر تیسرے شخص نے یوں دعا کی۔ اے اللہ! میری ایک چچا زاد بہن تھی جو مجھے سب سے زیادہ محبوب تھی۔میں نے ایک بار اس سے صحبت کرنی چاہی، اس نے انکار کیا مگر اس شرط پر تیار ہوئی کہ میں اسے سو اشرفی لا کر دے دوں۔ میں نے یہ رقم حاصل کرنے کے لیے کوشش کی۔آخر وہ مجھے مل گئی تو میں اس کے پاس آیا اور وہ رقم اس کے حوالے کر دی۔ اس نے مجھے اپنے نفس پر قدرت دے دی۔ جب میں اس کے دونوں پاؤں کے درمیان بیٹھ چکاتو اس نے کہا کہ اللہ سے ڈر اور مہر کو بغیر حق کے نہ توڑ۔ میں یہ سنتے ہی کھڑا ہو گیااور سو اشرفی بھی واپس نہیں لی۔ پس اگر تیرے علم میں بھی میں نے یہ عمل تیرے خوف کی وجہ سے کیا تھا تو، تُو ہماری مشکل آسان کر دے۔ اللہ تعالی نے ان کی مشکل دور کر دی اور وہ تینوں باہر نکل آئے۔ یہ واقعہ کوئی قصہ کہانی نہیں حدیث شریف کامفہوم ہے اور ان تین لوگوں کا تعلق بنی اسرائیل سے تھا(صحیح بخاری)
اور اب اس زمانے میں ایسے لوگوں کے قصے ہیں جومال و زر کی ہوس میں اتنے اندھے ہو جاتے ہیں کہ ہزاروں لوگوں کو چھت دینے کا خواب دکھاکر ان کی زندگی بھر کی کمائی چھین لیتے ہیں۔ یہ لوٹ مار کرکے سر عام دندناتے پھرتے ہیں کیونکہ یہ کسی سابقہ ڈپٹی کمشنر کے بیٹے ہوتے کسی سابقہ چیف جسٹس کے سمدھی، پیسے کی چمک سے یہ کمزور ججوں کو خریدتے اور سابقہ جرنیلوں کو ملازم رکھتے ہیں۔ اداروں کے راشیوں کو غلام اورمیڈیا کے حریصوں کو نوکر بنالیتے ہیں یہ خوش نما اور لچھے دار باتوں سے عوام الناس کاخون چوستے ہیں۔ہر روز کوئی نیا چہرہ کسی نئے منصوبے کے ساتھ بیچارے عوام کی جمع پونجی کو ہڑپ کرنے کی کوشش میں ہوتا ہے۔ کبھی دولت کو دگنا(ڈبل شاہ)کرنے کے روپ میں تو کبھی عام منافع سے زیادہ نفع دینے کے روپ میں کبھی کاروباری اتار چڑھاؤکی باریکیوں کو لے کر انویسٹمنٹ کروانے کے روپ میں تو کبھی ہاؤوسنگ سوسائٹی میں رقم انویسٹ کرنے کے روپ میں کوئی نہ کوئی ٹھگ مل ہی جاتا ہے۔ماضی کے ٹھگ تو گمنامی کی زندگی میں اپنی عافیت محسوس کرتے تھے لیکن اب کی بارگمنامی سے نکل کربھرپوراشتہاربازی،میڈیا کوریج اورپبلسٹی کے سارے لوازمات کو بروئے کارلاتے ہوئے عوام الناس کے پیٹ میں ہضم شدہ خوراک تک نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ کہیں کوئی اک روپیہ بھی اور کوئی زیور کا چھوٹا سا ٹکڑابھی گھر میں پڑا نہ رہ جائے۔
مگر یہ بھول جاتے ہیں جب قدرت کا قانون حرکت میں آتا ہے تو پھر ایڈن ہاؤسنگ کے مالک ڈاکٹر امجد کی طرح کوئی پر اسرار بیماری موت کی دہلیز پر لے جاتی ہے اور فراڈ سے جمع کیا ہوا اربوں روپیہ بھی اس بیماری سے چھٹکارا نہیں دلواسکتا۔ لہٰذا مال و دولت جمع کرتے وقت یہ ضرور سوچیں کہ آپ کے مرنے کے بعد لوگ آپ کے لیے روئیں یاآپ کی جان کو روئیں۔ لہٰذا یاد رکھیں دنیاوی عدالت کے جج سے دوستی، رشتہ داری اورجان پہچان سے شاید کچھ عرصہ کے لیے ریلیف تو مل جائے۔ مگر حقیقی عدالت میں نہ تو پیسہ، نہ طاقت، نہ اختیار اور نہ ہی کوئی شفارش کام آنی ہے اور اس عدالت کا جج سب سے بڑاعادل اور منصف ہے۔ اور مت بھولیں کہ۔
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے
بقول شاعر
یہی تجھ کو دھن ہے۔ دکھوں سب سے اعلیٰ
ہو زینت نرالی ہو فیشن نرالا
جیا کرتا ہے کیا یونہی مرنے والا
تجھے حُسن ظاہر نے دھوکے میں ڈالا
(کالم نگارقومی وسیاسی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

اسلام آباد کے تھانوں میں سی سی ٹی وی کیمرے اور اوپن مائیک نصب کرنے کا فیصلہ

اسلام آباد کے تھانوں میں سی سی ٹی وی کیمرے اور اوپن مائیک نصب کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

 پولیس ترجمان کے مطابق افسران اپنے دفاتر سے تھانے میں سائلین سے سی سی ٹی وی کیمروں کے ذریعے خود بات کریں گے ، آئی جی اسلام آباد کا کہنا ہے کہ کسی بھی تھانے میں شہریوں سے غیر مہذب رویہ برداشت نہیں کیا جائے گا۔

اسلام آباد کے تمام تھانوں میں سی سی ٹی وی کیمرے  لگیں گے اور کیمروں کے ساتھ مائیک بھی نصب ہوں گے۔ جو پولیس اہلکار  یا افسر داد رسی کے لیے تھانے آنے والے سائل کے ساتھ بد تمیزی یا نازیبا رویہ اختیار کرے گا، اس کی خیر نہیں۔

آئی جی اسلام آباد اور ڈی آئی جی آپریشنز نہ صرف کیمروں سے مانیٹرنگ کریں گے بلکہ خود سائلین سے بات بھی کر سکیں گے۔

یہ فیصلہ پولیس کے سائلین کے ساتھ انتہائی شرمناک اور نازیبا رویے کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر آنے کے بعد کیا گیا۔

آئی جی اسلام آباد قاضی جمیل الرحمان کی زیر صدارت کرائم میٹنگ میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ کسی بھی تھانے میں شہریو‍ ں سے غیر مہذب رویہ ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا۔

تمام زونل ایس پیز، ایس ڈی پی اوز کو روزانہ ایک گھنٹہ اپنے دفتر میں شہریوں سے ملاقات کرنے کی ہدایت بھی کی گئی ہے۔