تازہ تر ین

سردارعثمان بزدار‘سرداری اوروضعداری

شفقت اللہ مشتاق
قومی ورثہ کی حفاظت ہم سب کی ذمہ داری ہے کیونکہ ہم سب ذمہ دار شہری ہیں اور یہ ملک ہمارا ہے اسے ہم نے سنوارا ہے۔ جس نے بھی دنیا میں رہتے ہوئے کوئی بڑاکام کیا ہے تو لوگ اس کو رہتی دنیا تک یاد رکھتے ہیں۔لاہور کی کینال روڈ کی ایک اپنی اہمیت ہے اور پھر اس پر انڈر پاسز کے نام بڑی بڑی سر برآوردہ شخصیات کے ناموں پر رکھے گئے ہیں۔ یہ کام نورالامین مینگل اس وقت کے ڈی سی او لاہور نے کیاتھا اور اس حوالے سے انہوں نے ایک اچھا نام کمایا ہے۔ ایک نام میر چاکر خان بھی تھا۔ میر کے لفظ سے میر تقی میر یاد آئے اور چاکر نیا لفظ اور خان تو پھر خان۔ خاناں دے خان پروہنے۔ آئیے میر چاکر خان سے آپ کو ملواتے ہیں۔
ایک سردار اور وہ بھی بلوچ۔ خان پُنن یاد آیا۔ بلوچوں کی وضع قطع، مہمان نوازی،رہتل سہتل اور پھر روایات بالکل منفرد۔ دوستی میں بھی بہت آگے تک جاتے ہیں اور دشمنی میں تو اس سے بھی آگے تک جاتے ہیں۔ قبیلے سے وفاداری ان کے خون میں ہوتی ہے۔ لیکن بات اصول کی ہے اور اصولوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں خواہ اس کے لئے دربدر ہی کیوں نہ ہونا پڑے۔میر چاکر خان رند میر شہک خان رند کے بیٹے تھے۔ میر چاکر خان صرف ایک نام یا ایک شخصیت نہیں بلکہ بلوچوں کی تہذیب و ثقافت، تاریخ وتمدن،معیشت ومعاشرت،اخلاق و آداب، بہادری وجوانمردی، جوش و جذبہ،گفتار و کردار، ایثاروقربانی،ایفائے عہد اور انتقام کا نام ہے۔ چاکر اعظم خود بھی بہادر تھے اور بہادر دوستوں ہی کو نہیں بلکہ دشمنوں کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے وہ مکران میں قیام کے دوران میں اپنی ابھرتی جوانی میں ہی قوم میں مقبول ہو گئے تھے۔ میر شہک خان کے انتقال کے بعد وہ رند علاقوں کا حکمران بنے۔یہ رندوں کی تاریخ کا سنہری دور تھا لیکن اس دور کا اختتام اتنا تاریک اور عبرت انگیز ہے کہ میر چاکرخان کے آخری دور میں نہ صرف رند بلکہ پوری بلوچ قوم اس طرح منتشر ہوئی کہ آج تک دوبارہ اپنے پاؤں پرکھڑی نہ ہو سکی۔ ان کا دور بلوچوں کا عروج اور خوشحالی کا دور تھا اور آج بھی بلوچ قوم کا اجتماعی طور پر ہیرو میر چاکر ہے۔ وہ اپنے قول کا دھنی تھا۔ اپنے قول کے مطابق ایک مال دار عورت گوہر کو امان دی اور اس کی حفاظت کے لئے اپنے ہی بھائیوں لشاریوں سے جنگ کی جو تیس سالہ کشت و خون میں بدل گئی۔ خان بڑے فخر سے کہتا کہ سچ بولنا بلوچوں کا شیوہ ہے اور جھوٹ ایمان کی کمزوری کی نشانی ہے اور جو شخص جھوٹ بولے اور وعدہ خلافی کرے وہ زندہ نہیں بلکہ مردہ ہے۔ بلوچ لوگ عورتوں اور بچوں پر کبھی ہاتھ نہیں اٹھاتے مہمان اور مہمان نوازی بلوچ معاشرے کا ایک لازمی حصہ ہے۔ وہ 1468 میں پیدا ہوئے اور تیس سالہ جنگ نے انہیں وطن چھوڑنے پر مجبور کردیا اور انہوں نے پنجاب کا رخ کیا اور ان کے اس رخ نے ہندوستان میں حکمرانی کی ہوا کے رخ کو بدل کر رکھ دیا۔ مغلیہ خاندان کی تقدیر بدل گئی۔ نصیر الدین ہمایوں کو شیر شاہ سوری نے شکست دی تو اس کو ایران بھاگنا پڑا اور وہاں سے واپس مڑا تو شیر شاہ سوری راہی ملک عدم ہو چکے تھے اور پھر سونے پر سہاگہ ہمایوں اور میر چاکر خان کی ملاقات۔ بن بادلوں کے برسات ہوگئی۔ سرسری ملاقات دوستی میں بدل گئی اور یہ ایک حقیقت ہے کہ دوست دوستوں کا مداوا ہوتے ہیں۔ نہتے نصیر الدین ہمایوں کو بلوچ سردار کا سہارا۔ مغلیہ سلطنت دوبارہ قائم ہوئی اور ایسی قائم ہوئی کہ کئی سو سال ہندوستان پر مغلیہ راج کو میر چاکر خان نے کندھادیا اور اتنی بڑی تبدیلی آئی کہ بعد ازاں لاہور یا اس کے گردو نواح میں جس کسی نے بھی کوئی کام کیا ہے لاہور نے اس کو یاد رکھا ہے۔ شاید اسی لئے میر چاکر خان کا نام کینال روڈ پرواقع ایک انڈر پاس پر جلی حروف میں لکھا ہوا ہے۔ جن کے نام ہوتے ہیں ان کی قبریں زیارت گاہ اہل عزم و ہمت ہوتی ہیں۔ بقول اقبال
زیارت گاہ اہل عزم و ہمت ہے لحدمیری
کہ خاکِ راہ کو میں نے بتایا راز الوندی
مذکورہ بلوچ سردار 1565میں دار فانی سے کوچ کر گئے اور ان کی آخری آرام گاہ اوکاڑہ کے قریب ایک گاؤں ستگھرہ میں ہے۔ مجھے ایسے تاریخی مقامات دیکھنے کا بڑا شوق ہوتا ہے اور یہی شوق مجھے ایک دفعہ اوکاڑہ سے آگے مذکورہ بستی میں لے کر چلاگیا۔ بہت بڑی حویلی اور پھر ایک تہہ خانہ جس میں ایک قبر۔ حویلی گرنے کو پوری تیاری کر چکی تھی اور مزار۔صد افسوس کہاں گئے قومی ورثہ کے محافظ۔ شاید سو گئے ہیں ان کو جگانے کے لئے تین چار ملازم معطل کرنا پڑیں گے اور پھر ایک ٹھیک ٹھاک خبر بنے گی۔ لیکن خبریں بنانے کے لئے شوبازی کی ضرورت ہوتی ہے اور سرداری وضع داری کی متقاضی ہے۔ وضعداری کے ساتھ معاملات سلجھائے جائیں تو مضبوط اور پائیدارمعاشرہ تخلیق ہوتا ہے۔ افراتفری، بناوٹ، ہلا گلا،شور شرابا اور”پھڑ لو پھڑلو“ کے سارے بت پاش پاش ہو جاتے ہیں۔ عملی طور پرکام کا کلچر فروغ پاتا ہے۔
جس طرح کہ مذکورہ سطور میں بیان کیا گیا ہے کہ چند ہی سال پہلے چاکر اعظم کی قبر اور اس کے گرد حویلی ہر آنے والے کا منہ چڑھا رہی تھی اور اس کی یہ حالت زار سوال کرتی تھی کہ کیا زندہ قومیں اپنے قومی ورثہ کی حفاظت یوں کرتی ہیں۔ زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد۔ ابن خلدون کے نزدیک جذبہئ عصبیت ارتقا کے لئے جزو لا ینفک ہے۔ جب یہ مضبوط ہوتا ہے تو قبیلہ مضبوط ہوتا ہے اور جب یہ کمزور ہوتا ہے تو تنزلی مقدر بن جاتی ہیں۔ جذبہئ عصبیت کی بدولت بندے بڑے بڑے کام کر جاتے ہیں۔ اس فلسفہ کی صداقت کو جانچنے کے لئے سردار عثمان احمد خان بزدار وزیر اعلیٰ پنجاب کا دورہ اوکاڑہ کا جائزہ لینا پڑے گا۔ جب وہ بلوچ سردار میر چاکر خان کے مزار پر پہنچے تو یقینا ان کی آنکھیں کھلیں کہ ایک بلوچ سردار کی آباد حویلی کس قدر بے آباد ہو چکی ہے۔ وزیر اعلیٰ بلوچ سردار ہیں اور ان کا تعلق پنجاب سے ہے۔ بلوچستان کے بلوچ سردار کے مزار کا یہ حال پنجاب کے بلوچ سردار سے نہ دیکھا گیا اور یوں انہوں نے اس مزار کی تزئین و آرائش کے احکام جاری کئے۔ موجودہ وزیر اعلیٰ پنجاب باتوں پر اتنا یقین نہیں رکھتے جتنا کہ عمل ان کے ہاں اہم ہے۔ وہ نرم دم گفتگو اور گرم دم جستجو کی عملی تفسیر ہیں۔ آج وقت کا بھی تقاضا ہے کہ ہم عملی طور پر اقدامات کریں اور ملکی تعمیر و ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔ قوم کے سامنے سچ رکھیں اور وعدہ خلافی نہ کریں بتدریج صورتحال تبدیل ہوگی اور پھر تبدیلی کی جاں فزا ہوا زندہ دل پاکستانیوں کو سوچنے پر مجبور کردے گی کہ حقیقت کیا ہے اور افسانہ کیا ہے۔ قارئین کرام! آئیے اپنے قومی ورثہ کی حفاظت کرنے میں سردار عثمان احمد خان بزدار وزیر اعلیٰ پنجاب کا ساتھ دیں۔
(کالم نگار‘ممتاز شاعراورضلع بہاولنگر
میں ڈپٹی کمشنر تعینات ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain