معاشرتی مسائل کا بہترین حل سیرت النبی ﷺ کی تعلیمات میں موجود ہے، وزیر اعظم

اسلام آباد : (نامہ نگار خصوصی) وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ معاشرتی مسائل کا بہترین حل  سیرت النبی ﷺ کی تعلیمات میں موجود ہے۔

قومی یکساں تعلیمی نصاب پر عملدرآمد کے عمل کو صوبائی حکومتوں کے اشتراک سے جلد مکمل کیا جائے، اجلاس سے خطاب

بزنس کنفیڈینس انڈیکس میں پاکستان مثبت پوزیشن پر آگیا ، انڈیکس میں 9 فید اضافہ ، وزیر اعظم کی مبارکباد

تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت قومی یکساں نصاب تعلیم  کا اجلاس ہوا جس میں وفاقی وزیر شفقت محمود، معاون خصوصی ڈاکٹر شہباز گل، پارلیمانی سیکریٹری وجیہہ اکرم اور وفاقی وزارت تعلیم کے سینئر افسران نے شرکت کی  ہے۔

اجلاس میں وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ سیرت النبی ﷺ ہی ہماری نئی نسل کے لئے مشعل راہ ہے، نبی آخر الزماں ﷺکی سیرت کا سب سے اہم پہلو اخلاق و آداب اور حسن معاشرت ہے۔

انھوں نے مزید کہا ہے کہ تمام معاشرتی مسائل کا بہترین حل سیرت النبی ﷺ کی تعلیمات میں موجود ہے۔

پاکستان کو آئی ایم ایف سے 2 ارب77 کروڑ ڈالر مل گئے

واشنگٹن: (آئی این پی) عالمی مالیاتی فنڈز (آئی ایم ایف ) کی جانب سے پاکستان کو2 ارب 77 کروڑ ڈالر مل گئے ہیں ۔

آئی ایم ایف کے اعلامیے کے مطابق آج تاریخی دن ہے اور رکن ممالک نے 650 ارب ڈالر وصول کر لیے ہیں۔

رقم کی منتقلی سے عالمی معیشیت میں اعتماد اور ارتحکام آئیگا : آئی ایم ایف

رقم زرمبادلہ ، ذخائر بڑھانے اور قرض کی ادائیگی کے لیے اتعمال ہوگی: اعلامیہ

آئی ایم ایف کی مینیجنگ ڈائریکٹر نے ایک بیان میں کہا کہ ‘تاریخ کی سب سے بڑی مختص شدہ رقم، دنیا کے لیے بازو میں ایک اہم شاٹ ہے، اگر دانشمندی سے استعمال کیا جائے، تو (یہ) اس بے مثال بحران سے نمٹنے کا ایک انوکھا موقع ہے۔

صحافت جو کبھی پیشہ تھاحق پرستوں کا

دثر اقبال بٹ
میں وزیر آباد کے ایک عام سے گھرانے میں پیدا ہوا جہاں سب سے بڑا کام اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنا تھا۔والد صوفی غلام محمد درویش منش تھے،ہر حال میں خدا کا شکر ادا کرنے والے۔ان کے پاس نہ تو بہت سی زمینیں تھیں اور نہ ہی آبا کی جانب سے کوئی بڑی دولت ہی ملی تھی۔انہیں جو وراثت ملی وہ علم اور اچھے لوگوں کی سنگت میں رہنے کی تلقین تھی۔انہوں نے بڑی محنت کی،اپنی دنیا خود تعمیر کی۔ان کی یہ محنت اور ریاضت دونوں طرح کی حکمت سیکھنے کے لیے تھی۔وہ جسمانی علاج بھی کرتے اور نفس کی آلودگی کوپاک کرنے کے لیے تصوف کا سبق بھی دیتے۔تمام عمراسی درویشی میں گزار دی،نہ خود برائی کے رستے پہ چلے اور نہ کسی ظالم کو للکارتے ہوئے جھجکے۔ان کی یہ بے باکی اچھے کردار اور اعمال کا نتیجہ تھی۔ہمارے گھر میں رزقِ حلال کی تلقین کے ساتھ جو سبق ہمیں سکھایا گیا وہ کتابوں سے دوستی کا تھا۔گھر میں سلیقے کے سوا کتابیں ہی تھیں جو بہت تھیں،باقی اللہ کا شکر اور اس کی رضا میں راضی رہنے کی ریاضت تھی۔ مذہب، منطق، فلسفے، حساب، ادب اور تاریخ تک ہر موضوع پر کتابیں موجود تھیں،بھائی کوئی تھا نہیں دوست بھی کم تھے سومیں نے پہلی دوستی کتابوں سے کرلی۔ یوں کہہ لیجیے کہ کاغذ اور قلم سے رشتہ مجھے وراثت میں ملا۔کتابوں سے ہوتے ہوئے کتابوں کے مصنّفین سے ملنے کا شوق ہوا۔بچپن میں جن کے بارے میں سب سے زیادہ سنا وہ مولانا ظفر علی خان تھے۔پھر انہیں پڑھا اور ذہن میں جیسے گرہ باندھ لی کہ انہی کی طرح حیات کے شب و روزکارزار صحافت کی سیاحی کی نذر کروں گا۔
لڑکپن میں جناب حفیظ تائب کی سنگت نصیب ہوئی جو میرے ہمسائے بھی تھے اور بڑے بھائی بھی۔وہ بڑے عالم تھے لیکن نہایت دھیمے مزاج کے۔اسی دوران میں شورش کا قاری ہوا تو اک چنگاری سی تھی جس نے روح کو بے تاب کر کے رکھ دیا۔جوش جوانی میں انقلابی سوچ کی روانی ہوئی تو معاشرے سے اونچ نیچ کے خاتمے اور جاگیردارانہ سوچ کے خاتمے کی جنگ کا عزم باندھ لیا۔یہ عزم شورش کی محفل تک لے آیا۔اْن سے بولنا، لکھنا سیکھا اور مطالعے کی پیاس بھی خوب بجھائی۔اسی دوران ختم نبوتؐ کی تحریک میں شریک ہوا اور اپنے علاقے کے نوجوانوں کو بھی متحرک کیا۔اسی طرح وقت کا دریا بہتا رہا اور میں اس سے سبق سیکھتا چلا گیا،کبھی اس کی خاموشی اور کبھی طلاطم خیز موجیں بہت کچھ سکھاتیں۔میری زندگی بڑی ترتیب سے آگے بڑھی ہے،جہاں صرف نظریہ ہی رہنما رہا ہے۔میں نے سمجھوتے کم ہی کئے،یا پھر قدرت نے کبھی ایسے امتحان میں ڈالا ہی نہیں جہاں اصول اور مجبوری میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے۔
آپ بھی کہیں گے کہ کیا کہانیاں لے بیٹھا ہوں۔لیکن یہ قصے کہانیاں ہیں بہت اہم اور ان کا تعلق آج کی نشست سے بہت گہرا ہے۔چلیے ایک اور شخصیت کو یاد کرتے ہوئے چلتے ہیں۔یہ مولاناچراغ حسن حسرت ہیں۔میں نے اپنے اساتذہ سے ان کے بارے میں بہت سنا،پھر انہیں پڑھا تو حیرت ہوئی کہ ایک ہی شخص کے ہُنر کی اتنی جہتیں کیسے ہوسکتی ہیں۔وہ منجھے ہوئی صحافی ہیں،باکمال شاعر ہیں اورمزاح نگار بھی۔کیسے خوش نصیب ہوں گے وہ لوگ جو مولانا کے ہمراہ ہوئے ہوں گے۔کاش مجھے بھی اْن کی سنگت نصیب ہوئی ہوتی۔ راوی بتاتا ہے کہ حسرت صاحب اصولوں پر کبھی سمجھوتا نہیں کرتے تھے۔ تقسیم ہند کے بعد جب میاں افتخار الدین نے ”پاکستان ٹائمز“ اور روزنامہ ”امروز“ نکالے تو حسرت صاحب کو امروز کی ادارت کے لیے چْنا۔ ایک بار میاں صاحب نے مولانا کو طلب کر کے شکایت کی کہ آپ نے میرے جلسے کی خبر صفحہ دوم پر کیوں چھاپی ہے؟
حسرت صاحب نے جواب دیا:
”میاں صاحب جب آپ صفحہ اول کے لائق ہو جائیں گے تو آپ کی خبر پہلے صفحے پر ہی چھاپوں گا“۔
یاد رہے، یہ مکالمہ اخبار کے مالک اور مدیر کے درمیان ہو رہا ہے۔ میاں صاحب بھی کوئی معمولی شخصیت نہیں تھے،سات سمندر پار سے پڑھ کر آئے تھے اور پھر حکومت کا اہم حصہ رہنے کے ساتھ ساتھ بائیں بازو کی مضبوط آواز بھی سمجھے جاتے تھے۔حسرت کی بے باکی پر ہونٹ بھینچ لیے لیکن کچھ بولے نہیں۔جانتے تھے کہ حسرت اخبار کی جان ہیں۔ وہ جو بات کہیں گے صحافتی اصولوں کی بنیاد پر ہی کہیں گے۔اس کے بعد جب تک حسرت مدیر رہے میاں صاحب شاذو نادر ہی صفحہ اول پر چھپے۔
اسی طرح شورش کاشمیری بھی کیا کمال آدمی تھے۔ایسے جرأت مند کہ حرف حق کہنے کی بات ہوتو کیا راہِ مقتل اور کیا دار کا تختہ۔تمام عمر اسی خْو سے لکھا اورخوف کو قریب بھی پھٹکنے نہ دیا۔ بھٹو صاحب ہوں یا جماعت اسلامی، انہوں نے ڈَٹ کے صحافت کی اور بھرپور تنقید لکھی۔بہت دور کی بات نہیں، میرے مہربان مجیب الرحمان شامی نے بھی بھٹو دور میں بڑی تیکھی صحافت کی۔اْن پر مقدمات ہوئے، جیل بھیجاگیا اور ان کے اخبارات کے ڈیکلیریشن تک منسوخ ہوئے لیکن وہ اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے۔جب میری باری آئی تو میں نے بھی اپنی دنیا خود آباد کی۔ چھوٹا موٹا اخبار نکالا،چونکہ شورش صاحب سے متاثر تھا، سو اْسی لہجے میں لکھا اور بات کی۔ قاتلانہ حملے ہوئے، دھمکیاں ملیں اور مقدمات کی تو پوچھیے ہی مت۔ پھر بھی میرے لہجے میں لْکنت نہیں آئی، میں ڈرا نہیں، گھبرایا بھی نہیں۔وہی کہتا رہا جو نوشتہئ دیوار تھا۔ہاں،دوسروں کومیرے لہجے سے اختلاف ہو سکتا ہے۔کہیں ضرورت سے بڑھ کر تلخ لکھ دیا ہوگا یا لفظوں کے چناو میں احتیاط نہ برتی ہوگی۔ایسا بہت بارہاہوا ہوگا،لیکن کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے دل کی بات کہنے میں بزدلی کا مظاہرہ کی۔یہی وجہ ہے کہ میرے تعلقات ہمیشہ اصولی بنیادوں پراستوار ہوتے اور ختم ہوئے۔انہی اصولوں کی بنیاد پر کل کی دشمنیاں آج کی دوستی بنیں اور قریبی رشتے حاسدانہ رویوں کی بھینٹ چڑھے۔ لیکن میں نے اپنے اصول نہیں چھوڑے،اپنے نظریہ صحافت پر سمجھوتا نہیں کیا۔
میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ آج سے 40 سال پہلے تک صحافت بہت مختلف تھی، اخبار وہ لوگ نکالتے تھے جن کا کہیں کوئی تعلق علم و ہنر سے نکلتاتھا۔ صحافت کے لہجے کی بات الگ ہے۔ اخبار میر شکیل بھی نکال رہے تھے ا ور نظریہ پاکستان والے مجید نظامی بھی۔ ممتاز شاہ جیسے روشن خیال لوگ بھی تھے اور مجیب الرحمان شامی یا جمیل اطہر جیسے دائیں بازو والے بھی۔ضیا شاہد کا الگ رنگ تھا۔میں اور چودھری غلام حسین ذرا بلند آہنگ لہجے میں للکارنے کے قائل تھے۔سب کا سٹائل الگ تھا،نظریہ صحافت بھی مختلف تھا، لیکن یہ نہیں تھاکہ ان میں سے کوئی ایک بھی کسی غیرہنرمندسے صحافت سیکھتا ہو۔خود لیڈ اور سپر لیڈ کا انتخاب کرنے کی بجائے اپنے مالک آقا سے اجازت کا منتظر ہو۔میں اسے خالص تر غیر فطری عمل سمجھتا ہوں کہ آپ صحافت کا نام لیں اور کسی سیٹھ کو عقل ِ کْل بھی مان لیں۔ایسا ہی ایک غیر فطری تجربہ تب ہوا جب میرے مرحوم دوست ضیا شاہد نے اکبر بھٹی کے ساتھ مل کر روزنامہ ”پاکستان نکالا“۔اخبار ضیا شاہد نے نکالا تھا سو نہایت شاندار تھا لیکن ضیا شاہد کچھ ہی عرصہ ساتھ چل سکے۔میں سمجھتا ہوں اس کی بنیادی وجہ ضیا شاہد کا صاحب ِ فکر ہونے کے ساتھ ساتھ مکمل صحافی ہونا بھی تھا۔ صحافی یا سچا قلمکار ہمیشہ ہوا کی مانند آزاد ہوتا ہے۔ اسے کوئی پابند کر کے اپنی سوچ کے کھونٹے کے ساتھ نہیں باندھ سکتا۔سرمایہ دار کتنا ہی طاقتور کیوں نہ
ہو،وہ ایک دانشورکی سوچ خرید سکتا ہے نہ اس کے الفاظ میں اپنے پست خیالات کا رنگ بھر سکتا ہے۔
بہر حال یہ 35-30 برس پہلے کی باتیں ہیں جب صحافت ایسی زبوں حالی کا شکار نہیں تھی جیسی اب ہے۔حالات بدل گئے ہیں، آج چراغ حسن حسرت، شورش کشمیری یاجناب ضیا شاہدجیسے لوگ نہیں رہے۔مجیب الرحمان شامی ایسے نہایت کم لوگ ہیں ماضی کی روایات زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ آج اخبار نکالنا صحافت نہیں رہابلکہ کاروباربن چکاہے۔اب یہ علم و ہْنر کا امتحان نہیں بلکہ دھندا بن چکا ہے۔آسان الفاظ میں سمجھنا چاہیں تو یوں کہہ لیجیے کہ ماضی میں جن مراکز سے تصوف کے چشمے پھوٹا کرتے تھے آج ان کی جگہ غیرہنرمندوں نے لے لی ہے۔ وہ صحافی جو سرمایہ داروں کے ساتھ کھڑے ہونا پسند نہیں کرتے تھے آج غم روزگار کے باعث انہی کی طرف دیکھتے ہیں۔کیسے کیسے لکھنے اور کہنے والے تھے۔صحافت کیا تھی اور کیا ہوگئی۔
دوستو!اب صحافت وہ نہیں رہی جو 40 یا 50 سال پہلے تھی۔جن کا تعلق صحافت سے دور دور کابھی نہیں انہوں نے اخبار نکال لیے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جیسے وہ یکدم ضیا شاہدیا مجیب الرحمان شامی ہو جائیں گے۔
آخر پر یہی کہوں گا کہ آج صحافت کا معیار ختم ہونے کی وجہ یہ نان پروفیشنلز ہیں ان سے آپ کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ وہ سچ کہیں یا حق کی بات کرے۔ آج کے دور میں آپ کہاں سے ڈھونڈھ کر لائیں گے چراغ حسن حسرت اور کہاں سے لائیں گے شورش جیسی دلیری۔ وقت کے ساتھ وہ لعل بھی گم ہو ئے اور ہیرے بھی مٹی کے حوالے ہوچکے۔ اب بچا ہے تو بس کچرا، صحافت ہو یا سیاست، کچھ بھی باقی نہیں رہا۔جہاں اتنی مایوسی ہے وہاں امتنان شاہداورعمر شامی ایسی امید کی کرنیں محسوس ہوتے ہیں جو شاید ان اندھریوں میں ماضی کی روایات کا وجود زندہ رکھے ہوئے ہیں۔اسی طرح ایک آدھ اور بھی ہوں گے جو سیٹھوں کے دست شفقت کے سائے میں صحافت نہیں کرتے ہوں گے لیکن دوسری جانب تو جیسے پورے کا پورا قبیلہ ہی وسائل کے ان ”سامری جادوگروں“کے بچھڑے کے سامنے سر جھکائے ہوئے ہے۔اب ان حالات میں کیا کہا جائے اور کیا نہیں، میرے جیسے لوگ پرانی باتیں یاد کر کے خون ہی جلا سکتے ہیں۔
(کالم نگارمعروف صحافی ہیں)
٭……٭……٭

مہنگائی لے بیٹھے گی

قسور سعید مرزا
29 اگست کو پی ڈی ایم کراچی میں جلسہ عام کرنے جا رہی ہے۔ آزاد کشمیر میں پیپلزپارٹی اور ن لیگ مشترکہ طور پر صدارتی امیدوار لا رہے ہیں۔ آزاد کشمیر اور سیالکوٹ میں پی ٹی آئی نے کامیابی حاصل کر لی ہے۔ وفاق اور سندھ حکومت کے درمیان نوک جھونک شروع ہے۔ سندھ میں مرحوم ممتاز علی بھٹو، لیاقت علی جتوئی، سابق وزیراعلیٰ سید مظفر حسین شاہ، سید غوث علی شاہ سے عمران خان وہ کام نہیں لے سکے جو کہ لینا چاہئے تھا۔ اب مندے کے ماحول میں ارباب غلام رحیم کو میدان میں اتارا ہے۔ ہمارے دوست حلیم عادل شیخ نے کیا مقابلہ کرنا تھا۔ جناب زرداری، بی بی فریال تالپور اور بلاول بھٹو زرداری کا۔ سندھ میں علامہ راشد سومرو، سابق سینیٹر صفدر عباسی، سابق چیئرمین سینیٹ وفاقی وزیر محمد میاں سومرو، غلام مرتضیٰ جتوئی، سابق وزیراعلیٰ لیاقت علی جتوئی، سید غوث علی شاہ، ممتاز بھٹو مرحوم کے صاحبزادے امیر بخش بھٹو، سردار علی گوہر مہر، غوث بخش مہر، آغا تیمور پٹھان، ڈاکٹر ابراہیم جتوئی، ناہید خان، معظم علی عباسی، شہریار خان مہر، مسرور خان جتوئی، راجہ علی نواز مہر، قوم پرست جماعتوں کے سربراہان اور رہنما ڈاکٹر قادر مگسی، ایاز لطیف پلیجو، صعنان قریشی، مبین جتوئی، عادل خان، عبدالستار راجپر اور علامہ ناصر سومرو بھی اکٹھے ہوئے ہیں۔
پہلے بھی ایک بڑا اتحاد جی ڈی اے کی شکل میں موجود ہے۔ دیکھتے ہیں کہ یہ سب اتحاد کس طرح کامیابی حاصل کرتے ہیں جبکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ اندرون سندھ آج بھی سندھیوں کا جناب بھٹو سے رومانس موجود ہے اور اب تک سندھ کی روایتی جماعت پیپلزپارٹی ہی ثابت ہوئی ہے جو اب بھی سندھ میں موثر اور مضبوط ہے۔ یہ ساری سیاسی سرگرمیاں اپنی جگہ لیکن عوامی سطح پر سب سے بڑا اور ہولناک مسئلہ مہنگائی اور بے روزگاری کا ہے۔ نئے بجٹ میں عوام کو ریلیف دینے کے اقدامات کی قلعی کھلنا شروع ہو گئی ہے اور ایک ماہ کے اندر ہی اشیائے خوردونوش مہنگی کر دی گئی ہیں۔ چینی جو 68 روپے کلو مل رہی تھی اس میں اچانک 17 روپے کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ گھی کا کلو کا پیکٹ 170 سے بڑھ کر 260 کا ہو گیا ہے۔ ہول سیل میں چینی 100 روپے اور ریٹیل مارکیٹ میں 105 سے 110 روپے کلو ہو گئی ہے۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی نے گنے کی بمپر فصل ہونے کے باوجود 2 لاکھ ٹن چینی امپورٹ کرنے کی بھی اجازت دے دی ہے۔ آٹے کا 20 کلو کاتھیلا 850 سے بڑھ کر 950 کا کر دیا گیا ہے۔ روٹی 5 روپے سے 15 روپے، انڈہ اس شدید گرمی میں 7 روپے سے 15 روپے، پٹرول 60 سے 120 روپے، ڈی اے پی کھاد 2400 سے 6000 روپے، بجلی فی یونٹ 5 سے 19 روپے، سونا 50 ہزار سے ایک لاکھ دس ہزار روپے تولہ ہو گیا ہے۔ غرض یہ کہ مہنگائی نے ہر جانب آگ لگا دی ہے۔ سفید پوش اور مڈل کلاس طبقہ پس کر رہ گیا ہے۔ یہ خاموش ووٹ بنک ہوتا ہے جو اپنا کام دکھاتا ہے۔ اسٹیٹ بنک بھی بڑھتی مہنگائی اور افراط زر کی بڑھتی شرح کو کم شرح سود سے کنٹرول کرنے میں ناکام دکھائی دے رہا ہے۔ آنے والے دنوں میں مزید مہنگائی بڑھنے کا خود حکمران کہہ رہے ہیں۔ عوام کے اندر ہی اندر لاوا پک رہا ہے جو کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے پھر یہ ہی ہوگا کہ سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا، جب لاد چلے گا بنجارہ۔ اس کمر توڑ مہنگائی میں عوام کا اللہ ہی حافظ ہے۔ مہنگائی کو اگر قابو نہ کیا گیا تو خدشہ ہے کہ بھوک اور مہنگائی لوٹ مار کا ماحول نہ پیدا کر دے۔ مہنگائی بریفنگز لینے اور میٹنگز کرنے سے ختم نہیں ہوگی۔ نرخوں پر چیک رکھنا انتظامیہ کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ جس طرح انتظامیہ نے لاک ڈاؤن کے دنوں میں دکانیں بند کرائیں کیا اس طرح انتظامیہ سے کام نہیں لیا جا سکتا۔ ہر تحصیل کے اسسٹنٹ کمشنر اور بلدیہ و کارپوریشن کے حکام مل کر گراں فروشوں کو نکیل ڈال سکتے ہیں اور ماضی میں ایسا ہوتا رہا ہے اور ہم بچپن سے دیکھتے آئے ہیں لیکن ان سے کام کون لے۔ وہ بھی پرلے درجے کے اناڑی ہیں جو ہمارے وزیراعظم کو زیادہ سنجیدہ لیتے ہیں اور نہیں سمجھتے کہ کہنے کی باتیں اور ہوتی ہیں اور کرنے کی اور۔
یقینا وزیراعظم کو مسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی اور زیادہ ہوتی ہوئی بے روزگاری پر رات کو نیند نہیں آتی ہوگی۔ لیکن بابا نیند نہ آنا تو مسئلے کا حل نہیں ہے۔ یہ کیا بات ہوئی کہ فلاں کام نہیں کرنے دیتا اور فلاں مافیاز راستے میں کھڑے ہیں اور کچھ نہیں کرنے دیتے۔ پاکستان ایک انوکھا اور پیارا ملک ہے۔ عوام بھی نیارے اور پیارے ہیں لیکن پاکستان میں حکمرانی آئین نہیں بلکہ طاقت کے زور پر چلتی ہے۔ ہمت ہو اور مسائل کا کچھ ادراک ہو تو حکمرانی کے زور پہ بہت کچھ کیا جا سکتا ہے لیکن ذہن میں کچھ آئیڈیاز نہ ہوں اور اپنے سائے سے بھی ڈر لگتا ہو تو پھر وہی ہوتا ہے جو پاکستان میں ہو رہا ہے۔ کراچی کے حالات بھی تو ٹھیک کئے گئے ہیں۔ قبائلی علاقوں کو ملکی کنٹرول میں لایا گیا۔ حکومت کی رٹ بحال کی گئی۔ یہ دونوں اقدام مشکل لگتے تھے لیکن جب اقدامات اٹھائے گئے تو پاکستانی ریاست کو بھی کامیابی حاصل ہوئی۔ کیا گراں فروشوں کو قابو میں لانے کیلئے بھی فوج کو بلانا پڑے گا؟ یہ ہمارے بابوحضرات کب کام آئیں گے۔ عمران خان صاحب نے بروقت فیصلے نہیں کئے۔ فیصلے کئے تو عمل نہیں ہوا۔ تھانے اب بھی بک رہے ہیں۔ تحصیل میں رشوت عام ہے، رجسٹری پر رشوت کا ریٹ بڑھ گیا ہے۔ اوپر سے مہنگائی نے عوام کو مار ڈالا ہے۔ بے شک آپ آزاد کشمیر اور سیالکوٹ میں جیت گئے ہیں۔ آپ کے پاس مہلت بہت کم ہے۔ آپ تاریخ کے کٹہرے میں کھڑے ہیں۔ عوام تبدیلی چاہتی ہے۔ دلیرانہ قدم اٹھائیں۔ ورنہ پرانے لوگ آئے تو آپ ذمہ دار ہوں گے۔
(کالم نگارایوان صدر پاکستان کے
سابق ڈائریکٹرجنرل تعلقات عامہ ہیں)
٭……٭……٭

جنوبی پنجاب کے سیاست دان اور عثمان بزدار

نیاز حسین لکھویرا
پاکستان پیپلز پارٹی کا پہلا دور حکومت تھا قومی اسمبلی کا اجلاس جاری تھا،مجھ سمیت کچھ دوست اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری اعتزاز احسن کے چیمبر میں بیٹھے تھے کہ ان ڈور ساونڈ سسٹم پرنو ابزادہ نصر اللہ کی تقریر شروع ہوئی۔ اعتزاز احسن فوراً یہ کہہ کر ایوان کی طرف بھاگے کہ نوابزادہ صاحب کی تقریر مس نہیں کی جا سکتی۔ نوابزادہ نصر اللہ خان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ جنوبی پنجاب کے انتہائی منفرد سیاستدان اور مدلل گفتگو کرنے والے مقرر تھے۔ ان کی تمام عمر جمہوریت کی بحالی اور جمہوری ماحول کو بہتر سے بہتر کرنے میں صرف ہوئی۔میاں چنوں کو جنوبی پنجاب کا گیٹ وے کہا جاتا ہے۔ یہاں کے معروف سیاستدانوں میں غلام حیدر وائیں، ”بودلہ خاندان“ انور غازی اور پیر شجاعت حسین قریشی نمایاں ہیں۔ ملتان میں یوسف رضا گیلانی، شاہ محمود قریشی اور انصاری صاحبان کے ساتھ ساتھ ڈوگر صاحبان بھی نمایاں ہیں۔ سید فخر امام بھی ملتان کے مضافاتی علاقے کے بہت نمایاں سیاست دان ہیں۔ سپیکر قومی اسمبلی رہے۔ آج کل وفاقی وزیر ہیں۔ ملتان کے صاحبزادہ فاروق علی خان بھی پیپلز پارٹی کے دور میں سپیکر قومی اسمبلی رہے۔ مظفر گڑھ سے نوابزادہ نصر اللہ خان، غلام مصطفی کھر، ربانی کھر نے بہت نام کمایا۔ حنا ربانی کھروزیر خارجہ بھی رہیں۔ غلام مصطفی کھر پہلے تو گورنر پنجاب رہے۔ بعد ازاں وزیر اعلیٰ بنے تو بہت اچھے ایڈ منسٹر یٹر ثابت ہوئے۔ خصوصاً پولیس کی ہڑتال کو ناکام بنانا ان کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ ڈیرہ غازی خان اور راجن پور سے کھوسہ، مزاری، لغاری، دریشک اور گورچانی خاندان نے قومی اور صوبائی سطح پر سیاست کی۔ فاروق لغاری صدر مملکت بھی رہے۔ ذوالفقار کھوسہ گورنر رہے۔ دوست محمد کھوسہ وزیر اعلیٰ رہے۔ نصر اللہ دریشک بہت ہی با اثر وزیر رہے۔ ان کے صاحبزادے بھی آج کل صوبائی وزیر ہیں۔
لو دھراں پر جہانگیر ترین کے خاندان کا سکہ چلتا ہے۔ بہاول پور شہر سے احمد نواز شاہ گردیزی صوبائی وزیر رہے۔ انہیں چیتے پالنے کا شوق تھا یہ چیتے آزادانہ ان کے لان میں گھومتے پھرتے تھے۔ طالب علمی کے دور میں ہم وہ چیتے دیکھنے ان کی ماڈل ٹاؤن اے والی کوٹھی جایا کرتے تھے۔ ایک دن ان سے پوچھا کہ آپ کو ان چیتوں سے ڈر نہیں لگتا۔ انہوں نے جواب دیا۔ جس روز ان کے ڈرکا احساس ہوا کہ میں ان سے خوفزادہ ہوں یہ مجھے چیر پھاڑ دیں گے۔ طارق بشیر چیمہ وفاقی وزیر ہیں۔ انہوں نے بہاول پور شہر کی ترقی کے لیے بہت کام کیا ہے۔ یزمان اور بہاول پور کو خوبصورت بنانے میں انہوں نے انتھک محنت کی ہے۔ علامہ رحمت اللہ ارشد ادرسیہ تابش الوری بہاول پور کے نمایاں سیاست دان ہیں۔ لیاقت پور کے حاجی سیف اللہ بے مثل مقرر تھے۔ وفاقی وزیر رہے اور لاجواب قانون دان تھے۔ صادق آبا د جمال دین والی سے مخدوم زادہ سید حسن محمود بہت عرصہ اسمبلی رہے۔ وہ ہمیشہ انگریزی میں تقریرکرتے تھے اور پڑھے لکھے ارکان اسمبلی کو ان کی تقریروں سے رہنمائی ملتی تھی۔ ان کے بیٹے مخدوم سید احمد محمود گورنر رہے اور جب وہ ضلعی ناظم تھے تو رحیم یار خان ضلع میں بہت ترقیاتی کام ہوئے۔
بہاول پور کی بات میں سیٹھ عبید الرحمن کا ذکر رہ گیا۔ وہ ہمیشہ اپوزیشن میں رہے۔ ان کے خاندان کے بلیغ الرحمن بعد میں ایم این اے اور وزیر مملکت رہے۔ خیر پور ٹامیوالی اور حاصل پور سے ریاض پیرزادہ بہت فعال ایم این اے رہے۔ وفاقی وزیر بھی رہے۔ چشتیاں اور ہارون آباد سے چوہدری عبدالغفور وفاقی وزیر رہے۔ اب ان کے صاحبزادے سیاست میں ہیں۔ اسی علاقے سے عبد الستار لالیکا وفاقی وزیر رہے اور شوکت علی لالیکا اس وقت صوبائی وزیر ہیں۔ ان کا تعلق منچن آباد سے ہے۔ چشتیاں کے پاس شہر فرید ہے۔ جسے سلیم خان لکھویرا نے آباد کیا تھا۔ یہاں کے نواب محمد بخش لکھویرا اور ان کے لواحقین علاقے کی سیاست میں قائدانہ کردار ادا کرتے ہیں۔
جنوبی پنجاب میں، میں نے تونسہ کا ذکر نہیں کیا۔ تونسہ کے قبائلی علاقے کے بزدار کے خاندان کا اس علاقے میں بہت سیاسی اثرورسوخ ہے۔ بلدیاتی نظام سے لے کر صوبہ کی وزارت اعلیٰ تک پہنچنا بہت اہم بات ہے۔ سردار فتح محمد خان بزدار اس پسماندہ علاقے کے لیے بہت کام کرتے رہے۔ ان کی زندگی میں ہی سردار عثمان بزدار سیاست میں آگئے۔وہ گزشتہ تین سالوں سے پنجاب کے وزیر اعلیٰ ہیں۔عمران خان نے وزیر اعظم بننے کے بعد جب وزارت اعلیٰ کا انتخاب کر نا تھا تو پنجاب خصوصاً لاہور کے بڑے بڑے سیاسی گھرانے یہ عہدہ سنبھالنے کے لیے بے چین تھے لیکن وزیر اعظم نے اپنی فراست سے کام لیتے ہوئے عثمان بزدار کا انتخاب کیا۔ تین سال ہوگئے ہیں عثمان بزدار کے بارے میں منفی پرو پگینڈہ بھی کیا گیا۔ بڑے سیاسی گھرانے نے ان کی راہ میں روڑے بھی اٹکا تے رہے لیکن عثمان بزدار پُر عزم رہ کر حکومت کا نظام چلاتے رہے۔ وہ شریف نفس اور کم گو انسان ہیں۔ اپنی خدمات کو وہ اشتہار نہیں بناتے۔ چپ چاپ دیانت داری کے ساتھ حکومت کر رہے ہیں۔ ان کا دامن ہر الزام سے پاک ہے۔ انہوں نے جنوبی پنجاب کو اس کا حق واپس دیا ہے۔ اب بجٹ میں جنوبی پنجاب کے لیے 35 فیصد رقوم مختص ہیں۔ پورے علاقے میں سڑکوں، تعلیم اور صحت پر توجہ دی جا رہی ہے۔ نئے ہسپتال بن رہے ہیں۔ نئی یونی ورسٹیاں، کالجز اور سکول بن رہے ہیں۔ اور ان تمام ترقیاتی منصوبوں کی نگرانی وہ خود کر رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ چولستان اور تھل کے ریگزاروں میں صاف اور میٹھے پانی کی تلاش اور لائیو سٹاک کی ترقی کے لیے بہت کام کرنا چاہیے۔ ڈیرہ غازی خان کے قبائلی ا ور پہاڑی علاقوں میں خواتین اور بچے کئی کئی میل پیدل ننگے پاؤں چل کر پانی لاتے ہیں۔ یہ ایسے معاملات ہیں، جن پر فوری توجہ کی ضرورت ہے۔
(کالم نگارثقافتی اورسماجی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

جذباتیت اورضد

کرنل (ر) عادل اختر
ہمارے ہاں پڑوس میں گزشتہ چالیس برس سے قیامت برپا ہے۔ افغانستان میں جنگ بھی چل رہی ہے، خانہ جنگی بھی۔ وَقِنا ربّنا عذابُ الُنارہ۔ اس غارت گری کی ذمہ دار دو مہذب سپر پاورز ہیں یعنی روس اور امریکہ۔ افغانستان سے روس نکلا تو امریکہ چڑھ دوڑا۔ جنگ میں بہادری کی بہت اہمیت ہے۔ لیکن صحیح فیصلوں کی اہمیت اس سے بھی زیادہ ہے۔ افغانستان کی سرزمین دفاعی جنگ کے لئے بہت موزوں ہے۔ اس پر افغانوں کی سخت جانی مستزاد ہے۔ دو سپر پاورز کے ساتھ چالیس سال تک لڑنے کا حوصلہ صرف افغانوں میں پایا جاتا ہے۔ اگر جنگ مزید سو سال تک چلتی رہتی تو افغان ہار نہ مانتے اور سو سال تک لڑتے رہتے۔ چار کروڑ آبادی کا ملک برباد ہو کے رہ گیا۔ پچاس لاکھ ہجرت کرگئے، پچیس لاکھ وطن میں بے گھر ہو گئے۔ پندرہ لاکھ مقتول و معذور ہوئے، لاکھوں عورتیں بیوہ ہوئیں، لاکھوں بچے یتیم ہوئے، سپر پاورز کا کیا بگڑا۔
1979ء میں جب روسی فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں تو بڑے بڑے پاکستانی عاقلوں کا خوف کے مارے بُرا حال ہو گیا۔ اب روسی فوجی پنڈی اور پشاور میں دندناتے نظر آئیں گے۔ پاکستان سپر پاور کا کیسے مقابلہ کر سکتا ہے۔ مگر پاکستان نے سپر پاور کے مقابلے کا فیصلہ کر لیا۔ پاکستان کے لئے ہاتھ پر ہاتھ دھڑے بیٹھے رہنا ممکن نہ تھا نہ مناسب، غیبی امداد بھی آ گئی۔ افغانستان میدان جنگ بن گیا۔ روسی فوجی، نکمے اور نااہل ثابت ہوئے، ان کی دلچسپی لڑنے میں نہ تھی۔ سیکس، شراب اور افیم میں تھی۔ ان کی برتری فضا میں تھی۔ ہر طرف ہوائی جہاز اور ہیلی کاپٹر بم برسا رہے تھے۔ ٹینک اور توپیں بھی آگ اُگل رہی تھیں۔ کچھ دن کے بعد امریکی میزائل اسٹنگر بھی آ گئے۔ انہوں نے تاک تاک کر روسی جہازوں اور توپوں کو نشانہ بنایا۔ افغانستان کے کوہ ودمن اور ویرانے روسی جہازوں اور ٹینکوں کا قبرستان بن گئے۔
ادھر روس کی سیاسی قیادت میں اختلافات بڑھ گئے۔ جنگ کے بڑے حامی صدر بربژنیف انتقال کر گئے۔ چند سال کے بعد اقتدار گورباچوف کے ہاتھ میں آ گیا۔ نئی لیڈرشپ پر جنگ کی لامعنویت واضح ہو چلی تھی۔ بے حسنب خرچہ ہو رہا تھا اور فائدہ کوئی نہ تھا۔ روس نے فوجیں واپس بلانے کا اعلان کر دیا، فوج واس چلی گئی تو افغان آمر نجیب اللہ صدارتی محل سے فرار ہو گیا، لیکن پکڑا گیا اور پھانسی چڑھایا گیا۔ افغانستان کے ہر حکمران کا یہی حال ہوتا آیا ہے۔ جنازہ اٹھتا ہے، مزار بنتا ہے۔ مجاہدین نے اقتدار میں آنے کے بعد عوام سے اسلحہ واپس لینا شروع کر دیا۔ منشیات ختم کر دیں، ملک میں امن قائم کر دیا لیکن امریکیوں کو اسلامی حکومت کا برسراقتدار آنا پسند نہ آیا۔ جمہوریت کے چمپئن نے جمہوریت کا گلا گھونٹ دیا۔ مشہور جرمن اسکالر ڈاکٹر این میری شمل لکھتی ہیں کہ مغربیوں کے دل میں صدیوں سے اسلام کے خلاف نفرت بیٹھی ہوئی ہے۔ یہ اسی نفرت کا نتیجہ تھا۔
روس نے حملہ کرتے وقت بڑے بہانے گھڑے تھے۔ امریکہ نے اس سے بھی زیادہ دلکش بہانے گھڑ لئے۔ یہ اسامہ بن لادن کیوں چھپا بیٹھا ہے، اسے واپس کرو۔ اگر اسامہ لادن کا بہانہ نہ ملتا تو کوئی اور بہانہ گھڑ لیتے۔ یہ تو وہی روایتی بھیڑ اور بھیڑیئے کا قصہ تھا یعنی بحر اگر بحر نہ ہوتا تو بیابان ہوتا۔
امریکہ کو ضرورت تھی ایک ایسے ٹھکانے کی جہاں بیٹھ کر وہ چین، روس، ایران اور پاکستان پر نظر رکھ سکے۔ وسط ایشیا کی سرزمین میں معدنیات کے چھپے ہوئے خزانوں کی تصدیق یا تردید کر سکے۔ ایک ایسے میدان جنگ کی جہاں وہ اپنے جدید ہتھیاروں کی آزمائش کر سکے۔ افغانستان ایک لاوارث ملک تھا۔ امریکہ اس سے پہلے بھی کئی لاوارث ملکوں کو ریپ کر چکا تھا۔ جاپان، کوریا، ویت نام، عراق…… امریکہ کے نزدیک ایک لاوارث ملک کو ریپ کرنا، نہ بڑی بات تھی، نہ بُری بات۔ امریکہ میں اتنی ہمت کبھی نہ ہوئی کہ وہ روس یا چین پر حملہ کرتا کیونکہ یہ لاوارث ملک نہیں تھے۔
افغان فوج کی تعداد ڈھائی سے تین لاکھ کہی جاتی ہے یہ تعداد گھٹتی بڑھتی رہتی تھی۔ پاکستان کے وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ امریکہ نے اس فوج کی ٹریننگ اور ہتھیاروں پر دو ہزار ارب ڈالر خرچ کئے تھے۔ یہ جاننے کے لئے کہ دو ہزار ارب ڈالر کتنے ہوتے ہیں۔ یہ سمجھ لیجئے کہ پاکستان اپنی چھ لاکھ فوج پر ایک سال میں صرف آٹھ ارب ڈالر خرچ کرتا ہے۔ بھارت اپنی تیرہ لاکھ فوج پر ایک سال میں پچاس ارب ڈالر خرچ کرتا ہے۔ اگر پاکستانی فوج کو جدید اسلحہ خریدنے کے لئے دو ہزار ارب ڈالر مل جائیں تو دشمن پر سکتہ طاری ہو جائے۔ امریکہ سمجھتا ہے کہ ڈالر خرچنے سے ہر کام ہو سکتا ہے۔ افغانوں کے دل طالبان کے ساتھ دھڑکتے تھے، وہ اسلحہ سمیت طالبان سے جا ملتے تھے۔
جنگ کے دوران امریکہ نے ہزاروں بے ضمیر افغانوں کو خرید کر رکھا تھا جو امریکہ کے لئے جاسوسی کرتے تھے۔ دفتروں میں کام کرنے والے کلرک اور افسر…… ہوٹلوں میں کام کرنے والے، بھیڑ بکریاں چرانے والے…… افغان امراء نے بھی افغانستان سے باہر اپنے بنک بیلنس اور ٹھکانے بنا رکھے تھے۔ اب یہ بھاگ بھاگ کر ان ممالک میں پناہ لینے چلے جائیں گے، سب سے بڑا ضمیر فروش اشرف غنی نکلا جو سنا ہے 169 ملین ڈالر سمیٹ کر عرب امارات چلا گیا ہے۔
افغان جنگ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اپنے ملک کو لاوارث نہ بننے دیں۔ اگر پاکستان ایٹمی طاقت نہ بنا ہوتا تو بھارت اب تک لاہور اور کراچی میں اپنے قدم جما چکا ہوتا۔ ہم اس تھوڑی سی آزادی سے جو ہمیں حاصل ہے، محروم ہو گئے ہوتے۔ سلام ان لوگوں پر جنہوں نے پاکستان کو ایٹمی ملک بنانے میں اپنی زندگیاں کھپا دیں۔ اللہ تعالیٰ‘اس کے فرشتوں اور بائیس کروڑ عوام کی لعنت ہوان پر جنہوں نے پاکستان کو لوٹا۔ اکثر دانشور اشاروں اشاروں میں کہتے ہیں کہ بھٹو اور ضیاء الحق کو ایٹم بم بنانے کی پاداش میں غیر ملکی طاقتوں نے مروایا ہے۔ اس چالاکی سے کہ ان کے دامن پر خون کا کوئی دھبہ نہیں لگنے پایا۔ طالبان کی حکومت آنے پر امریکہ اور بھارت کیا کریں گے۔ نئی سازشیں کریں گے، اب تک جنگ کے بیسیوں نئے طریقے ایجاد ہو چکے ہیں، انہیں آزمائیں کہ جنگ کے نئے طریقوں میں فوجیں اور ٹینک بھیجنے کی ضرورت نہیں رہتی، نفسیاتی طریقے، دھماکے، فسادات، اختلافات کو ہوا دینا۔ پاکستان کو زیادہ سے زیادہ مقروض ملک بنایا۔ پاکستان اور دوستوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنا، سائبر وار، بھارت کا ایک ہی مقصد ہے۔ پاکستان کو ایک لاوارث ملک بنانا، بے ضمیر لوگوں کو خریدنے کے لئے امریکہ کے پاس ڈالروں کی کوئی کمی نہیں ہے۔
افغانوں میں ایک عجیب معاشرتی برائی ہے۔ وہ بیک وقت اپنے کزن کے ساتھ، محبت اور نفرت کر لیتے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان دو کزن ہیں، افغانوں کے مزاج میں قرار نہیں ہے۔ وہ پاکستان سے محبت دکھانے اور ناراض ہونے میں دیر نہیں لگائیں گے۔ بات بات پر روٹھا کریں گے۔ ذرا سی دیر میں بگڑجائیں گے۔ پاکستان میں ریاست مدینہ بن سکتی ہے۔ افغانستان میں نہیں بن سکتی۔ افغانستان میں سینکڑوں وار لارڈز ہیں۔ یہ وار لارڈز بڑے مشتعل مزاج ہیں۔ ہمیشہ لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں۔ جمہوریت اور رواداری افغانوں کے مزاج میں ہے ہی نہیں، جو افغان امریکی ڈالروں پر پل رہے ہیں۔ وہ پاکستان کے اور طالبان کے خلاف سازشیں جاری رکھیں گے۔ پاکستان اور افغانستان کے معاملات امریکہ اور کینیڈا کی طرح نہیں ہو پائیں گے۔
(سیاسی ودفاعی مبصر اورتجزیہ نگار ہیں)
٭……٭……٭

شیرکی آنکھ کاپانی خشک ہوگیا

شفقت حسین
ایک انگریزی محاورہ ہے جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے کہ:”انصاف کی فراہمی میں تاخیر انصاف سے انکار کے ہم معنی ہے“۔ اس سے ارتقا کا عمل رک جاتاہے‘معاشرے میں مایوسی اوربددلی بھی پھیلتی ہے لیکن جرم ثابت ہونے پرکسی مجرم کو سزا کے عمل سے گزار کرنہ صرف دوسرے لوگوں تک ایک واضح پیغام پہنچ جاتاہے بلکہ مستقبل میں ناپسندیدہ سمجھے جانے والے اعمال اور افعال کے اعادے کو بڑی حد تک روکنے میں مدد بھی مل سکتی ہے اور ویسے بھی اسلام نے تومختلف جرائم کے ارتکاب کی سزاؤں تک کا تعین قیام قیامت تک کے لئے کر رکھا ہے۔
میں ذیل میں اپنی معروضات پیش کرنے سے پہلے یہ واضح کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ مجرم چاہے نورمقدم کاقاتل ظاہر جعفر ہو یا سیالکوٹ موٹروے پر ایک بہن کے ساتھ شرمناک سلوک کے مرتکب عابد ملہی یا اس کے ساتھی ہوں یا پھر14اگست کے روز مینار پاکستان کے سائے تلے عائشہ نامی ٹک ٹاکر سے دست درازی کرنے والے تین چار سو کے قریب ناہنجار ہوں تمام کے تمام لوگ سخت ترین سزاؤں کے مستحق ہیں اور اس حوالے سے مائیں بہنیں اور بہوبیٹیاں رکھنے والے کسی بھی فر د کے دل میں معاشرے کے ایسے ناسوروں کے لئے کوئی ہمدردی اور کوئی جذبہئ ترحم قطعاً نہیں ہونا چاہیے۔
لیکن قارئین کرام! کچھ اشکالات بعض استفارات اور چند سوالات ایسے ضرور ہیں جو ہر باپ اوربھائی کے ذہن میں ابھر ابھر کرسامنے آتے ہیں۔ اگر کوئی شخص خود میری آنکھوں میں رتجگوں کی تھکن تلاش کرنے کی کوشش کرے تو اسے بآسانی اندازہ ہو جائے گا کہ ہماری ماؤں‘بہنوں‘بہوؤں اور بیٹیوں کے ساتھ ”مردِآہن“”الاماشااللہ“ کی جانب سے کمینگی پر مبنی کیے جانے والے ایسے سلوک کو سن کرپڑھ کرنہ صرف دل دکھی اور ملول ہو جاتاہے بلکہ میری اکثر راتیں خلاؤں کو گھورتے گزر جاتی ہیں اور میں سوچتا ہوں کہ نورمقدم جب ماں باپ کی دہلیز کوعبور کرکے ظاہر جعفر کے پاس جاتی تھی تو اس کے راستے میں دیوار کیوں کھڑی نہیں کی جاتی تھی۔ نیز یہ بھی کہ جب دونوں بچے اس قدر گہرے طورپر ایک دوسرے میں انوالو تھے تو انہیں نکاح جیسے عظیم اورخوبصورت بندھن میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کیوں نہ باندھ دیاگیا جو ان کا اسلامی‘شرعی‘ قانونی‘ معاشرتی‘ اخلاقی اور سماجی حق تھا۔ والدین کو نظر انداز کرنے کا یا والدین کانور مقدم کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ اپنی مرضی ومنشا کے تحت گئی اور جاتے ہی ایک شقی القلب درندے کی مرضی ومنشا کی بھینٹ چڑھ گئی اور اس موقع نے ایسی گرد اڑائی‘ایسی دُھول اٹھی کہ نور مقدم کے اہل خانہ معاشرے کو منہ دکھانے کے قابل بھی نہ رہے۔
اسی طرح سیالکوٹ موٹروے پر رات کی تاریکی میں اپنے تین کمسن بچوں کے ساتھ سفر کرنے والی خاتون کا معاملہ ہے جسے چلتے وقت گھر کے کسی بڑے نے یہ نہ سمجھایا کہ رات کے وقت اکیلی خاتون کا سفرکرنا خطرے سے خالی نہیں ہوتا۔ لہٰذا آپ رک جائیے یوں بھی کسی تن تنہا ڈرائیو کرنے والے پرنیند بھی غالب آسکتی ہے اس دوران کسی حادثے کا امکان بھی رد نہیں کیا جاسکتا‘نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
یہی صورت واقعہ جشن آزادی کے موقع پر عائشہ کے ساتھ پیش آنے والا افسوسناک سانحہ ہے اسے بھی گھر سے ایک ہجوم میں جہاں چہارسوہلڑ بازی ہورہی تھی جانے سے کسی نہ روکا۔ گھر کے کسی بڑے اور سیانے نے یہ نہ کہا کہ ٹاک ٹاک کاشوق کسی اوروقت پر اٹھا رکھو لیکن عوام کے ایک جم غفیر میں نہ جاؤ۔اسی طرح آج سے پورے ساڑھے پانچ ماہ پیچھے آٹھ مارچ کے روز عالمی یوم خواتین منانے والی الٹراماڈرن بچیوں اور عورتوں کو والدین اور عزیزو اقارب نے یہ نہیں سمجھایا کہ بیٹیو! اللہ پاک نے آپ کا مقام بہت بلند‘ بڑا ارفعٰ اور اعلیٰ رکھا ہے اور تمہارے جسم پر تمہاری مرضیاں نہیں چل سکتیں کہ آپ کا سراپا کسی کی امانت ہے اور حکم خداوندی ماسوائے اس کے اور کوئی نہیں کہ امانتیں ان کے اہل اور حقداروں کے سپرد کرو نہ کہ سرراہ چلتے کسی اوباش کے حوالے کردو۔ یہی نہیں بلکہ خداوند تعالیٰ نے تو آپ کے حدودوقیود تک مقرر کررکھے ہیں کہ کہاں تک آپ نے اپنے آپ کوظاہر کرناہے اور کہاں تک چھپانا ہے اسی خدائے بزرگ وبرتر نے اپنے بندوں کو مخاطب کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ میں تمہاری آنکھوں کی خیانت کابھی علم رکھتا ہوں بلکہ جو کچھ تمہارے سینوں میں چھپا ہواہے میں اس سے بھی واقف ہوں جس کامطلب جوہری طورپر یہی ہے کہ سرراہ سڑک پر چلتے چلتے کسیAttractکرنے والی چیز پر غیر ارادی طورپر نظر کا اٹھنا تو قابل معافی ہے مگر باقاعدہ ارادۃً تعاقب کرکے للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنا گناہ کبیر ہے۔ کسی نے ان ماڈرن خواتین کو یہ نہیں بتایا کہ اسلام نے آپ کو اپنے لئے انتخاب کا حق تو عطا کیاہے لیکن اس کے لئے نکاح اور گواہ بھی ضروری ہے اور ایجاب وقبول بھی۔ دین محمدیؐ نے تو عورت کو اس قدر مضبوط اور طاقتور بنا رکھاہے کہ بعض شرائط کو پورا کیے بغیر مرد حضرات طلاق دے بھی دیں تو وہ مؤثر نہیں سمجھی جاتی لیکن کیا کیاجائے کہ ہم نے قرآن پاک کو یا قسم اٹھانے کے لئے یا پھر خوبصورت غلاف میں لپیٹ کر گھر کی کسی اونچی جگہ پر باعث برکت سمجھ کر رکھاہوتاہے لیکن نعمتوں‘ برکتوں‘ گرانقدر رحمتوں اور ہدایتوں کایہ منبع وذخیرہ بلکہ اس میں شفابھی ہے لیکن اسے کبھی باعثِ مقصد نہیں سمجھا کہ آج کے والدین اپنی اپنی اولاد سے ایک خاص مفہوم میں غافل ہو چکے معلوم ہوتے ہیں۔ ہماری عمر کے لوگ اس امرکے گواہ ہیں جو اپنے آبأ سے اکثر سنا کرتے تھے کہ ان کے بڑے بھی یہی کہا کرتے تھے کہ اپنے بچوں کو کھلاؤ تو سونے کا نوالا مگر دیکھو اسے شیر کی آنکھ سے۔ اس کا مطلب ہے کہ اولاد کے ساتھ نرمی بھی کرو لیکن جہاں اس کے گمراہ ہونے کاخطرہ وخدشہ ہو وہاں سختی کرنابھی ضروری ہے۔
الحمدللہ! جن والدین نے اس ابدی صداقت اور جوہری حقیقت کو سمجھا و ہ سرخرو ٹھہرے اور جو نہ سمجھے ان کی اولادیں ان کے لئے روگ بن گئیں۔کیا ملالہ یوسفزئی کے والد نے اس مغرب زدہ ہو جانے والی بیٹی کی سرزنش کی کہ ملالہ! کسی مرد کے ساتھ آزادانہ زندگی گزارنا اسلام میں حرام ہے اور اس کے لئے نکاح ایک لازمی شرط ہے۔ واضح رہے کہ یہ وہی ملالہ ہے جس پر غالباً2013ء میں سکول جاتے ہوئے حملہ ہوا تو پورا ملک اس واقعہ کے ملزمان کے خلاف سراپااحتجاج بن گیا تھا خود راقم نے بھی ”خبریں“ میں اس کے حق میں ایک تفصیلی کالم لکھا تھا لیکن یہ بچی بھی گمراہ ہونے سے نہ بچ سکی جو آج کہہ رہی ہے کہ زندگی گزارنے کے لئے نکاح کی کوئی ضرورت نہیں اور یہودیوں کے ساتھ کھلے عام تصویریں بنوا کر انہیں اپ لوڈ کررہی ہے۔ بہرحال خواتین کے ساتھ گھناؤنے اورشرمناک سلوک کے ملزمان کو کڑی اور سخت سزائیں بھی دیں۔ لیکن خدارا! والدین اپنی بچیوں پر نظر بھی رکھیں۔آج ہمارے گھروں میں سونے کے نوالے تو ہیں انواع واقسام کی ڈشز اور کھانے ہیں لیکن نہ جانے شیر کی آنکھ کاپانی خشک ہو چکا ہے یا اس کی بینائی چلی گئی ہے۔ واللہ علم الصّواب۔
طُرفہ تماشا اورستم بالائے ستم یہ کہ اسمبلیوں میں خواتین ایم پی ایزکوکوئی سویٹ ڈش کہتا ہے تب بھی کوئی نہیں بولتا اسی طرح ہماری بہو‘بیٹیاں مردوں پر قابل اعتراض اشیا سے بھرے پیکٹس پھینکتی ہیں تو تب بھی کوئی نوٹس نہیں لیتا۔ دونوں طرف سے شرم اور حیا کا جنازہ نکالا جارہا ہے اوریہ شیطانی چکر ہے کہ رکنے کانام ہی نہیں لیتا۔ اگر میں غلط نہیں تو کیا یہ سچ نہیں کہ حریم شاہ اور عائشہ اوردیگر بہت سی معروف ہو جانے والی خواتین کی شرمناک ویڈیوز نیٹ پر موجود ہیں لیکن کیا والدین نے نوٹس لیا۔ سب کچھ ان کے علم میں ہونے کے باوجود خاموشی چہ معنی دارد؟
(کالم نگار سیاسی‘سماجی اورمعاشرتی موضوعات پرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

وفاقی ملازمین کے پلاٹ خلاف ضابطہ مختلف شعبوں کو الاٹ

وفاقی ملازمین کے پلاٹ خلاف ضابطہ مختلف شعبوں کو الاٹ
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں پلاٹوںکی الاٹمنٹ کا انکشاف

پلاٹوں کی بندر بانٹ اور فیڈڈ قرعہ اندازی پر شہریوں کی شکایات
وزارت ہاؤسنگ کے خلاف وزیراعظم پورٹل پرشکایات کے انبار

جن کا جائز حق ہے ان کو پلاٹ دیں، رانا تنویر وزارت ہاؤسنگ پر پرس پڑے
وفاقی ملازمین کے علاوہ کسی کو پلاٹ نہ دیئے جائیں، پی اے سی کا حکم

ملک کے حالات کیا ہیں اور بڑے گھپلے ہو رہے ہیں، کمیٹی ارکان
طارق بشیر چیمہ نے گزشتہ روز ہونے والی پریس کانفرنس روک لی

من پسند افراد کو پلاٹوں کی تقسیم پر اسلام آباد ہائیکورٹ کا لارجر بینچ 13ستمبر کو سماعت کریگا
پلاٹوں کی خلاف ضابطہ الاٹمنٹ کا معاملہ خبریں /چینل٥ نے ایک روز قبل اٹھایا تھا

وزیراعظم سے بیلجئیم کے ہم منصب کا رابطہ، افغانستان کی صورتحال پر تبادلہ خیال

اسلام آباد: وزیراعظم آفس سے جاری اعلامیہ کے مطابق وزیراعظم سے بیلجئیم کے ہم منصب کا ٹیلی فونک رابطہ ہوا ہے۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان گفتگو میں افغانستان کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

وزیراعظم عمران خان نے پاکستان اور علاقائی استحکام کے لیے پرامن اور مستحکم افغانستان کی اہمیت پر زور دیا۔

دونوں وزرائے اعظم نے افغانستان سے سفارتی اور بین الاقوامی تنظیموں کے عملہ کی انخلا کی جاری کوششوں پر تبادلہ خیال بھی کیا۔

بیلجیئم کے وزیراعظم نے پاکستان کی مدد اور سہولت کو سراہا اور عمران خان کو بیلجیم کے دورے کی دعوت دی۔ دونوں رہنماؤں نے رابطوں کے فروغ پر اتفاق کیا۔

وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ افغانوں کی حفاظت،سلامتی اور افغانستان میں استحکام انتہائی اہم ہے۔ امن اور مفاہمت جامع سیاسی حل کی کوششوں میں معاون ثابت ہوگا۔ بین الاقوامی برادری میں افغانستان کے لوگوں کی حمایت کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے۔

افغان طالبان کا امریکی انخلا کی ڈیڈ لائن نہ بڑھانے کا اعلان

کابل: (ویب ڈیسک) افغان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں موجود غیرملکی فوجیوں کے انخلا کی تاریخ میں توسیع نہیں ہو گی۔

برطانوی نشریاتی ادارے سکائی نیوز سے بات چیت میں ترجمان طالبان سہیل شاہین نے کہا کہ یہ ڈیڈلائن نہیں بلکہ ان کے لیے ریڈلائن ہے اور اگر اس میں توسیع کی جاتی ہے تو اسے قبضے میں توسیع سمجھا جائے گا۔

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے سہیل شاہین نے کہا کہ ایسی کسی بھی توسیع کی صورت میں بداعتمادی کی فضا پیدا ہو گی جس کا ردعمل سامنے آ سکتا ہے۔ کابل ایئرپورٹ پر موجود افغان باشندے اصل میں طالبان کے خوف سے نہیں بلکہ مغربی ممالک میں بہتر زندگی کے لیے افغانستان سے فرار کی کوشش میں ہیں۔

پینٹا گون کا افغانستان سے انخلا میں توسیع کا عندیہ

پینٹاگون کے ترجمان جان کربی کا اس بارے میں کہنا ہے کہ طالبان سے انخلا میں توسیع کے حوالے سے کوئی بات نہیں ہوئی ہے۔ امریکی افواج 31 اگست تک کابل سے اپنا انخلا مکمل کرلیں گی۔ ہم حامد کرزئی ایئر پورٹ پر امریکی سرگرمیوں کے حوالے سے طالبان کے ساتھ مستقل رابطے میں ہیں لیکن ابھی تک ڈیڈ لائن کے تناطر میں کوئی خاص بات نہیں ہوئی ہے۔ انخلاء میں توسیع ہو سکتی ہے۔

امریکی انخلاء تک حکومت کا اعلان نہیں کرینگے: طالبان کا اعلان
مزید برآں افغان طالبان کا کہنا ہے کہ امریکا کے افغانستان سے انخلا مکمل ہونے تک حکومت کا اعلان نہیں کریں گے، طالبان نے فیصلہ کرلیا ہے کہ امریکی فوج کی موجودگی تک حکومت اور کابینہ کا اعلان نہیں کیا جائے گا۔

طالبان پر پابندیاں اقدامات پر منحصر، اپنے شہریوں کو کابل سے نکالنا پہلی ترجیح ہے: جوبائیڈن

امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ طالبان پر پابندیاں ان کے اقدامات پر منحصر ہیں، امریکا کی پہلی ترجیح اپنے شہریوں کو کابل سے جلد سے جلد نکالنا ہے۔

جوبائیڈن نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امید ہے 31اگست کے بعد افغانستان میں رکنے کی ضرورت نہیں پڑے گی، اگر رکنا پڑا تو اس کےلیے بات چیت جاری ہے، انہوں نے ایک مرتبہ پھر افغانستان سے انخلا کو درست فیصلہ قرار دیا۔ مزید کہا کہ قبضے کے بعد ابھی تک طالبان نےامریکی فوجیوں پر حملہ نہیں کیا۔

امریکی صدر نے انخلا کے لیے مدد کرنے والوں کا شکریہ بھی ادا کیا۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ افغانستان سے فوجی انخلا کے امریکی فیصلے کو دنیا بھر سے تنقید کا سامنا ہے، کابل پر طالبان کے تیز رفتار قبضے کی وجہ بھی امریکی فوج کا غیر ضروری عجلت میں اںخلا قرار دیا جا رہا ہے۔

مطلق العنان حکومت قبول نہیں، طالبان سے لڑنے کے لیے تیار ہیں: احمد مسعود
احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود نے کہا ہے کہ طالبان سے لڑنے کے لیے تیار ہیں، کسی مطلق العنان حکومت کو تسلیم نہیں کریں گے، طالبان رہنما خلیل الرحمان حقانی نے کہا ہے کہ سپرپاورز کو شکست دے سکتے ہیں تو اپنے لوگوں کی حفاظت بھی کرسکتے ہیں، سیکڑوں طالبان جنگجو وادیِ پنج شیر کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

افغانستان کے صوبے پنج شیر میں جنگ کے بادل منڈلانے لگے۔ طالبان اور شمالی اتحاد آمنے سامنے پنجشیر میں احمد مسعود کے حامیوں نے ہتھیار ڈالنے سے انکارکردیا، سیکڑوں طالبان پنجشیر کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود نے خبر ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان سے لڑنے کے لیے تیار ہیں، انہوں نے طالبان پر واضح کر دیا ہے آگے بڑھنے کاراستہ مذاکرات ہی ہیں، وہ نہیں چاہتے کہ جنگ چھڑ جائے لیکن کسی مطلق العنان حکومت کو تسلیم نہیں کریں گے۔

پنج شیر وادی میں پناہ لینے والے امراللہ صالح نے ٹویٹ کرتے ہوئے طالبان سے کہا ہے کہ آؤ تمھیں دیکھ لوں گا۔ طالبان پنجشیر کے داخلی دروازے پر جمع ہوئے ہیں۔ جو کوئی حملے کرے گا ان میں سے کوئی ایک بھی نہیں بچے گا۔

کابل ایئر پورٹ پر فائرنگ، افغان سکیورٹی اہلکار چل بسا

دوسری طرف افغانستان سے باہر نکلنے کے لیے ہزاروں افغان اور غیر ملکی شہریوں کا کابل ہوائی اڈے پر ہجوم ہے۔ اس دوران مغربی ملکوں کی سکیورٹی فورسز کی فائرنگ میں ایک افغان گارڈ چل بسا ہے۔

جرمن فوج نے بتایا کہ یہ لڑائی افغان سکیورٹی فورسز اور نامعلوم حملہ آوروں کے درمیان ہوئی۔ جرمن فورسز نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ایک افغان سکیورٹی افسر ہلاک ہو گیا جبکہ دیگر تین زخمی ہو گئے۔ اس کارروائی میں امریکی اور جرمن فورسز بھی شامل تھیں۔ لیکن کوئی جرمن فوجی زخمی نہیں ہوا ہے۔

کسی پر کوئی جبر ہوگا نہ ہی کوئی خون خرابہ ہوگا: خلیل الرحمان حقانی

رہنما افغان طالبان کے خلیل الرحمان حقانی نے افغانستان میں جامع حکومت کے قیام کے سلسلہ میں عالمی تشویش کو دورکرتے ہوئے کہا ہے کہ امارت اسلامی افغانستان تمام سیاسی گروپوں اور مقامی برادریوں کی نمائندہ حکومت ہوگی۔ افغان شہری ملک سے نہ جائیں اور جو لوگ پہلے ہی جا چکے ہیں وہ واپس آئیں، افغانستان میں کسی پر کوئی جبر نہیں ہوگا، اب افغانستان میں کوئی خون خرابہ نہیں ہوگا۔۔

ایک انٹرویو کے دوران انہوں نے کہاکہ ہم دنیا کے سامنے اسلامی امارت افغانستان کی عملی صورت پیش کریں گے اور سب سے پہلے ہم اپنے آپ پر شرعی قوانین نافذ کریں گے اور پھران قوانین کا عوام پر نفاذ کریں گے۔ افغانستان میں کسی پر کوئی جبر نہیں ہوگا تاہم انہوں نے حکومت کیلئے کوئی مناسب ڈھانچہ پیش نہیں کیا۔ جامع حکومت کی تشکیل کیلئے بات چیت جاری ہے۔ مختلف رہنمائوں اور افغان کمیونٹیز کے ساتھ بات چیت جاری ہے اور وہ طالبان اور امارت اسلامی افغانستان کے ساتھ اپنی وفاداری کا اظہار کر رہے ہیں۔ کابل پر طالبان کے قبضہ کے بعد دنیا کو تشویش ہوئی کہ افغانوں میں نئی حکومت میں اقتدار کے حصہ کیلئے لڑائی شروع ہو جائے گی ۔

خلیل الرحمان حقانی نے یقین دلایا کہ دنیا کو اس حوالہ سے زیادہ پریشان نہیں ہونا چاہئے۔ جب ہم کابل آئے تو ہم نے سابق افغان صدر حامد کرزئی اور افغانستان کے سابق چیف ایگزیکٹو عبداﷲ عبداﷲ کے ساتھ ملاقات کی۔ یہ دونوں خوفزدہ تھے اور ملک چھوڑنا چاہتے تھے مگر ہم نے یقین دلایا کہ ان کے خلاف کوئی انتقامی کارروائی نہیں ہوگی۔

ایران نے طالبان کی درخواست پر افغانستان کو پٹرلیم مصنوعات کی ترسیل بحال کردی
اُدھر ایران نے افغان طالبان کی درخواست پر افغانستان کو پٹرلیم مصنوعات کی ترسیل بحال کردی، افغانستان میں بحران کے باعث تیل کی قلت پیدا ہوگئی تھی، ایران نے پٹرولیم مصنوعات پر محصولات میں 70فیصد تک کمی کردی ہے۔

جی سیون ممالک کا کل ورچوئل اجلاس، برطانیہ طالبان پر پابندیاں لگانے پر زور دے گا

فغانستان کی صورتحال پر جی 7 ممالک کا ورچوئل اجلاس کل ہو گا، خبر ایجنسی کے مطابق اجلاس کے دوران برطانیہ طالبان پر پابندیاں لگانے پر زور دے گا۔

اجلاس میں جی 7 ممالک افغانستان سے متعلق مشترکہ لائحہ عمل پر غور کریں گے، خبر ایجنسی کے مطابق اجلاس میں برطانیہ طالبان پر پابندیاں عائد کرنے پر زور دے گا۔

برطانوی دفتر خارجہ کے مطابق برطانیہ، امریکا کو انخلا کی ڈیڈ لائن میں توسیع کے لیے بھی دباو ڈالے گا، توسیع سے لوگوں کو نکالنے کے لیے پروازوں کا سلسلہ جاری ہے۔

یورپی یونین کے کہنے پر افغان مہاجرین کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے: طیب اردوان

ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ یورپی یونین کے کہنے پرافغان مہاجرین کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے، دوسرے ممالک اپنی ذمہ داریاں ترکی پر نہ ڈالیں۔

ترک صدر اردوان نے کہا ہے کہ یورپی یونین کے رکن ممالک نے ان افراد کے چھوٹے سے گروہ کے لیے اپنے دروازے کھولے ہیں جنہوں نے ان کے لیے کام کیا ہے۔ ترکی میں پہلے ہی 50 لاکھ مہاجرین موجود ہیں، مہاجرین کی ایک اور لہر کو کنٹرول نہیں کر سکیں گے۔