تازہ تر ین

مہنگائی لے بیٹھے گی

قسور سعید مرزا
29 اگست کو پی ڈی ایم کراچی میں جلسہ عام کرنے جا رہی ہے۔ آزاد کشمیر میں پیپلزپارٹی اور ن لیگ مشترکہ طور پر صدارتی امیدوار لا رہے ہیں۔ آزاد کشمیر اور سیالکوٹ میں پی ٹی آئی نے کامیابی حاصل کر لی ہے۔ وفاق اور سندھ حکومت کے درمیان نوک جھونک شروع ہے۔ سندھ میں مرحوم ممتاز علی بھٹو، لیاقت علی جتوئی، سابق وزیراعلیٰ سید مظفر حسین شاہ، سید غوث علی شاہ سے عمران خان وہ کام نہیں لے سکے جو کہ لینا چاہئے تھا۔ اب مندے کے ماحول میں ارباب غلام رحیم کو میدان میں اتارا ہے۔ ہمارے دوست حلیم عادل شیخ نے کیا مقابلہ کرنا تھا۔ جناب زرداری، بی بی فریال تالپور اور بلاول بھٹو زرداری کا۔ سندھ میں علامہ راشد سومرو، سابق سینیٹر صفدر عباسی، سابق چیئرمین سینیٹ وفاقی وزیر محمد میاں سومرو، غلام مرتضیٰ جتوئی، سابق وزیراعلیٰ لیاقت علی جتوئی، سید غوث علی شاہ، ممتاز بھٹو مرحوم کے صاحبزادے امیر بخش بھٹو، سردار علی گوہر مہر، غوث بخش مہر، آغا تیمور پٹھان، ڈاکٹر ابراہیم جتوئی، ناہید خان، معظم علی عباسی، شہریار خان مہر، مسرور خان جتوئی، راجہ علی نواز مہر، قوم پرست جماعتوں کے سربراہان اور رہنما ڈاکٹر قادر مگسی، ایاز لطیف پلیجو، صعنان قریشی، مبین جتوئی، عادل خان، عبدالستار راجپر اور علامہ ناصر سومرو بھی اکٹھے ہوئے ہیں۔
پہلے بھی ایک بڑا اتحاد جی ڈی اے کی شکل میں موجود ہے۔ دیکھتے ہیں کہ یہ سب اتحاد کس طرح کامیابی حاصل کرتے ہیں جبکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ اندرون سندھ آج بھی سندھیوں کا جناب بھٹو سے رومانس موجود ہے اور اب تک سندھ کی روایتی جماعت پیپلزپارٹی ہی ثابت ہوئی ہے جو اب بھی سندھ میں موثر اور مضبوط ہے۔ یہ ساری سیاسی سرگرمیاں اپنی جگہ لیکن عوامی سطح پر سب سے بڑا اور ہولناک مسئلہ مہنگائی اور بے روزگاری کا ہے۔ نئے بجٹ میں عوام کو ریلیف دینے کے اقدامات کی قلعی کھلنا شروع ہو گئی ہے اور ایک ماہ کے اندر ہی اشیائے خوردونوش مہنگی کر دی گئی ہیں۔ چینی جو 68 روپے کلو مل رہی تھی اس میں اچانک 17 روپے کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ گھی کا کلو کا پیکٹ 170 سے بڑھ کر 260 کا ہو گیا ہے۔ ہول سیل میں چینی 100 روپے اور ریٹیل مارکیٹ میں 105 سے 110 روپے کلو ہو گئی ہے۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی نے گنے کی بمپر فصل ہونے کے باوجود 2 لاکھ ٹن چینی امپورٹ کرنے کی بھی اجازت دے دی ہے۔ آٹے کا 20 کلو کاتھیلا 850 سے بڑھ کر 950 کا کر دیا گیا ہے۔ روٹی 5 روپے سے 15 روپے، انڈہ اس شدید گرمی میں 7 روپے سے 15 روپے، پٹرول 60 سے 120 روپے، ڈی اے پی کھاد 2400 سے 6000 روپے، بجلی فی یونٹ 5 سے 19 روپے، سونا 50 ہزار سے ایک لاکھ دس ہزار روپے تولہ ہو گیا ہے۔ غرض یہ کہ مہنگائی نے ہر جانب آگ لگا دی ہے۔ سفید پوش اور مڈل کلاس طبقہ پس کر رہ گیا ہے۔ یہ خاموش ووٹ بنک ہوتا ہے جو اپنا کام دکھاتا ہے۔ اسٹیٹ بنک بھی بڑھتی مہنگائی اور افراط زر کی بڑھتی شرح کو کم شرح سود سے کنٹرول کرنے میں ناکام دکھائی دے رہا ہے۔ آنے والے دنوں میں مزید مہنگائی بڑھنے کا خود حکمران کہہ رہے ہیں۔ عوام کے اندر ہی اندر لاوا پک رہا ہے جو کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے پھر یہ ہی ہوگا کہ سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا، جب لاد چلے گا بنجارہ۔ اس کمر توڑ مہنگائی میں عوام کا اللہ ہی حافظ ہے۔ مہنگائی کو اگر قابو نہ کیا گیا تو خدشہ ہے کہ بھوک اور مہنگائی لوٹ مار کا ماحول نہ پیدا کر دے۔ مہنگائی بریفنگز لینے اور میٹنگز کرنے سے ختم نہیں ہوگی۔ نرخوں پر چیک رکھنا انتظامیہ کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ جس طرح انتظامیہ نے لاک ڈاؤن کے دنوں میں دکانیں بند کرائیں کیا اس طرح انتظامیہ سے کام نہیں لیا جا سکتا۔ ہر تحصیل کے اسسٹنٹ کمشنر اور بلدیہ و کارپوریشن کے حکام مل کر گراں فروشوں کو نکیل ڈال سکتے ہیں اور ماضی میں ایسا ہوتا رہا ہے اور ہم بچپن سے دیکھتے آئے ہیں لیکن ان سے کام کون لے۔ وہ بھی پرلے درجے کے اناڑی ہیں جو ہمارے وزیراعظم کو زیادہ سنجیدہ لیتے ہیں اور نہیں سمجھتے کہ کہنے کی باتیں اور ہوتی ہیں اور کرنے کی اور۔
یقینا وزیراعظم کو مسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی اور زیادہ ہوتی ہوئی بے روزگاری پر رات کو نیند نہیں آتی ہوگی۔ لیکن بابا نیند نہ آنا تو مسئلے کا حل نہیں ہے۔ یہ کیا بات ہوئی کہ فلاں کام نہیں کرنے دیتا اور فلاں مافیاز راستے میں کھڑے ہیں اور کچھ نہیں کرنے دیتے۔ پاکستان ایک انوکھا اور پیارا ملک ہے۔ عوام بھی نیارے اور پیارے ہیں لیکن پاکستان میں حکمرانی آئین نہیں بلکہ طاقت کے زور پر چلتی ہے۔ ہمت ہو اور مسائل کا کچھ ادراک ہو تو حکمرانی کے زور پہ بہت کچھ کیا جا سکتا ہے لیکن ذہن میں کچھ آئیڈیاز نہ ہوں اور اپنے سائے سے بھی ڈر لگتا ہو تو پھر وہی ہوتا ہے جو پاکستان میں ہو رہا ہے۔ کراچی کے حالات بھی تو ٹھیک کئے گئے ہیں۔ قبائلی علاقوں کو ملکی کنٹرول میں لایا گیا۔ حکومت کی رٹ بحال کی گئی۔ یہ دونوں اقدام مشکل لگتے تھے لیکن جب اقدامات اٹھائے گئے تو پاکستانی ریاست کو بھی کامیابی حاصل ہوئی۔ کیا گراں فروشوں کو قابو میں لانے کیلئے بھی فوج کو بلانا پڑے گا؟ یہ ہمارے بابوحضرات کب کام آئیں گے۔ عمران خان صاحب نے بروقت فیصلے نہیں کئے۔ فیصلے کئے تو عمل نہیں ہوا۔ تھانے اب بھی بک رہے ہیں۔ تحصیل میں رشوت عام ہے، رجسٹری پر رشوت کا ریٹ بڑھ گیا ہے۔ اوپر سے مہنگائی نے عوام کو مار ڈالا ہے۔ بے شک آپ آزاد کشمیر اور سیالکوٹ میں جیت گئے ہیں۔ آپ کے پاس مہلت بہت کم ہے۔ آپ تاریخ کے کٹہرے میں کھڑے ہیں۔ عوام تبدیلی چاہتی ہے۔ دلیرانہ قدم اٹھائیں۔ ورنہ پرانے لوگ آئے تو آپ ذمہ دار ہوں گے۔
(کالم نگارایوان صدر پاکستان کے
سابق ڈائریکٹرجنرل تعلقات عامہ ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain