داعش کے حملے کا خطرہ، امریکی شہریوں کو کابل ائیر پورٹ جانے سے روک دیا گیا

افغانستان میں داعش کے حملے کے خطرے کے پیش نظر امریکا نے اپنے شہریوں کے لیے سکیورٹی الرٹ جاری کر دیا ہے۔

امریکا نے سکیورٹی الرٹ جاری کرتے ہوئے شہریوں کو کابل ائیر پورٹ جانے سے منع کر دیا ہے۔ سکیورٹی الرٹ میں کہا گیا ہے کہ ممکنہ طور  پر افغانستان میں موجود داعش کا گروہ حملہ کر سکتا ہے لہٰذا شہری کابل ائیر پورٹ کا رخ نہ کریں۔

امریکی حکام کے مطابق صرف ان امریکیوں کو سفر کرنا چاہیے جنھیں انفرادی طور پر وہاں جانے کو کہا گیا ہے، کابل کی صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں اور متبادل راستوں پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔

دوسری جانب برطانوی نشریاتی ادارے کا کہنا ہے کہ امریکا نے کابل ائیر پورٹ پر  داعش کے ممکنہ حملے کے خطرے کی کوئی تفصیل فراہم نہیں کی جبکہ داعش نے بھی کابل میں حملوں کی عوامی سطح پر کوئی دھمکی نہیں دی ہے۔

بلوچستان میں سکیورٹی فورسز کی گاڑی پر دہشتگرد حملہ، کیپٹن شہید

بلوچستان کے علاقے گچک میں سکیورٹی فورسز کی گاڑی پر دہشتگرد حملے میں کیپٹن شہید اور دو اہلکار زخمی ہو گئے۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق دہشتگردوں نے گجک کے علاقے ٹوبو میں سکیورٹی فورسز کی گاڑی کو دھماکا خیز مواد کی مدد سے نشانہ بنایا۔

آئی ایس پی آر کے مطابق واقعے میں کیپٹن کاشف کی شہادت ہوئی اور 2 فوجی زخمی بھی ہوئے۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق زخمی فوجیوں کو خضدار کے میڈیکل سینٹر منتقل کر دیا گیا ہے۔

نادرا شناختی کارڈ کی تصدیق و تجدید کیلئے آن لائن نظام متعارف

نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) نے شناختی کارڈ کی تصدیق اور تجدید کے نئے نظام کا اجراء کر دیا۔

‎نئے نظام کے تحت اب کوئی بھی پاکستانی اس بات کی تصدیق کر سکتا ہے کہ ان کے خاندان میں کوئی اجنبی یا غیر متعلقہ فرد تو رجسٹرڈ نہیں ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ ہفتے نادرا ہیڈ کوارٹرز کا دورہ کیا تھا جہاں چیئرمین نادرا طارق ملک نے انھیں ڈیجیٹل پاکستان کے مکمل روڈ میپ پر بریفنگ دی تھی۔

آن لائن نظام کے تحت اس میں لکھا ہے کہ پاکستانی شہری ایس ایم ایس کے ذریعے شناختی کارڈ کا نمبر اور اس کے اجرا کی تاریخ 8009 پر بھیج کر اپنے اہل خانہ کی تفصیلات اور اس کی تصدیق حاصل کرسکیں گے، مسج کے جواب میں ایس ایم ایس بھیجنے والے کو اس کے اہل خانہ کی تفصیلات موصول ہوں گی۔

نادرا کے چیئرمین طارق ملک نے اپنے بیان میں کہا کہ ‘اگر کوئی بھی معلومات غلط ہو یا کسی اجنبی یا غیر متعلقہ شخص کا نام خاندان میں شامل ہو تو نادرا کو آگاہ کرنے کے لیے1 لکھ کر ایس ایم ایس بھیجیں یا نادرا کے کسی بھی رجسٹریشن سینٹر میں جاکر نام غیر رجسٹر کروائیں۔انہوں نے کہا کہ اگر معلومات درست ہو تو ان کی تصدیق کے لیے 2 لکھ کر میسج کریں۔چیئرمین کا مزید کہنا تھا کہ تصدیق اور تجدید کے نظام سے فائدہ حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ نادرا میں اسی موبائل نمبر سے ایس ایم ایس رجسٹر کروائیں جو ‘بی’ فارم یا شناختی کارڈ کے حصول کے دوران فراہم کیا گیا تھا۔

امریکہ کی آمرانہ سوچ‘ شکست کا سبب

وزیر احمد جوگیزئی
جدید دنیا کے جتنے مسائل ہیں وہ قدرتی طور پر پیدا نہیں ہوئے ہیں،جتنے بھی معاملات ہیں چاہے وہ محدود ہوں یا پھر لا محدود انسانوں کے پیدا کر دہ ہیں،اور یہاں پر میں عام انسانوں کی بات نہیں کر رہا ہوں،عام انسان تو بیچارے ان تمام معاملات میں بے بس ہیں اور عام لو گ تو ان پالیسیوں اور اس سوچ کے زیر اثر آجاتے ہیں اور ان سے متاثر بھی ہو تے ہیں۔قوم کی زندگی میں ان کے معاملات کو جانچنے کے لیے ان کی تاریخ میں بہت زیادہ دور تک دیکھنے کی ضرورت نہیں ہوا کرتی ہے۔بہت زیادہ ان کے ماضی کو نہیں پر کھنا پڑتا۔مثال کے طورپر جنگ عظیم اول کیونکر لڑی گئی تھی، ان وجوہات کو جانے بغیر ہمیں دیکھنا چاہیے کہ اس جنگ کے کیا اثرات مرتب ہو ئے۔اس جنگ تک اشیا ء یورپ اور افریقہ میں امریکہ کی کوئی دخل اندازی موجود نہیں تھی، کو ئی خاص اثر و رسوخ نہیں تھا۔جنگ عظیم اول کے بعد امریکہ کا دنیا کے معاملات میں کردار بہت زیادہ بڑھ گیا او ر پھر دھیرے دھیرے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں امریکہ کی بلا واسطہ حکمرانی قائم ہو گئی۔
دنیا میں کو ئی ملک کوئی بھی بڑا فیصلہ امریکہ کی رضا مندی کے بغیر نہیں کر سکتاتھا،لیکن یہ بات دیکھنے اور سمجھنے کی ہے کہ امریکہ جو کہ ایک بہت بڑی عسکری،معاشی،اور علمی قوت ہے اور ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی اس کا کو ئی ثانی نہیں ہے۔ تعلیم عام ہے اور ہنر مند افراد کی بھی کوئی کمی نہیں ہے اور جنگ عظیم دوئم کے بعد اسی قوم نے دنیا کی تاریخ میں پہلی بار ایٹمی ہتھیار استعمال کیے،لیکن اس سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھا گیا۔اتنی بڑی قوت اگر چاہتی کہ دنیا میں امن اور سکون ہو،انصادف اور برابری ہو تو یہ ان کے لیے مشکل نہیں تھا۔ امریکہ دنیا میں امن قائم کر سکتا تھا،لیکن بڑی بد قسمتی کی بات ہے کہ اتنی بڑی قوت جس کو شاید انسانی تاریخ کی سب سے طا قتور قوت مانا جاتا ہے وہ بجائے اپنی قوت اور طاقت کو اچھائی اور دنیا میں امن کے نفاذ کے لیے استعمال کرتی وہ تو کسی اور طرف ہی نکل گئی۔امریکہ نے اپنا پورا زور اپنی وار مشین پر لگا دیا۔انہوں نے اپنی سافٹ پاور کو بجائے دنیا میں امن کی ترویج کے استعمال کرنے کے اسے بھی اپنی جنگوں کی حمایت اور ان کا راستہ ہموارکرنے میں لگا دیا اور اس پالیسی کے نتائج کیا برآمد ہوئے وہ ہم کافی عرصے سے گاہے بگاہے دیکھتے چلے آرہے ہیں۔پورے کے پورے ملکوں کو اور خوشحال اور ہنستے بستے ممالک کو اجاڑ کر رکھ دیا گیا۔ ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ویتنام میں کیا ہوا؟ کو ریا میں کیا ہو ا؟ عراق میں کیا ہوا؟ لیبیا میں کیا ہوا؟ عراق کو ہی دیکھ لیں،عراق جا ئیں تو ایسا محسوس ہو تا ہے کہ کسی کھنڈر میں کسی آثار قدیمہ کے مقام پر آگئے ہیں۔اور امریکہ اگر افغانستان میں افغان فوج پر 83ارب ڈالر خرچ کرنے کی بجائے افغان عوام کی ترقی اور فلاح پر توجہ دیتا تو شاید اتنا پیسہ خرچ کرنے کے بعد بھی اتنا بے تو قیر ہو کر افغانستان سے نہیں نکلتا۔امریکہ نے دنیا میں حالیہ برسوں میں ایسی پالیسیاں اپنائی ہیں جو کہ کسی بھی صورت میں دانش مندانہ نہیں لگتی ہیں۔
لگتا ایسا ہے کہ امریکی قیادت دانش مندی،دور اندیشی اور عقل سے بہت دور ہو گئی ہے۔اگر افغان قوم کو ترقی کے مواقع فراہم کیے جاتے تو آج افغانستان بھی امریکہ کی ایک ریاست کی مانند ہی ترقی یافتہ ہو چکا ہو تا،لیکن ایسا کیوں نہیں ہو ا؟ اس لیے نہیں ہوا کہ ہر مسئلہ کا فوجی حل نہیں ہوا کرتا ہے۔فوجی عمل کو ایک stop gapکے طور پراستعمال کیا جاسکتا ہے یعنی کہ وقتی طور پر طاقت کے زور پر مسائل کو دبایا جاسکتا ہے لیکن مستقل بنیادوں پر مسائل حل ہونے کی بجائے مزید گھمبیر ہو تے چلے جاتے ہیں اور لا وا بن کر پھٹ پڑتے ہیں۔فوجی مداخلت نے کبھی بھی کسی ملک کے لیے کچھ اچھا نہیں کیا ہے اور اگر فوجی مداخلت کی تاریخ دیکھنی ہے تو پاکستان کو ہی دیکھ لیں۔مجھ سے گزشتہ دنوں ایک سفارت کار ملے۔ ان کو پاکستان کے بارے میں اور پاکستان کی تاریخ کے بارے میں بہت کچھ معلوم تھا،شاید جس ملک میں سفارت کاروں کو بھیجا جاتا ہے ان کو اس ملک کے بارے میں گہرا مطا لعہ بھی کرایا جاتا ہو، اس ملک کی تاریخ اس کی معیشت اور صنعت کی حیثیت سے بھی آشنا کرایا جاتا ہو، بہر حال اس سفارت کار نے مجھ سے کہا کہ 50ء کی دہائی میں تو پاکستان بہت ہی تیزی کے ساتھ ترقی کرتا ہوا ملک تھا اور اگر اسی تیز رفتاری کے ساتھ پاکستان ترقی کرتا رہتا تو آج دنیا کی بڑی اقتصادی قوت ہو تا۔ان صاحب کے سوال کا جواب یہی ہے کہ اس لیے پاکستان ایک بڑی اقتصادی قوت نہیں بن سکا ہے کیونکہ پاکستان مارشل لا کی زد میں آگیا اور مارشل لا کے ادوار میں ملک کے اداروں کو کمزور کیا گیا۔مارشل لا کی سوچ ایک سرنگ کی مانند ہو تی ہے جس کو صرف تصویر کا ایک ہی رخ نظر آرہا ہو تا ہے،جو بھی کر لیں مارشل لا کی سوچ ہمہ پہلو اور کثیر الجہتی ہو ہی نہیں سکتی ہے اور یہی ہمارے ملک کا المیہ رہا ہے۔
بہر حال ہمارا موضوع یہ نہیں تھا ہمارا موضوع ریاست ہائے متحد ہ امریکہ کی بے شمار خوبیوں کے باوجود اس کی دنیا بھر میں ناکامی کے اسباب پر نظرڈالتا تھا۔ایک بہت ہی بڑی طاقت ہو نے کے باوجود امریکہ صرف اور صرف اسی لیے ناکام ہو رہا ہے کہ اس کی سوچ پوری دنیا کے لیے آمرانہ ہے۔آمرانہ سوچ یقینا ناکا م ہوئی ہے اور انسانی تاریخ اس سے بھری پڑی ہے۔لہذا آج کے دور میں ہماری سوچ صرف اور صرف اقتصادی ترقی کی ہونی چاہیے کیونکہ صرف اقتصادی ترقی کے ذریعے ہی آج کی دنیا میں عزت حاصل کی جا سکتی ہے۔ایسا ملک جس کی افرادی قوت ہُنر مند اور بہت ہی جفا کش ہو۔اگر اس ملک کی فکر کریں تو اس ملک میں بہت جان ہے کوئی وجہ نہیں ہے کہ یہ ملک دنیا میں اپنا جائز مقام حاصل نہ کر سکے۔
(کالم نگار سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی ہیں)
٭……٭……٭

جنوبی پنجاب کا احساس محرومی اور سیکرٹریٹ

ڈاکٹر محمدممتاز مونس
آبروئے صحافت محترم ضیا شاہد محروم ومغفور کی جہاں بے پناہ خدمات ہیں وہاں جنوبی پنجاب کے عوام انہیں اپنا مسیحا ہی نہیں بلکہ پیشوا بھی سمجھتے ہیں۔کیونکہ انہوں نے آج سے تقریباً29سال قبل ”خبریں“ ملتان کی بنیاد رکھ کر سب سے پہلے اس خطے کے عوام کی احساس محرومی کو دیکھتے ہوئے ان کے حقوق کی آواز بلند کی اور وہ واحد آواز ہے جس نے جنوبی پنجاب کی حقوق کی صحیح معنوں میں ترجمانی کی اور یوں آج پاکستان بھر میں جنوبی پنجاب صوبہ یا جنوبی پنجاب کی محرومیوں کو تسلیم کیا جانے لگا‘ یہاں تک کہ اقتدار میں آنے کیلئے تقریباً تمام جماعتوں نے جنوبی پنجاب صوبہ کانعرہ لگاکر الیکشن سلوگن بنایا۔ یہ سچ ثابت ہوا کہ پنجاب کا33فیصد بہاول پور‘ ملتان اورڈیرہ غازیخان ڈویژن کو تعلیم‘ صحت‘ ایڈمنسٹریشن سیٹ اَپ اور ملازمتوں سمیت ہر شعبے میں پسماندہ رکھا گیا۔ جنوبی پنجاب صوبے کے روح رواں صوبائی وزیرخزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت نے تسلیم کیا کہ یہاں 33فیصد کے بجائے کسی شعبے میں 17فیصد اور باقی شعبوں میں اس سے بھی کم اس خطے کے عوام کو حقوق ملتے تھے جو زیادتی ہی نہیں بلکہ حق تلفی کے زمرے میں آتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس خطے کے عوام نے کبھی ”تخت ِلاہور“ سے آزادی کانعرہ لگایااورکبھی صوبے کو ہی اپنے تمام دکھوں کا مداوا قرار دیا۔ گزشتہ دنوں جنوبی پنجاب سے سیکرٹریٹ کی افتتاحی تقریب میں وزیراعظم عمران خان‘ وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار‘ وزیرخارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی اور مخدوم خسرو بختیار سمیت خطاب کرنے والوں نے بھی اس بات کو تسلیم کیا کہ پہلے اس خطے کے ساتھ ناانصافیوں کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ جاری تھا‘ اب اس خطے کا اپنا پی ایف سی ایوارڈ ہوگا‘ اس خطے کا اپنا نہری نظام‘ اس خطے کا اپنا ہیلتھ سیٹ اَپ‘اس خطے کا اپنا تعلیمی نظام اور سب سے بڑھ کر اس خطے کے باسیوں کو ملازمتوں کا پورا پورا کوٹہ ملے گا۔اب کوئی لاہور سے آکر یہاں ”افسرشاہی“ نہیں کرے گا۔ موجودہ حکومت کی جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے اور اس خطے کے عوام اسے اپنے لئے ہوا کا تازہ جھونکا قرار دیتے ہیں‘لیکن ناقدین اب بھی اسے ”اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف“ قراد دیتے ہیں۔ سیکرٹریٹ اس خطے کے مسائل کی نشاندہی توضرور ہے لیکن محرومیوں‘ ناانصافیوں اور حق تلفیوں کا ازالہ نہیں۔ یوں تو مسلم لیگ(ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی موجودہ حکومت کے اس اقدام پر اعتراض اٹھارہی ہے‘ لیکن صوبہ بنانے کی قانونی شقوں کو پورا کرنے کیلئے دوتہائی اکثریت سے قومی اسمبلی اور سینٹ کے بعد پنجاب اسمبلی سے پاس کرانے سے گریزاں ہے لیکن ان کی سیاست برائے سیاست کے اس عمل سے اس خطے کے عوام مسلسل پستے جارہے ہیں۔ صوبے کانام سرائیکستان ہو‘ وسیب صوبہ ہو یا جنوبی پنجاب اس پر کسی کو کوئی اختلاف نہیں، یہ لسانی مسئلہ نہیں ہے اگر سندھیوں کا سندھ‘ بلوچیوں کابلوچستان‘ پختونوں کاخیبرپختونخواہ‘ پنجابیوں کاپنجاب صوبہ ہوسکتا ہے تو پھر سرائیکی اکثریت آبادی کے خطے کانام سرائیکستان ہونے سے کون سی حب الوطنی کوخطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔ اس خطے میں سرائیکی‘ پنجابی کا کوئی مسئلہ تھا‘ہے اور نہ ہوگااگر مسئلہ ہے تو حقوق کا ہے۔ موجودہ وزیراعظم عمران خان نے سیکرٹریٹ بناکر بارش کا پہلا قطرہ برسادیا ہے لیکن یہ اتنی بارش نہیں کہ یہاں کھیت وکھلیان سیراب ہوسکیں۔اس خطے کیلئے صوبہ مسائل کے حل کی واحد امید ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں کب اورکیسے اس خطے کو احساس محرومی سے نکالنے کیلئے اپنا کردار ادا کرسکیں گی۔ بہرحال یہ طے ہے کہ اس خطے کے عوام اپنے اس اہم ترین مطالبے سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے اور پنجاب کو بھی بڑے بھائی کاحق ادا کرتے ہوئے چھوٹے کو ان کاحق دینا چاہیے‘ یہی قرین انصاف ہے۔ اعداد وشمار کے مطابق جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ بننے کے بعداب اس خطے پرخرچ کیے جانے والے بجٹ کا مکمل حساب کتاب رکھا جائے گا۔گزشتہ سالوں میں جنوبی پنجاب کے اربوں روپے کا فنڈ مکمل طور پر خرچ نہ ہوسکا اورترقیاتی سکیموں کے فنڈز کی تقسیم میں مسلسل ناانصافی ہوتی رہی ہے۔ سابق حکومتیں جنوبی پنجاب کیلئے 635ملین بجٹ جاری کرنے کا نعرہ لگاتی رہیں جبکہ ہماری آبادی 33 فیصد ہے۔اس کی ایلوکیشن نکالی جائے تو یہ بجٹ جنوبی پنجاب کی آبادی کے حساب سے 28% تھا جبکہ فنڈز ترقیاتی کاموں پر 17%خرچ کیا جاتا رہا۔ اسی طرح سابق 7 سالوں میں جنوبی پنجاب کے عوام پر صرف265 ملین روپے ہی خرچ ہوئے۔ جنوبی پنجاب کا مختص کیا جانے والا بجٹ جنوبی پنجاب کی تینوں ڈویژن میں خرچ ہوسکے گا۔
سب سے اہم مسئلہ صحت اورتعلیم کا ہے‘جس میں صحت کے لحاظ سے ہیلتھ انشورنس کاپیکیج لایاگیاہے جس میں جنوبی پنجاب کے ہر شہری کی بلاتفریق انشورنس اور انہیں صحت کارڈ جاری کیا جائے گا‘جس کے ذریعے سرکاری اورنجی ہسپتالوں میں علاج ممکن ہوسکے گا۔رواں سال ہیلتھ انشورنس پر کام شروع ہوچکا ہے۔ ابتدائی طورپر دو ڈویژن ساہیوال اور ڈیرہ غازیخان میں ہیلتھ انشورنس کارڈ کااجراء کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح دوسری اہم ضرورت تعلیم ہے جس میں پنجاب کے 55ہزارسکول اَپ گریڈ کئے جائیں گے۔22ارب روپے کی لاگت سے رواں سال17ہزار پرائمری سکولوں کی اَپ گریڈیشن ہوگی۔جنوبی پنجاب میں گورنمنٹ نمائندگی ڈیمانڈ کے مطابق ہوسکے، ایڈمنسٹریشن میں جنوبی پنجاب کی آبادی کے لحاظ سے33فیصدکوٹہ پبلک سروس کمیشن کے تحت مقرر کیا گیا ہے کیونکہ پنجاب میں 2لاکھ سے زائد سرکاری سیٹیں خالی پڑی ہیں۔ اسی طرح ایڈمنسٹریشن سیٹ اَپ میں محکمہ مال کو اَپ گریڈ کیا جا رہا ہے۔جنوبی پنجاب کے سیکرٹریٹ ملتان اور بہاول پور میں مقررکئے جارہے ہیں جن کیلئے سرکاری زمین مختص کرلی ہے۔ جس سے جنوبی پنجاب ایڈمنسٹریشن سیٹ اَپ میں پبلک سروس کمیشن کی نمائندگی بھی جنوبی پنجاب سے ہی منتخب کی جائے گی۔
(کالم نگارسینئر صحافی ہیں)
٭……٭……٭

اسلحہ کی طاقت اور طالبان

خدا یار خان چنڑ
تاریخ اسلام کا مطالعہ کریں تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ مسلمانوں نے میدان جنگ میں ہمیشہ عددی اکثریت کے بجائے اپنی قوتِ ایمانی پر بھروسہ کیا اور نصرتِ الٰہی سے دشمن کو شکست دی۔نبی کریم ؐکا سنہری دور ہو یا خلفائے راشدین کی فتوحات کا تذکرہ، ہمیں جابجا قوت ایمانی اور نصرتِ الٰہی کے مظاہر دیکھنے کو ملتے ہیں۔اسلام پر ایک زمانہ ایسا بھی تھا کہ اس کے نام لیواؤں پر مکہ کی زمین تنگ کر دی گئی تو آپ نے مسلمانوں کو مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کا حکم دیا، پھر چشم فلک نے وہ نظارہ بھی دیکھا کہ مسلمان مکہ میں فاتح کی حیثیت میں داخل ہوئے۔ اس موقع پر نبی کریمؐ نے کسی سے بدلہ لینے کے بجائے عام معافی کا اعلان فرما دیااور انتہائی عاجزی وانکساری سے مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے۔ اسلامی تاریخ میں بے شمار ایسے واقعات ملتے ہیں جب مسلمانوں نے قلیل تعداد میں ہوتے ہوئے بھی اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کے دانت کھٹے کر دیے۔ حالیہ تاریخ کی تازہ مثال طالبان کی کابل پر فتح ہے۔بے سروسامانی کے عالم میں طالبان نے دنیاکی سپرپاور امریکہ اور اس کے پچاس کے قریب اتحادی ممالک کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا اور دنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجی اور اسلحہ سے لیس طاقتوں کو اپنی قوت ایمانی سے شکست فاش دی۔طالبان نے کابل میں داخل ہوتے ہوئے عام معافی کا بھی اعلان کیا۔ طالبان کی اس فتح نے جہاں قرون اولیٰ کی یاد تازہ کردی وہاں مسلمانوں کو یہ پیغام بھی دیا کہ:
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے تقریبا ًایک سو برس قبل کہا تھا:
افغان باقی، کہسار باقی
الحکم للہ! الملک للہ
یہ وہ دور تھا جب کابل برطانیہ کے اثر سے نکل چکا تھا اور دنیا کی اس وقت کی سپر پاور پہاڑوں سے سر ٹکرانے کے بعد شکست خوردگی کے عالم میں یہ خطہ چھوڑ کر جا چکی تھی۔ افغانیوں کی یہ تاریخ رہی ہے کہ انہوں نے کبھی غیر ملکی تسلط قبول نہیں کیا۔یہی وجہ ہے کہ ایرانی ہوں یا یونانی، عرب ہوں یا ترک، انگریز ہوں یا منگول اور حالیہ تاریخ میں روس ہو یا امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک، انہوں نے ہر ایک کیخلاف مزاحمت کی وہ لازوال مثالیں قائم کی ہیں کہ وہ یہاں سے نامراد ہی لوٹے ہیں۔ برطانوی تسلط کے دور میں بھی افغانستان کے بیشتر علاقے درحقیقت آزاد ہی تھے اور برطانیہ کبھی اس پر مکمل قبضہ نہیں رکھ سکا۔ میں اپنے قارئین کو تاریخ کی بھول بھلیوں میں الجھانے کے بجائے انہیں حالیہ تاریخ کی ہی دو مثالیں دینا چاہوں گا۔ 1979میں جب اس وقت کی ایک سپرپاور سوویت یونین (روس)نے گرم پانیوں تک رسائی کیلئے افغانستان پر چڑھائی کی تو اس کا خیال تھا کہ وہ ان کو چند گھنٹوں میں مسلتا ہوا اپنے اہداف تک پہنچ جائے گا لیکن اسے کیا معلوم تھا کہ ان خرقہ پوشوں نے لوہے کی زرہیں پہن رکھی ہیں اور ان سے الجھ کر وہ اپنا دامن ہی خون آلود کر لے گا۔ سوویت یونین دس برس تک افغانستان میں برسرپیکار رہا لیکن اسے اپنی تمام تر قوت اور بھاری اسلحہ کے باوجود 1989 میں ناکام و نامراد اس خطہ سے نکلنا پڑا۔ روس کی فوج کا جنرل بورس گروموف وہ آخری اعلیٰ افسر تھا جس نے افغانستان سے نکلتے ہوئے اس ملک سے آخری قدم نکالا تھا۔ میڈیا کے ذریعے قوم کے دل و دماغ پر سوار نام نہاد دانشور یہ تو کہتے ہیں کہ افغانستان میں روس کو شکست دینے میں اصل کردار امریکہ کا تھا لیکن کبھی یہ نہیں بتا پاتے کہ اس جنگ میں کتنے امریکی روس کے خلاف لڑتے ہوئے مارے گئے؟ وہ اصل بات اس لئے نہیں بتاتے کہ اس سے ان کے جھوٹ کا پول خودبخود کھل جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب امریکہ نے دیکھ لیا کہ افغان اڑھائی تین سال بعد بھی تن تنہا روس کے خلاف سینہ سپر ہیں اور روس کو روک کر شکست دینے کی اہلیت رکھتے ہیں تو وہ ویتنام میں اپنے خلاف روس کی خفیہ جنگ کا بدلہ لینے کیلئے اپنا اسلحہ لے کر یہاں پہنچ گیا۔ روس کی عبرتناک شکست کا نتیجہ اس کی شکست و ریخت کی شکل میں نکلا تو روس کے شکنجے میں جکڑے وسط ایشیا اور قفقاز کے 6 ممالک آزاد ہوئے اور کمیونزم کا سورج غروب ہوا۔ افغان جہاد کو امریکی جنگ اور امریکی قوت کا نتیجہ قرار دینے والوں کے منہ پر تاریخ نے ایسا تھپڑ رسید کیا کہ آج وہی امریکہ اپنے 48اتحادیوں سمیت شکست کھا کر افغانستان سے نکل چکا ہے لیکن آج کوئی یہ بتانے بلکہ اس کا تذکرہ تک کرنے کو تیار نہیں کہ امریکہ اور اس کے دنیا بھر کے اتحادیوں کو شکست دینے میں آخر طالبان اور افغان مجاہدین کی کس نے مدد کی اور کس نے ان کا ساتھ دیا؟ اس بارپیسہ اور اسلحہ کہاں سے آئے؟ کس نے دیئے؟ عقل والوں کیلئے یہ بہت بڑی نشانی ہے لیکن اگر وہ سمجھنے کیلئے کچھ تیار ہوں تو۔
سوویت یونین کی شکست کے بعد افغانستان میں قبائل کے درمیان لڑائیاں چھڑ گئیں اور دس سالہ طویل جنگ کے بعد بھی وہاں امن وامان کی صورتحال ابتر رہی۔ کون کس کے خلاف برسر پیکار رہا یہ ایک طویل بحث ہے لیکن قصہ مختصر کہ 1994میں تحریک طالبان کے نام سے ایک گروہ سامنے آیا جس نے 1996میں افغانستان کے 95فیصد حصہ پر اپنی حکمرانی قائم کر لی۔طالبان کے دور حکومت میں امن وامان کی صورتحال کافی بہتر ہوئی، انہوں نے شرعی قوانین نافذ کر دیے۔روس کے بعد اب امریکہ اپنے آپ کو دنیا کی واحد سپر پاور سمجھتا تھا اور اسے افغانستان میں ایک اسلامی حکومت کسی طور قبول نہ تھی اور وہ اس کے خلاف پراپیگنڈہ کرتا رہتا ہے۔ طالبان کے دورِ اقتدار کو چند برس ہی گزرے تھے کہ امریکہ میں نائن الیون کا واقعہ رونما ہو گیا۔ امریکہ نے اس حملے کا الزام القاعدہ پر عائد کر دیا۔ القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن ان دنوں افغانستان میں قیام پذیر تھے۔ امریکہ نے طالبان حکومت سے اسامہ بن لادن کی حوالگی کا مطالبہ کیا۔ طالبان حکومت نے امریکہ سے اسامہ بن لادن کے خلاف ثبوت مانگے لیکن بجائے کوئی ثبوت دینے کے وہ اپنی ضد پر قائم رہا۔ طالبان نے بغیر کسی ثبوت کے اپنے مہمان کو امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا تو امریکہ نے اپنے اسلحہ کی طاقت کے بل پر افغانستان پر حملہ کر دیااور طالبان حکومت کا خاتمہ کر کے وہاں حامد کرزئی کی صورت میں ایک کٹھ پتلی حکومت قائم کر دی۔ طالبان نے شکست تسلیم کرنے کے بجائے مسلح جدوجہد کا آغاز کیا اور اب صورتحال یہ ہے کہ امریکہ اربوں ڈالر خرچ کر کے بھی اس خطہ سے نامراد لوٹ چکا ہے اور کابل پر طالبان قابض ہو چکے ہیں۔
اگرچہ افغانستان کے پاس تیل یا دوسرے وسائل کی کمی ہے مگر اس کی جغرافیائی حیثیت ایسی ہے کہ وہ وسطی ایشیاء، جنوبی ایشیااور مشرقِ وسطیٰ کے درمیان میں واقع ہے۔اس پورے خطہ میں اپنا دباؤبرقرار رکھنے کیلئے یہ علاقہ نہایت اہمیت کا حامل ہے اور یہی وجہ ہے کہ استعماری طاقتوں نے ہمیشہ اس پر اپنا قبضہ یا اثر رکھنے کی کوشش کی جس کا نتیجہ یہ کہ اس ملک کو کبھی بھی لمبے عرصے کیلئے امن نصیب نہیں ہو سکا۔ افغانستان کی جغرافیائی سرحد 5529 کلومیٹر لمبی ہے جس میں سب سے زیادہ علاقہ 2640 کلومیٹرپاکستان کے ساتھ لگتا ہے۔ افغانستان کے حالات کا پاکستان پر براہ راست اثرپڑتا ہے۔
افغانستان، پاکستان کا برادر ہمسایہ اسلامی ملک ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس خطہ میں جس تیزی کے ساتھ تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اس نئی صف بندی میں پاکستان اپنے پتے کس طرح کھیلتا ہے؟ قوموں کی زندگی میں صحیح وقت پر کیے گئے صحیح فیصلوں کا بڑامثبت اثر پڑتا ہے لہٰذا ہمیں اپنی خارجہ پالیسی طویل المدت ملکی مفادات کو مدنظر رکھ کر ہی تشکیل دینا ہو گی۔
(کالم نگارسیاسی وسماجی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

خواتین کیساتھ پیش آنیوالے افسوسناک واقعات

نگہت لغاری
بدلتے وقت کے ساتھ محاوروں کی ہئیت ترکیبی بھی بدلتی جا رہی ہے۔ ایک محاورہ ہے ”لذتِ کام و دہن“ آج کل اِس محاورے کی ہئیت ترکیبی کچھ یوں مرتب کر لی گئی ہے۔ یعنی ”لذتِ سماعت و بصارت“ اَور اِس لذت کا سارا سامان ایک بڑی (ڈش) ٹی وی سکرین پر سجا دیا گیا ہے۔ اگر ڈِش کا حلوہ جلا بُھنا بھی ہو تو اُس کے اُوپر سجے سونے چاندی کے ورق اُسے کھا جانے کی ایسی ترغیب مہیا کرتے ہیں کہ ناظرین جوشِ شوق میں ساری ڈش ہی اپنے سامنے کھینچ لیتے ہیں اَور اُس وقت تک نہیں چھوڑتے (یعنی ٹی وی سے اپنی نظریں نہیں ہٹاتے) جب تک ڈش کو چاٹ نہ لیں۔ پھر ڈکار مارتے ہوئے گھر سے باہر نکلتے ہیں اَور ڈش کی عطا کی ہوئی طاقت کو باہر نکلتے ہی سامنے آئی کسی خاتون یا معصوم بچے، بچی پرصرف کر دیتے ہیں۔ ترغیب کے کئی طریقے ہیں اگر ترغیب طاقتور نہ ہوتی تو تاجر اپنی اشیاء کی فروخت کے لئے لاکھوں روپے خرچ نہ کرتے اور ماڈلز اپنا سب کچھ داؤ پر لگا کر اِن اشتہاروں کا حصہ نہ بنتیں۔
ملک کی موجودہ صورتحال کے بیان میں جس طرح منفی طور پر مبالغہ آرائی کی جاتی ہے اور عوام کے حوصلے پست کئے جاتے ہیں یہ باقاعدہ ایک جاندار جرم ہے کیا مبالغہ آرائی کرنے والے صحافی پچھلے (ملکی) کرایہ داروں کے جرائم سے آشنا اَور آگاہ نہیں ہیں گھر کے جو دروازے کھڑکیاں اَور فرش کی اینٹیں تک اُکھاڑ کر لے گئے ہیں اَور اُلٹا ایک انتہائی ایماندار اَور باوفا خاتون پر اینٹیں سمگل کرنے کا الزام اِس لئے لگا دیا کہ وہ ایک ایسے سیاستدان کی بیوی تھی جو آنے والے وقت میں اِن لوگوں کو حکومت سے ہٹا سکنے کی پوزیشن میں آ رہا تھا۔ آج کل خان صاحب عوام سے براہ راست گفتگو فون پر کر رہے ہیں ہر کالر Caller اپنے اپنے مسائل بیان کرتا ہے کبھی کسی Caller نے وزیراعظم بے چارے سے یہ پوچھا ہے کہ سَر آپ کو ملک میں کیا کیا مسائل درپیش اَور ہم اِس سلسلے میں آپ کی کیا مدد کر سکتے ہیں۔ شاید عمران خان صاحب کا ایک ہی جواب ہو گا آپ کا بہت بہت شکریہ۔بس میرے مسئلے کا حل صرف آپ کا حوصلہ اَور استقامت ہے۔
بہرحال بات شروع کرتے ہیں نور مقدم سے۔ سب سے پہلے تو یہ تجویز عدالت اور حکومت کے سامنے رکھ رہی ہوں کہ ظاہر جعفر جیسے قاتلوں کو عدالت کے الجھاوے میں ڈالنا ہی نہیں چاہئے ایک قاتل کا قتل اپنی مکمل تفصیل اور شواہد کے ساتھ ثابت ہو چکا ہے اس کیس میں تو ایک دن کی بھی تاخیر یا کارروائی نہیں ہونی چاہئے ایسے بدمعاش اور سفاک قاتل کی پھانسی مقدم ہونی چاہئے۔ اَور بس……اَب آتے ہیں اُس قتل کی داستان کی طرف بات صرف اتنی سی ہے کہ نُور مقدم اَور ظاہر جعفر دونوں اعلیٰ خاندانوں کی آنکھوں کے نور اَور چراغ تھے دونوں میں دوستی تھی اَور وہ یورپی معاشرے کی طرز پر Living Relation Ship میں تھے دوچار مہینوں سے دونوں کے آپس کے تعلقات کشیدہ تھے۔ ظاہر نے باطن میں ایک سازش سوچی اَور نور مقدم کو یہ کہہ کر اپنے گھر بلوا لیا کہ وہ اِس کی جدائی کے غم میں ملک سے باہر جا رہا ہے اَور وہ اِسی رات جانے سے پہلے اُسے ملنا چاہتا ہے۔ نور بی بی فوراً اُس کے پاس پہنچی دونوں نے فائیو سٹار ہوٹل سے کھانا منگوا کر نوش کیا اَور پھر گپ شپ کے دوران کوئی تلخی ہوئی اور ظاہر نے اپنے آپ کو مصر کا بااختیار ظاہر شاہ سمجھتے ہوئے نورکا سَر تن سے اس طرح جدا کر دیا جس طرح اپنے سامنے پڑی پلیٹ میں پڑے سٹیک مِیٹ کو چُھری سے کاٹ کاٹ کر کھا رہا تھا ایسے دل لگی کے معمولات تو امیر لوگوں کے گھروں میں آئے دن ہوتے رہتے ہیں۔ کبھی کوئی ملازمہ کٹ گئی کبھی کوئی گرل فرینڈ‘ پھر والدین اپنے معصوم بچوں کی اِن معصوم حرکتوں کو دولت کے انبار میں زندہ دفن کر دیتے ہیں۔
اَب قارئین! ذرا سانس لیں میں نے ماضی میں مختاراں کیس کے حوالے سے ایک کالم لکھا تھا کہ آج کل امریکہ انسانی حقوق کی حفاظت کے لئے افغانستان اور عراق پر کارپٹ بمباری کر رہا ہے لہٰذاپاکستان کو الرٹ رہنا چاہئے کیونکہ وہ مختاراں مائی کی خاطر کِسی بھی وقت پاکستان پر حملہ کر سکتا ہے کیونکہ یہ معاملہ انسانی حقوق کے زُمرے میں آتا ہے۔ اَب آتے ہیں موٹر وے حادثے کی طرف۔ ایک اکیلی خاتون آدھی رات کو اپنی گاڑی کا دانا پانی چیک کئے بغیر اپنے سوئے ہوئے تین بچوں کو گاڑی میں ڈال کر کِسی رشتہ دار کو ملنے موٹر وے پر آ نکلی۔ جب گاڑی بھوک سے نڈھال ہو کر رُک گئی تو اُس نے پولیس کو فون کیا کہ میں فلاں جگہ اِس صورتحال میں ہوں اکیلی ہوں میرے ساتھ کوئی مرد نہیں وغیرہ وغیرہ۔ مَرد پولیس اہلکار فوراً اُس خاتون کے پاس حاضر ہوئے۔ ظاہر ہے پولیس کا کام ہی مدد کرنا ہے وہ فوراً اپنی مردانہ مدد دینے کے لئے خاتون کے پاس آناً فاناً پہنچ گئے اَور پھر کہانی کا اگلا حصہ یہ ہے کہ پھر میڈیا نے پورے ملک کے ناظرین کو موٹر وے پر دھکیل دیا۔ جُزئیات نگاری کی ایسی ایسی تفصیلات سامنے آئیں کہ اصل مقدمہ داخل دفتر ہو گیا اور میڈیا پر ہُن برس گیا۔
(کالم نگارانگریزی اوراردواخبارات میں لکھتی ہیں)
٭……٭……٭

این سی او سی کا سکھ یاتریوں کیلئے کرتار پور دربار کھولنے کا فیصلہ

نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی و سی) نے سکھ یاتریوں کو بابا گرو نانک دیو جی کی آئندہ ماہ ہونے والی برسی کے موقع پر مذہبی تقریبات میںشرکت کے لیے گوردوارا دربار صاحب کرتار پور آنے کی اجازت دے دی۔

رپورٹ کے مطابق این سی او سی کے اجلاس میں متفقہ طور پر کووِڈ 19 کے سخت پروٹوکولز کے تحت سکھ یاتریوں کو آئندہ ماہ کرتار پور کا دورہ کرنے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا گیا۔

یہاں یہ بات مدِ نظر رہے کہ ڈیلٹا ویریئنٹ کی وجہسے انڈیا 22 مئی سے 12 اگست تک ’سی‘ کیٹیگری میں تھا اور وہاں سے آنے والے افراد بشمول سکھ یاتریوں کو خصوصی اجازت کی ضرورت تھی۔

تاہم اب مکمل ویکسینیٹڈ افراد کو سرٹیفکیٹ کے ہمراہ پاکستان میں داخلے کی اجازت ہوگی جس کے لیے انہیں 72 گھنٹوں سے کم وقت میں کروائے گئے پولیمرس چین ری ایکشن (آرٹی-پی سی آر) ٹیسٹ کی رپورٹ دکھانی ہوگی۔

اس کے علاوہ ایئرپورٹس پر ریپڈ اینٹی ایجن ٹیسٹ بھی کیا جائے گا جس کا نتیجہ مثبت آنے کی صورت میں مذکورہ فرد کو پاکستان میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا۔

دوسری جانب این پی آئیز کے مطابق دربار میں ایک وقت میں زیادہ سے زیادہ 300 افراد کو داخل ہونے کی اجازت ہوگی۔

وزارت صحت کے عہدیدار کے مطابق پاکستان نے کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے 3 کیٹیگریز متعارف کروائی تھیں۔

کیٹیگری اے میں شامل ممالک سے آنے والے افراد کے لیے لازمی کووِڈ ٹیسٹ سے استثنیٰ حاصل تھا جبکہ کیٹیگری بی کے ممالک سے مسافروں کو 72 گھنٹوں کے اندر کروائے گئے پی سی آر ٹیسٹ کامنفی نتیجہ دکھانا ضروری تھا جبکہ کیٹیگری سی سے لوگوں کی آمد پر پابندی تھی اور وہ صرف این سی او سی کی خصوصی ہدایات کے تحت ہی سفر کرسکتے تھے۔

دوسری جانب ملک میں مزید 3 ہزار 842 کورونا کیسز رپورٹ ہوئے اور 75 مریض انتقال کر گئے جس کے بعد فعال کیسز کی تعداد 89 ہزار 334 ہوگئی۔

دریں اثنا چینی ویکسین کی مزید 20 لاکھ خوراکیں ہفتے کے روز چین سے پاکستان پہنچیں۔

وزارت صحت کے عہدیدار کے مطابق ویکسین کی یہ کھیپ حکومت نے خریدی تھی جو چین سے ہفتے کے روز اسلام آباد پہنچی۔

جنگلات کی حفاظت کرنیوالے ہمارے ہیرو ہیں: عمران خان

اسلام آباد: (نامہ نگار خصوصی) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ سرسبز پاکستان کے جنگلات کے محافظ ہمارے ہیرو ہیں۔

انہوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بیان میں کہا کہ 19 اگست کو چترال فاریسٹ میں محکمہ جنگلات میں لگی آگ بجھانے کے دوران گہری کھائی میں گر کر جاں بحق ہونے والے جمشید اقبال کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان کا ٹویٹ سامنے آیا ہے۔

جس میں اُن کا کہنا ہے کہ جمشید اقبال ہمارے ہیرو ہیں، شہید جمشید اقبال چترال میں محکمہ جنگلات میں تعینات تھے۔

افغان حکومت کے پاس لڑنے کی ہمت نہیں تھی تو کیا اسکا ذمہ دار پاکستان ہے، شاہ محمود قریشی

اسلام آباد: ( مانیٹرنگ ڈیسک) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ  افغان فوج کے پاس لڑنے کی ہمت نہیں تو کیا پاکستان ذمہ دار ہے ؟ بہت برداشت کرلیا، الزامات بند ہونے چاہئیں۔

اپنی اندرونی ناکامیوں کی ذمہ داری پاکستان پر ہرگز نہ ڈالی جائے ۔

شاہ محمود قریشی نے انٹرویو میں کہا افغانستان کی صورتحال تیزی سے بدل رہی ہے ،پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی بھاری قیمت ادا کی ، ہماری 80 ہزار شہادتیں ہوئیں ، ہمیں 150 ارب ڈالر سے زائد کا مالی نقصان اٹھانا پڑا،ہم نے 20 لاکھ کے قریب آئی ڈی پیز کو سنبھالا ،دنیا شاید بھول گئی کہ ہم 30 لاکھ سے زیادہ افغان مہاجرین کی میزبانی کرتے آ رہے ہیں جبکہ نائن الیون کا ذمہ دار بھی پاکستان نہیں